حضرت عمر بن عبد العزیز صفر 99ھ
میں تخت نشین ہوئے تھے آپ موصوف مشہور اموی فرمانروا مروان بن کلم کے پوتے
تھے۔ والد ماجد کا نام عبد العزیز تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ امِ عاصمہ حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کی پوتی تھیں۔ اس لئے آپ کی رگوں میں بھی فاروقی خون
دوڑتاتھا۔ اکیس سال تک عمر بن عبد العزیز مصر کے گورنر تھے اس لئے عمر بن
عبد العزیز کی پرورش عیش و ثروت میں ہوئی تھی۔حضرت کی تربیت مشہور محدث
صالح بن کیسان کی نگرانی میں ہوئی۔ اس لئے تعلیم و تربیت نے آپ کی شخصیت کو
اور بھی اجاگر کر دیا تھا۔ آپ ہر لحاظ سے اپنے خاندان سے الگ اورعلمی لحاظ
سے بھی آپ اپنے زمانے کے امام کہلاتے تھے۔ علمی لحاظ سے آپ نے بہت سے
کارہائے نمایاںسر انجام دیئے۔حضرت عمر بن عبد العزیز، عبد الملک کے بھتیجے
اور داماد بھی تھے، اس لئے آپ مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے۔ ولید نے جب آپ
کو مدینہ کی گورنری دینی چاہی توآپ نے اس شرط پر گورنری لی کہ میں دوسروںکی
طرح ظلم نہ کروں گاجو کہ ولید نے منظور کر لیا۔(سیرت عمر بن عبد العزیز ابن
جوزی، صفحہ32)مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد وہاں اکابروں کو بلایا اور کہا کہ
میں نے آپ کو ایسے کام کے لئے زحمت دی ہے کہ اگر آپ میرا ہاتھ بٹائیںتوآپ
کو ثواب ملے گا، آپ سب لوگ حق کے حامی قرار پائیں گے، میں آپ لوگوں کی رائے
اور مشورہ کے بغیر کسی کام کوسر انجام نہیں دوں گا جب آپ کسی کو ظلم کرتے
دیکھیں یا آپ کو کسی ظلم و زیادتی کی خبر ملے تو آپ مجھے ضرور اس کی
خبردیجئے۔ (ابن سعد، جلد5، صفحہ 245)
اس اصلاح کے ساتھ آپ نے حکومت کا آغاز کیا، آپ نے بہت سے مفید کام سر انجام
دیئے ان کاموں میں سب سے بڑا کارنامہ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی
تعمیرہے۔جب آپ مدینہ منورہ میں گورنری کے لئے پہنچے توآپ کا ذاتی سامان تیس
اونٹوں پر سوارتھا۔ (یعقوبی ،جلد2، صفحہ339)آپ کوخوش لباسی اور خوشبویات کا
بڑا شوق تھا، آپ اپنے دور کے سب سے خوش لباس شخصیت مانے جاتے تھے۔ خلافت کی
ذمہ داریاں سنبھالتے ہی اپنی زندگی بالکل بدل ڈالی۔آپ نے حضرت ابو ذر غفاری
رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کا قالب اختیار کر لیا
تھا۔جب پہلی دفعہ آپ کے سامنے شاہی سواری لائی گئی تو آپ نے فرمایاکہ میرے
لئے میرا خچر ہی کافی ہے۔ گھر آنے پر آپ کی لونڈی نے پوچھا کہ خیرتو ہے،آپ
اتنے متفکر کیوں ہیں؟آپ نے فرمایا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا تشویش کی بات
ہوگی کہ مشرق و مغرب میں امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ایسا افرد
نہیں ہے جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبہ اور اطلاع کے اس کا ادا
کرنا مجھ پر فرض نہ ہو۔ (سیرة عمر بن العزیز، صفحہ52)
اموی خلفاءنے بیت المال کو ذاتی خزانہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا
تھا اور خزانہ کی آمدنی کو ذاتی مصارف کے لئے خرچ کرتے تھے۔ہرجائز و
ناجائزطریقہ آمدنی سے خزانہ بھرا جاتاتھا۔ اور بدعنوانی کے ساتھ َصرف
کیاجاتاتھا۔ آپ نے اسکی اصلاح کی اور تمام ناجائز مصارف بند کر وا دیئے ۔
اپنے گھر کا ایک نگینہ تک آپ نے بیت المال میں جمع کرا دیا تھا ۔ خاندان کے
تمام وظائف بند کر دیئے تھے۔ تخت نشینی کے بعد جب شاہی اصطبل کے داروغہ نے
سواریوں کے اخراجات مانگے تو آپ نے حکم دیاکہ تمام سواریوں کو بیچ کر ان کی
قیمت بیت المال میں جمع کرا دی جائے ،میرے لئے میرا خچر کافی ہے۔(تاریخ
خلفاء، صفحہ231)خود اپنا ذاتی سامان عمارت ‘ لونڈی‘ غلام‘ لباس‘ عطریات‘
بیچ کر اس کی قیمت بھی بیت المال میں جمع کرا دی۔ (تہذیب الاسمائ، جلد1،
صفحہ21) زمینوں کا معائنہ کرو، بنجر زمین کا بار آباد زمین پر اور آباد
زمین کا بار بنجر زمین پر مت ڈالو، اگر بنجر زمینوں میں کچھ صلاحیت ہو تو
بقدرِ گنجائش خراج لو اوراگر ا ن میں پیداوار نہیں ہوتی توان کا خراج نہ لو
۔ خراج میں صرف وزن سبعہ لو، نکسال والوں ‘چاندی‘پگھلا نے والوں سے نوہدیئے
، جبکہ عرائض نویسی شادی ‘گھروں کا اور نکاح کا ٹیکس نہ لیا جائے جو ذی
مسلمان ہو جائے اس پر ٹیکس نہیں ہے۔(کتاب الخراج، صفحہ 49)آپ نے بیت المال
کی حفاظت کا نہایت سخت انتظام کیاتھا، آپ کارندوں کی ذرا بھی بے احتیاطی پر
سخت باز پرس کرتے تھے۔ ایک مرتبہ یمن کے بیت المال سے ایک اشرفی گم ہو گئی
توآپ نے وہاں کے خزانہ کے افسرکو لکھاکہ میں تمہاری امانت پر بدگمانی نہیں
کرتا لیکن تم کو لاپرواہی کا مجرم ضرورقرار دیتا ہوں اورمیں مسلمانوں کی
طرف سے ان کے مال کا مدعی ہوں۔ اب تم پر فرض ہے کہ اپنی صفائی میں شرعی قسم
اُٹھاﺅ۔آپ نے یزید بن ابی مہلب بن ابی صضرہ والی ¿ خراسان کو خیانت کے جرم
میں موقوف کر دیا، ملک بھرمیں جتنے معذوراور مجبور افرادتھے ان کے ناموں کو
رجسٹرڈ کرکے سب کے لئے وظیفہ مقرر کرایا۔شیر خوار بچوں کے بھی وظائف مقرر
کروائے، لنگر خانے قائم کئے جس سے تمام فقراءو مسکینوں کو کھانا کھلایا
جاتا تھا۔ (شرح زرقانی و موطا، جلد4، صفحہ240)
حضرت عمر بن عبد العزیز کے زمانے میں رعایا بڑی آسودہ تھی، مہاجرین یزید کا
بیان ہے کہ ہم لوگ صدقہ مقرر کرنے پرفائز تھے۔ ایک ہی سال میں یہ حال
ہوگیاکہ ایک سال پہلے جو لوگ صدقہ لیتے تھے وہ دوسرے سال دوسروں کو صدقہ
دینے لگے،(سیرت عمر بن عبد العزیز، صفحہ 85)حضرت عمر بن عبد العزیز نے صرف
دھائی سال حکومت کی اس مختصر مدت میں آپ نے اپنی رعایا کو اس مقام پر پہنچا
دیاکہ لوگ صدقے کا مال تقسیم کرنے جاتے مگر لینے والا کوئی نہ ملتا تھا پھر
لوگ مجبور ہو کر صدقہ واپس لے جاتے تھے۔حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنی
رعایاکو اس قدر آسودہ حال کر دیا تھا کہ کوئی شخص حاجت مند باقی نہ
رہا۔(نفح الباری، جلد6، صفحہ452)
موصل میں چوری اور نقب زنی عام ہوگئی تھیں۔ اُس وقت وہاں کے والی عسرانی نے
آپ کو خط لکھاکہ جب تک لوگوں کو شہر میں پکڑا نہ جائے گا اور سزا نہ دی
جائے گی تو اس وقت تک یہ وارداتیں بند نہیں ہونگی۔ آپ نے لکھا صرف شرعی
ثبوت پر مواخذہ کرو، اگر حق ان کی اصلاح نہیں کر سکتاتو اللہ ان کی اصلاح
نہ کرے۔ اسی طرح جراح بن عبد اللہ بن مکی والی خراسان نے لکھا کہ اہلِ
خراسان کی روش بہت خراب ہے۔ان کو تلوار اور کوڑے کے سوا کوئی اور چیز درست
نہیں کر سکتی، اگر امیر المومنین مناسب سمجھیں تو اس کی اجازت مرحمت
فرمادیں آپ نے جو اب میں لکھا کہ تمہارا یہ کہنا کہ اہل خراسان کو کوڑے اور
تلواروں کے سوا کوئی اور شے درست نہیں کر سکتی، بالکل غلط ہے اس کو عدل اور
حق درست کر سکتا ہے۔ اسی کو جہاں تک ہو سکے عام کیا جائے۔(تاریخ خلفاء،
صفحہ243)ظلم کا ایک طریقہ یہ بھی تھاکہ چیزوں کا نرخ گھٹا کر کم قیمت پر
خریدلیاکرتے تھے، حضرت عمر بن عبد العزیز نے قانون بنا دیا کہ کوئی عامل
کسی رعایا کا مال کم قیمت پر نہیںخرید سکتا۔آپ مقدمات میں ذمیوں اور شاہی
خاندان میں کوئی فرق نہیں رکھتے تھے۔ دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا کرتے
تھے ایک مرتبہ ہشام بن عبد الملک نے ایک عیسائی پر مقدمہ دائر کیا۔ عمر بن
عبد العزیزنے دونوں کو برابر کھڑاکیا، ہشام کو یہ بہت ناگوارگزرا اس نے
تمکنت میں آکر عیسائی کے ساتھ سخت کلامی کی۔ عمر بن عبد العزیز نے اس کو
ڈانٹا اور سزا دینے کی دھمکی دی۔آپ کے دور میں بیت المال میں اس قدر اضافہ
ہوا کہ بغیر ظلم و زیادتی کے بارہ کروڑ چالیس لاکھ کی آمدنی ہوگئی۔ آپ نے
اس سے بہت سے رفاعی کام سرانجام دیئے اور احیائے شریعت اور مذہبی خدمات بھی
کیں اور ان میں اصلاحات کیں۔شراب عام تھی جس کے انسداد کے لئے آپ نے پورا
انتظام کیا اور تمام ممالک کے نام پر فرمان جاری کیاکہ کوئی ذمی مسلمانوں
کے شہروں میں شراب نہ لانے پائے اور شراب کی دکانوں کو ایک حکم کے ذریعے
بند کر دیاگیا۔(طبقات ،جلد5، صفحہ 269)
حضرت عمر بن عبد العزیز نے شریعت کے ساتھ مسلمانوں کی اخلاقی نگہداشت بھی
فرمائی۔ آپ نے اشاعت اسلام کو اپنامقصد قرار دیا اور اپنی ساری توجہ اس کی
تبلیغ میں صرف کر دی، اور اس کے لئے سارے مادی و اخلاقی ذرائع بھی استعمال
کئے، آپ نے تمام عجال کو حکم دیاکہ وہ ذمیوں کو اسلام کی دعوت دیں جو قبول
کر لیں اس کا جزیہ معاف کر دیا جائے، اس طرح کے عمل سے اسلام کی بڑی اشاعت
ہوئی، صرف جراح بن عبد اللہ حکمی والی ¿ خراسان کے ہاتھوں چار ہزار ذمی
مسلمان ہوئے،اسماعیل بن عبد اللہ کے والی ¿ مغرب کی تبلیغ سے سارے شمالی
افریقہ میں اسلام پھیل گیا۔ابھی حضرت عمر بن عبد العزیز کی اصلاحات کا
سلسلہ جاری تھاکہ رجب 101ھ میں آپ مرض الموت میں مبتلا ہوگئے، آپ کے مرض
الموت کی دو وجوہات بتائیں گئی تھیں، ایک یہ کہ علالت طبعی تھی دوسری یہ کہ
زہر کا نتیجہ تھا اس کا سبب یہ بیان کیاجاتاہے کہ بنی امیہ نے جب یہ محسوس
کیا کہ اگر کچھ دنوں تک آپ کی حکومت اور قائم رہی تو بنو امیہ کا زور توڑ
کر خلافت کا اصلاحات کو اس قدر مستحکم کر دینگے کہ پھر گزشتہ اقتدار واپس
نہ آسکے گا اس لئے انہوں نے آپ کے ایک خادم کو ایک ہزار اشرفی دے کر زہر
دلوایا۔ آپ کو دوران علالت اس کا علم ہو گیاتھامگر آپ نے اس کا کوئی انتقام
نہیں لیا بلکہ اشرفیوں کو واپس لے کر بیت المال میں جمع کرا دیا اور غلام
کو آزاد کر دیا۔(ابن سعد تذکرہ ¿ عمر بن عبد العزیز)آپ نے خلیفہ یزید بن
عبد الملک کو وصیت نامہ جاری کیاکہ میں تم کو اس حال میں یہ وصیت نامہ لکھ
رہا ہوں کہ مرض نے مجھے بالکل لاغر کر دیا ہے، تم کو معلوم ہے کہ خلافت کی
ذمہ داریوں کے بارے میں مجھ سے سوال کیا جائیگا اور اللہ تعالیٰ مجھ سے اس
کا محاسبہ کر ے گا اور میں اس سے کوئی کام نہ چھپا سکوں گا۔
ہم سب ایسے لوگوں سے اپنے ذاتی علم کو بروئے کار لاکر واقعات بیان کرتے ہیں
ایسی حالت میں اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو گیا تو میں کامیاب ہوا اور
ایک طویل عذاب سے نجات پائی اور اگر ناراض ہوا تو میرے انجام پر افسوس ہے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ محض اپنی رحمت و کرم سے عذابِ دوزخ
سے نجات دے اور اپنی رضا سے جنت عطا کرے، تم کو تقویٰ اختیار کرنا چاہیئے
اور رعایا کا خیال رکھنا چاہیئے، کیونکہ میری طرح تم بھی تھوڑے دن ہی زندہ
رہو گے تم کو اس سے بچنا چاہیئے کہ غفلت میں کوئی ایسی لغزش سر زد نہ ہو
جائے جس کی تلافی نہ ہو سکے۔ سلیمان بن عبد الملک اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ
تھا اس نے مجھے خلیفہ بنایا اور میرے بعد تم کو خلیفہ نامزد کیا۔ میں جس
حال میں تھا اگر وہ اس حال میں ہوتاکہ بہت سی بیماریوں کا انتخاب کروں اور
مال و دولت جمع کروں تو اللہ نے مجھے ایسے بہتر سامان دیئے تھے جو وہ اپنے
کسی بندے کو دے سکتا ہے لیکن میں سخت اور نازک سوال سے ڈرتا ہوں۔ بجز اس کے
اللہ تعالیٰ میری مدد فرمائے۔ 14رجب 101 ھ میں آپ کا انتقال ہوا ۔ آپ کی
عمر تقریباً 40 سال تھی۔ مدت خلافت دو سال پانچ مہینے تھی۔سبق آموز تحریر
ہمارے حکمرانوں اور تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے لئے بھی تحفہ ہے اگر
وہ ان کی طرح رعایا کا خیال رکھیں۔ |