سبزی منڈی میں کام کرنے والے دکاندار اور
چھابڑی فروش اس16سال کے لڑکے کوبادشاہ آئی لویو کہتے اور یہ سننے کے بعد وہ
اان الفاظ کو کہنے والے کے پیچھے پڑتا یہ دیکھے بغیر کہ وہ یہ الفاظ بولنے
والا اس کا ہم عمر ہے یا اس سے بڑا لیکن وہ لڑکا کوشش کرتا کہ کسی کو لات
مارتا یا مکا مارنے کی کوشش کرتا یہ ایک معمول کی بات تھی جسے میںروزانہ
سبزی مارکیٹ میں ہوتا ہوا دیکھتا - جب بھی میں اس لڑکے کو دیکھتا تو وہ
کبھی گاجر پودینہ یا پھر ساگ کے ڈھیر کے پاس کھڑاا ہتا اور وہ دکانداروں کی
آواز میں چیخیں مارتا کہ سستی سبزی لو اس کی ناک بہہ رہی ہوتی دانتوں کی
صفائی نہیں کرتا اس لئے سامنے کے دانت زرد رتھے اور اس حالت میں جب وہ
مسکراتا تو وہ کچھ عجیب سا لگتا -تاہم جب بھی میں اسے دیکھتا تو اس نے
بالوں میں کنگھی کی ہوتی لیکن اس کے بالوں کا سٹائل بھی کچھ عجیب سا تھااور
اسے ایک مرتبہ دیکھنے کے بعد اسے بھلانا مشکل ہوتا -میرے لئے یہ ایک عام سی
بات تھی روزانہ سبزی پر لائیو پروگرام کے دوران میں اسے دیکھتا دوسرے
دکاندار اسے تنگ کرتے اور جواب میں وہ لوگوں کو کبھی کبھار گالیاں بھی دیتا
حالانکہ وہ معقول سا لڑکا لگتا سب اسے دیکھ کر ہنسنے لگتے اور وہ سر جھکا
کر اپنی سبزی بیچنے لگتا-
آج بھی معمول کے مطابق میں سبزی پر لائیو پروگرام کرنے گیا لیکن آج اس لڑکے
کی زمین پر لگے ڈھیر جس میں پودینہ پڑا تھا اور اسے وہ فروخت کررہا تھا کے
نزدیک لائیو پروگرام کیلئے کیمرہ لگ گیا - لوکیشن تبدیل ہونے کی وجہ سے میں
اس کیساتھ کھڑا ہوگیا چونکہ پروگرام لیٹ تھا اسی وجہ سے میں اس کیساتھ گپ
شپ شروع کردی - خدائی خدمتگار کے گائوں اتمانزئی سے تعلق رکھنے والا ارشد
روزانہ 4 بجے صبح گھر سے نکلتا اس کی والدہ اسے اٹھاتی اور وہ چارسدہ کے
علاقے سے روزانہ فلائنگ کوچ میں ساڑھے پانچ بجے تک پشاور کے شاہی باغ روڈ
پر واقع سبزی منڈی پہنچ جاتا - جہاں پر وہ سبزی منڈی میں گدھا گاڑیوں پر
آنیوالی مختلف سبزیوں والوں سے سبزی تھوک میں خریدتا اوربعد میں وہ پرچون
میں روڈ کنارے کھڑے ہو کر فروخت کرنے کی کوشش کرتا روزانہ چار بجے تک
دکانداروں کی طرح چیخیں مار کر وہ سبزی فروخت کرنے کی کوشش کرتا شام چار
بجے تک اس کی سبزی فروخت ہو جاتی اور اسے چار سو تک کی مزدوری ہو جاتی جس
میں وہ پچاس پچاس روپے ٹریفک اہلکار اور میونسپل کمیٹی کے اہلکاروں کو بھتہ
بھی دیتا ایک سو روپے میں ساٹھ روپے اس کے آنے جانے کا خرچہ تھا جبکہ چالیس
روپے وہ کھانے پینے کیلئے استعمال کرتا اور دو سو روپے کے قریب اس کی
مزدوری بچ جاتی جو ارشد گھر جا کر اپنی والدہ کو دیتا جس سے اس کی گھر کی
دال روٹی چل رہی تھی-
جب میں نے اس سے سوال کیا کہ تم نے کہاں تک تعلیم حاصل کی ہے تو اس لڑکے نے
جواب دیا کہ چوتھی جماعت تک میں نے تعلیم حاصل کی ہے اور میں تقریبا تین
سال سے روزانہ چارسدہ سے پشاور آتا ہوں یہاں پر مزدوری کرتا ہوں اس سے قبل
میرے والد یہاں پر مزدوری کرتے تھے لیکن انہیں کالا یرقان ہوگیا جسکی وجہ
سے انہیں پشاور آنے میں مشکلات درپیش ہوتی تھی دو بڑے بھائیوں نے شادی کی
ہے اور الگ رہتے ہیں اپنے گھر میں بڑا اب میں تھا اور والد کی بیماری کے
باعث مجھے مزدوری کرنا پڑی پہلے حیات آباد میں کارخانو میں نوکری کرتا تھا
بعد میں ہوٹل والے کیساتھ کام کرنا شروع کردیا لیکن وہاں وقت زیادہ تھا اور
پیسے بھی کم دیتے اس لئے وہ کام چھوڑ دیا اور اب اپنے والد کی جگہ یہاں پر
کام کرتا ہوں اس کے کپڑ ے انتہائی گندے تھے جب میں نے اس سے سوال کیا کہ تم
کپڑے کب تبدیل کرتے ہو تو اس نے جواب دیا کہ میرا تو دل کرتا ہے کہ روزانہ
کپڑے تبدیل کرو لیکن یہاں پر سبزی کا کام گندا ہے چونکہ زمین پر بیٹھے رہتے
ہیں اس لئے کپڑے سارے گندے ہو جاتے ہیں اور جب میں گھر جاتا ہوں تو اتنی
ہمت نہیںہوتی کھانا کھانے کے بعدسو جاتا ہوں اور پھر اگلے روز صبح اتمانزئی
سے پشاور کیلئے علی الصبح نکلتا ہوں یہی میری روٹین ہے جب میں نے اس سے
سوال کیا کہ تمھیں کیوں لوگ بادشاہ آئی لو یو کہتے ہیں تو اس کی زرد دانت
نکل آئے او روہ ہنسنے لگا -اس دوران ایک بزرگ چھابڑی فروش میرے نزدیک آکر
کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ بابو صاحب !بادشاہ کی تصاویر لینی ہے پھر اس کو
چھاپ دینا ہے میں نے اس سے سوال کیا کہ اس نے کونسا تیر مارا ہے جو اس کی
تصویر لو تو بزرگ چھابڑی فروش کا جواب تھا کہ یہ بہت خوبصورت ہے اس لئے جس
پر ارشد نے بزرگ چھابڑی فروش کو مکے مارنے شروع کردئیے اور وہ بزرگ چھابڑی
فروش ہنستا ہوا چلا گیا -مقامی دکانداروں کے بقول یہی ایک لڑکا ہے جس کی
وجہ سے سبزی مارکیٹ میں دکاندار چھابڑی فروش اور زمین پر بیٹھ کر سبزی
فروخت کرنے والے خوش ہوتے ہیں کیونکہ اسے مذاق کا نشانہ بناتے ہیں اور جواب
میں کبھی کبھار وہ گالیاں بھی دیتا ہے جسے اس بازار میں دکاندار اور چھابڑی
فروش انجوائے کرتے ہیں-
سولہ سالہ ارشد اس معاشرے میں اکیلا نہیں اس جیسے ہمارے ارد گردکتنے ہیں جن
کی عمریں تعلیم حاصل کرنے کی ہیں لیکن غم روزگار نے انہیں اس حال میں پہنچا
دیا ہے ان معصوموں کے کھیلنے کے دن ہیں لیکن کھیلنے کے بجائے وہ بازاروں
میں مزدوری کرنے میں جتے ہوئے ہیں انہیں ان کے مسائل نے وقت نے پہلے ہی
شعوری طور پر جوان کردیا ہے -دوسری طرف ہم اور ہمارا معاشرہ ہے جو ان
معصوموں کی حوصلہ افزائی کے بجائے انکی دل شکنی میں مصروف عمل ہیںارشد
کیساتھ رکھا جانیوالا رویہ صرف اس لئے ہیں کہ وہ کم عمر ہے اس لئے اسے لوگ
مذاق میں تنگ کرتے ہیں اور ان کیلئے ہنسنے ہنسانے کا ایک ذریعہ ہے حالانکہ
ان سے کا م ہما را معاشرے ایک مکمل انسان کا لیتے ہیں ان سے بھتے کی وصولی
بھی ٹریفک اہلکار اور میونسپل کمیٹی کے اہلکار مکمل ہی کرتے ہیں لیکن اس
جیسے کتنے ہی معصوم ہیں جن کے ساتھ ہمارا رویہ اتنا برا ہے کہ وہ اندر ہی
اندر کڑھتے رہتے ہیں-جب میں نے ارشد سے سوال کیا کہ کیا تمھاری خواہش نہیں
کہ تمھاری اس طرح ایک بڑی دکان ہو اور اس میں تم بیٹھ کر دکانداری کرسکوں
تو اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ خواہش تو میری ہے لیکن یہ لوگ مجھے تنگ
کرتے ہیں اور میں یہاں پر اگر اپنی دکان میں بیٹھ گیا تو پھر بھی مجھے یہ
لوگ تنگ کرینگے اب تو میں ادھر ادھر بھاگ جاتا ہوں لیکن پھر جب دکان ہوگی
تولوگوں کو میرا مذاق بنانے میں آسانی ہوگی اور وہ میری دکان پر آئیں گے اس
لئے میں دکان کی خواہش ہی نہیں رکھتا- تعلیم روزگار اور صحت کی بنیادی
سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے جو وہ مملکت پاکستان میں کوئی پورا
کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی ہم اس میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن کیا
ان بچوں کیساتھ رویہ رکھا جانیوالا برتائوہمارے بس میں نہیں - |