عشرت اقبال وارثی صاحب اس خوبصورت دلدل میں واپس نا آئیں تو آپ کی مرضی:

اللہ تبارک وتعالی ، قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے کہ '' یا ایھا الذین امنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ولا تجسسوا ولا یغتب بعضکم بعضا ط ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتا فکرھتموہ واتقوا اللّٰہ ان اللّٰہ تواب رحیم ۔ ''
(پارہ نمبر ٢٦ سورۃ الحجرات الایۃ نمبر ١٢)
'' اے ایمان والو ! بہت گمانوں سے بچو بے شک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے ، اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں سے کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو تمہیں یہ گورا نہ ہوگا۔ اور اللہ عزوجل سے ڈرو بے شک اللہ عزوجل بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے '' ۔
(کنزالایمان فی ترجمۃ القراٰن)
مفسر شہیر صدر الافاضل حضرت مولانا نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ الھادی اپنے حاشیہ خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ '' ہر گمان صحیح نہیں ہوتا مومن صالح کے ساتھ برا گمان ممنوع ہے '' ۔
'' مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ستاری سے چھپایا ۔ حدیث شریف میں ہے گمان سے بچو گمان بڑی جھوٹی بات ہے۔ اور مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو ۔ ان کے ساتھ حرص و حسد ، بغض، بے مروتی نہ کرو ۔ اے اللہ تعالٰی کے بندو ! بھائی بنے رہو کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ اس پر ظلم نہ کرے ۔ اس کو رسوا نہ کرے۔ اس کی تحقیر نہ کرے۔ تقویٰ یہاں ہے ! تقویٰ یہا ں ہے ( اور یہاں کے لفظ سے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا ) آدمی کے لئے یہ برائی بہت ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر دیکھے۔ ہر مسلمان مسلمان پر حرام ہے۔ اس کا خون بھی ، اس کی آبرو بھی ، اس کا مال بھی ، اللہ تعالٰی تمہارے جسموں ، اور صورتوں اور عملوں پر نظر نہیں فرماتا لیکن دلوں پر نظر فرماتا ہے۔ (بخاری و مسلم ) حدیث .......! جو بندہ دنیا میں دوسرے کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالٰی روز قیامت اسکی پردہ پوشی فرمائیگا '' ۔ (حاشیۃ خزائن العرفان علی کنز الایمان فی ترجمۃ القراٰن)
محترم بہن یا بھائی:
اگر عشرت اقبال وارثی صاحب کی جانب سے عمداً آپ کی دل آزاری ہوئی ہے تو پپلیز اللہ کی رضا کے لئے معاف فرما کر ثواب کے حق دار بنیئے۔۔ اور اگر کوئی ایسی بات ہی نہیں کی بس آپ نے کسی واقعہ یا تحریر کو اپنی ذات کے لئے نا زیبا قرار دیکر بلا وجہ ناراضگی کا اظہار کیا تو آپ کو چاہیئے کہ آپ اقبال بھائی سے معذرت فرما کر روحانی اور مذہبی آڑٹیکل لکھنے پر آمادہ کریں کیونکہ انکی تحریر صدقہ جاریہ ہیں۔
اور روحانی علوم کی ترویج اور خیر خوائی مسلیمن کے لئے کاوش یانیکی کی دعوت سے منع کرنا ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا ۔ مسلمان تو بھلائی کو پھیلانے والا ہوتا ہے نہ کہ بھلائی کو روکنے والا ۔ ایسے افراد جو کسی کو بھلائی کے کام سے روکیں یا جان بوجھ کر روکنے کا سبب بنیں انکو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ضرور نظر میں رکھنا چاہیئے:

والمومنون والمومنت بعضھم اولیاء بعض م یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر
( پارہ ١٠ التوبۃ ٧١ )
اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیںبھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں۔ ( کنزالایمان )
المنفقون والمنفقت بعضھم اولیاء بعض م یامرون بالمنکر وینھون عن المعروف و یقبضون ایدیھم ط
( پ ١٠ التوبہ ٦٧ )
منافق مرد اورمنافق عورتیں ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں برائی کا حکم دیں اور بھلائی سے منع کریں اور اپنی مٹھی بند رکھیں ۔
( کنزالایمان )


 عشرت اقبال وارثی صاحب آپ کی یہ خوائش (آپ کے کالم کی پہلی سطروں میں موجود) بھی پوری کردیتے ہیں اور آپ کے نا مناسب فیصلے پر اشارے کرتے ہیں۔
امر بالمعروف کی کئی صورتیں ہیں (١) اگر اسے غلبہ ظن ہے کہ اگر وہ لوگوں کو امر بالمعروف کرے گا تو لوگ اس کی بات مان لینگےاور برائی سے رک جائیں گے تو اس پر امر بالمعروف کرنا واجب ہے اور اسے چھوڑناجائز نہیں ہے (٢) اور اگر اسے غلبہ ظن سے معلوم ہوجائے کہ اگر وہ لوگوں کو اچھائی کا حکم دیگا تو لوگ اس پر بہتان باندھیںگے اور گالیاں دینگے تو ایسی صورت میںامر بالمعروف کو چھوڑنا افضل ہے (٣) اسی طرح اگر اس کو غلبہ ظن حاصل ہوجائے کہ لوگ اس کو مارینگے اور وہ صبر نہ کرسکے گا دشمنی پیدا ہوجائیگی جس کی وجہ سے جھگڑا ہوگاتو چھوڑنا افضل ہے (٤) اور اگر اس بات کا ظن غالب سے پتہ چل جائے کہ اگر لوگ اس کو مارینگے تو وہ اس پر صبر کرلیگا کسی کو شکایت نہ کریگا تو اب برائی سے منع کرنے میں کوئی حرج نہیںہے اور ایسا شخص مجاہد ہے (٥) اور اگر اسے غلبہ ظن سے معلوم ہوجائے کہ لوگ اس کی بات نہیں مانیں گے مگر وہ مار کھانے اور برا کہے جانے سے خوف نہ کرتا ہو تواسے اختیارہے چاہے تو امر بالمعروف کرے یا نہ کرے بہر حال اس صورت میں امر کرنا افضل ہے۔
اور جناب آپ کی یہ وسوسہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(اُور دِلوں کو تُوڑنا تو گناہِ کبیرہ ہُوتا ہے نا۔ یہی سُوچ سوچ کر کئی گھنٹوں سے میری آنکھوں سے آنسو رَواں ہیں۔ اُور دِل پر ایک عجیب سی بے قراری طاری ہے۔ کہ چاہے لاکھ لوگوں کو میری تحریروں سے قرار آتا ہُو۔ لیکن اگر میری ایک بات سے بھی کسی کا دِل ٹوٹ گیا۔ تو کل بروزِ محشر اپنے خالق کو کیا مُنہ دِکھاوں گا۔)

پیارے بھائی آپ کے علم میں ہوگا کہ وسوسوں سے ایمان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتااور نہ ہی ان پر کوئی پکڑ ہے بلکہ احادیث طیبہ میں وسوسہ کو ایمان کی علامت قرار دیا ہے چنانچہ مسلم شریف میں ہے نبی کریم ؐ کی بارگاہ میں بعض صحابہ کرام حاضر ہوئے اور سوال کیا کہ ہم اپنے دلوں میں ایسے خیالات محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بیان کرنا بہت بڑا گناہ معلوم ہوتا ہے نبی کریم ؐ نے فرمایا کیا تم نے یہ بات پائی انہوںنے عرض کی جی ہاں نبی پاک ؐ نے فرمایا یہ تو کھلا ایمان ہے '' لہٰذا وسوسے اگرچہ کتنے ہی آئیں ایمان میںکوئی فرق نہیں پڑتا ۔
جس دلدل میں آپ نمایا ہیںمیرے خیال سے تو یہ صدقہ جاریا ہے
بقول آپ کے۔۔۔۔(چونکہ میں اپنا موبائیل رابطہ بھی ختم کررہا ہُوں اسلئے برائے مہربانی کال کی زحمت بھی نہ فرمائیں۔ اُور نہ ہی مجھ بدکار و گنہگار کو دوبارہ اِس دلدل میں کھینچنے کی کوشش کریں۔)
۔۔اب بھی۔۔۔اس نیکیوں کے خوبصورت دلدل میں واپس نا آئیں تو آپ کی مرضی:
(بقول آپ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِن چار برس کی زندگی میں جتنے بھی لُوگ مجھے مِلتے رہے۔ وُہ صرف میری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ اُور میرے کام کو سراہتے رہے۔ کسی ایک نے بھی یہ کوشش نہیں کی۔ کہ وُہ مجھ سے سرذد ہُونے والی غلطیوں کی طرف بھی اِشارہ کرے۔ اُور اس طرح خُوش فہمی کا یہ بیکار سفر جاری رہا۔)
لیں اور اشارے لیں۔۔۔۔
حضرت ِسیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہسرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ، '' مومن کے انتقال کے بعد اس کے عمل اور نیکیوں میں سے جو چیزیں اسے ملتی ہےں وہ یہ ہیں(١) اس کاوہ علم جسے اس نے سکھایا اور پھیلایا اور(٢) نیک بیٹا جسے چھوڑکر مرا ،(٣) قرآن پاک جسے ورثہ میں چھوڑا، (٤) وہ مسجد جسے اس نے بنایا،(٥) مسافروں کے لئے کوئی گھر بنایا ہو ، (٦)کسی نہر کو جاری کیا ہو، (٧) وہ صدقہ جاریہ جسے اس نے حالت صحت اور زندگی میں اپنے مال سے دیا ہو۔''
( سنن ابن ماجہ ، کتا ب السنہ ، باب ثواب معلم الناس الخیر ، رقم ٢٤٢ ، ج ١، ص ١٥٧)
۔۔اب بھی۔۔۔اس نیکیوں کے خوبصورت دلدل میں واپس نا آئیں تو آپ کی مرضی:
حضرت ِسیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقائے مظلوم، سرورِ معصوم، حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا، '' جب آدمی انتقال کرتاہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے مگر تین عمل جاری رہتے ہیں ۔
(١) صدقہ جاریہ(٢) یاجس علم سے نفع حاصل کیا جاتا ہو (٣) یا نیک بچہ جو اس کے لئے دعا کرتا ہو۔''
(صحیح مسلم ،کتا ب الوصیۃ ، باب مایلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ ، رقم ١٦٣١ ،ص ٨٨٦)
۔۔اب بھی۔۔۔اس نیکیوں کے خوبصورت دلدل میں واپس نا آئیں تو آپ کی مرضی:
۔۔۔۔۔۔ حضرت ِسیدنا ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہنبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدمصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ '' انسان کا بہترین ترکہ تین چیزیں ہیں ، (١)نیک بچہ جو اس کے لئے دعا کرے (٢)صدقہ جاریہ جس کا ثواب اس تک پہنچے(٣) وہ علم جس پر اس کے بعد عمل کیا جائے۔''
(سنن ابن ماجہ ، کتا ب السنہ ، باب ثواب معلم الناس الخیر،رقم ٢٤١ ،ج ١، ص ١٥٧)
۔۔اب بھی۔۔۔اس نیکیوں کے خوبصورت دلدل میں واپس نا آئیں تو آپ کی مرضی:
۔۔۔۔۔۔ حضرت ِسیدنا معاذبن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہشہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا'' جس نے کسی کو علم سکھا یااسے اس علم پر عمل کرنے والے کا ثواب بھی ملے گا اور اس عمل کرنے والے کے ثواب میںبھی کمی نہ ہو گی۔''(سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ ، باب ثواب معلم الناس الخیر ، رقم ٢٤٠، ج ١ ،ص ١٥٦)
۔۔اب بھی۔۔۔اس نیکیوں کے خوبصورت دلدل میں واپس نا آئیں تو آپ کی مرضی:
۔۔۔۔۔۔ حضرت ِسیدنااَنس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہحضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاکصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ ''کیا میں تمہیں سب سے زیادہ جودو کرم والے کے بارے میں خبر نہ دوں ؟ اللہ عزوجل سب سے زیادہ جودوکرم والا ہے اور میں اولادِ آدم علیہ السلام میں سب سے زیادہ سخی ہوں اور میرے بعد ان میں سے زیادہ سخی وہ شخص ہے جو علم حاصل کرے پھر اپنے علم کو پھیلائے، اسے قیامت کے دن ایک امت کے طور پر اٹھایا جائے گا اور ان کے بعد سب سے بڑا سخی وہ شخص ہے جو اللہ عزوجل کی رضا کے حصول کے
لئے اپنے آپ کووقف کردے یہاں تک کہ اسے قتل کردیا جائے۔ ''
(مسند ابویعلی ، مسند انس بن مالک ، رقم ٢٧٨٢، ج ٣، ص ١٦)
۔۔اب بھی۔۔۔اس نیکیوں کے خوبصورت دلدل میں واپس نا آئیں تو آپ کی مرضی:
۔۔۔۔۔۔ حضرت ِسیدنا سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا ، کہ''اللہ عزوجل کی قسم ! تمہاری رہنمائی سے ایک شخص کو ہدایت مل جائے تو یہ تمھارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ۔''
(بخاری ، کتاب الجہاد،رقم٢٩٤٢،ج٢،ص٢٩٤،)
۔۔اب بھی۔۔۔اس نیکیوں کے خوبصورت دلدل میں واپس نا آئیں تو آپ کی مرضی:
۔۔۔۔۔۔ بیشک اﷲعزو جل اور اس کے فرشتے لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے پر رحمت بھیجتے ہیںحتی کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں سمندر میں اس کے لئے دعا کرتی ہےں۔''(المعجم الکبیر، رقم٧٩١٢،ج٨،ص٢٣٤)
۔۔اب بھی۔۔۔اس نیکیوں کے خوبصورت دلدل میں واپس نا آئیں تو آپ کی مرضی:

۔۔۔۔۔۔ علم کو پھیلانے سے افضل ترین صدقہ کسی نے نہیں کیا۔''
(المعجم الکبیر، رقم٦٩٦٤،ج٧،ص٢٣١)
۔۔اب بھی۔۔۔اس نیکیوں کے خوبصورت دلدل میں واپس نا آئیں تو آپ کی مرضی:
۔۔۔۔۔۔ آدمی کا علم حاصل کرنااس پر عمل کرنا اور دوسروں کو سکھانا بھی صدقہ ہے۔''(کنزالعمال، کتاب العلم ، الباب الاول ، رقم٢٨٨١٠،ج١٠،ص٦٨)
۔۔اب بھی۔۔۔اس نیکیوں کے خوبصورت دلدل میں واپس نا آئیں تو آپ کی مرضی:
حضرت ِسیدنا عبداللہ بن امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیںکہ میں نے اپنے والد صاحب سے پوچھاکہ'' میں رات کو تہجد پڑھوں یا علم لکھوں؟ '' توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ'' علم لکھاکرو ۔'' (طبرانی کبیر ، رقم ٨٤٤ ، ج ٢٢ ،ص ٣٣٧)
۔۔اب بھی۔۔۔اس نیکیوں کے خوبصورت دلدل میں واپس نا آئیں تو آپ کی مرضی:
وضاحت :
امام صاحب علیہ الرحمۃ نے اپنے صاحبزادے کو علم لکھنے کا مشورہ اس لئے دیا کہ علم کا نفع دوسروں کو بھی حاصل ہوگا اورانہیں اپنے علم کے ثواب کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا ثواب بھی ملے گا جو اس علم سے ان کی زندگی میںیا موت کے بعداستفادہ کریں گے جبکہ تہجد پڑھنے کی صورت میں انہیں صرف اپنا ثواب ہی حاصل ہوسکے گا، واللہ تعالی اعلم ۔
اور پیارے بھائی آپ کی اس دعا
(یارب العالمین میں نے قلمی زندگی میں جتنی بھی غلطیاں کی ہیں۔ اُن سب کو اپنے مدنی حبیب کے طفیل معاف فرمادے۔ اُور جو بھی احباب قلبی رنج کی وجہ سے مجھ سے ناراض ہیں۔ اُن کے قُلوب کو میری جانب سے پاک کردے۔ اُور اُن سب کو مجھ سے راضی فرمادے اُور جو احباب مجھ سے محبت رکھتے ہیں۔ اُنکو اپنی بارگاہ میں قبول فرماتے ہُوئے۔ اپنی راہ کا مسافر بنالے۔)پر ہم
آمین آمین آمین آمین آمینآمین آمین آمین آمین آمین۔۔ ثم آمین ۔ کہتے ہیں۔

نوٹ: یہ آڑٹیکل ابو سعد مفتی محمد بلال رضا قادری مدظلہ العالی سے تفتیش (چیک)کرا کر پوسٹ کیا گیا ہے۔۔
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 354677 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.