حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے
ہیں کہ جب حضور ﷺ کی بیماری بڑ ھ گئی تو آپ ﷺ کے پاس حضرت عائشہ ؓ اور حضرت
حفصہ ؓ تھیں اتنے میں حضرت علی ؓ داخل ہوئے تو حضور ﷺ نے انہیں دیکھ کر سر
اُٹھایا اور فرمایا میرے قریب آجاﺅ میرے قریب آجاﺅ حضر ت علی ؓ نے قریب
جاکر حضور ﷺ کو اپنے سہارے سے بٹھا لیا اور حضور ﷺ کے وصال تک آپ ﷺ کے پاس
رہے جب حضور ﷺ کا انتقال ہوگیا تو حضرت علی ؓ نے کھڑے ہوکر اندر سے دروازہ
بند کرلیا حضرت عباس ؓ اور بنو عبدالمطلب (آپ ﷺ کے دادا کے خاندان والے )
آکر باہر دروازے پر کھڑے ہوگئے حضرت علی ؓ کہنے لگے میرے والد آپ ﷺ پر
قربان ہوں آپ ﷺ زندگی میں بھی پاک تھے اور انتقال کے بعد بھی پاک ہیں اور
حضور ﷺ کے جسم سے ایسی عمدہ خوشبو مہک رہی تھی کہ لوگوں نے ویسی خوشبو کبھی
نہیں دیکھی تھی پھر حضرت عباس ؓ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا عورتوں کی طرح
رونا چھوڑ دو اور اپنے نبی ﷺ کی تجہیز وتکفین کی طرف متوجہ ہوجاﺅ اس پر
حضرت علی ؓ نے فرمایا حضرت فضل بن عباس ؓ کو اند رمیرے پاس بھیج دو انصار
نے کہا کہ ہم تمہیں اللہ کا اور حضور ﷺ سے اپنے تعلق کا واسطہ دے کر کہتے
ہیں کہ آپ ﷺ کے کفن اور غسل میں ہمارا بھی حصہ ہو ( اس پر حضرت علی ؓ نے
کہا اپنا ایک آدمی اندر بھیج دو) چنانچہ انصار نے اپنا ایک آدمی اندر بھیجا
جس کا نام اوس بن خولی ؓ تھا وہ ایک ہاتھ میں گھڑا بھی اُٹھائے ہوئے تھے یہ
حضرات ابھی اندر ہی تھے غسل شروع نہیں کیا تھا کہ انہیں یہ آواز سنائی دی
کہ رسول اللہ ﷺ کے کپڑے مت اُتاروں اور وہ جیسے ہیں ویسے ہی ان کو قمیص میں
غسل دے دو (اللہ تعالیٰ نے فر شتے کے ذریعہ ان حضرات کی اس موقع پر رہبری
فرمائی چنانچہ حضرت علی ؓ نے حضور ﷺ کو غسل دیا وہ قمیص کے نیچے ڈال کر جسم
کو نہلاتے تھے اور فضلؓ چادر تھامے ہوئے تھے اور وہ انصاری پانی لارہے تھے
اور حضرت علی ؓ نے اپنے ہاتھ پر کپڑا باندھا ہواتھا ۔
قارئین یہ بات طے ہے کہ جس زی روح نے جنم لیا ہے اس نے ایک دن اپنے خالق
حقیقی کی طرف رجوع کرنا ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءکرام ؑ ، صحابہ کرام
ؓ ، اولیاءاللہ اور دیگر برگزیدہ شخصیات بھی اپنے خالق حقیقی کی طرف سے
عنایت کردہ وقت گزار کر دنیا سے تشریف لے گئے اور فاسق اور فاجر لوگ جو
اپنے آپ کو نعوزباللہ خدا کہتے تھے چاہے اُن کا نام فرعون ہو یانمرود ،شداد
ہو یا ہامان وہ بھی اس دنیا سے چلے گئے یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ اللہ
بزرگ وبرتر نے انسان کو اس دنیا میں ایک مخصوص وقت کیلئے بھیجا ہے اور اس
مخصوص وقت میں ہر انسان کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے ہماری ناقص عقل کے
مطابق ہر انسان کو اُس کسوٹی پر پرکھا جاتاہے جو اس کی قابلیت اور صلاحیت
کے مطابق قائم کی گئی ہے کوئی پرائمری کا امتحان دیتاہے ،کوئی مڈل کا
امتحان دیتاہے ،کسی نے میڑک کاا متحان دینا ہے اور کوئی یونیورسٹی کی سطح
کا امتحان دے رہاہے آخر میں پرکھ اسی بات کی ہونی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف
سے دیئے گئے وقت کے اندر اپنی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق کوئی انسان اپنے
ایمان کے امتحان میں پاس ہوتاہے یا فیل ہوتاہے اسی رزلٹ پر آخرت کی دائمی
زندگی کا انجام سامنے آئے گا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مجھے اورآپ سب کو
ایمان کی اس آزمائش میں کامیابی عطا فرمائے آمین ۔
قارئین آج کاکالم کوئی کالم نہیں ہے بلکہ چند منتشر خیالات اور دکھے دل کے
وہ جذبات ہیں جو ہم آپ کے ساتھ شیئر کررہے ہیں ایسا دکھ کہ جس سے پوری
کشمیری قوم اس وقت گزر رہی ہے آزادکشمیر بھر میں ایک ایسے حادثے نے لوگوں
کی آنکھیں نم کردیں جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا اور وہ حادثہ
ڈپٹی کمشنر ضلع نیلم راجہ ثاقب منیر شہید کی ناگہانی حادثاتی وفات کا تھا
ہم ان کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ اس لیے استعمال کررہے ہیں کہ جو تھوڑا
بہت دینی علم ہم رکھتے ہیں اس کے مطابق کوئی بھی ایمان والا اپنے فرائض
منصبی کی ادائیگی کے دوران سفر کے کسی بھی مرحلے پر اگر کسی حادثہ کا شکار
ہوکر اللہ کو پیار اہوجائے تو اسے شہید کہاجاتاہے راجہ ثاقب منیر شہید بھی
اپنے فرض کی ادائیگی کے سلسلہ میں مظفرآباد سے وادی نیلم کی جانب محو سفر
تھے ان کی گاڑی میں ڈرائیور او ران کاگن مین موجود تھا جس نشست پر راجہ
ثاقب منیر شہید بیٹھے تھے اس کے عین اوپر ایک وزنی چٹان آگری اور وہ موقعہ
پر ہی خالق حقیقی سے جاملے راجہ ثاقب منیر کا ایک بیٹا ہے جس کی عمر دوسال
کے قریب ہے ان کے والد محترم نے زندگی کا بہت بڑا حصہ سعودی عرب میں روزگار
کی تلاش میں گزارا اور آج کل وہ میرپور میں ایک کاروبار کرتے ہیں راجہ ثاقب
منیر شہید کے متعلق بیوروکریسی کے انتہائی ذمہ دار لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ
یہ چمکتا ہوا ستارہ اس قدر روشن اور باصلاحیت تھا کہ 33سال کی عمر میں ڈپٹی
کمشنر کی حیثیت سے تعیناتی یہ ظاہر کررہی تھی کہ اس شاہین کی پرواز کا
آسمان کس قدر وسیع ہے اور اس کی اُڑان کا عالم کیا ہے ایک عام بات جو لوگوں
میں مشہور ہے وہ راجہ ثاقب منیر شہید کی غریب پروری ،دیانت داری اور رقت
قلبی ہے غریبوں کی مدد کرنے کیلئے یہ عظیم انسان 24گھنٹے تیار رہتاتھا عام
طور پر کہاجاتاہے کہ جو لوگ نیک خصائل کے مالک ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں
جلدی اپنے پاس بلا لیتاہے شاید راجہ ثاقب منیر شہید بھی اللہ تعالیٰ کو
اتنے پیارے تھے کہ انہیں جلد اپنے پاس بلا لیا آج یہ ساری باتیں آپ کے
سامنے رکھتے ہوئے ہماری آنکھیں بھی نم ہیں ہمیں ان کے پورے خاندان کے ساتھ
دلی ہمدردی ہے ہماری اس حوالے سے شعبہ تعلیم کی ایک معزز شخصیت مسز غزالہ
خان سے گفتگو ہوئی جو گائیڈنس ہاﺅس کی سربراہ ہیں انہوں نے راقم کو بتایا
کہ راجہ ثاقب منیر شہید کی اہلیہ انہی کے ادارے کی تعلیم یافتہ ہیں اور ان
پر اس وقت سکتے کا عالم طاری ہے ان کا کہنا تھا کہ یہ جوان راجہ ثاقب منیر
شہید انتہائی ملنسار ،باادب ،دین دار اور اخلاقی اقدار کا پابند تھا ۔
قارئین محمود ہاشمی نے بہت عرصہ قبل ”کشمیر اُداس ہے “ کے نام سے ایک بہت
خوبصور ت کتاب تحریر کی تھی اس کتاب کا تذکرہ پاکستان نہیں بلکہ متحدہ
ہندوستان کے مشہور ومعروف سول سرونٹ قدرت اللہ شہاب نے اپنی تصنیف شہاب
نامہ میں کیا تو لوگوں کو محمود ہاشمی اور کشمیر اُداس ہے کا تعارف ہوا آج
کے اس کالم میں ہم یہی کہتے ہیں کہ راجہ ثاقب منیر شہید کی ناگہانی وفات پر
واقعی پورا آزادکشمیر اُداس ہے ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں کے مجمعے سے
خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید ،ڈپٹی اپوزیشن لیڈر
چوہدری طارق فاروق اور مسلم لیگ ن کے رہنما راجہ نصیر آہوں او ر سسکیوں کے
ساتھ جب ہچکیاں لے کر روئے تو ہزاروں کا مجمع چیخوں سے گونج اُٹھا اللہ
تعالیٰ راجہ ثاقب منیر شہید کے درجات بلند کرے اور مرحوم کے اہل خانہ کو
صبر جمیل عطا فرمائے ہم مرحوم کے قریبی عزیز اور بزرگ راجہ اظہر آفیسر شعبہ
تعلقات عامہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور اُن کے صبر کیلئے بھی دعا
گو ہیں ۔ |