اس ماڈل میں جدید ’فیوئل سیلز‘ نصب ہیں
اور اس کے توانائی کو جمع رکھنے والے نظام کی وجہ سے یہ کار ہائیڈروجن کے ایک
ٹینک پر ڈھائی سو میل تک چل سکتی ہے۔
کلاسک سپورٹس کار بنانے والی کمپنی مارگن کے میتھیو پارکن
نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’اس گاڑی کو برطانوی کمپنیوں اور یونیورسٹیز نے
مل کر بنایا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق یہ گاڑی سات سیکنڈ میں سفر سے ساٹھ میل
فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ سکتی ہے۔‘
تاہم اس کی اصل رفتار کا صحیح اندازہ
تبھی ہو سکے گا جب کار کو ٹیسٹ ڈرائیو پر لیا جائے گا۔
’لائف کار‘ بنانے کا کام تین سال سے جاری
ہے اور اس پر ایک اعشاریہ نو ملین پاؤنڈ خرچ ہوئے ہیں، جس کا کچھ حصہ برطانوی
حکومت نے دیا ہے۔
مسٹر پارکن نے کہا کہ ’ہمارا بنیادی مقصد
یہ تھا کہ ایک ایسی گاڑی بنائی جائے جو ایک بہترین سپورٹس کار ہونے کے ساتھ
ساتھ توانائی کا صحیح استعمال کر سکے اور ایک گیلن پر ڈیڑھ سو میل چل سکے۔‘
گاڑی میں لگی ہائیڈروجن فیوئل سیلز برطانوی کمپنی ’کائنیٹک‘
نے تیار کی ہیں۔
جب گاڑی کو چڑھائی پر چڑھنا ہو یا زیادہ
طاقت کی ضرورت ہو تو وہ اس میں نصب ’الٹرا کپیسِٹرز‘ کا سہارا لے سکتی ہے۔
مسٹر پارکن نے بتایا، ’یہ ’الٹرا کپیسِٹرز‘ ایک بیٹری کی طرح کام کرتےہیں،
تاہم ان میں بیٹری کے مقابلے میں کم توانائی ہوتی ہے۔‘
اس گاڑی میں بریک لگانے کا نظام ایسا ہے
کہ بریک لگاتے وقت گاڑی کی حرکی توانائی کو ایک موٹر کے ذریعے برقی توانائی
میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
گاڑی کو ہلکا رکھنے کے لیے اسے الومینیم
سے بنایا گیا ہے اور اس کی سیٹیں لکڑی کی ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں سٹیریوز،
سینٹرل لاکِنگ، ائیر بیگز جیسی سہولیات موجود نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ اس گاڑی میں گئیر باکس بھی
موجود نہیں اور یہ روایتی گاڑیوں کی طرح شور بھی نہیں کرتی۔
اس سے پہلے بھی کئی کار کمپنیاں ہائیڈروجن پر چلنے والی
گاڑیوں کو منظر عام پر لا چکی ہیں تاہم ان میں سے زیادہ تر کی بنیاد موجودہ
ماڈلز میں تبدیلی ہے۔
نقادوں کا کہنا ہے کہ پانی سے ہائیڈروجن
بنانے کے لیے بھی بہت بڑی مقدار میں توانائی استعمال کرنا پڑتی ہے۔ موجودہ
دور میں یہ توانائی روایتی پاور سٹیشنوں سے لی جاتی ہے۔
مسٹر پارکن کے مطابق یہ گاڑی ابھی تک ایک
’کانسیپٹ کار‘ یعنی تصوراتی کار ہے مگر امید ہے کہ مستقبل میں اسے بڑی سطح پر
بنایا جائے گا۔
یہ گاڑی چھ سے سولہ مارچ تک سوئٹزرلینڈ
میں ’جنیوا موٹر شو‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
مارگن کے علاوہ اس گاڑی کو بنانے میں
آسکر آٹوموٹوو، کرین فیلڈ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی بھی شامل ہیں۔
|