ڈاکٹر پیرزادہ کا غم

 حضرت مولانا محمد یوسف کندھلوی ؒ اپنے تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں جب حضور کا انتقال ہوا تو حضرت ام ایمن ؓ رونے لگیں تو کسی نے ان سے پوچھا آپ حضور کے انتقال پر کیوں رو رہی ہیں تو انہوں نے فرمایا میں حضور کے انتقال پر نہیں رو رہی ہوں کیوںکہ مجھے یقین تھا کہ حضور ﷺ کا عنقریب انتقال ہو جائے گا میں تو اس پر رو رہی ہوں کہ وحی کا سلسلہ بند ہو گیاہے۔

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا آﺅ حضرت ام ایمن ؓ کی زیارت کرنے چلتے ہیں(میں بھی ان دونوں حضرات کے ساتھ گیا)جب ہم حضرت ام ایمن ؓ کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں ان حضرات نے ان سے فرمایا آپ کیوں روتی ہیں اللہ کے ہاں جا کر اللہ کے رسول ﷺ کو جو کچھ ملا ہے وہ ان کے لیے یہاں سے (ہزاروں گنا)بہتر ہے حضرت ام ایمن ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں اس وجہ سے نہیں رو رہی کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ اللہ کے ہاں جا کر اللہ کے رسول ﷺ کو جو کچھ ملا ہے وہ ان کے لیے یہاں سے (ہزاروں گنا) بہتر ہے۔ حضرت ام ایمن ؓ نے کہا اللہ کی قسم! میں اس وجہ سے نہیں رو رہی کہ مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ کے ہاں جا کر اللہ کے رسول کو جو کچھ ملا ہے وہ ان کے لیے یہاں سے (ہزاروں گنا) بہتر ہے بلکہ میں تو اس وجہ سے رو رہی ہوں کہ اب آسمان سے وحی آنے کا سلسلہ رک گیا ہے۔ یہ بات ایسی موثر تھی کہ اسے سن کو وہ دونوں حضرات بھی رونے لگ پڑے ۔

اب عمر ؓ فرماتے ہیں حضور ﷺ کے انتقال پر لوگ رونے لگے اور کہنے لگے اللہ کی قسم! ہماری تمنا یہ تھی کہ ہم حضور سے پہلے مر جاتے کیونکہ اب ہمیں خطرہ ہے کہ آپ کے بعد کہیں ہم فتنوں میں نہ مبتلا ہو جائیں۔ اس پر حضرت معن بن عدی ؓ نے فرمایا لیکن اللہ کی قسم! میری تمنا تو یہ نہیں تھی کہ میں حضور ﷺ سے پہلے مر جاتا بلکہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ جیسے میں نے حضور ﷺ کی زندگی میں حضور کو سچا مانا اور ان کی تصدیق کی ایسے ہی ان کے انتقال کے بعد ان کی تصدیق کروں۔

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں جب نبی کریم ﷺ کی بیماری اور بڑھ گئی اور آپ بہت زیادہ بے چین ہو گئے تو حضرت فاطمہ ؓ نے کہا ہائے ابا جان کی بے چینی! حضور نے ان سے فرمایا آج کے بعد تمہارے والد پر کبھی بے چینی نہیں آئے گی۔ پھر جب حضور کا انتقال ہو گیاتو حضرت فاطمہ ؓ نے فرمایا ہائے میرے ابا جان نے رب کی دعوت قبول کر لی۔ ہائے میرے اباجان کا ٹھکانہ جنت الفردوس بن گیا۔ ہائے میرے ابا جان ! ان کی موت پر ہم حضرت جبرائیل ؑ سے تعزیت کرتے ہیں۔ پھر جب حضور ﷺ دفن ہو گئے تو حضرت فاطمہ ؓ نے فرمایا اے انسؓ! تمہارے دل حضور پر مٹی ڈالنے کے لیے کیسے آمادہ ہو گئے۔

حضرت فاطمہ ؓ نے فرمایا اے انس ؓ ! تمہارے دل کیسے آمادہ ہو گئے کہ تم حضور کو مٹی میں دفنا کر واپس آگئے؟ حضرت حماد ؓ کہتے ہیں جب حضرت ثاقب ؓ یہ حدیث بیان کرتے تو اتناروتے کہ پسلیاں ہلنے لگتیں۔

قارئین ہر وہ انسان جس نے جنم لیا ہے اس نے اپنے خالق کی طرف ہر حالت میں رجوع کرنا ہے کسی کی وفات پرہم پڑھتے ہیں ”ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں“مفہوم یہ کہ ہم نے لوٹ کر اس عارضی مسکن سے مستقل ٹھکانے کی طرح لوٹ جانا ہے اور یہ مختصر زندگی ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس لیے عنایت کی ہے کہ ہم ان گھڑیوں کو غنیمت جان کر اللہ اور انبیاءؑ کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق زندگی گزار کر ایمان کے امتحان میں سرخرو ہوں۔

قارئین ایک صدمے کے بعد دوسرا صدمہ اس نوعیت کا ہے کہ آج ہم ایک مرتبہ پھر آپ کے سامنے اپنے دکھتے ہوئے دل کی باتیں رکھ رہے ہیں۔ ابھی ہم دو روز قبل بنڈالہ وادی سماہنی کے شہزادے 33سالہ راجہ ثاقب منیر شہید ڈپٹی کمشنر نیلم کے حوالے سے اپنے جذبات آپ کے سامنے پیش کر رہے تھے اور آج کشمیر کے سب سے بڑے ڈاکٹر کی اہلیہ محترمہ اور ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر معید پیرزادہ کی والدہ محترمہ کی وفات پر لگنے والے گھاﺅ کو آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ غم کی اس کہانی کو کس طرح آپ کے ساتھ شیئر کریں ۔ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ میں اپنی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر عفت کی وفات کی کہانی جب لکھتے ہیں تو یقین جانیے کہ راقم بھی وہ داستان پڑھ کر ہر مرتبہ آنسو ﺅں کے ساتھ رویا اور تقریبا ً ہر قاری کی یہی کیفیت ہوتی ہے اور اسی طرح قدرت اللہ شہاب مرحوم نے جب اپنی عظیم والدہ محترمہ کے لیے ”ماں جی“کے عنوان سے ایک مختصر تحریر لکھی تو وہ ادب کا شاہکار بن گئی اور وہ تحریرپڑھنے کے بعد بھی ہر صاحب ایمان مرحومہ ماں جی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے۔

قارئین ڈاکٹر غلام محی الدین پیرزادہ کشمیر کے سب سے بڑے ڈاکٹر ہیں یہ ہمارا ایمان کی حد تک یقین ہے اور ہمارا ہی نہیں بلکہ آزاد کشمیر کے تمام ڈاکٹرز اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ان سے بڑا ڈاکٹر آج تک کشمیر میں نہیں گزرا۔ راقم دس سال تک اسلام آباد مقیم رہا اور وہاں ہماری ملاقات پیشہ ورانہ سلسلہ میں پاکستان کے آرمی اور سویلین شعبہ میں کام کرنے والے بڑے بڑے ڈاکٹر ز سے رہی جو آرمی میں جنرل تھے یا سول شعبہ میں پروفیسرز کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ جب بھی ڈاکٹر پیرزادہ کا ذکر خیر ہم ان ہستیوں سے کرتے تو یقین جانیے کہ یہ لوگ چونک جاتے، مسکراتے اور پھر ان کے تاثرات ادب اور محبت سے لبریز ہوتے۔ بڑے بڑے جرنیلوں کا یہ کہنا تھا کہ اگر ڈاکٹر پیر زادہ آرمی ہی میں رہتے تو پاکستان کا آرمی میڈیکل کور کا سب سے بڑا عہدہ ان کے پاس ہوتا وہ بہت بڑے انسان ہیں اور ان کی پیشہ ورانہ قابلیت آرمی کے لیے باعث فخر ہے۔ ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ سے ہماری دوستی تو بہت بعد میں ہوئی لیکن نیاز مندی بچپن سے تھی۔ اس حوالے سے ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ اس کے اندر بھی ایک کہانی ہے مختصراً ذکر کر دیں ہمارے دادا مرحوم کا نام غازی عبدالرحمن تھا وہ ایک سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے اور نظریاتی طور پر عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ کے قریبی ترین ساتھی تھے۔ ہمارے والد محترم لاہور میں ٹیکسٹائل انجینئرنگ کر رہے تھے کہ ایک ٹریفک حادثے میں ہمارے دادا جان کا انتقال ہو گیا ہمارے دادا غازی عبدالرحمن مرحوم ایک درد دل رکھنے والے انسان تھے اور جب منگلا ڈیم بنا تو ہزاروں لوگوں کو بن خرماں، چترپڑی اور میرپور بھر میں آباد کروانے کے لیے انہوں نے محکمہ سے چھٹی لے کر مفت لوگوں کا کام کیا۔ کنبہ بڑا تھا کفالت کے لیے ٹیکسٹائل کا ایک چھوٹا سا یونٹ اور دیگر کاروبار شروع کیا۔ ان کی ناگہانی وفات کے وقت والد محترم کی عمر 22سال کے قریب تھی۔ باقی سب بہن بھائی چھوٹے تھے۔ دادی مرحومہ کے ساتھ مل کر والد محترم نے سخت محنت کی اور کنبے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے محنت مشقت کا ہر کام کیا۔ 1980کی دہائی میں یہ کارخانہ ٹیکسٹائل کے بحران کی وجہ سے بند کرنا پڑا اور گھر میں فاقوں تک کی نوبت آئی۔ والد محترم نے ٹیکسٹائل کی ڈگری ہونے کے باوجود بیماری کی وجہ سے ہر کام کیا لیکن میرپور شہر سے باہر جانا ناممکن تھا۔ ان دنوں والد صاحب نے ایک رکشہ خریدا اور اللہ کا نام لے کر یہ کام بھی کیا عزیزوں دوستوں نے نوکری کرنے کا کہا تو جواب دیا زندگی ساری نوکری نہیں کی اس لیے ذاتی کام چاہے وہ ظاہری طور پر ادنی ٰ ہی کیوں نہ ہو رزق حلال کے حصول کیلئے اسے بہتر سمجھتاہوں والد صاحب رکشہ چلاتے اور راقم جو دس سال کا بچہ تھا ”کلینڈر “ کی حیثیت سے ”چوہٹے “ کے شوق میں رات کو ابا جی کے ساتھ نکل پڑتا والد محترم چوک شہیداں میرپور کلیال بلڈنگ کے باہر رات گیارہ اور بارہ کے درمیان رکشہ کھڑا کردیتے اور کسی بڑی شخصیت کاانتظار کرتے اور وہ شخصیت ڈاکٹر پیرزادہ ہوا کرتے تھے ہمارے ذہن میں ان کی تب کی تصویر ثبت ہے بعدازاں اللہ نے والد صاحب پر کرم کیا اور عرصہ بیس سال سے وہ لکڑی کا کاربار کرتے ہیں ہماری دوستی ڈاکٹر پیرزادہ سے تیرہ سال قبل ہوئی اور اس کی وجہ ہمارا ادویات فروشی کاشعبہ تھا ہمارے لیے ڈاکٹر پیرزادہ ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتے تھے اور رکھتے ہیں سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوئے ہم نے اپنے مہربان دوستوں ڈاکٹر سی ایم حنیف ،ڈاکٹر ریاست علی چوہدری ،ڈاکٹر امجد محمود ،ڈاکٹر طاہر ،ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر کے ہمراہ ”سٹی فورم “اور ”فرینڈز فورم “کے پلیٹ فارم سے ایک منفرد تقریب رکھی اور اس میں ڈاکٹر جی ایم پیر زادہ کو ”لائف ٹائم اچیومنٹ “ایوارڈ شہریوں او راہل کشمیر کی طرف سے دیا اس تقریب میں ان کی اہلیہ محترمہ نے بھی شرکت کی آنٹی مرحومہ نے اپنے بچوں کے ہمراہ راقم کو مدعو کرکے مخلصانہ شکریہ بھی اداکیا اور ہماری ذمہ داری لگائی کہ چونکہ ڈاکٹر پیرزادہ ہم پر خصوصی شفقت فرماتے ہیں اور ہم سے عمر میں بہت بڑا ہونے کے باوجود دوستانہ سلوک رکھتے ہیں اس لیے ہم ان سے تمام یاداشتیں اکٹھی کرکے ان کی زندگی کی جدوجہد پر ایک کتاب لکھیں شادی کے بعد ہماری اہلیہ کا ڈاکٹر پیرزادہ کی اہلیہ مرحومہ سے ملنا ہوا اور مزید رابطے استوار ہوئے قصہ مختصر چونکہ ٹوٹا پھوٹا لکھنے کا شوق ہمیں بھی تھا اور مسز پیرزادہ مرحومہ بھی ایک بہت بڑی رائٹر تھیں ہم نے اُن کی راہنمائی کے مطابق ڈاکٹر پیرزادہ سے وقت لے کر ان کاماضی جاننے کی کوششیں شروع کردیں ڈاکٹر پیرزادہ نے ایک مرتبہ ہمیں بتایا کہ میں مقبوضہ کشمیر سے برف پر چلتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوا دوروز سے بھوکا پیاسا تھا اور میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں نے ارض پاک کی طرف سفر اختیار کیا تھا جب پاکستان میں داخل ہوا تو برف کی ٹھنڈک کی تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگیا جب ہوش آیا تو میں ایک ملٹری کیمپ میں تھا پاک آرمی نے میری جان بچا لی تھی جب ڈاکٹر مجھے دیکھنے کیلئے تشریف لائے تو انہوںنے مجھ سے رعب سے پوچھا کہ تم پاکستان کیا لینے آئے ہو میں نے نحیف آواز میں جواب دیا میں آپ کی طرح ڈاکٹر بننا چاہتاہوں اس لیے آزاد وطن میں آیا ہوں ڈاکٹر پیرزادہ کہتے ہیں کہ اُن ڈاکٹر صاحب نے انتہائی طنزیہ انداز میں میری جانب دیکھا او رکہا ”تم ڈاکٹر بنوگے ؟“ڈاکٹر پیرزادہ کہتے ہیں کہ ان کی وہ انتہائی طنزیہ نگاہ اور جملہ اس قدر تکلیف دہ تھا کہ میں گویا دل ہی تھام کر بیٹھ گیا بعد میں میں راوالپنڈی سے لیکر کراچی تک نوکریاں بھی کرتارہا ،سٹریٹ لائٹس میں پڑھتا بھی رہا ،دودوروز بھوکا رہ کر بھی گزارہ کیا لیکن اللہ کی مہربانی سے ڈاکٹر بن کر ہی دم لیا اور ڈاکٹر بننے کے بعد میں نے اُن ”مہربان ڈاکٹر صاحب “کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی کہ جن کے ایک جملے نے مجھے شدید محنت کرتے ہوئے ڈاکٹر بننے کا جذبہ عطا کردیا تاکہ میں اُن کا شکریہ اداکرسکوں ڈاکٹر پیرزادہ میرپور کے اُن محسنوں میںسے ہیں کہ جنہوں نے بلا مبالغہ لاکھوں بیمار انسانوں کی خدمت کی اور ان کے مریض مریض نہیں بلکہ ان کے مرید ہیں ۔

قارئین ڈاکٹر پیرزادہ کی زندگی کے متعلق کتاب لکھنے کاکام جو مسز پیرزادہ مرحومہ نے ہمارے سپرد کیاتھا وہ ابھی پورا نہیں ہوا اور آنٹی خود خاموشی سے اس دنیا سے چلی گئیں ۔اُن کے بیٹے اور بیٹی اور دیگر اہل خانہ کا غم اپنی جگہ ہمیں اپنے آئیڈیل کی فکر ہے ڈاکٹر پیرزادہ اس وقت شدید صدمے کی کیفیت میں ہیں وہ مہربان شخصیت کہ جس نے ان کی ذات سے وابستہ تمام تلخیاں اور کانٹے چن کر ان کی زندگی میں خوشیاں بکھیریں وہ ان سے بہت دور ایک ایسے جہان میں چلی گئیں جہاں سے کوئی لوٹ کر واپس نہیں آتا لیکن مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم یقین رکھتے ہیں کہ ڈاکٹر پیرزادہ نے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی جس درد مندی کے ساتھ خدمت کی ہے وہ ذات پاک ان سے وابستہ سب سے قیمتی ہستی کا خیال رکھے گی اور ان کے درجات بلند کرے گی یہاں قدرت اللہ شہاب مرحوم ہی کے کچھ اشعار جو انہوںنے اپنی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر عفت کی وفات پر تحریر کیے تھے وہ آپ کی نذرکرتے ہیں
تہمت ِ آرزو ئے جاں کی خیر
عشق کے لامکاں کی خیر
ہم تو پھر بھی زبان رکھتے ہیں
یا خدا میرے بے زباں کی خیر

قارئین آپ سے بھی گزارش ہے کہ ڈاکٹر پیرزادہ کی اہلیہ مرحومہ کے درجات کی بلندی کیلئے دعا کیجئے اور ان کے اہل خانہ اور سب سے بڑھ کر ہمارے آئیڈیل ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ کے صبر اور استقامت کیلئے دست دعا بلند کیجئے ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374219 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More