مصنف: نوید المصطفی
نظام تعلیم،نصاب تعلیم اور تعلیم کے مقاصد کا تعین ہی دراصل کسی قوم کے
مستقبل کے تاریک یا روشن ہونے کا تعین کرتے ہیں۔ کسی بھی تعلیمی نظام کے
مقاصد کو اُس قوم کے مقصد وجود، اس کے اجتماعی نصب العین اور قومی امنگوں
سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔
نظام تعلیم کی اسی اہمیت و کردار کی وجہ سے پاکستان کی اسلامی شناخت کے
دشمن اور اسلام سے بیزار عناصر گاہے بگاہے ذرائع ابلاغ کے ذریعے تعلیمی
نظام پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں جس کا مقصد نسل نو کو اسلام سے بیزار کرنا
ہے۔ ایسی ہی ایک تازہ کوشش پاکستان کے نامور”گلوکار” شہزاد رائے کی طرف سے
۲ مارچ کے ٹی وی پروگرام “چل پڑھا”میں سامنے آئی ہے۔
دوسرے تمام اسلام بیزار عناصر کی طرح موصوف نے بھی اپنے آپ کو پاکستان کا
مخلص اور اسلام کا خیر خواہ ظاہر کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی کہ “تبدیلی
کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فرسودہ تعلیمی نظام ہے”۔۔۔۔ناظرین کے سامنے
اپنی اسلام بیزاری پر پردہ ڈالنے اور انہیں بیوقوف بنانے کیلئے اس جملے کو
بھی پروگرام کا حصہ بنایا گیا کہ “اسلام نصابی کتب میں تو بہت نظر آتا ہے
لیکن معاشرے میں نظر نہیں آتا”۔
سیکولر اور دین بیزار طبقے کی سب سے بڑی الجھن یہ ہے کہ ان کا تصور زندگی
توحید کا قائل نہیں۔ وہ نجی زندگی میں تو خدا کے وجود کے قائل ہیں لیکن
اجتماعی زندگی میں خدا کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اُس سے رہنمائی لی
جائے۔ان کے خیال میں مذہب چونکہ ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور ہر انسان
کا مذہب مختلف ہو سکتا ہے، اس لیے مذہب کو ریاست کے معاملات دخل نہیں دینا
چاہیے۔ یہاں “مذہب” کے عنوان میں اسلام سمیت تمام مذاہب کو زیر بحث سمجھا
جانا چاہیے۔
بالفاظ دیگر، چونکہ کوئی مذہب ،بشمول اسلام کے، سچا مذہب نہیں اور اسی وجہ
سے اس قابل بھی نہیں کہ انسان کے اجتماعی معاملات۔۔۔مثلا” سیاست،حکومت،
قانون، معیشت، تعلیم، ادب اور تاریخ وغیرہ۔۔۔۔میں راہنمائی کر سکے۔ مزید یہ
کہ مذہب/اسلام وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں، انسان کی ضرورتوں اور رجحانات
{مثلا جنس پرستی کی حمایت، شراب کی اجازت، مخلوط محافل وغیرہ} کا ساتھ نہیں
دے سکتا، اس لیے مذہب کو مسجد میں قید کر دیا جائے اور اجتماعی معاملات میں
ہدایت کا منبع اجتماعی انسانی شعور اور عقل کو تسلیم کر لیا جائے اور
اجتماعی معاملات سے اللہ کی آسمانی وحی کو نکال باہر کیا جائے۔
یہی زندگی کا منقسم، مشرکانہ اور توحید سے بیگانہ تصور زندگی ہے جس کے زیر
اثر شہزاد رائے صاحب سوال اٹھاتے ہیں کہ “اردو ایک زبان ہے۔اردو آپ پڑھ رہے
ہیں۔سوشل سٹدیز {معاشرتی علوم} پڑھ رہے ہیں۔اس میں اسلامیات {اسلام کی
تعلیمات} کیوں پڑھائی جاتی ہیں؟؟”
یہاں موصوف بڑی خوبصورتی اور معصومیت کے ساتھ ناظرین کو الجھانے اور اُن کے
اذہان کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ زبان کو کسی بھی قوم کے رہن سہن،تمدن، عقائد، تصورات اور
نظریہ زندگی۔۔۔۔۔جسے روایتی اصطلاح میں مذہب کہتے ہیں۔۔۔۔سے الگ کر کے نہیں
دیکھا جاسکتا۔ یہ تمام چیزیں زبان کے اندر اس طرح رچی بسی ہوتی ہیں جیسے
انسان کی رگوں میں شیر مادر یا پھر کچھ اس طرح ایک دوسرے میں جذب ہوتی ہیں
جیسے دریا سمندر میں اتر جائے۔
جس ملک کی ۹۸فیصد آبادی مسلمان ہو، کیا اس ملک کی قومی زبان کو اسلام،
اسلام کی تاریخ، اسلام کے ہیروز سے کاٹ کر پڑھایا جا سکتا ہے؟ یقینا زبان
خلا میں جنم نہیں لیتی اور نہ ہی جنگلوں میں پروان چڑھتی ہے۔ اس لیے زبان
کو اہل زبان کی سوچ، مذہب، تاریخ اور مقصد وجود سے الگ کر کے نہ تو پڑھا جا
سکتا ہے اور نہ ہی پڑھایا جانا چاہیے۔
مذکورہ پروگرام کے میزبان جناب شہزاد رائے صاحب نہ تو خود اسلام پسند ہیں
اور نہ ہی وہ تمام لوگ جنہیں انھوں نے “سائینسی محقق” اور “ماہر تعلیم” بنا
کر پیش کیا۔بلکہ یہ نام نہاد محقق اور ماہرین تعلیم اپنی نہاد میں اسلام
بیزار ہیں اور اپنی اسی سوچ کی وجہ سے پاکستان میں جانے پہچانے ہیں۔مزید یہ
کہ جس نظام تعلیم کو موصوف نے “مثالی” بنا کر پیش کیا اس کی جڑیں برطانیہ
کے نظام تعلیم میں پیوست ہیں۔ جبکہ برطانیہ کا نظام زندگی اور معاشرہ ہر گز
اسلام کا مطلوب نہیں، وہ اسلام کہ جس پر پاکستان کے وجود کا جواز ہے اور جس
کے بغیر پاکستان دنیا کے باقی ملکوں کی طرح صرف ایک ملک ہے ، بغیر نظریہ
اور مقصد وجود کے۔
موصوف نے اپنے پروگرام میں دو مختلف سکولوں کی کلاسز کا منظر دکھا کر یہ
تاثر پیش کرنے کی کوشش کی جیسے پاکستان میں ۹۸فیصد عیسائی اور ہندو آباد
ہیں اور اُن کی نئی نسل کو زبردستی اسلام کی تعلیمات دی جا رہی ہیں۔ جبکہ
حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان میں ۹۸ فیصد مسلمان آباد ہیں۔ اتنی بڑی
اکثریت کی نسل نو کو اس کے مذہب، نبی مہربان صل اللہ علیہ وسلم کے مقام،
اللہ کی عظمت اور اسلام کے ہیروز سے کیا صرف اس لیے بیگانہ کر دیا کہ ۲
فیصد اقلیت کی دل آزاری نہ ہو۔ اس صورتحال کا کوئی حل تلاش کیا جا سکتا ہے
مگر اسلام بیزار طبقے کی خواہشات کے مطابق پاکستان کے نظام تعلیم اور نصاب
تعلیم کو اسلام سے بیگانہ نہیں کیا جا سکتا۔
موصوف نے معروف کالم نگار جناب جاوید چوہدری کو بھی اپنے پروگرام میں شامل
کیا۔ وہ کہتے ہیں “بد قسمتی سے ہم نے یہ سوچ لیا کہ یہ پاکستان جو ہم نے
بنایا تھا کہ ہندو کی دشمنی میں بنایا تھا جبکہ ہم نے اس لیے بنا کہ ہمیں
آزادی چاہیے تھی”۔۔۔تو جناب محترم کالم نگار صاحب، اسے کہتے ہیں ڈنڈی
مارنا۔ اول تو آپ کا میڈیا نسل نو کو یہ بتاتا نہیں کہ پاکستان کیوں بنایا
گیا تھا، مستزاد یہ کہ “پڑھنے لکھنے کے سوا، پاکستان کا مطلب کیا” کے نعرے
ایجاد کر کے قوم کو ذہنی سطح پر الجھانے کی کوشش کرتا ہے یا پھر یہ تاثر
پیش کرتا ہے کہ ہمارے وجود کا جواز ہندو کی شاطر ذہنیت اور ہمارے مفادات کی
متحدہ ہندوستان میں مخالفت کرنا تھی۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ قائد اعظم کے الفاظ
میں “ہم نے پاکستان کا مطالبہ اس لیے کیا تھا کہ ہم یہاں اسلام کے اصولوں
کو آزما سکیں” اور تحریک پاکستان کے قائدین بالخصوص علامہ اقبال اور قائد
اعظم یہ دیکھ چکے تھے کہ متحدہ ہندوستان میں اسلامی نظام حکومت و معاشرہ کا
قیام اور اسلامی اصول و روایات کا نفاذ ہندو کی عددی برتری کے باعث ممکن
نہیں۔
ایک اور نام نہاد اور اسلام بیزار دانشور مذکورہ پروگرام میں کہتے پائے گئے
کہ ” کریکلم جیسا بھی ہو، ایسا نہ ہو کہ بچوں کے دلوں میں کسی طبقے، کسی
مذہب یا کسی ملک کے خلاف نفرت پیدا ہو”۔۔۔تو جناب دانشور صاحب سے میرا سوال
ہے کہ اگر مسلمانوں کا نظام تعلیم مسلمانوں پر یہ واضح نہیں کرتا کہ اسلام
کیونکر دوسرے مذاہب اور نظام ہائے زندگی سے مختلف ہے، کیونکر اسلام حقانیت
پر مبنی ہے اور دوسرے تمام مذاہب و نظام باطل ہیں اور کیوں دوسرے تصورات
زندگی اور نظام ہائے زندگی خدا کی نظر میں ناپسندیدہ ہیں تو پھر ایسے نظام
تعلیم کو مسلمانوں کا یا کسی مسلم ملک کا نظام تعلیم نہیں کہنا چاہیے۔پھر
آپ نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ ان حقیقتوں کے ذہن نشین کرنے سے نفرت پھیلے
گی۔ اگر نسل نو کو یہ بتایا جائے کہ اسلام ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں
کو اپنی نجی زندگی اپنے مذہب کے مطابق گزارنے کی اجازت دیتا ہے تو مجھے
نفرت پیدا ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
جہاں تک بات ہے کسی دوسرے ملک سے نفرت کا تو غالبا” دانشور صاحب کا اشارہ
بھارت کی طرف ہے۔ تو عرض ہے کہ جس ملک نے پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے میں اپنا
کردار پوری خوش اسلوبی سے ادا کیا ہو، جس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا
ہو، جس نے سیاچین سے لیکر سرکریک تک مسائل کھڑے کیے ہوں اور جس نے ایک سال
تک پاکستان کا حصہ رہنے والی ریاستوں، جوناگڑھ اور مناودار، پر بزور قوت
قبضہ کر رکھا ہو، اُس ملک کے گھنائونے کردار سےنسل نو کو کیوں آگاہ نہ کیا
جائے؟؟
جناب شہزاد رائے صاحب مذکورہ پروگرام کے شروع میں کہتے “پچھلی قسط میں ہم
نے دیکھا کہ ہمارے نصاب کی کتابوں کا بوسیدہ اور فرسودہ پن کس طرح تبدیلی
کے راستے میں دیوار ہے”۔ پھر موصوف اس اجمال کی تفصیل پیش کرتے ہوئے سوال
اٹھاتے ہیں “اردو اور معاشرتی علوم میں اسلامیات کیوں پڑھائی جاتی
ہے؟”۔یعنی بین السطور ناظرین کے اذہان میں یہ بات اتارنے کی کوشش کی گئی ہے
کہ اسلام، اس کی تعلیمات، مسلمانوں کے ہیروز، نبی صل اللہ علیہ وسلم کا
مقام وغیرہ سب بوسیدگی اور فرسودہ پن کی علامتیں ہیں۔ جب تک ہم بوسیدگی کی
ان علامتوں کو ختم نہیں کریں گے، ترقی نہین کر سکتے۔ یہ ہے نام نہاد ترقی
پسند اور اسلام بیزار طبقے کا ذہنی سانچہ۔
اس تمام معاملے پر حکومت سے کسی قسم کی شنوائی یا اقدام کی توقع رکھنا عبث
ہے کیوں کہ حکومت پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی جیسی اسلام بیزار
قوتوں کے ہاتھوں میں ہے جبکہ ذرائع ابلاغ میں بھی انھی عناصر کا غلبہ نظر
آتا ہے۔ یہ ذمہ داری اسلام پسند طبقے کی ہے ہر دستیاب ذریعے سے شہزاد رائے
اور اس قبیل کے دوسرے اسلام بیزار عناصر کی سازشوں کو بے نقاب کیا جائے۔
نوٹ:
اسلام پسندوں سے میری مراد تمام وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں اسلامی نظام
زندگی و حکومت کا قیام چاہتے ہیں اور اسلام کو ایک مکمل ضابطہء حیات سمجھتے
ہیں جبکہ میں نے سیکولر سوچ کے حامل لوگوں کیلئے “اسلام بیزار” کی اصطلاح
استعمال کی ہے۔ اگر کسی کو چبھن محسوس ہو تو کوئی متبادل اصطلاح بتا دے
کیوں کہ مجھے تو یہی اصطلاح اس طبقے کی سوچ کی صحیح ترجمان محسوس ہوتی ہے۔ |