انسانی تہذیب اور تمدن کے
ارتقائی عمل پر اگر ہم نظر دوڑائیں توواضح ہوتا ہے کہ بحیثیت فرد،قوم یا
تہذیب ہمیشہ سے انسانوں کے درمیان شناخت کازریعہ اظہارنہایت اہمیت کا حامل
رہا ہے شناخت کے اس سفر کا ایک دلکش روپ وہ خوبصورت نقش و نگار ہیں جو
انسانوں نے اپنی اپنی سوچ اور سماجی عادات و اطوار کے زیر اثر رہتے ہوئے
نشانات (Symbol) یا اشکال کی صورت میں تخلیق کئے ہیں ریاستوں کے لئے تشکیل
کردہ ان جداگانہ انداز کے نشانوں کو عالمی سطح پر Coat of Armsیا Emblemکہا
جاتا ہے جن کے پس منظر سے ان ممالک یا اقوام کی تہذیبی ،ثقافتی اور مذہبی
شناخت جھانک رہی ہوتی ہے۔
تاریخی پس منظر:
ماہرین آثار قدیمہ نے جب سائنسی بنیادوں پر اپنی تحقیقات کو حل کرنا شروع
کیا تو انہوں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ مخصوص نسلوں یا قوموں کے دریافت
شدہ مٹی کے بعض ظروفوں پر کہیں نہ کہیں مخصوص انداز کے نقش بنائے جاتے تھے
مثلا موہن جو داڑو سے دریافت ہونے والے اکثر برتنوں پر مخصوص نسلوں کے
بیلوں کی شبیہ نقش تھی اسی طرح اہل مصر، بابل، نینوا ،چینی، رومن اور
دیگرتہذیبوں سے بھی مخصوص علامات پر مشتمل آثار دریافت ہوئے جس سے واضح
ہوتا ہے کہ یہ علامات دراصل ان اقوام کی انفرادی شناخت کا اظہار رہی ہوں گی
یہی وجہ ہے کہ ان علامات اور نشانات کو ماہرین آثاریات متفقہ طورپراولین
زمانے کے کوٹ آف آرمز مانتے ہیں تاہم پانچویں صدی عیسوی سے لیکر سہولویں
صدی کے اختتام تک کا زمانہ یعنی عہدِ وسطی (Middle Ages) میں جب یورپی
اقوام کے درمیان جنگیں عروج پر تھیں کوٹ آف آرمز کا باقاعدہ ریکارڈ ملتا ہے
کیوں کہ اس زمانے میں فوجیں اپنی سپاہ کی پہچان کے لئے مخصوص نشانات پر
مشتمل وردیاں پہنتی تھیں خصوصا جب کسی فوج کا ایلچی اپنی مخصوص شناخت کے
ساتھ دشمن فوجوں میں بھیجا جاتا تھاتو وہ اپنے سر پر پہنے والے آہنی خود
اور لباس پر مخصوص نشانات یا علامات منقش کرکے بھیجا جاتا تھا تاکہ اس کی
شناخت دور سے ہوجائے اور اسے نقصان نہ پہنچے اسی مناسبت سے وقت گذرنے کے
ساتھ ساتھ ان نشانات کو Coat of Armsکہا جانے لگا۔واضح رہے اس زمانے میں
زیادہ تر کوٹ آف آرمز کی تراش خراش کا تانا بانابنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں
کے شناختی نشانوں سے جوڑا جاتا تھا تاہم مسلمان افواج اپنے فوجی لباسوں پر
شناختی علامات کے بجائے پرچم یا علم پر نشان بناتے تھے ۔
1484تک کوٹ آف آرمز یا ریاست کی شناختی علامت کے انتخاب کے لئے کوئی قوانین
موجود نہیں تھے چناچہ ہر سپاہی، فردیا ادارہ اپنی مرضی کے نشانات تخلیق
کرکے انہیں اپنے حوالے سے منسوب کرلیتا تھا جس سے اکثر اوقات ایک جیسے
نشانات کے کئی دعوے دار سامنے آجاتے تھے تاہم 1484میں جب برطانیہ میں
ہیرالڈ کالج قائم ہوا تو اس نے نہ صرف قوانیں وضع کئے بلکہ یورپ کی سطح پر
ہر ملک، فرد یا ادارے کو اپنا امتیازی نشان(Coat of Arms) رجسٹرڈ کرانا
لازمی قرار دے دیایہ سلسلہ براعظم یورپ اور اس کے زیر اثر ملکوں میں دوسری
جنگ عظیم کے بعد تک رائج رہاواضح رہے1528میں اس مقصد کے لئے ایک فوجی
آفیسرمیجر مارشل کی نگرانی میں پورے یورپ میں سروے بھی کرایا گیا تھا۔
سہولویں صدی کے بعد یورپ کے تیسرے دور یعنی زمانہ جدید (Modren Ages) میں
اکیسویں صدی میں بھی بڑے پیمانے پر Coats of Armsکا بھرپور استعمال ہورہا
ہے یہ نشانات نہ صر ف ریاستوں کی بین الاقوامی شناخت بن چکے ہیں بل کہ کئی
خاندانوں، افراد ، کھیلوں ، کاروباری،تعلیمی اور مذہبی اداروں میں عرصہ
درازسے رائج ہیں واضح رہے ان نشانات کے بنانے،نمائش کرنے، بیان کرنے اور
جمع کرنے کے علم کو Heraldryکہا جاتا ہے مشہور برطانوی تاریخ دان ویلنٹائن
گروبنر اپنی مشہورکتاب The Visual Culture of Violence in the Late Middle
Agesمیں رقمطراز ہے کہ مختلف اقوام کے کوٹ آف آرمز دراصل ان کی شان و شوکت
اورفوجی طاقت کااظہار ہیں اسی طرح ایک اور مصنفہ ہیلین اسٹیورٹ لکھتی ہیں
کہ پوری قوم کا ایک مشترکہ کوٹ آف آرمز دراصل ان کی منظم قوت کا مظہر ہے۔
موجودہ عہد میں کوٹ آف آرمز کو سرکاری یا ریاستی نشانات کہا جاتاہے جن میں
سے کچھ چیدہ چیدہ ممالک کے Coats of Armsکی تفصیلات حروف تہجی کی ترتیب سے
کچھ اس طرح ہیں۔
افغانستان:
بنیادی طور پر افغانستان کا موجودہ سرکاری نشان(Emblem)کئی تبدیلوں سے گذر
کر موجودہ شکل میں دکھائی دیتا ہے یہ نشان 1980میں کمیونسٹ دور حکومت میں
متروک قرار دے دیا گیا تھا تاہم 1990میں طالبان کی آمد کے بعد اس میں کچھ
تبدیلیاں کی گئیں جو ابھی تک موجود ہیں گہرے سرخ رنگ پر مشتمل اس مربع نشان
میں سب سے اوپر ایک چوتھائی دائرے کی قوسی شکل میں کلمہ طیبہ درج ہے جس کے
نیچے اللہ اکبر کے الفاظ جگمگا رہے ہیں پھر ایک مسجد کی شبیہ ہے جس کی
محراب کے اندر جائے نماز بچھی نظر آتی ہے مسجد کے میناروں کے درمیان میں دو
پرچم لہرا رہے ہیں جب کہ سب سے نیچے افغانستان لکھا ہوا ہے واضح رہے مسجد
کے اردگرد دائرے کی شکل میں ہار سے آرائش کی گئی ہے ۔
ایران:
انقلاب ایران 1979کے بعد تشکیل کردہ کوٹ آف آرمزجسے ’’حامد نادیمی‘‘ نے
بنایا تھا اور جسے امام خمینی نے 9مئی 1980میں منظور کیا تھا چار سیاہ
ہلالوں اوردرمیان میں ایک تلوار پر مشتمل ہے جو مجموعی طور پر اللہ کا لفظ
بنتا ہے تلوار کے اوپر تشدید کانشان ہے جو لفظوں کی دوہری ادائیگی کے لئے
استعمال ہوتا ہے اس لحاظ سے تلوار کو دوہری قوت کا مظہر بتایا گیا ہے اسی
طرح لفظ اللہ جس انداز میں لکھا گیا ہے وہ گل لالہ کے پھول کی شکل بنتی ہے
یہ شکل شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اختیار کی گئی ہے کیوں کہ
روایت کے مطابق ماضی میں ایران میں وہ سپاہی جو نوجوانی میں جنگ میں مارے
جاتے تھے ان کی قبروں پر گل لالہ کے پھول اگتے تھے ۔
آسٹریلیا:
آسٹریلیا کا کوٹ آف آرمز سب سے پہلے کنگ ایڈورڈ ہفتم نے سات مئی 1908میں
تشکیل دیا تھا جب کہ اس کی تبدیل شدہ موجود شکل19ستمبر 1912میں کنگ جارج
پنجم کے حکم پر کی گئی بنیادی طور پر اس نشان میں اہمیت ڈھال (Sheild)کی ہے
جس میں آسٹریلیا کی چھے ریاستوں کے پرچم بنے ہیں جب کہ اس کے اوپرسات کونوں
والا ستارہ آویزاں ہے جس سے مراد چھے ریاستیں اور ایک کونا آسٹریلیا کے
مختلف مقبوضات کی نشان دہی کرتا ہے اس سرکاری نشان میں آسٹریلیا میں پائے
جانے والا سرخ کنگرو اورEmuنسل کے شترمرغ سے ملتے جلتے پرندے نے شیلڈ کو
دائیں اور بائیں جانب سے تھاما ہوا ہے ان دونوں جانوروں کو نشان میں شامل
کرنے کی بنیادی وجہ ان جانوروں کی صرف آگے کی طرف چلنے کی صلاحیت ہے یہ مڑے
بغیر پیچھے نہیں چل سکتے جو دراصل آسٹریلیا کے آگے بڑھنے کی لگن کو ظاہر
کرتے ہیں کوٹ آف آرمز کے پس منظر میں پتیاں پھیلی ہوئی ہیں جن کے درمیان
آسٹریلیا لکھا ہوا ہے۔
آزربائیجان:
آزربائیجان جس کے لغوی معنی ’ ابدی آگ کی سرزمین’ ہیں کے درمیان سرخ رنگ سے
لفظ اللہ لکھا ہوا ہے جو دور سے دیکھنے پر سرخ رنگ کا شعلہ نظر آتا ہے جب
کے نشان کا احاطہ چار سنہرے،نیلے ،سرخ اور سبز دائروں نے کیا ہوا ہے ان
دائروں کے اوپر آٹھ کونوں کا ستارہ غالب نظر آتا ہے جس کے درمیان لفظ اللہ
لکھا ہوا ہے نشان کے نیچے گندم کی بالیاں اور شاہ بلوط کے پتے ہیں۔
انڈیا:
انڈیا کاسرکاری نشان 250قبل مسیح میں اشوکا عہد کا دریافت شدہ چار رخی شیر
کا بت ہے جن کی پشت آپس میں جڑے ہونے کے باعث تین شیر نظر آتے ہیں ان شیروں
کے قدموں میں دائرے کی شکل میں سرپٹ دوڑتا ہوا گھوڑا، ہاتھی ، بھینسا اور
شیر بنے ہوئے ہیں جنہیں درمیان سے دھرما چکر یا اشوک چکر علیحدہ کرتانظر
آتاہے نشان کے نیچے مذہبی نظم وید کا ایک مصرعہ’’ سچ ہی کو فتح ہوتی ہے‘‘
دیوناگری رسم الخط میں کنندہ ہے واضح رہے یہ نشان سرکاری طور پر 26جنوری
1950میں یوم جمہوریہ کے موقع پر منتخب کیا گیا تھا۔
ارجنٹائن:
جنوبی امریکہ کے ملک ارجنٹائن کا کوٹ آف آرمز اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ اس
میں مچھلی شکار کرنے کی چھڑی پر سرخ رنگ کی ٹوپی(Phrygian Cap)کو آزادی کی
حفاظت کرتے ظاہر کیا گیا ہے واضح رہے یہ ٹوپی اور چھڑی اہل روم کے وہ غلام
پہنتے اور چھوتے تھے جنھیں آزاد کردیا جاتا تھا جب کہ بیضوی شکل کے ہار سے
سجے اس نشان کے اوپر ابھرتے ہوئے چمکتے سورج کی شبیہ موجود ہے بیضوی دائرے
کے پس منظر میں پرچم کی طرح نیلا اور سفید رنگ واضح ہے درمیان میں دو
مصافحہ کرتے ہاتھ دکھائی دیتے ہیں جو ارجنٹائن میں موجود تمام قوموں میں
اتحاد،امن اور دوستی کی علامت ہیں۔
بنگلا دیش:
بنگلا دیش کے سرکاری نشان میں نرگس (Water Lily)کا پھول غالب نظر آتا ہے جب
کے نشان کے اطراف میں چاولوں کے دانوں کو جوڑ کر حد بندی کی گئی ہے جو ملک
میں چاول کی پیداوار اور اہمیت کو
ظاہر کرتی ہے اسی طرح پھول کے اوپر دائیں اور بائیں جانب چار ستارے ہیں جو
بنگلادیش کے چار آئینی اصول نیشنل ازم، سیکولر ازم، سوشل ازم اور جمہوریت
کے غماز ہیں ان ستاروں کے درمیان چائے کے اور لونگ کے پودے کی تین پتیاں
بنی ہوئی ہیں نشان کے درمیان ایک اور اہم چیز دریائی لہریں ہیں جو بنگلادیش
میں رواں دواں دریاوں کو ظاہر کرتی ہیں۔
برازیل:
برازیل کا موجودہ سرکاری نشان 19نومبر1889میں اس وقت تشکیل دیا گیا جب
برازیل جمہوریہ قرار پایا تھا نشان کو دائیں جانب سے تمباکو اور بائیں جانب
سے کافی کے پودوں کی شاخوں نے گھیرا ہوا ہے نشان کے درمیان میں پانچ کونے
والا ستارہ ہے جس کے سامنے ایک نیلے رنگ کا دائرہ ہے جس میں 27ستارے برازیل
کی26ریاستوں اور ایک فیڈریشن کو ظاہر کرتے ہیں دائرے کے نیچے صلیب کا نشان
تلوار کی صورت میں بھی نظر آتاہے جب کے نشان کی نچلی سمت میں برازیل کا
سرکاری نام اور جمہوریہ قرار دینے کی تاریخ درج ہے ۔
برونائی دار لسلام :
دنیا کے دولت مند ترین اسلامی ملک برونائی کا سرکاری نشان اس کے پرچم کا
بھی اہم حصہ ہے مکمل طور پر گہرے سرخ رنگ کا یہ نشان 1932میں اختیار کیا
گیا تھا جس کے پانچ اہم حصے ہیں جن میں پرچم ، شاہی چھتری، پر یا بازو،
ہاتھ اور ہلال شامل ہے ہلال میں عربی زبان میں ’خدمت خدا کی رہنمائی میں‘
درج ہے جب کے نشان کے بالکل نیچے عربی ہی میں ملک کانام برونائی دارالسلام
لکھا ہوا ہے پروں کا مقصد انصاف اور امن کا تحفظ ہے جب کے ہلا ل اسلام کی
علامت اور ہاتھ عوام کے تحفظ کے ضامن ہیں۔
پاکستان:
پاکستان کا ریاستی نشان مجموعی طور پر ہرے رنگ پر مشتمل ہے جسے 1954میں
اختیار کیا گیا اس نشان میں سب سے اوپرسبز ہلال اور ستارہ ہے جو اسلامی
تشخص کا مظہر ہے جب کے درمیان میں ڈھال (Shield)ہے جو چار حصوں میں منقسم
ہے جس میں اُس وقت کی اہم فصلیں کپاس، پٹ سن،چائے اور گندم کی اشکال ہیں اس
ڈھال کے اردگرد پھولوں کی لڑی ہے جو مغل آرٹ سے اخذ کی گئی ہے جب کہ نشان
کے سب سے نیچے بابائے قوم کے تاریخی اصول ایمان، اتحاد اور نظم اردو میں
ایک بینر میں درج ہیںیہ نشان پاکستان کے پاسپورٹ اور سرکاری کاغذات کا اہم
حصہ بھی ہے۔
چین :
چین کا سرکاری نشان 20ستمبر1950میں تشکیل دیا گیا ہے جسے Liang Sicheng نے
ڈیزائن کیا تھا اس نشان کا امتیاز دائرے میں موجود تن یا من گیٹ(Forbidden
City) کا عکس ہے اس کے علاوہ دائرے کے اندر اوپری جانب پیلے رنگ میں ایک
بڑا اور چار چھوٹے ستارے ہیں یہ پرچم سے لئے گئے ہیں جو چین کی قومی یکجہتی
کی علامت بھی ہیں دائرے کا احاطہ گندم کی بالیوں سے کیا گیا ہے جو زرعی
انقلاب کی علامت ہے جب کے نشان کے نیچے کی جانب مشینی پہیہ بنا ہوا ہے جو
صنعتی ترقی کا اظہار ہے ماؤ زے تنگ کے عظیم لانگ مارچ کے بطن سے تشکیل د ئے
جانے والے اس سرکاری نشان کا پس منظر مکمل طور پر سرخ رنگ پر مشتمل ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ:
اگرچہ مغرب میں 13کے ہندسے کو منحوسیت کی علامت سمجھا جاتا ہے مگر امریکہ
کا سرکاری نشان 13کے ہندسے کا بھرپور مرقع ہے جو اس کی اولین تیرہ ریاستوں
کا اظہار بھی ہے دراصل یہ سرکاری نشان امریکہ کی سرکاری مہر(Great Seal) کے
سامنے کے حصے سے لیا گیا ہے جسے 1782سے استعمال کیا جارہا ہے جس میں ایک
گنجی نسل کی چیل اپنے پروں کو پھیلائے ہوئے ہے جس کے دائیں جانب کے
پنجوں میں13زیتون کی شاخیں جن پر تیرہ زیتون کے پھل بھی ہیں اور بائیں جانب
کے پنجے میں 13عدد تیر ہیں جو بیک وقت امریکہ کی امن اور جنگ کی سوچ کو
ظاہر کرتے ہیں چیل کا چہرہ زیتون کی شاخوں کی جانب ہے اور اس نے اپنی چونچ
میں ایک پٹی پکڑی ہوئی جس پر تیرہ حروف میں لاطینی زبان میں pluribus unum
یعنی ’ ’کئی میں ایک‘‘رقم ہے جب کے چیل کے سر کے اوپر نیلے پس منظر میں
تیرہ ستارے جگمگا رہے ہیں اسی طرح چیل کے سینے پر بنی ڈھال جو امریکہ کے
پرچم کو ظاہر کرتی ہے اس میں بھی تیرہ پٹیا ں ہیں۔
سعودی عرب:
1950سے اختیار کردہ سعودی عرب کا سرکاری نشان نہایت سادہ اورپر وقار ہے جس
میں دو خمیدہ دھاری دار تلواریں ایک دوسرے کو قطع کرتی ہوئی دکھائی دیتی
ہیں جن کے اوپر کھجور کا سرسبز درخت بنا ہوا ہے تلواریں جدید سعودی عرب کے
دو خاندانوں آل وہاب اور آل سعود سے وابستگی کو ظاہر کرتی ہیں اس کے علاوہ
تلواروں کو انصاف اور طاقت کے اظہار کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہے جب کہ
کھجور کا درخت زندگی اور افزائش کی علامت ہے ۔
سوئٹزرلینڈ:
سوئٹزرلینڈ کاریاستی نشان ایک سرخ رنگ کی نیم بیضوی ڈھال پر سفید رنگ کی
صلیب سے آراستہ ہے جو سوئٹز ر لینڈ کے پر چم پر بھی ہے ۔
فرانس:
عموما جو نشان ملکوں کے پاسپورٹ پر ہوتے ہیں وہی ان کے سرکاری نشان کہلاتے
ہیں لیکن فرانس ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس کے پاسپورٹ پر بنا نشان اس
کا سرکاری نشان یا Coats of Armsنہیں ہے تاہم 1953میں جب اقوام متحدہ نے
فرانس سے درخواست کی کہ وہ اپنے سرکاری نشان کی وضاحت کرے تاکہ اسے دیگر
ممالک کے ساتھ گیلری میں آویزاں کیا جاسکے تو فرانس کی جانب سے مشہور آرٹسٹ
رابرٹ لوئیس کو یہ زمہ داری دی گئی انہوں نے جو نشان تشکیل دیا اس میں ایک
ڈھال ہے جس کے اوپر شیر کا سر بنا ہوا ہے ڈھال کے درمیان RFلکھا ہوا ہے جو
ری پبلک آف فرانس کو ظاہر کرتا ہے اس کے علاوہ شاہ بلوط اور پھولوں کی
پتیاں بنی ہوئی ہیں جب کے لکڑیوں کے دائرے میں سے کلہاڑی طاقت کے ا ظہار کے
طور پر ابھرتی دکھائی دیتی ہے۔
مصر:
مصر Coat of Armsکی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے تاہم مصر کا موجودہ سرکاری
نشان سنہری عقاب کی شکل میں ہے جس کے قدموں میں عرب جمہوریہ مصر لکھا ہوا
ہے عقاب کے سینے پر ڈھال ہے جس میں عمودی پٹیوں میں مصر کا پرچم بنا ہوا ہے
بعض مورخین اس عقاب کو عظیم سپہ سالار صلاح الدین ا یوبی کے حربی نشان سے
بھی وابستہ کرتے ہیں کیوں کہ یہ نشان صلاح الدین ایوبی کے تعمیر کردہ قلعے
کی مغربی دیوار پر دریافت ہوا تھا۔
نائجیریا:
افریقی ملک نائجیریا کے کوٹ آف آرمز میں ایک سیاہ ڈھال ہے جس پر دو سفید
پٹیاں انگریزی کے حرف Yکی طرح بنی ہوئی ہیں جو وہا ں بہنے والے دو دریا’
بینو ‘اور’ نائجر‘کی نشان دہی کرتی ہیں جب کہ ڈھال کے دائیں بائیں دو سفید
گھوڑے عظمت اور اوپری جانب ایک چیل طاقت کی علامت کے طور پر آویزاں ہے جب
کے نشان کی زیریں جانب سبزہ اور پھول نائجیریا کی سرزمین کی زرخیزی کی
علامت کے طور پر دکھائے گئے ہیں ۔
نیپال:
نیپال میں سول وار کے بعد 30دسمبر 2006کو نیا سرکاری نشان تشکیل دیا گیا ہے
جس میں نیپال کا پرچم، ماؤنٹ ایورسٹ، سرسبز پہاڑیاں، مرد عورت کا مصافحہ
کرتا ہوا ہاتھ، نیپال کاسفید رنگ کا نقشہ اور قومی پھول Rhododendronsسے
بنا ہوا ہار نشان کے چاروں جانب موجود ہے جب کے نشان کے نچلی جانب سنسکرت
میں تحریر ہے کہ ’ماں اور دھرتی ماں جنت سے زیادہ عظیم ہیں‘ واضح رہے اس
نشان سے قبل سرکاری نشان مکمل طور پر شہنشاہیت کی ترجمانی کرتا تھا ۔
یونان:
یونان بھی Coat of Armsکی طویل تاریخ رکھتا ہے تاہم موجودہ سرکاری نشان
7جون 1975میں تخلیق کیا گیا جسے مشہور مصورKostas Grammatopoulosنے بنایا
تھایہ ایک سادہ سا نشان ہے جس پر بنی ڈھال پر نیلے پس منظر میں سفید صلیب
بنی ہوئی ہے جس کے اردگرد و آرائشی پتیوں کی جھالریں ہیں ۔
عراق:
عراق پر امریکی جارحیت کے نتیجے اور نئی حکومت کی تشکیل کے باعث اس وقت
عراق کا کوئی سرکاری نشان (Coat of Arms)نہیں ہے تاہم 2008کے اختتام تک
عراق کا سرکاری نشان مصر کی مانند ہی تھا جس کے نچلے حصے پر الجمہوریہ
العراقیہ لکھا تھا جب کے ڈھال پر پرچم کے رنگوں کے درمیان اللہ اکبر لکھا
تھا اس کے علاوہ جاپان ، برطانیہ اور اسپین کے سرکاری نشان دراصل وہاں پر
قائم بادشاہت سے منسلک ہیں اور شاہی حکمرانوں کی اجازت سے استعمال کئے جاتے
ہیں ۔ |