بلوچوں کو ان حالات میں کلچر ڈے
کا تصور کیسے آیا .وہ کیسے بھول گئے پنجگور میں ریاستی دشتگرد آپریشن کو؛وہ
کیسے بھول گئے آئے دن پھینکے گئے اپنے بلوچ بھائیوں کی لاشوں کو جو سڑکوں
اور کچرادانوں میں پھینکے گئے ہیں اور معمول کے مطابق پھینکے جارہے ہیں ،وہ
کیسے بھول گئے اپنے اوپرجاری ریاستی دشتگردی کو، ریاستی بربریت کو، ریاست
کے ہاتھوں اپنے بےگناہ بلوچوں کی قتل عام کو، وہ کیسے بھول گئے اپنے بہنوں
کی عزت کی پامالی کو، وہ کیسے بھول گئے بلوچ چادرچاردیواری کی بےحرمتی
اورپامالی کو،وہ کیسے بھول گئے شہدائے بلوچ کوجنہوں نے اپنی خون سے اس
مادروطن کی آدھی پیاس بجاھی ہے. وہ کیسے بھول گئے بلوچ تحریک کو، وہ کیسے
بھول گئے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں ڈاکٹر اللہ نذربلوچ کی بوڑھی ماں کے
ساتھ کی گئی بےحرمتی اور زیادتی کو،وہ کیسے بھول گئے اپنی پیاری نننی بہن
شہید بختی کو جسکی عمر٤ سےلیکر٦ سال تھی..
افسوس صد ہزار افسوس ان لوگوں پر جو ان تمام ریاستی بربریت،دشتگردی اور
پاکستانی فورسز کے ہاتھوں آئے دن بلوچوں کی قتل عام پر ماتم بنانے کے
بجاۓ،کلچر ڈے منانے پر تلے ہوئے ہیں. ہمیں ان حالات میں کلچر ڈے نہیں بلکہ
مرڈر ڈے منانا چاہیے ہے .اور بین الاقوامی طور یہ سلیبریٹ کرنا اور دیکھانا
چاہیے ہے؛ کے یہاں اسلامی جمہوری ملک پاکستان میں کسطرح انسانیت کی آئے دن
سرعام سڑکوں، گلیوں میں قتل هورہی ہے. ان سب بربریت، دشت گردی کو مدنظر رکھ
کر ہمیں اپنی کلچر کو نہیں بلکہ بلوچ شہدا کی لاشوں قربانیوں سے دنیا کو
دیکھانا کہ بلوچ ایک زندہ قوم ہے اور وہ اپنے اوپر کسی قسم کی غلامی اور
زوراکی کو لاگو ہونے نہیں دیگا .. |