سانحہ بادامی باغ میں مسلمانوں
کے بھڑکے ہوئے جذبات اور لوگوں کے جلتے ہوئے گھر دیکھتا ہوں تو سمجھ نہیں
آتی کس بات کا ماتم کروں؟اپنی بے عملی پر ماتم کروں؟اپنے نبی کریمکی شان
میں گستاخیاں دیکھ سن کر بھی زندہ اور کچھ نہیں کرسکتا کیا اپنی بے بسی کا
ماتم کروں ؟یا جلتے ہوئے آشیانوں کا ماتم کروں ؟جن گھروں کو جلا دیا گیا
یقینا اُن میں بسنے والوں میںبوڑھے ،بچے اور خواتین بھی ہیں ،میں کوئی عالم
دین نہیں لیکن ایک عاجز سا مسلمان ضرور ہوں ،میں سوال کرتا ہوں اُن
مسلمانوں سے کہ بتاﺅوہ بچے ابھی جن کی عمریں چار۔پانچ سال ہیں اور انہوں
مسلمانوں کو اپنے گھر جلاتے دیکھا وہ کس عمر میں اسلام قبول کریں ؟وہ کب
ہمارے نبی کریم سے محبت کریں گے ؟جب کہ وہ چھوٹی سی عمر محبت کادم بھرنے
والوں کا عظیم کارنامہ دیکھ چکے ہیں جس نے اُن کے سرکی چھت چین لی ۔جب ہم
کہیں گے کہ ہمارے نبی کریم نے ہمیں درگزر ،برداشت اور معاف کرنے کی تلقین
فرمائی ہے اور اپنی ساری زندگی اِن تمام اعمال کی پابندی کی ہے تو کیا کوئی
ہماری باتوں کااعتبارکرئے گا؟کون اعتبار کرے گا کہ ہم عاشق رسول ہیں ؟جب ہم
عشق رسول کا دم بھرتے ہیں ،جب ہم اپنے آپ کو غلام رسول کہتے ہیں تو پھر ہم
جلدی سے عدم برداشت کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں ؟ایک شخص رسول اللہ کی شان میں
گستاخی کرتا ہے اور ہم پوری پوری بستیاں کیوں جلا دیتے ہیں؟صرف اس لیے کہ
وہ مسلمان نہیں ہیں ؟صرف اس لیے کہ وہ رسول اللہ کی شان پاک میں گستاخی کی
جرات کرنے والے بد بخت شخص کے رشتہ دار یا ہم مذہب ہیں؟ اگر ایسا ہے تو میں
پوچھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی حضرت محمدکو رحمت العلمین
کیوں بنایا ؟جبکہ تمام کائنات میں مسلمان کوئی بھی نہ تھاتمام کی تمام
مخلوقات غیر مذہب تھیں ،اسلام تو میرے نبی کریم نے متعارف کروایا ۔مسلمان
تو لوگ میرے اور آپ کے پیارے نبی کریم حضرت محمد کے حسن کردار اور حسن سلوک
کی وجہ سے ہوئے ۔اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمام انسانوں کواسلام میں داخل
کردیتا مگر ایسا نہیں اور ان باتوں میں کیا حکمت ہے یہ بھی وہی جانتا ہے۔
کیا سرکار دوعالم کی عملی زندگی مسلمانوں کے لیے کوئی سبق پیش نہیں
کرتی؟اور پھر جس سے محبت ہو جائے لوگ نہ صرف اُس کے اعمال بلکہ رنگ ،ڈنگ
اور چال چلن بھی اپناتے ہیں اور اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کوئی ایسا
کام نہ کیا جاے جس کی وجہ اُن کا محب ناراض ہوجائے۔میں علماءاکرام اور
مذہبی سکالرز کی خدمت میں نہایت ادب کے ساتھ یہ سوال رکھتا ہوں کہ کیا ہوا
جو آج مسلمان اپنے نبی کریم سے شدید محبت کرنے کے باجود اُن کی تعلیمات کو
اپنی زندگیوں میں شامل نہیں کرتے ؟کیوں مسلمان سرکار دوعالم کا چال چلن
نہیں اپناتے ؟میرے پاس تو ایک ہی جواب ہے سب سوالوں کا وہ یہ کہ ہمارے
علماءاکرام نے ہمیں اچھی طرح گائیڈ ہی نہیں کیا،ہماری رہنمائی ہی نہیں ہوئی
ورنہ اتنا خوبصور ت انداز زندگی کون نہ اپنانا چاہے ؟آپ اکثر دیکھتے ہیں جب
کوئی انڈین فلم نوجوانوں کو زیادہ پسند آجاتی ہے یعنی چند دن کے لیے مقبول
ہوتی ہے تو ہمارے نوجوان یہ جانتے ہوئے کہ فلم دولت اور شہرت کمانے کے لیے
فرضی کرداروں کی مدد سے بنائی گئی ایک من گھڑت کہانی کے سوا کچھ نہیں ،پھر
بھی نوجوان مہینوں تک اُس فلم کے اچھے عمل کرنے والے کرداروں کی طرح
گفتگوکرتے ہیں ،اُن کی طرح بال کٹواتے ہیں،اُن کی طرح چلتے پھرتے ہیں ،حتیٰ
کہ اُس کردار کا ہر عمل اپناتے ہیں اور سالوں تک ان چیزوں کے اثرات قائم
رہتے ہیں ۔آخرایسا کیوں ہوتاہے ؟مجھے لگتا ہے کہ فلم بنانے والے اپنے
ہیرومیں ایسی خوبیاں دیکھاتے ہیں جن میںوہ کسی مخلوق کو تکلیف نہیں دیتا
بلکہ تکلیف پہچانے والوں سے لڑائی کرکے اُن کے حقوق کا خیال رکھتا ہے ۔فلمی
کردار جھوٹ نہیں بولتا ،وہ کسی کودھوکہ نہیں دیتا ،وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا
،وہ کسی کے گھر ،کھیت پر ناجائزقبضہ نہیں کرتا ، یہی باتیں لوگوں کے دل
میںاتر جاتی اور لوگ انکے اعمال کو اپنی زندگی میں جگہ دینے پر مجبور
ہوجاتے ہیں ۔میرے خیال میں مسلمان کے گھر پیدا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ میں
اسلام کاعلم حاصل کئے بغیر ہی ساری زندگی گزار دوں۔اگر سچا مسلمان اور عاشق
رسول اللہ ہونے کے لیے صرف مسلمان کے گھر پیدا ہونا کافی ہے تو پھر ٹیچر کے
گھرپیدا ہونے والے بچے کو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے جو وہ سالوں تک سکولوں،
کالجوں میں دھکے کھاتا پھرتا ہے؟ پھر ڈاکٹر کے گھر پیداہونے والے بچے کو تو
پیدائشی ڈاکٹر ہونا چاہیے اگر ایسا نہیں تو پھر مسلمان کے گھر پیدا ہونے
والا صرف اپنی پیدائش کے دم پر عاشق رسول بن کر لوگوں کے گھر کیوں جلاتا ہے
؟کیوں بغیر تحقیق کئے قانون کو اپنے ہاتھ لیتا ہے ؟ایک شخص کے گناہ کی سزا
سینکڑوں بے گناہوں کودیتا ہے ؟میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ گستاخی رسول
ثابت ہونے پر مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جائے اورنہ صرف سانحہ بادامی باغ
کے متاثرین کی زیادہ سے زیادہ مالی و اخلاقی مدد کی جائے بلکہ گھر جلانے
والوں کو بھی سخت سزائیں دے کر عبرت کا نشان بنادیاجائے تاکہ آئندہ کوئی
بھی قانوں کو اپنے ہاتھ میں لینے کی جرات نہ کرے۔ |