قائد اعظم محمدعلی جناح نے ۱۱ ،
اکتوبر 1947 ءکو خالق دینا ہال کراچی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ"ایک اور
سوال جو میرے دل میں باربار اُبھرتا ہے ، اقلیتوں کا مسئلہ ہے ، میں نے
جلوت اور خلوت میں بار بار اس امر پر زور دیا ہے کہ ہمیں اقلیتوں سے حسن
سلوک کا ثبوت دینا چاہیے ۔ تقسیم ہند کے وقت اس امر کی ضمانت دی گئی تھی کہ
ہندوستان اور پاکستان دونوں میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائےگا ، لہذا
جب تک اقلیتیں مملکت کی وفادار رہیں گی ، انہیں یہاں کسی قسم کا خطرہ نہیں
ہوگا ۔" قیام پاکستان کے بعد ہمارے سیاسی لیڈران اس بات کا تعین ہی نہیں کر
پارہے ہیں کہ ،ارض پاک بنانے کا مقصد کیا تھا ؟۔کیا پاکستان صرف مسلمانوں
کےلئے بنا ؟ یا پھر سیکولر نظریات کے تحت" وطنیت "کے تصور پر پاکستان بنا
؟۔دین اسلام میں ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے ہمساﺅں اور اقلیتوں کی
پوری پوری حفاظت کرے ، خواہ ان کا عقیدہ کچھ ہی کیوں نہ ہو،آج اگر ہم
دیکھیں تو پاکستان کے مقابلے ہندوستان میں اقلیتوں کےساتھ غیر مساوی سلوک
برتے جارہے ہیں ۔پاکستان کے مقابل ہندوستان میں اقلیتوں ، خاص طور مسلمانوں
اور دلتوں کو چوتھے درجے کا شہری بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور اقلیت احساس
محرومی کا شکار ہیں۔ بد قسمتی سے بادامی باغ جیسے واقعات میں عوام کے جذبات
مشتعل کراکر ، اسلام اور پاکستان کے تشخص کی درست عکاسی کرنے والے ، پر امن
،علما کے کردار کی اشد ضرورت ہے۔قائد اعظم نے 3 فروری1948ءکو سندھ کے
پارسیوں کی جانب سے استقبالیہ میں کہا کہ ۔"حکومت اس امر کا خاص اہتمام کر
رہی ہے کہ ا"قلیتوں"کے دل سے خوف اور بد اعتمادی کے تمام شبہات کا ازالہ
کردے"۔21مارچ 1948ءآسٹریلیا کی عوام کے نام اپنے براڈ کاسٹ پیغام میں
کہا۔"اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم دوسرے اہل مذہب کےساتھ روادری کا
ثبوت دیں ،جو لوگ بھی یہاں برضا و رغبت ہم سے تعاون کریں گے ، ہم ان کے اس
تعاون کا گرم جوشی سے استقبال کریں گے۔"اسی طرح 21مارچ1948ءکو ڈھاکہ میں
ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ"ہر غیر جانبدار مبصر اس پر
اتفاق کرے گا کہ ہم نے انتہائی مشکلات کے اس زمانے میں اپنی اقلیتوں کی جس
قدر حفاظت کی ہے اور ان کا جتنا خیال رکھا ہے ہندوستان میں اس کی کہیں مثال
نہیں ملتی، اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے ، اور آپ مجھ سے متفق ہونگے کہ یہ
ایک عظیم سبق ہے جو اس نے ہمیں سکھایا ہے ،کہ آپ کچھ بھی ہوں ، اول و آخر
آپ مسلمان ہیں اور ایک قوم کے افراد ہیں ۔تم نے اپنے لئے ایک وسیع مملکت
تراشی ہے ۔ یہ مملکت آپ سب کی مشترکہ ہے ، یہ ا ، نہ پنجابی کی ہے ، نہ
بنگالی کی ، نہ سندھی کی ہے نہ پٹھان کی ۔یہ آپ سب کی ہے ، اس لئے اگر تم
ایک قوم بننا چاہتے ہو تو خدا کےلئے صوبائی تفریق کا خیال کو جھٹک دو ،
صوبائی تفریق ایک لعنت ہے ۔وہی لعنت فرقہ بندی ، شیعہ و سنی کی تفریق
ہے۔"قائد اعظم نے تشکیل پاکستان کا نظریہ اتنا صاف بیان کردیا ہے کہ اس کے
بعد کسی بھی بحث کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی ۔قائد اعظم نے اقلیتوں کو کبھی
بھی خود سے الگ قرار نہیں دیا کیا بلکہ ، ان کی ہر تقریر میں نہایت وضاحت
کےساتھ غیر مسلموں کے ساتھ مساوی سلوک کےلئے مخاطب کیا گیا ہے ۔ اقلیت کی
حفاظت یا ان کے حقوق کے حوالے سے قائد اعظم کا نظریہ عین اسلام کے مطابق
تھا ، کیونکہ اسلام نے ہمیشہ غیرمسلموں کو مذہبی آزادی اور اپنے رسم و رواج
کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی دی ہے اور کبھی بھی کسی غیر مسلم پر
زبردستی اسلام کے قوانین لاگو کرنے کی کوشش کی ہے ، حضرت محمد ﷺ ، خلافت
راشدہ ، سے لیکر خلافت عثمانیہ تک جتنی بھی مسلم حکومتیں گذری ہیں ، انھوں
نے غیر مسلم کے تحفظ کےلئے حکومتی اقدامات کرکے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا
ہے ۔ ہندوستان میں بھی جتنے مسلم حکمرانوں نے حکومت کی ، انھوں نے بھی
اقلیتوں کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی ، اگر ایسا نہیں ہوتا تو کروڑوں انسانوں
پر جبر کے ذریعے سینکڑوں سال حکومت نہیں کی جاسکتی ۔یہی تصور قائد اعظم کے
ذہن میں بھی تھا اور اس کی وضاحت انھوں نے مختلف تقاریر میں کیں۔یہ تصور
صرف قائد اعظم کا ہی نہیں تھا بلکہ حکیم امت علامہ اقبال کا ماننا بھی تھا
اور ان تمام اصولوں کی اساس دین اسلام کے زرین اصول تھے۔ایک موقع پر مولانا
حسین احمد مدنی کے ساتھ مباحثے کے حوالے سے فرمایا۔"اگر بعض مسلمان اس فریب
میں مبتلا ہیں کہ دین اور وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے یکجا رہ سکتے ہیں
تو میں مسلمانوں کو انتباہ کرتا ہوں کہ اس راہ کا آخری مرحلہ اول تو لادینی
ہوگا ۔ اور اگر لادینی نہیں تو اسلام کو محض ایک اخلاقی نظریہ سمجھ کر اسکے
اجتماعی نظام سے بے پرواہی ۔"قائد اعظم کی تقریر کے اقتباس سے پاکستان میں
لسانیت کے نام پر صوبائیت ، فرقہ واریت کی بھی نفی ہوجاتی ہے اور اس کےساتھ
بین المذاہب کے حوالے سے ایک مخصوص سوچ کا بھی تدارک ہوجاتا ہے ۔ جناح نے
جس طرح صوبائیت کو لعنت قرار دیا ، بالکل اُسی طرح فرقہ واریت کو بھی ایک
قوم بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاﺅٹ دے کر واضح کردیا کہ ، پاکستان بنانے
کا مقصد ، بلا شبہ کسی سیکولر سوچ کا تحت نہیں تھا ، لیکن ان کے سامنے
اسلام کا ایک آفاقی نظام تھا ، جس میں مسلک ، فرقہ ، صوبائیت ، رنگ ونسل کی
گنجائش ہی نہیں تھی ۔ا پاکستان کے مطلب کا مقصد صرف "خدا کی پرستش "نہیں
تھا ، اگر لا الہ الا اللہ کا بنیادی مطلب ، صرف عبادت ہی تھا تو ، نیشلنسٹ
علما ءاسی بنیاد پر تو پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے ،کہ ہندوستاں میں
مسلمانوں کو اپنی عبادات کی مکمل آزادی ہوگی ۔ لیکن قائد اعظم کے نزدیک
پاکستان کا "مطلب کیا ؟۔ لا الہ الا اللہ "۔ سے مُراد اسلام کے آفاقی
قوانین اور اصولوں کا عملی نفاذ تھا کہ اللہ کے حکم کے علاوہ ، کسی دوسرے
نظام کی حاکمیت ،قبول نہیں کی جائے گی ۔ایسے بہتر انداز میں سمجھنے کےلئے
قائد اعظم کی 19فروری 1948ءمیں آسڑیلیا کے باشندوں کے نام براڈ کاسٹ تقریر
کافی ہے ۔ آپ نے فرمایا۔"یہاں کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے ،
ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے پیروکار ہیں ، ہم اس اسلامی برداری کے افراد ہیں جس
میں حقوق ، شرف و احترام اور تکریم ذات کے اعتبار سے تمام افراد برابر ہوتے
ہیں۔"قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پراپنی زندگی کے آخری
پیغام میں پاکستان کو "دنیا کی سب سے بڑی مسلم سٹیٹ "کہہ کر پکارا اور یہ
پہلا موقع نہیں تھا بلکہ ہر موقع پر پاکستان کو مسلم اسٹیٹ ہی قرار دیا
تھا۔ہم دنیا بھر کے ماہرین ِ سیاست سے پوچھتے ہیں کہ جو مملکت محض "وطنیت "کی
بنیادوں پر استوار ہوئی ہو، اسے کبھی بھی "مسلم سٹیٹ" ، "ہندو سٹیٹ" یا "عیسائی
سٹیٹ" کہا جا سکتا ہے؟ ؟؟ ۔ہمیں بادامی باغ جیسے لاتعداد واقعات کے حوالے
سے اسلامی برداشت کو فروغ دیکر ، ثابت کرنا ہوگا کہ کوئی چاہیے ، دانستہ یا
غیر دانستہ ایسی حرکات کا مرتکب ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوں تو
، ہمیں اسلام ، نبی اکرام ﷺؑ، صحابہ اکرام اور اولیا حضرات کی عملی اسوہ
حسنہ کو سامنے رکھ لینا چاہیے۔اگر ہم اسلام کے نام لیوا ہیں۔اسلام ہمیں
برداشت اور رواداری کا سبق دیتا ہے، اور یہی اصل اسلام ہے۔ |