تحریر……مولاناعدیل حسین قاسمی……فاضل
دارالعلوم نعیمیہ کراچی……
سیدنا الشیخ عبدالقادرالگیلانی بنیادی طور پر اپنے وقت کے ایک عظیم محدث ،
مفسر، فقیہ، ادیب، مورخ، مفتی، داعی اسلام ، مصلح اورتجدید احیاء دین کے
امام تھے اور عبادت الٰہی کے علاوہ اپنے زہد و تقوی، صبر و رضا، شکر الٰہی،
ایثار علی النفس، توکل علی اﷲ جیسی اعلیٰ صفات پر فائز ہوکرمستجاب الدعوات
ہوگئے تھے۔امام غزالی کے خروجِ بغداد کے بعد ۱۲ویں صدی ۵۶۱ھ/ ۱۱۶۶ء میں آپ
ہی نے علمی وعملی اعتبار سے ارشاد و تلقین کے ذریعہ ایک ایسا انقلاب برپا
کیا جس کی اسلامی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آپ نے عراق کے مشرق و
مغرب یہاں تک جنوبی ایشیاء کے کئی ممالک بالخصوص ہند وستان، پاکستان ،
ایران، افغانستان، پنجاب، سری لنکا، بنگلہ دیش، ملائیشیا، انڈونیشیا وغیرہ
کو بھی اپنی تجدیدی انقلاب سے متاثر کیا۔ مذکورہ علاقوں میں بت پرستی کے
علاوہ ہندو مت، بدھ مت، عیسائیت وغیرہ کا ہر طرف زور اور دور دورہ تھا اور
کئی کئی سال سے یہاں کے عوام ان مذاہب کے زیر اثر تھے۔ آپ نے ان کے گمراہ
کن افکار و تعلیمات کو ختم کیااور ساتھ ہی ان علاقوں میں اسلام کی شمع آپ
ہی کی تعلیم و تربیت سے فروزاں ہوئی۔ بلاشبہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی
سنجری اجمیری علیہ الرحمۃ نے بھی آپ کے نمائندہ کی حیثیت سے ان علاقوں میں
ایک زبردست دینی انقلاب برپا کیااور ہزاروں آدمیوں نے ان کے دست حق پر بیعت
کی۔
واضح رہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ہندوستان وارد ہونے سے پہلے
مولانارضی الدین صنعانی صاحب ’مشارق الانوار‘جو فتوحاتِ غوری سے دس سال قبل
بغدادآئے تھے اور یہاں سے فیض پاکر ہندوستان واپس ہو چکے تھے۔ حضرت خواجہ
صاحب جب ہندوستان آئے اس وقت بھی ہندوستان میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کی
نوآبادیات موجود تھیں، جہاں اُن کے مدر سے خانقاہیں اور دینی ادارے قائم
تھے اور قادری فیضانات جاری تھے ،لہٰذا یہ کہنا کہ ہندوستان میں خواجہ صاحب
ہی کے ذریعے تبلیغ اسلام کا آغاز ہوادرست نہیں۔ہاں اور یہ بات مسلمہ ہے کہ
حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمۃ نے پرتھوی راج کے عہد میں اجمیر میں اپنی
خانقاہ بنا کر تبلیغ واشاعت کا کام زوروں سے شروع کر دیا تھا اور کثیرتعداد
میں لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے تھے ،اسی لئے تو مورخین نے آپ کو’’ نائب
رسول اﷲ فی الہند‘‘ کا خطاب دیا اورآپ سے جو لوگ وابستہ ہوئے انہیں ’’چشتی
‘‘ کہا گیا اور اس طرح آپ سلسلہ چشتیہ کے بانی کہلائے۔ آپ کی زندگی بہت ہی
سادہ لیکن دل کش تھی۔ ہندوستان کے سب سے بڑے سماجی ودینی انقلاب کے رہنما
کی ایک چھوٹی سی جھونپڑی تھی جس میں بیٹھ کر یہ بندۂ درویش ہندوستان پر
حکومت کرتارہا اوراس نے جو شمع باد مخالف کے تندتیز جھونکوں کے درمیان روشن
کی تھی اس کو جلا ئے رکھا اوربعد میں یہی شمع اپنے دومریدوں حضرت خواجہ قطب
الدین بختیار کاکی اور شیخ حمیدالدین ناگوری کے سپردکردیا اورخود اجمیر میں
مقیم رہا۔جہاں تبلیغ وارشاداورتعلیم وتربیت میں مشغول ہوکر اپنی بقیہ زندگی
پوری کی۔افسو س کہ کسی قدیم تاریخی ماخذ میں حضرت کی اُن تبلیغی مساعی کی
تفصیلات اور ان کے نتائج واثرات کا مستند تذکرہ نہیں ملتا۔ عام طورپر اتنا
ذکر کیا جاتا ہے کہ کثیرتعدادمیں بندگانِ خدا نے ان سے ایمان واحسان کی
دولت پائی اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔ابوالفضل کی ’’آئین
اکبری‘‘ صفحہ37میں صرف یہ ملتا ہے کہ:
’’ عزلت گزیں باجمیرشد وفراواں چراغ برافروخت، وازدم کبرائے اوگردہاگردمردم
بہرگرفتند‘‘۔
یعنی آپ اجمیر میں عزلت گزیں ہوئے اور اسلام کا چراغ بڑی آب وتاب سے روشن
کیا۔ ان کے انفاس قدسیہ سے جوق درجوق انسانوں نے ایمان کی دولت پائی۔
تقریباً نصف صدی ارشاد وتلقین، اسلام کی اشاعت اور داعیان اسلام واہل قلوب
کی تعلیم وتربیت اور یادحق میں سرگرمی کے ساتھ مشغول رہ کر90سال کی عمر
میں667ھ میں اس وقت رحلت فرمائی جب ہندوستان میں ان کے ہاتھ کا لگایا ہوا
پودا جڑ پکڑ چکا تھا اور دارالحکومت دہلی میں ان کا جانشین اور تربیت یافتہ
شیخ وقت (خواجہ قطب الدین) ارشادوہدایت کے کام میں سرگرم ہو چکا تھا۔
مستند تاریخی روایات بالخصوص ڈاکٹر ظہور الحسن شارب کے مطابق حضرت خواجہ
معین الدین اجمیری، حضرت الشیخ عبدلقادر الگیلانی کے قریبی رشتہ دار تھے
اور صاحب سیر العارفین کے مطابق خواجہ معین الدین سنجری بخارا سے ۵۸۰ھ یا
۵۸۱ھ میں بغداد تشریف لائے تھے اورآپ نے سیدنا الشیخ عبدالقادر الگیلانی سے
نہ صرف ملاقات کی تھی بلکہ ان کے یہاں تقریباً دوماہ تک مہمان بھی رہے تھے
اور بہت سے فیوض و برکات کے علاوہ باطنی علوم بھی آپ کی صحبت میں رہ کر
حاصل کئے اور بقول صاحبِ ’’اقتباس الانوار‘‘ حضرت خواجہ نے حضرت سیدنا
الشیخ عبدالقادر الگیلانی سے خرقہ خلافت بھی حاصل کیا۔ صاحبِ’’ سیر
الاقطاب‘‘لکھتے ہیں کہ: خواجہ معین الدین کی سیدنا الشیخ عبدالقادر
الگیلانی سے دوبارملاقات ہوئی۔ایک شروع زمانے میں اور ایک جوانی کے عالم
میں۔ حضرت الشیخ اپنے وقت کے ایک ایسے داعی انقلاب تھے کہ ان کے وعظ بڑے
پرتاثیر ہوتے تھے اور ہر طرح کے لوگ دوردورسے اس میں شرکت کرتے تھے‘‘۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ’’اخبار الاخیار میں لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت کی
مجلس کبھی یہود و نصاریٰ سے جو مشرف بہ اسلام ہوتے تھے اورقزاق، بدعتی اور
فسادیوں سے جو دست حق پرست پر توبہ کرتے تھے خالی نہ ہوتی تھی‘‘۔ راقم کی
رائے میں حضرت خواجہ بھی اسی مجلس سے وابستہ ہو کر اصول دعوت سے مستفید ہو
چکے تھے۔بعض اوقات حاضرین مجلس کی تعداد ۷۰، ۷۰ ہزار تک پہنچ جاتی تھی۔ (اخبارالاخیار،ص۲۷۰)
سیدناالشیخ عبدالقادرکے مواعظ حسنہ کے دو مجموعے فتوح الغیب( مطبوعہ مصر
۱۳۰۴ھ) اور الفتح الربانی (مطبوعہ مصر ۱۳۰۲ھ )اب بھی دستیاب ہیں۔ فتوح
الغیب میں آپ کے تقریباً ۷۸ مواعظ اور الفتح الربانی میں ۶۲ خطبات شامل ہیں
جو آپ نے ۵۴۵ھ/ ۱۱۵۰ء اور ۵۴۶ھ / ۱۱۵۱ء میں دیئے تھے۔ ان خطبات کا ایک ایک
حرف سیدناالشیخ عبدالقادرکے دل سے نکلا ہے۔ اسی بناء پر یہ حرف بھی دل کی
انتہائی گہرائیوں میں اپنی جگہ تلاش کرلیتا ہے۔ حضرت الشیخ الگیلانی کی دو
اور معروف تصانیف الغنیہ الطالبین اور الفیوضات الربانیۃ ہیں۔اوّل الذکر
کتاب میں حضرت الشیخ نے دیگر مسائل اسلامیہ کے علاوہ ۷۳ اسلامی فرقوں کا
ذکر نہایت شرح وبسط سے کیا ہے۔ بارہویں صدی میں مسلمانوں کا دینی و سیاسی
ماحول سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ حضرت الشیخ عبدالحق
محدث دہلوی نے اسی افادیت کی بناء پر اس کتاب کو فارسی زبان میں منتقل کیا
تھا۔
حضرت الشیخ الگیلانی کے وعظوں میں صرف ایک تاثیر ہی نہیں تھی بلکہ کشش
اورتڑپ بھی تھی۔ حضرت الشیخ ابو المعمرمظفر منصور ابن المبارک الوعظ
المعروف بہ’ ’جرادہ العراقی‘‘ کہا کرتے تھے کہ میری آنکھ نے کسی کو سیدنا
الشیخ عبدالقادر سے بڑھ کر خلیق، وسیع الصدر، کریم النفس، نرم دل، اور حافظ
عہد و پیمان نہیں دیکھا۔ جلالت قدر اورعلو منزلت کے باوجود آپ ہر چھوٹے بڑے
کی عزت کرتے تھے۔ کمزوروں کے ساتھ بیٹھتے تھے، فقیروں کی تواضع کرتے لیکن
امیروں سے دور رہتے۔کبھی کسی امیر کیلئے کھڑے نہ ہوتے، نہ کبھی کسی وزیر یا
سلطان کے در پر جاتے۔
(قلائدالجواہر،ص222)
سیدناالشیخ عبدالقادرکاسیاسی نظریہ
حضرت الشیخ عبدالقادر الگیلانی اہل سیاست میں سے نہیں تھے لیکن اس ضمن میں
بھی اچھی واقفیت اور آگاہی رکھتے تھے۔ وقت ِ ضرورت خلفائے وقت پر عوام کے
سامنے ہی سخت تنقید کرتے تھے۔ کسی بے راہ روی کا پتہ چل جاتا تو سخت مذمت
کرتے۔ خلفاء خاموشی سے ان کی تنبیہ کو سنتے۔بہجۃ الاسرار میں شیخ ابو
العباس خضر بن عبداﷲ حسینی موصلی سے مروی ہے کہ ایک رات ہم بغداد میں سیدنا
الشیخ محی الدین عبدالقادر کے مدرسے میں تھے۔خلیفہ مستنجد باﷲ ابوالمظفر
یوسف آپ کی خدمت میں آیا۔ اور عرض کی کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیں اور دس
تھیلیاں اشرفیوں کی خدمت میں پیش کیں۔ آپ نے فرمایا مجھے ان تھیلیوں کی
ضرورت نہیں، خلیفہ نے اصرار کیا تو آپ نے ایک تھیلی اپنے دائیں ہاتھ میں لے
لی اور دوسری بائیں میں اور دونوں کو دبا کر نچوڑا تو ان میں سے خون بہنے
لگا پھر آپ نے فرمایا۔ ابوالمظفر!کیا تو حیا نہیں کرتا کہ لوگوں کا خون لے
کر میرے پاس آیا ہے؟ حقیقت میں وہ تھیلیاں عوام کے خون سے بھری ہوئی تھیں۔
خلفاء وقت کے طرز حکومت پر سیدناالشیخ عبدالقادر کی اس سے بڑھ کراور تنقید
کیا ہوسکتی ہے؟ حضرت شیخ امیروں، وزیروں، بادشاہوں اور غاصبوں کو علی
الاعلان للکارتے اور اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک عوام کوان کے
حقوق حاصل نہیں ہوجاتے۔
اُس دور کے علماء ومشائخ میں بالخصوص سیدنا الشیخ عبدالقادر الگیلانی نے
مسلمانوں کے ذہنی و فکری انتشار کو دور کرنے میں جس بالغ نظری کا ثبوت دیا
وہ محتاج بیان نہیں۔ ان روح فرسا حالات اورسانحات کا منظراسلامی دنیا کا
شاید ہی کوئی ایسا گوشہ باقی رہا ہو، جہاں نظرنہیں آیاہو، ایسی صورت حال کا
مقابلہ کرنے کیلئے آپ اور آپ کے خلفاء و مریدین نے خانقاہی نظام کو ترتیب
دیا اوراس میں عوام کی اصلاح و تربیت کا بھرپور انتظام کیا ۔جو قوم منگولوں
کی چیرہ دستیوں اور سفاکیوں سے مضمحل ہو کر نبضیں چھوڑ چکی تھی اس خانقاہی
نظام کے ذریعے تربیت سے پھر ایک بار زندہ ہوئی۔ زندگی کی یہ نئی لہر تین
روحانی طاقتوں کی پیدا کی ہوئی تھی(۱) خدا پر اعتماد اور بھروسہ(۲) انفرادی
زندگی کو اجتماعی زندگی کے لیے قربان کر دینے کا جذبہ اور(۳) اخلاقی اقدار
کو زندہ کرنے کا عزم۔ فطرت کا انداز بھی خوب ہے جب زوال انتہا کو پہنچ جاتا
ہے تو یہ انتہا ہی تجدید و احیاء کی صورت پیدا کر دیتی ہے جب تباہی حد سے
گزر جاتی ہے تو ترقی کا سامان مہیا کر دیا جاتا ہے، شکست میں فتح کے اسباب
مہیا کیے جاتے ہیں اور دشمن سے ہمدردی کرا دی جاتی ہے، منگولوں نے جس بے
دردی اور سفاکی کے ساتھ اسلام کے سیاسی اور سماجی نظام کو درہم برہم کیا
تھا اس سے کون واقف نہیں۔ پھر انھیں دشمنان اسلام کو حلقۂ بگوش اسلام بنا
کر انہی سے مسلمانوں کی اجڑی ہوئی بستیوں کو از سر نو آباد کرنے کا کام لیا
گیا۔
خواجہ فرید الدین عطار کو ایک مغل نے شہید کیا پھر وہی مغل ان کے مزار کا
مجاوربھی بنا۔ بغداد کی جامع القصر کو ہلاکو کے حکم سے تباہ کیا گیا اور
پھر اسی کے حکم سے اس کی مرمت کی گئی۔ اُس دور میں یہ صوفیاء کرام اورمشائخ
ہی باقی رہ گئے تھے جنھوں نے منگولوں کی پیدا کی ہوئی ذہنی، فکری، مذہبی
ابتری کو ختم کرکے چپہ چپہ پر اپنا روحانی خانقاہی نظام قائم کر دیا اور ہر
جگہ لوگوں کی اصلاح و تربیت کے لیے کوششیں بھی کی گئیں۔ اب وقت آگیا تھا کہ
اس تحریک کو عوامی سطح پر منظم کیا جائے اورظاہر ہے یہ کام انفرادی نہیں
بلکہ ایک تنظیم کے ذریعہ ہی انجام پاسکتا تھا۔ وقت اور حالات کے اسی تقاضے
نے تنظیمِ سلاسل کی راہ دکھلائی اور مشائخ کی تنظیمی جدوجہد نے رفتہ رفتہ
منظم اور باقاعدہ سلسلوں کی شکل اختیار کرلی اور ایک وقت وہ آیا کہ دنیا کے
گوشہ گوشہ میں روحانی سلسلوں کی داغ بیل پڑ گئی۔ اس طرح اسلامی سوسائٹی کی
تجدید و احیاء کا نیا سامان مہیا ہوگیا۔ قنوطیت، پژمردگی اور بے عملی کی جس
فضاء نے معاشرہ پر ایک مردنی سی طاری کر دی تھی اس نظام کے تحت اس کیفیت کو
ایمان و عمل کی قوتوں سے بیدار کر کے دور کیا گیا۔اس جدوجہد کے پیچھے یہ
احساس بھی تھا کہ اگر صحت مند معاشرہ پیدا کر دیا گیا تو پورا نظام خواہ وہ
دینی ہو یا سیاسی صحیح سمت میں سرگرم عمل ہوسکے گا۔ سیدنا الشیخ عبدالقادر
الگیلانی نے اپنی ایک مجلس ۲۲شوال ۵۴۵ھ میں یہ اعلان کیا تھاکہ:
صاحبو! اتباع کرو یہاں تک کہ متبوع بن جاؤ۔ خدمت کرو یہاں تک کہ مخدوم بنو۔
تم جھکو اُن کے سامنے وہ جھک جائیں گے تمہارے سامنے، کیا تم نے سنا نہیں کہ
جیسا تو کرے گا ویسا ہی تیرے ساتھ بھی معاملہ کیا جائے گا۔ جیسے تم ہو گے
ویسے ہی تم پر حاکم مسلط ہوں گے۔ گویا تمہارے ہی اعمال تمہارے افسر بنیں
گے۔
(الفتح الربانی،ج۱ ،ص ۱۲۲)
اس تعلیم نے عوام میں یہ احساس بیدار کر دیا کہ ان کے عمل سے ایک جہانِ نو
کی تعمیر و تشکیل ممکن ہے اگر وہ اپنی اخلاقی اور دینی حالت ہی درست کرلیں
تو پورا معاشرہ اور سیاسی نظام بھی صحیح ہوسکتا ہے۔
علاقے کے حالات
قادری مشائخ نے جس جگہ بھی خانقاہی سلسلہ قائم کیا وہاں کی عام ذہنی فضاء
،جغرافیائی حالات، بسنے والوں کے رسوم و اطوار، عادات و خصائل، اور فکری پس
منظر کو پوری طرح نظر میں رکھا۔ علاوہ ازیں روحانی تربیت کے لیے جو اشغال
تجویز کیے گئے اس میں بھی اس علاقے کے لوگوں کے مزاج اوران کے اخلاقی حالات
کا خاص لحاظ رکھا گیا۔ حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی روحانی سلسلوں کے دائرہ اثر و
نفوذ کا جائزہ لیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ سب طریقوں سے زیادہ عمدہ
طریقہ قادریہ ہے جودنیائے عرب ، ہندوستان ، ایران، افغانستان، سری لنکا،
نیپال،انڈونیشیا،ملائیشیا اور اب پاکستان وبنگلہ دیش وغیرہ کے عوام وخواص
میں بہت مشہوراورمقبول ہے۔
( انتباہ فی سلاسل اولیاء، ص۲۲،مطبع احمدی ۱۳۱۱ھ ،دہلی)
صوفیہ کے ان سلسلوں کی تعداد جنھوں نے عالم اسلامی کے مختلف حصوں میں تبلیغ
و شاعت، اصلاح و تربیت و دعوت و عزیمت کا انقلاب برپا کیا تھا کئی سو سے
متجاوز ہے۔ اس اہم فریضہ کوسیدناالشیخ عبدالقادر الگیلانی اوران کی اولاد
اور ان کے خلفاء نے اپنے پرزور وعظ و ارشادات اوراخلاق سے کئی ہزار برسوں
سے سوئی ہوئی بستیاں جگا دیں اور تلاش حق اور اتباع سنت کی لہر ہر طرف دوڑا
دی۔ حضرت الشیخ کے وصال کے بعد ان کے صاحب زادگان اور مریدین وخلفاء نے
سلسلہ قادریہ کی نشر و اشاعت کا کام نہایت خلوص اور عزم کے ساتھ شروع کیا
اور اسلامی دنیا کے دور دراز علاقوں میں گئے جہاں ایک عام انسان کیلئے جانا
ممکن نہیں تھا ان کے جاتے ہی کئی مراکز قائم ہوگئے، شام، عراق اور مصر میں
تو یہ سلسلہ بہت پہلے پہنچ چکا تھا۔ ترکی میں الشیخ اسماعیل رومی المتوفی
۱۶۴۳ء کی کوششوں سے سلسلہ کا اثر و نفوذ بہت بڑھ گیا، صرف ترکی میں ان کی
کوششوں سے کم و بیش چالیس قادری خانقاہیں قائم ہوئیں اور پھر مختلف ناموں
سے یمن، سوڈان، الجیریا، تیونس وغیرہ میں قائم ہوئیں اور شیخ کے افکار و
تعلیمات کو پرجوش طریقے پر پذیرائی حاصل ہوئی۔
راقم الحروف کے علم کے مطابق سیدناالشیخ عبدالقادرالگیلانی کے ایک نبیرہ
سیدنا ابراہیم الجیلانی کے صاحبزادے سیدنانجم الدین الگیلانی(مدفون
نزدمقبرہ عبداﷲ شاہ غازی کلفٹن کراچی) 1980ء میں کئی بار حیدر آباد دکن
تشریف لے گئے اور وہاں کئی ماہ مقیم رہ کر طریقہ قادریہ کی تبلیغ کرتے رہے
تھے۔ ان صوفیاء قادریہ کی انتھک جدوجہد اور تبلیغی مساعی نے ہندوستان کے
کفر وضلالت کی تیرہ شبی میں حقانیت وصداقت کا وہ روشن مینا ر نصب کیا جس کی
روشنی کشمیر سے لے کر کینیا، کماری اور مالا بار کے ساحل سے لے کر کھاڑی تک
پھیل گئی۔یقینا یہ ایک زریں باب ہے جوصرف صوفیا کرام نے انجام دیا۔
حضرت الشیخ نے اپنی پوری زندگی اعلاء کلمۃ اﷲ دین خالص کی تبلیغ و اشاعت
سنت کی پرزور حمایت، عقائد باطلہ وفاسدہ کی بے باکانہ تردید، اور اپنے دور
کے مادیت پرستوں کی مذمت اور جابر سلاطین کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے میں
گزاری۔ عقلیت پرستی کا طلسم توڑا اور مسلمانوں میں ایک نئے ولولہ کے ساتھ
ایک نئی زندگی پیدا کر دی اورآپ اس دنیاسے تشریف تولے گئے ،لیکن اپنے پیچھے
دین کے داعیوں اور نفوس و اخلاق کے مربیوں کی ایک ایسی جماعت چھوڑ گئے جس
نے آپ کے کام کو جاری رکھا اور بڑھتی ہوئی مادیت اور غفلت کا بھرپور مقابلہ
کیا۔اس کا اندازہ آپ کی جملہ تصانیف سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
سولہویں اور سترہویں صدی میں سلسلہ قادریہ کے مشائخ کی خانقاہیں ہندوستان
کے کئی صوبہ جات کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں لاہور، اوچ شریف، ملتان،
شیر گڑھ اور ملک کے بعض علاقوں میں عقیدت اور ارادت کا مرکزبن چکے تھے
اورپاکستان کے معروف شہروں کراچی، سندھ، بلوچستان، صوبہ سرحد،کشمیر کے
علاوہ پڑوسی ملک افغانستان، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور جنوبی ایشیاء
کے مسلمان ایک ممتاز امت کی حیثیت سے زندہ وتابندہ قوم نظرآرہے ہیں۔ بلاشبہ
حضرت الشیخ بغداد کی خاک میں آسودۂ خواب ہیں لیکن پورے عالم اسلام میں آپ
کا پرچم لہرا رہا ہے۔ |