رواں ہفتے پاکستان کے سب سے بڑے
میو ہسپتال میں ایک دن اور ایک رات گزارنے کا اتفاق ہوا ،کیونکہ میں ایک
لوئر مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں ، میں اور میرا خاندان پرائیوٹ علاج
کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے اس لیے سرکاری علاج ہی ایک رستہ ہے مگر میو
ہسپتال کا یہ حالیہ تجربہ جو مارچ کی سات2013 کو میرے ساتھ پیش آیا میر ے
ماضی کا ایک تلخ حصہ بن گیا ، میں اپنے بھتیجے کی تیمارداری کے لیے
میوہسپتال کے چلڈرن برن یونٹ میں گیا، اس وارڈ میں جانے کے لیے مجھے ہسپتال
کی تیسری منزل پر جانا تھا ،دن بارہ بجے کا وقت تھا ،پہلے گیٹ پر چوکیدار
سے میں نے پوچھا کہ برن یونٹ کس منزل پے ہے ، اس نے سپاٹ چہرے سے جواب دیا
،ملاقات تین سے پانچ تک ہو گئی ، میں نے اسکو کہا کہ میں پوچھ رہا ہوں کہ
برن یونٹ کس منزل پے ہے اور تم مجھے ملاقات کا وقت بتا رہے ہو، خیر کچھ دیر
بعد چوکیدار نے مجھ سے کہا کس سے ملاقات کرنی ہے میں نے مریض کا نام بتایا
تو اس نے کمال مہربانی سے مجھے ا ندر جانے کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی
بولاواپسی پے چائے پانی دے دینا جی ،جب میں برن یونٹ کے دوسرے دروازے پر
پہنچا ، تو وہاں ایک اور صاحب موجود تھے ،مطالبہ انکا بھی ایک ہی تھا، رسمی
بات چیت کے بعد میں اندر چلا گیا ، اس کے بعدبرن یونٹ میں داخلے کا ایک اور
دروازہ میرے سامنے تھا ، اس پے موجود شخص نے مجھے دیکھتے ہی کہنا شروع کر
دیا ، کہ جناب تین سے پانچ ملاقات کا وقت ہے اس سے پہلے نہیں، خیر میں نے
اس سے کہا کہ جناب مجھے مریض سے ملاقات کی اجازت دیں، کچھ لوگوں کو آپ روک
رہے ہیں کچھ اندر جا رہے ہیں ، پہلے ہی پریشانی میں ہوں اوپر سے تم مجھے
پریشان کر رہے ہو، بحث کے بعد مطالبہ پورا کرنے کا وعدہ کر کے اندر چلا گیا
، اندر پہنچ کر میری نظریں کسی ڈاکٹر کو ڈھونڈنے میں لگ گیں ، مگر ڈاکٹر
مجھے کہیں نظر نہ آیا ، ایک کمرے میں تین نرسیں موبائل پر مصروف تھیں،کچھ
بچے چیخ چلا رہے تھے ، انکے ساتھ موجود خواتین پریشان تھیں میں اپنے بھتیجے
کے پاس پہنچا ، اسکی ماں اسکو تسلی دے رہی تھی، کہ جلد ٹھیک ہو جاؤ گے، بچہ
جلد کے جل جانے کی وجہ سے نہایت پریشانی میں مبتلا تھا ، مگر افسوس کہ
نرسیں اور آیا اپنے اپنے موبائل فون پر مصروف تھیں، ہمارے ایک اور عزیز اسی
اثنا میں آگے موصوف پاکستان پیپلز پارٹی کے پرانے جیالے ہیں ، انہوں نے یہ
صورتحال دیکھی تو کہنے لگے ۔ چلیں جی ایم ایس کے دفتر چلتے ہیں دیکھیں کس
طرح یہ مریض کی دیکھ بھال نہیں کرتے ،خیر: مرتا کیا نہ کرتا: میں انکے ساتھ
ایم ایس آفس چلا گیا ، موصوف تو میٹنگ میں گئے ہو ئے تھے ، انکی جگہ موجود
ایک اور شخص، کو میرے ساتھ موجود پیپلز پارٹی کے جیالے نے ، پتہ نہیں کس کا
فون کروایا ، تو اس نے میری موجودگی میں برن یونٹ فون کیا اور مریض کا نام
پتہ لکھوا کر کہا ، کہ خصوصی توجہ دیں، اور کوئی پریشانی نہ ہو مریض کو ، ،یہ
الگ بات ہے اسکے بعد بھی حال وہی تھا جو اس سے پہلے ، میو ہسپتال جا کے میں
جس کرب و پریشانی میں مبتلا رہا ، شائد میرے قلم اسکو بیان نہ کر سکے ، مگر
اس تجربے نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ، میں اس نتیجے پر پہنچا
کہ شائد یہ سب کچھ کبھی نہ بدلے گا، کیوں جہاں ِچوکیدار سے لیکر ڈاکٹر تک
کرپشن، اپنے پنجے گاڑ چکی ہو ، وہاں کچھ بدل جائے گا تو یہ پرلے درجے کی
خوش فہمی ہے اور کچھ نہیں ، اگر کوئی آفیسر آجائے تو چند منٹ کی پھرتی کے
بعد سارا سٹاف اپنے اپنے کونوں کھدروں میں چھپ جاتا ہے ، میری آنکھوں کے
سامنے ایک رات میں تین بچے ، سرجیکل ایمرجنسی بچہ ، میں وفات پا گئے، مگر
سٹاف ٹس سے مس نہیں ہو تا، کسی کو پروا نہیں کہ کسی جاندار کا خاتمہ ہو رہا
ہے ، اسکو بچانے کی کوشش کئی جائے ، اگر کسی کی سفارش ہے اور کسی نے اوپر
سے کہہ دیا تو اور بات ، ورنہ مر جاؤ ، انکی صحت پے کو ئی اثر نہیں،لوگ
ایمرجنسی میں پہنچ کر چھ چھ گھنٹے علاج سے محروم ، یہ اندھیر نگری نہیں تو
اور کیا ہے ، اور تواور جو لوگ اپنے مریضوں کی عیادت کے لیے آتے ہیں ، انکے
بیٹھنے کے لیے ایک لکڑی کا تختہ تک نظر نہیں آیا، میو ہسپتال کے چلڈرن ایمر
جنسی ، سرجیکل بچہ ایمر جنسی ، اور چلڈرن وارڈ کے باہر تیمارداری کے لیے
آنے والوں کے لیے ایک بھی جگہ نہیں جہاں وہ بیٹھ سکیں،لوگ بیچارے لب سڑک
مختلف کپڑے بچھا کر بیٹھے ہوتے ہیں، آپ کو تاحد نگاہ لوگ ہی لوگ بیٹھے نظر
آئیں گے،جو بات بات پر حکومتوں کو کوستے نظر آتے ہیں،رہی بات حکومت کی تو
انکا کام صرف لوٹ مار ہے ، تعلیم اور صحت انکی ترجیح ہی نہیں، لوگ یو ں ہی
بلک بلک کے مرتے رہیں گے اور یہ آتے جاتے رہیں گے، حکومتوں کی اس نالائقی
کی وجہ سے ، پاکستان کے لوگوں کو مبارک ہو کہ پاکستان میں قبضہ مافیا ،ملاوٹ
مافیا ، سیاسی خانوادوں کا مافیا ، تعلیم کو کمرشل کرنے والا مافیا ،سرکاری
نوکر مافیا ، وکیل مافیا، کے بعد اب صحت کا مافیا پورے زور و شورسے پرورش
پا رہا ہے ،اور اگر کسی نے ان مافیا وں سے بچنا ہے تو ہر نماز کے بعد دعا
کا آپشن موجود ہے ، کیونکہ یہاں کبھی کچھ نہیں بدل سکتا ، اس لیے بہترہے
اپنے آپ کو بدلیے ، اور جس طرح بھی ہو سکے پیسے اکھٹے کر کے رکھیے چاہے
چوری اور ڈاکہ ہی مارنا پڑے ۔تاکہ بوقت ضرروت علاج خریدا جا سکے ،اور اگر
آپ کے پاس پیسے نہیں ، تو سسک سسک کر اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے مرنے کی
تیاری کر کے رکھا کریں،اور اگر آپ کمزور دل ہیں ، تو کہیں اور چلے
جائیں،کیونکہ پاکستان کاکوئی غریب شہر ی ، اگر یہ توقع رکھے کہ اسکا علاج
شائد کوئی ترس کھا کر کر دے ، تو یہ اسکی بھول ہے ، لہذا جس طرح بھی ہو ،
ڈاکٹروں کے لیے پیسے اکھٹے رکھو، اگر نہیں تو یہاں سے دفع ہو جاو ، پہلے ہی
یہاں قبرستان بھرے پڑے ہیں- |