توانائی بحران --- حب الوطنی کا متقاضی

توانائی فراہم کے دو اداروں ،کے ای ایس سی اور سوئی سدرن گیس کی جانب سے اخبارات میں واجبات کی ادائیگی اور عدم ادائیگی کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات اور جوابات پر مبنی اشتہارات جاری کئے گئے تو حیرانی ہوئی کہ ان اداروں کواپنے تنازعات کے حل کےلئے اشتہارات کی ضرورت کیونکر پیش آئی؟ ۔بلاشبہ اس وقت ملک بھر میں توانائی کا بحران سنگین ہوچکا ہے اور اگرحکومت کی جانب سے فریقین کے تنازعات پر فوری اقدامات نہیں کئے گئے تو خدشہ ہے کہ کراچی میں توانائی کا بحران مزید شدت اختیار کرلے گا ،جبکہ سردی کے موسم کے اختتام کے بعد موسم ِگرما کی آمد آمد ہے جس میں طلب ورسد کے توازن میں نمایاں فرق پیدا ہونے سے ، توانائی کا بحران مزیدبے قابو ہوجائےگا ، ملکی معیشت کا انجن کہلانے والے شہر کراچی کو متعلقہ فریقین کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ، کیونکہ ان فریقین نے اگر احتیاط کا دامن چھوڑا تو معاشی مسائل کے بے قابو ہونے کے علاوہ امن و امان کی صورتحال بھی بگڑنے کے امکانات کو نظر انداز نہیںکی جاسکتا۔ کراچی میں توانائی کی بحران اور بلوں کی اوور ریٹنگ کی بنا پر زائد رقومات بھیجنے کے باعث ،ملک بھر کے تاجروں اور صنعت کاروں کےلئے ایسی صورتحال پیدا کردی ہے کہ کسی بھی سخت ردعمل کی توقع خارج ازامکان نہیں ہے۔کچھ یہی صورتحال فیصل آباد ،لاہور ،گوجرانوالہ ، سیالکوٹ،اوکاڑہ ، شیخوپورہ جیسے صنعتی شہروں میں بھی پیدا ہورہی ہے اور ایونہائے تجارت و صنعت کے نمائندوں اور مختلف صنعتوں کو ، توانائی بحران کے سبب بینکوں کے قرضے اور یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی میں شدید دشواریوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔ گیس اور بجلی کے بحران اور بد نظمی کی صورتحال کے سبب ایونہائے تجارت و صنعت کی مختلف تنظیموں ،صنعت کار اور عوام ایک ایسے ردعمل کی جانب بڑھ رہے ہیں ، جس میں ٹیکسوں ، یوٹیلٹی بلوں اور بنک قرضوں کی ادائیگی سے انکار کے اعلانات پر اگر واقعی ردعمل کیا گیا تو تو پورا نظام ٹھپ ہوسکتا ہے۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ ملک اس وقت دہشت گردی کے ہاتھوں مسائل کا شکار ہے اور معیشت کی دگرگونی سمیت سنگین مسائل کا سامنا ہے، تاہم اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان تمام مسائل کی بنیادی وجوہات میں حکومت کی اپنی بے تدبیروں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔کرپشن ،اقربا پروری ، بد عنوانی اور کک بیکس کی حوصلہ شکنی کے بجائے ،حکومتی اداروں کے سربراہان ،خود لاقانونیت کے رنگ میں ڈھل گئے ،جس کی سب سے عبرت ناک مثال اوگرا کے سابق چیئرمین توقیر صادق کے صورت میں دنیا کے سامنے آئی ، کہ اربوں روپوں کی کرپشن کرنے والے اس ہمالیہ کو اب بھی کسی نہ کسی طریقے سے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔اگر حکومت کے ارباب اختیار سنجیدگی اور حب الوطنی کا تھوڑا سا بھی مظاہرہ کرتے تو آج صنعتوں اور کاروبار کے معاملات میں ابتری پیدا نہ ہوتی ، جو اس وقت نظر آرہی ہے۔حکومت کی جانب سے اپنے اقتدار کی مدت پوری ہونے تک ایسے ٹھوس اقدامات سامنے نہیں جس سے توانائی کے بحران ختم یا کم ہوتا نظر آتا۔بلکہ اس وقت صورتحال اس قدر سنگین ہوچکی ہے کہ ، عام لوگوں کی گھریلو زندگی میں بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں،۔توانائی کے اس بحران کی وجہ سے پانی کی قلت ، اور گیس کے کم پریشر نے عام انسان کا جینا دوبھر کردیا ہے۔توانائی کے بحران کی شکایت دور کرنے کےلئے تکنیکی طریقے اختیار کرنے اور پڑوسی ممالک سے گیس سیلنڈروں کی در آمد کے بجائے ،پنجاب ، خیبر پختونخوا اور کراچی میں سی این جی کو مسلسل ،ہفتے میں کئی دن بند کردیا جاتا ہے ، جس کے باوجود توانائی کی ناکافی دستیابی سے صنعتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور افرادی قوت کو کم اجرت ملنے کے سبب بھی معاشی مسائل کا الگ سامنا ہے ، موجودہ صورتحال پر توجہ نہ دینے کے سبب ملک کے تمام صنعتی شہروں کی چھوٹی بڑی صنعتیں معاشی بحران کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔حکومت کی اس کمزوری پر صنعتی حلقوں کا یہی کہنا ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں یا فرنس آئل سمیت ا یندھن کی فراہمی ان کا اپنا اور حکومت کا مسئلہ ہے ، اس سے صنعتوں کو بجلی کی فراہمی متاثر نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ، اس معاملے کی ذمے داری صنعتوں پر نہیں بلکہ ، اداروں پر عائدہوتی ہیں ، اداروں کی نا اہلی کی سزا ، صنعتوں اور صنعتوں کے بحران کی بنا ءپر عوام کو دینا ، مناسب اقدام تصور نہیں کیا جاسکتا۔توانائی کے بحران کی بنا ءپرکراچی جیسے اہم معاشی حب کی پیداواری سرگرمیاں نصف سے بھی کم ہوچکی ہیں اور رہی سہی کسر ، بھتہ خوری اور دہشت گردی کی نئی لہر نے پوری کردی ہے ، جس کی وجہ سے برآمدی آرڈرز کی تکمیل وقت پر پوری نہیں ہو رہی ہے۔اور بیشتر برآمدگان نے برآمدگی آرڈرز کی بروقت تکمیل میں صنعتوں کی ناکامی پر مزید آرڈر دینا بند کردئےے ہیں۔جبکہ تونائی کے بحران سے نپٹنے کے متبادل ذرائع استعمال کرنے سبب ، پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے ، منافع سے زیادہ نقصان ، میں اضافے کے سبب ایک طرف غیر ملکی آرڈرز ، بھارت ،بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک کو دئےے جارہے ہیں تو دوسری جانب ،ملکی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ ، بیرون ملک تیزی کے ساتھ منتقل کر رہے ہیں اور اب یہ صورتحال ، تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں نے کراچی ،کا رخ کرنا ہی ختم کردیا ہے اور کچھ یہی صورتحال ، کراچی کے حالات کے سبب ، ملک کے دوسرے شہروں میں سنگین ہوتی جارہی ہے۔اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ بڑے صنعت کار بہرحال توانائی کے متبادل ذرائع اختیار کرلیتے ہیں ، لیکن چھوٹے صنعتکاروں کو متبادل انتظامات نہ ہونے کے سبب اپنے پیدواری یونٹس کو بند کرنا پڑ جاتا ہے ، جس سے انھیں یہ بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ بجلی کی بندش کب تک جاری رہے گی اور کئی صنعتوں میں اچانک بجلی کے تعطل کی وجہ سے تیار مال بھی خراب ہوجاتا ہے جس سے ان کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ظاہر ہے کہ صنعتکار ، اچانک پڑ جانے والی افتاد کا متحمل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی طویل عرصے تک مسلسل نقصانات کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔جس کا لازمی نتیجہ ، باقی ماندہ سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے جس سے قوم و ملک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔بجلی کی لوڈ شیدنگ کے حوالے سے جب بھی بڑا ردعمل سامنے آتا ہے تو حکومت کی جانب سے رسمی بیانات اور وقتی اقدامات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو یقینی طور پر مسئلے کا حل نہیں ہے ، ضرورت اس بات کی ہے ، تو انائی فراہم کرنے والے اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے مالیاتی امور ، اخبار میں اشتہارات کے ذریعے حل کرنے اور خود کوبری الزما قرار دینے کی بھونڈی کوشش کرنے سے گریز کرتے ہوئے نجی پاور کمپنیوں سے معائدے کے مطابق ، بجلی اور گیس کی یقینی فراہمی کو ممکن بنایا جائے ،کوئلے کے ذخائر ، پانی کی لہروں ،ہواکی طاقت اور سورج کی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی سنجیدہ پیش رفت کی جاسکتی تھی، بعض ڈیموں کی منصوبوں کی تعمیر سے عوام میں کچھ امید کی ہلچل پیدا ہوجاتی ہے لیکن ، فوٹو سیشن کرانے کے بعد ، ان منصوبوںسے ، عوام کو بے خبر رکھنے کےلئے سازش کرکے ، غیر ضروری معاملات میں الجھا دیا جاتا ہے۔ان تمام معاملات میں عوام ہی کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے کہ بحران کے باوجود ، بلوں کی رقوم میں کمی کے بجائے اضافہ ہی نظر آتا ہے ، ان حیران کن بلوں کی ادائیگی ، کسی بھی سفید پوش کےلئے ممکن نہیں ، اسلئے بجلی چوری کا رجحان ، خطرناک حدتک بڑھ چکا ہے اور حکومتی اداروں کی لاپرواہی کے سبب ، اب عوامی حلقوں میں بھی زیادہ تر بے حسی دیکھی جاتی ہے کہ، بجلی گیس ، مناسب،بروقت اور پوری مہیا تو کی جاتی نہیں ،بلکہ بھاری بھرکم بل ارسال کردئےے جاتے ہیں ، جس کی ایک بڑی مثال سوئی سدرن گیس کی جانب سے تاخیر سے میٹر ریٹنگ کئے جانا ہے جس کے باعث کراچی کے شہری سوئی سدرن گیس کی جانب سے اپنے مالیاتی بحران کو کم کرنے کےلئے ڈبل بل ادا کرنے پر مجبور ہوئے۔ضرورت اس بات کی ہے اپنی نااہلی کا بوجھ عوام کے کندھوں پر منتقل کرنے بجائے ، حکومت و ادارے قومی مفادات و حب الوطنی کے تحت ہر شعبے کی اصلاح و احوال پر توجہ دے، ورنہ پورے نظام کا ڈھانچہ تباہ ہوجائےگا۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296307 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.