حضرت موسٰی علیہ السلام نے کہا
تھا پہلا پتھر وہ اٹھائے جس نے خود کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ دکھ تو یہ ہے
کہ مذہب کے نام پر دنگا فساد کرنے والے شرپسند مسلمان اخلاقی پستی کی آخری
حدوں کو چھو رہے ہیں۔وہ نہ صرف انبیا اور دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے
منحرف ہوچکے ہیں بلکہ دینی و لسانی تقسیم نے انہیں اتنا اندھا کردیا ہے کہ
وہ اپنے مسلک کے علاوہ دیگر مسالک و مذاہب کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ سانحہ
بادامی باغ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سانحہ بادامی باغ ایک طرف بڑھتی ہوئی
شدت پسندی کا آئینہ دار ہے تو دوسری طرف ایسے سانحات دین محمدی کی نفی کرتے
ہیں۔ یہ امر حیران کن ہے کہ عشق رسول کے خود ساختہ علمبردار جب دوسروں پر
اپنے نظریات مسلط کرنے کی سازش کرتے ہیں تو وہ عشق رسالت کے بنیادی شعائر
اور تقاضوں کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ حضرت محمد ﷺ تو رحمت اللعالمین ہیں۔
اپکی رحمت پوری انسانیت کے لئے مختص ہے چاہے کوئی مسلم ہو یا غیر مسلم۔
رحمت اور عقیدت و محبت کے اس نور مجسم سے کبھی کسی کو کوئی گذند نہیں پہنچی
چاہے کسی نے ﷺ کوکتنی ہی ایذاوں میں مبتلا کیا ہو۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ
نے اپنے عملی کردار سے ثابت کردیا کہ اپکی رحمتوں میں کتنی فراخ دلی صبر و
تحمل اور احترام انسانیت پوشیدہ ہے۔آپ حضرت محمدﷺ نے جہاں مخالفین اور جنگی
قیدیوں کو وقار و احترام سے نوازا تو وہاں پیغمبر انسانیت ﷺنے اپنے خاندان
کے قاتلوں تک کو معاف کرکے روز آخرت تک بے نظیر مثال قائم کردی مگر دکھ کے
ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم کیسے پاکستانی مسلمان اور عشاق رسول ہیں کہ کسی
ایک فرد کے انفرادی گناہ کی اڑ میں اقلیتی آبادی کے ہزاروں گھروں کو نذر
اتش کردیتے ہیں۔ گو کہ یہ بھی اظہر من التمش حقیقت ہے کہ تو ہین رسالت بہت
بڑا جرم ہے اور تکذیب رسالت کی سزا سزائے موت ہے تاہم سزا کا اختیار صرف
اور صرف ریاست و عدالت کا اختیار ہے۔ کسی ایک شخص کے گناہ پر ہزاروں
انسانوں پر جبر و استبداد ڈھانا کہاں کی سنت اور کہاں کا عشق رسول ہے؟
افسوس ناک امر تو یہ بھی ہے کہ بعض افراد نے لوٹ مار کا اودھم مچادیا۔
مشتعل مظاہرین کی صفوں میں فتنہ گر شامل ہوگئے جنہوں نے نہ صرف جوزف کالونی
میں دوکانوں اور مکانات کو خاکستر بنایا بلکہ عیسائی کیمونٹی کے چرچ کو آگ
لگادی۔سانحہ جوزف کالونی سوچی سمجھی سازش کا شاخسانہ ہے۔یہ سانحہ کمزور
ہوتی ہوئی ریاست اور تباہ ہوتے معاشرے کا ائینہ دار ہے جہاں لاقانونیت کا
راج ہے۔اس امر میں کسی شک و شبے کا عنصر نہیں کہ یہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ
اقلیتوں کی زندگی مشکل تر بنتی جارہی ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ
سندھ میں ہندو برادری پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تھا اور اس دل سوز واقعے
میں سندھ کے گدی نشین شامل تھے۔ سندھ میں طریقہ کار یہ ہے کہ کسی چودہ
پندرہ سالہ لڑکی کو مسلمان قراردیکر مظاہرے شروع کردئیے جاتے ہیں۔پولیس
جسکی نکیل گدی نشینوں اور وڈیروں کے ہاتھوں میں مقید ہے خاموش تماشائی کا
کرادار ادا کرتی ہے۔ یوں کمزور ظلم سہتا رہتا ہے۔یوں سندھ کے کئی باثروت
ہندو بھارت اور یورپ میں ہجرت کرگئے۔ فاٹا میں تحریک طالبان پاکستان کے
جلاد کمانڈروں نے سکھوں سے جزئیے کے نام پر بھتہ خوری کا دھندہ اپنایا ہوا
ہے۔ حالانکہ وہ نہ تو امیر المومنین ہیں اور نہ ہی کسی ریاست کے سربراہ۔
جوزف کالونی میں شرپسندوں اورمظاہرین نے ایسی انتہاپسندی کا مظاہرہ کرکے
امت مسلمہ کا سر شرم سے جھکا دیا۔دین اسلام روئے ارض کے تمام انسانوں کو
مذہبی آزادی عطا کرتا ہے۔ مسلمانوں پر تو یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دیگر
مذاہب کے عبادت خانوں کا احترام کیا جائے۔ریاستی انتظامیہ کا اولین فریضہ
تو یہ ہے کہ غیر مسلم روحانی پناہ گاہوں چاہے مندر ہو یا چرچ کے تحفظ کو
یقینی بنائے۔ سانحہ بادامی باغ نے گوجرہ کی یاد تازہ کردی ہے جہاں عیسائی
کیمونٹی کی پوری بستی کو سپرد اگ کیا گیا تھا۔ اگر دونوں سانحات کا بنظر
غائر مشاہدہ کیا جائے تو ریاستی انتظامیہ اور پولیس کی نااہلی کو نظر انداز
نہیں کیا جاسکتا۔ اقلیتوں سمیت ریاست کے تمام شہریوں کے جان مال کا تحفظ
ریاست قانون اور پولیس کی آئینی زمہ داری ہے مگر بدقسمتی تو یہ ہے کہ جب
کہیں مذہبی کشاکش کا سانحہ رونما ہوتا ہے تو پھر انتظامیہ اور پولیس کے
جتھے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ریاست کے تمام ادارے درست
سمت میں کام کررہے ہوں تو ایسے روح فرسا واقعات جنم نہیں لیتے۔ بعض اوقات
ایسے سانحات کے پس چلمن کاروباری رنجش اور دوسروں کے زر و زمین کو ہتھیانے
کے مکروہ عزائم شامل ہوتے ہیں۔ درجنوں واقعات میں ثابت ہوچکا ہے کہ فریقین
نے ایک دوسرے کی جائیداد کو ہتھیانے کی خاطر ایسے سانحات کی آگ لگائی۔ یہ
کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مملکت خداداد میں لینڈ مافیا آئل مافیا کے ساتھ
ساتھ مذہبی لسانی اور گروہی مافیاز معرض وجود میں آچکے ہیں جو ایک طرف مذہب
کی آڑ میں سیاست چمکاتے ہیں تو دوسری طرف دینی مافیا اسلام کا نام لیکر
اپنے گھناوئنے عزائم کی تکمیل کو یقینی بناتے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ
جب توہین رسالت کا ملزم گرفتار ہوچکا تھا تب جوزف کالونی کو آگ لگانے کا
کوئی جواز نہ تھا۔ زہن نشین کرنا ہوگا کہ مسیحی برادری صدیوں سے اس خطے پر
آباد ہے۔وہ پاکستانی دھرتی سے بے پناہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ وہ محب وطن شہری ہیں۔
ملک و قوم کی سلامتی کی خاطر انہوں نے ہمیشہ کندھے سے کندھا ملا کر
مسلمانوں اور پاکستانیوں کا ساتھ دیا۔ شرپسندوں نے مسیح برادری کے گھروں کو
آگ نہیں لگائی بلکہ انہوں نے محب وطن پاکستانی بھائیوں پر قیامت صغری مسلط
کی۔پاکستان اپنی زندگی کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا ہے۔ دہشت گردی نے پورے
ملک کو خون انسانیت میں ڈبو دیا ہے۔دہشت گرد کبھی بم دھماکوں سے سینکڑوں
انسانی جانوں کو راکھ بناتے ہیں تو کبھی خود کش حملہ آور منٹوں میں ہزاروں
بے گناہوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔کبھی کوئٹہ لہو لہو ہوتا ہے تو
کبھی عباس ٹاؤن میں کشت و قتال کا رقص بسمل سجتا ہے۔ ایسے سنگین ترین حالات
میں اقلیتی آبادیوں پر مشق ستم ڈھانا ایک طرف جہاں ملک و قوم سے غداری ہے
تو دوسری طرف وہاں سانحہ جوزف کالونی تعلیمات خدا اسوہ حسنہ اور قران پاک
کے مقدس تشخص کی پامالی کے بدترین جرم کا ارتکاب ہے۔ پنجاب حکومت کا فرض ہے
کہ وہ سانحہ جوزف کالونی کو روائتی تساہل اور محکمانہ لاپروائی کی بھینٹ نہ
چڑھنے دے۔ اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو انتظامی ادارے ملزمان کو
کیفر کردار تک پہنچانے اور انصاف کی فراہمی کے دعوے تو زور شور سے کرتے ہیں
مگر بعد میں سب کچھ طاق نسیان کے سپرد ہوجاتا ہے۔ پولیس کی اسی تساہل پرستی
لاپروائی اور حقائق سے اغماض برتنے کی ناعاقبت اندیشی شرپسندوں کو مستقبل
میں کھل کھیلنے کا ملکہ عطا کرتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بادامی باغ
سانحے کا از خود نوٹس لیکر عیسائی برادری کے ساتھ عقیدت و رواداری کا روز
روشن ثبوت دیا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ جو ناامیدی اور نراسیت کے
اندھیروں میں حق سچ کا نور بکھیرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے ملزمان کو
کیفر کردار تک پہنچانے میں کامیاب ہوگی۔یاد رہے کہ پاکستان اس وقت تک امن
کا گہوارہ نہیں بن سکتا جب تک یہاں اقلیتوں کو بنیادی انسانی حقوق سے ہم
اہنگ نہیں کیا جاتا۔ہمارے ہاں قدم قدم پر توہین رسالت ہوتی ہے مگر
انتہاپسندوں کو یہ نظر نہیں آتا۔کیا کرپشن لوٹ مار بم دھماکے خود کش حملے
دہشت گردی توہین رسالت کے زمرے میں نہیں اتے؟ جوزف کالونی کے ملزمان کو
یسوع مسیح کے محولہ بالہ جملے کی روشنی میں پہلے خود کو عشاق رسول کے منصب
پر خود تو فائز ہونا چاہیے ورنہ انہیں کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اسوہ حسنہ کے
علمبردار بنیں۔ |