مذہب کے نام پر عوام کودھوکہ
دینے اورپیسے کمانے کاانوکھا کاروبار
مزاروں پرچڑھاوے چڑھتے رہے ،عوام لٹتے رہے مگرقاضی شہرمفتی سیدشاہدعلی سمیت
دیگر سینئر علما خاموش تماشائی بنے عوام کوگمراہ ہوتادیکھتے رہے
از:محمد ناصرمصباحی رامپوری، مجلس فکر اسلامی ،بریلی گیٹ،
ضلع رامپور، یوپی کے مِلَک بِچولہ نا م کے ایک گاؤں میں تقریباً چھ ماہ قبل
ایک شخص نے اپنے کھیت میں خوابوں کی بنیاد پر چار محض بے اصل اور خالص فرضی
قبریں بنا لی تھیں اور انہیں مزارات کہنے لگا تھا۔فرضی مزار ات کی آڑمیں جس
شخص نے منصوبہ بندتجارت کاآغازکیاتھا وہ اسی مسلک سے تعلق رکھتاہے جومزاروں
پرحاضری کوجائزنہیں سمجھتا۔ ابتدا میں مزارت سے فائدہ ہونے کی دو چار
افواہیں بھی اڑادیں۔ نتیجتاً مٹی کے ان جھوٹے ڈھیروں پر جاہل عوام کی وہ
آمد رفت شروع ہوئی کہ خدا کی پناہ! جمعرات کو آنے والوں کی تعداد چھ سات
ہزارتک پہنچ جاتی تھی۔ یہی حالت پیر کو رہتی جب کہ دیگر دنوں میں بالخصوص
عورتوں کی قطار چلتی رہتی۔نینی تال قومی شاہرا ہ گاؤں سے گزررہی ہے جس پر
جمعرات اورپیر کو سخت ٹریفک جام لگنے لگا۔ قومی شاہراہ سے آدھا کلو میٹر
گاؤں کی لمبائی ہے جس کے بعد ایک کلو میٹر جنگل کی طرف پاپلر (poplar) کے
کھیت میں قبریں بنائی گئی تھیں۔ جمعرات اورپیر کو یہ پورا ڈیڑھ کلو میٹر کا
راستہ پیدل اور دو پہیہ گاڑی کے لیے خاص رہتا جو کھچا کھچ بھرا چلتا۔ سہ
پہیہ اور چہار پہیہ گاڑیوں کو پہلے ہی روک لیا جاتاتھا۔ جمعرات اورپیر کو
اس پورے راستے پر چادر، شیرینی ، اگر بتی، تیل اور پانی کی بوتلوں کی
سیکڑوں سے زیادہ دکانیں دونوں طرف لگی رہتیں اور کرائے پر روزانہ کی تیسیوں
مستقل دکانیں مزاروں کے قریب الگ چلتیں ۔ دو بیگھے میں سائیکل اسٹینڈ بنایا
گیا اور دس سے پچیس روپے تک کرایہ طے کیا جس سے جمعرات کو بیس ہزار تک
آمدنی ہوجاتی تھی ۔ جس کھیت میں قبریں بنائی گئی تھیں وہ ساٹھ بیگھے پر
مشتمل ہے اور پورے کھیت میں لکڑی کھڑی ہے ، شہر رامپور کا اختر خاں اس کا
مالک ہے، اسی نے مزار بنائے تھے مگر اس نے انتظام اپنے ہاتھوں میں نہ لے کر
چاروں قبروں کو بیس ہزار مہینے پر گاؤں کے تین لوگوں کے ہاتھوں ٹھیکے پر
اٹھادیااور جنہوں نے قبروں سے زبردست منصوبہ بند تجارت شروع کردی تھی ۔کچھ
لوگ فائدے کی جھوٹی افواہیں اڑانے کے لیے کرائے پررکھے جو دن بھر ادھر ادھر
چل پھر کر اندھوں کے ٹھیک ہوجانے ، پولیوزدہ کے خود چل کر گھر جانے اور کل
ملاکر ہر آنے والے کو ’’بڑا فائدہ ‘‘ہونے کی خبریں پھیلاتے۔ چند نوجوان
لڑکیاں آسیب زدگی اور پیشی کا ڈھونگ کرنے اور قبروں کے قریب خوب چیخ وپکار
مچانے کے لیے ہائر کی گئی تھیں۔چار جاہل مزدور الگ الگ چاروں قبروں پر
فاتحہ خوانی کے لیے بٹھائے گئے تھے جو ہر قبر کے پاس رکھی گولک میں آنے
والوں سے زیادہ سے زیادہ روپے ڈلواتے۔ پانچ گولکیں رکھی گئیں، پچیس روپے
میں عرضی نویس عرضی لکھتا اور اِن سب کی دو سو روپے دہاڑی طے کردی گئی۔
آمدنی سے انہیں کوئی مطلب نہیں تھا۔
ٹھیکے داروں کی ان سب کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ قبروں سے ڈیڑھ سے دو لاکھ
روپے تک مہینے پر آمدنی ہونے لگی۔راقم السطورکو گولک کے نگراں ہندو برج لال
نے بتایا کہ شام کو پیسے میرے ہی سامنے گنے جاتے تھے۔ جمعرات اورپیر کو
ہرگولک میں نو سے دس ہزار اور عام دنوں میں ڈیڑھ سے دو ہزار روپے نکلتے۔ اس
نے مزیدبتایاکہ ایک دن ایک شخص ایک گولک اٹھا کرلے بھاگا جس کے بعد دوسو
روپے دن دہاڑی پر مجھے نگراں رکھا گیا۔ مزاروں سے متصل گاؤں کے ہندوؤں کا
شمشان گھاٹ ہے، سامنے ہی مردہ جلتاہے، وہیں ایک تالاب ہے، ایک سمادھی بھی
بنی ہے۔ہم نے جب گاؤں کے لوگوں سے رابطہ کیاتوانہوں نے بتایاکہ غالباً
ٹھیکے داروں کی طرف سے قبروں کے قریب پانچواں مزار بنانے کا بھی ڈھونگ رچا
گیا۔ موٹر سائیکل سے ایک شخص آیا اور قبروں کے پاس دوچار لمبی لمبی سانسیں
کھینچ کر بولاکہ پانچواں مزار یہاں ہے۔ منصوبہ پہلے سے طے تھا چنانچہ قبروں
کے پاس موجود مجاوروں نے ایک چادر وہاں ڈال دی، چراغ اور اگر بتی بھی
سلگادی، پھر اچانک ایک نوجوان لڑکی قبر کے پاس آئی اور اس نے وہاں پیشی
لینی شروع کردی مگر گھنٹے بھر میں یہ سارا ڈرامہ دیکھ کر مزارو ں پر آئے
کچھ لوگوں کو شک ہوا۔ نتیجتاً ڈھونگی کی جم کر دھنائی کردی گئی۔ یہ دیکھ کر
لڑکی بھی پیشی چھوڑ کر کھیتوں کی طرف بھاگ گئی۔ چاروں قبروں کے پاس درختوں
پر ہزاروں عرضیاں اور منتوں کے لال ہرے کپڑے بندھے ہوتے تھے ۔
ٹھیکے داروں نے اپنی شاطر دماغی سے مزاروں سے ہونے والی آمدنی بہت بڑھالی
تھی جسے دیکھ کر زمین مالک کے منہ میں پانی آنے لگااور اس نے کرایہ بڑھانے
کی غرض سے دوبارہ نیلامی کی بات کہی اور نہ ماننے پر پولیس بازی بھی کی مگر
نتیجہ یہ ہوا کہ ٹھیکے داروں نے بیس ہزار بھی دینا بند کردیے۔جب زمین مالک
نے دیکھا کہ ہر مہینے کے بیس ہزار بھی گئے اور مزار کے نام پر دو بیگھے
زمین بھی جاتی رہی تو اس نے قبروں کو فرضی اور غلط کہنا شروع کردیااور
انہیں ختم کرنے پرآمادہ ہوگیا مگر اب نہ ٹھیکے دار سننے کو تیارتھے اور نہ
مزاروں پر آنے والے جاہل عوام۔ اس نے مفتی شہرمفتی سید شاہد علی سے بھی مدد
مانگی اورا س سلسلے میں مفتی صاحب سے کئی ملاقاتیں کیں مگرمفتی صاحب نے
کوئی بھی تعاون نہیں کیا۔ ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ دو مہینے سے مفتی
صاحب یہی کہتے چلے آرہے ہیں کہ میں پہلے اعظم خاں سے بات کرلوں۔راقم
السطورنے بھی اس اہم قضیے کے سلسلے میں مفتی شہرمفتی صاحب مذکورسے ملاقات
کی اورناگفتہ بہ صورت حال ان کے سامنے رکھی توانہوں نے مجھ سے بھی تقریباً
یہی بات کہی ۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ مزاروں سے پیسہ کمارہے ہیں وہ پرانے
قاتل قسم کے لوگ ہیں ، انہیں براہ راست ٹچ کرنا آسان نہیں، ہم اُنہیں اوپر
سے کنٹرول کریں گے۔
غرض مزاروں کے نام پر یہ بد عتِ حرام اور سراسر مشرکانہ ڈھکوسلا ضلع کے بلا
امتیاز تمام بڑے مفتیوں اور قاضیوں کی ناک کے نیچے تقریباً ساڑھے چار پانچ
ماہ تک زوروشور سے چلتا رہاکہ نہ کسی طرف سے کوئی مخالفت ،نہ فتوی اور نہ
تقریر۔عوام الناس اورکم پڑھے لکھے افراد گمراہ ہوتی رہے ،لٹتے رہے اور دین
ومسلک فروشی کاکاروبارخوب خوب گرم رہا۔اگران جھوٹے مزاروں کے خلاف شروع ہی
میں کسی بڑے عالم کی طرف سے مخالفت ہوجاتی تو یہ فتنہ فوراً دفن ہوجاتا اور
پورا ایک کمبھ کا میلہ نہ بنتا۔شروع میں اس کے لیے اترپردیش کے اقلیتی
امورکے وزیراعظم خاں سے بھی بات کرنے کی ضرورت نہ تھی۔مگرمفتی صاحب مذکورنے
صرف حیلہ بازی سے کام لیااوراس اہم مسئلے میں بالکل بھی دل چسپی نہ دکھائی
۔یہ مسئلہ اتنا مشکل اور پیچیدہ نہیں تھا جتنامفتی صاحب مذکورنے بنادیاتھا
۔حالانکہ اگروہ چاہتے تویہ فتنہ آسانی سے دبادیتے کیوں کہ موصوف قبلہ کے
اعظم خاں سے بھروسے مند تعلقات ہیں۔مگرہرہرقدم پہ دین دین اوراسلام اسلام
کی رٹ لگانے اورعوام کے سامنے ہمیشہ حلال وحرام کانعرہ بلندکرنے والے
مذکورہ شہرمفتی اورعلاقے کے دیگرسینئرعلماخاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے ۔لوگوں
کو بلا وجہ امیدیں دلاکر ان کا وقت خراب کرتے رہے اور انہیں گمراہ کرتے رہے
۔
بہر حال ایک ماہ کے شدید اضطراب اورہرطرف سے ہاتھ پیرمارلینے کے بعد اﷲ کا
نام لے کر میں نے ایک سخت مضمون ان فرضی مزاروں کے خلاف لکھاجسے یوپی اور
دہلی کے مختلف اردواخباروں کو بھیجا، بشکل پوسٹر اور پمفلٹ اردو اور ہندی
میں شائع کیا اور اُسے شہر ودیہات کی مسجدوں میں چسپاں کیا، بریلی اور
رامپور کے علما سے فتوے لکھوا کر انہیں مختلف اخبارات کو ارسال کیا، پوسٹر
کی شکل میں چھپوایا ، مسجدوں میں ائمہ سے کہہ کہہ کر تقریریں کروائیں اور
ان کی خبریں اخبارات کو دیں۔ بعد میں اس گاؤں کے پردھان اور کچھ دیگر لوگ
حمایت اور رابطے میں آئے توا نہیں لے کر ہم نوجوان علما، ائمہ، حفاظ نے
چونتیس پینتیس افراد کے وفدکی شکل میں ایک پرامن احتجا ج کیااور ضلع کے ڈی
ایم کو میمورنڈم دیا۔ پھر زمین مالک بھی رابطے میں آیا جو خود بھی فرضی
مزاروں سے پریشان چل رہاتھا۔ ہم نے اسے مفتی شہرسید شاہد علی رضوی صاحب کے
ہاتھوں پر توبہ کرنے اور توبہ نامے کو اخبارات میں چھپوانے کا مشورہ دیا۔
اپنی اس حرکت پرشرمندہ ہوااورتوبہ کرنے پر راضی ہوگیا مگر جب اسے لے کر ہم
سید صاحب قبلہ کے پاس گئے تو سید صاحب کے ذہن میں معلوم نہیں کیاحکمتیں
اورمصلحتیں تھیں ،نتیجتاً ہمارا منصوبہ ناکام رہااورسیدصاحب کی ذات سے ہم
کوسخت مایوسی کاسامناکرناپڑا۔پتہ نہیں توبہ کروانے میں ان کوکیاتامل تھا۔
بہر حال اب ہم نے مزید کوشش کی اور فرضی مزاروں سے جڑے لوگوں کے لیے ایک
خالص دینی اپیل بشکل پوسٹر جاری کردی۔ اس مہم میں شہر کے نوجوان علما ،
ائمہ، حفاظ نے بڑا ساتھ دیا۔اس میں خاص طورپر مولانا مزمل حسین رضوی فاضل
الجامعۃ الاسلامیہ رامپورقابل ذکرہیں ۔فرضی مزاروں کے خلاف ہمارے احتجاج کی
وجہ سے فرضی مزاروں پر آنے والوں کی تعداد میں اسی فیصد کمی آگئی اوردو
ٹھیکے دار بھی ٹوٹ گئے۔ صرف ایک ٹھیکدارحَسین ولد چھوٹے بچا۔ہم نے شہر
ودیہات میں مذکورہ مزارات کا جھوٹا ہونا بھی خوب مشتہر کردیانتیجہ یہ ہواکہ
ملک بچولہ گاؤں کے لوگ بھی تقریباً سب مخالف ہوگئے ۔
اب قارئین کویہ خوش کن خبر سناتے ہوئے فرحت ہورہی ہے کہ حکمِ شرع سے آگاہی
کے بعد گاؤں کے ہی لوگوں نے بغیرکسی مزاحمت بلکہ انتہائی پر امن اور خالص
دینی جذبے سے اُن چاروں قبرنمامٹی کے ڈھیروں کواپنے ہاتھوں سے کھودکرختم
کردیااور وہاں کی زمین کاشت کے لیے پہلے ہی کی طرح مکمل طریقے سے ہموار
کردی گئی۔لگ بھگ آدھے بیگھہ کھیت میں گز بھراونچا مٹی کاپٹان کرکے اُس کے
چاروں کونوں پر ایک ایک قبر بنائی گئی تھی مگراب قبروں کے ساتھ وہاں کی
ساری مٹی بھی ٹریکٹرٹرالی کے ذریعے گاؤں کے مختلف ضرورت مند اٹھاکرلے گئے
جب کہ پٹان کے ارد گرداینٹوں سے بنی دیوار توڑکراُس کی اٹھارہ بیس ہزار
اینٹیں گاؤں کی ایک زیرِ تعمیر مسجدمیں رکھ دی گئیں۔
ان جھوٹے مزاروں کوختم کرانے میں ضلع کے چندنوجوان علما وائمہ کی خاص
کاوشیں رہیں جب کہ سینئر علما کی طرف سے مسلسل مایوس کن خاموشی رہی ۔ اُ ن
کے حرام اوربدعتِ ابلیسی ہونے کی ضلعی سطح پردوٹوک انداز میں پہلی آواز
اٹھائی اوراُ س کے بعد مسلسل ڈیڑھ دومہینے شہرودیہات میں سخت فرضی
مزارمخالف تشہیری مہم چلاکر عوام کی نظروں میں اُن چادرپوش مٹی کے ڈھیروں
کوقطعاً بے حرمت کردیاجس کا نتیجہ یہ ہواکہ دھیرے دھیرے لوگوں نے وہاں
جاناچھوڑدیا۔جمعرات اورپیر کوجہاں چارپانچ ہزارتک پبلک آجاتی تھی وہاں
بفضلہ تعالی صرف دوتین مہینے میں ویرانی کااُلو بولنے لگا۔بالآخرایک دن گاؤ
ں کے ہی باشندگان (جن میں عرفان نیتاگرام پردھان اورناظم بھائی قابلِ تعریف
ہیں جو پہلے ہی سے فرضی مزاروں کے سخت خلاف تھے)نے اُنہیں زمین سے کھرچ
کرصاف کر دیا۔
آغازِمخالفت کے بعد علاقے کے ایک مدرسے کے مہتمم حضرت مولاناقاسم صاحب کی
حلقہ جاتی تقریریں بھی موثرثابت ہوئیں ۔ مزاروں کے جلدختم ہوجانے کی ایک
وجہ یہ بھی رہی کہ قبریں چوں کہ زمین مالک کی سادہ لوحی کی وجہ سے نہیں
بلکہ محض مکاری اورتجارتی نقطۂ نظرسے بنائی گئی تھیں جنہیں اُ س نے بڑھتی
انتظامی ضرورت کے تحت جلدہی ماہانہ بیس ہزارکی رقم پر ٹھیکے
پراٹھادیاگیاتھا،مگرکرایہ بڑھانے کے مطالبے پر زمین مالک اورٹھیکے داروں
میں ناچاقی پیدا ہو گئی۔مزید یہ کہ ٹھیکے داروں نے یہ دعوی کردیاکہ جس جگہ
قبریں بنی ہیں خاص کراُ س کے سامنے متصل ڈیڑھ بیگھہ جگہ جہاں کرایے پر
دکانیں لگتی ہیں (یہ جگہ مبینہ طورپرزمین مالک کے کھیت کاحصہ تھی) وہ
کاغذاتی اعتبارسے گرام سماج کی زمین ہے لہذاہم کرایہ کیوں دیں ۔نتیجتاً
زمین مالک کرایہ ٔ مزارات ودکاکین کے ساتھ قبضۂ زمین سے بھی خود کوبے دخل
محسوس کرنے لگا جس کے بعدوہ مزاروں کوختم کرنے پر آمادہ گیا۔مگراب براہ ِ
راست ٹھیکے دارآڑے آگئے، دوسری طرف زمین مالک پبلک کی بے تحاشہ آمدورفت
دیکھ کربھی ہدمِ مزارات کے تصورسے دہشت کھاتاتھاجیساکہ ناچیز کے باربار
اکسانے پر وہ اِ س اظہارکرتاتھا،لیکن بعدمیں جب نوجوان علماکی مسلسل مخالفت
کی وجہ سے دھیرے دھیرے خودپبلک ہی نے وہاں جاناچھوڑدیااوراِس طرح اُن سے
آمدنی ختم ہوگئی توزبردستی کے ٹھیکے دار بھی کنارہ کش ہوگئے۔نتیجتاًحالات
ہموارپاکرایک دن گاؤ ں کے ہی لوگوں نے متحدہ طورپر اُنہیں بذاتِ خود
کھودکرپھینک دیا۔گاؤں کی جامع مسجد کے امام مولاناسید واجدعلی نے راقم
کوبتایاکہ انجانے میں اِکا دُکالوگ آج بھی آجاتے ہیں مگرجب اُنہیں مزاروں
کے ختم کردیے جانے کی بات بتائی جاتی ہے تووہ گاؤں کے کنارے ہی سے واپس چلے
جاتے ہیں ۔آخرمیں ایک باراوراس بات کی وضاحت نہایت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ
خوابوں کی بنیادپراپنے ہی ہاتھوں سے اپنے کھیت میں اکھٹے چار مصنوعی مزارات
بناکرمنصوبہ بندتجارت کرنے والازمین مالک ا س مسلک کے تعلق رکھتاہے جس کے
یہا ں مزارات پرحاضری کوبدعت سمجھاجاتاہے ۔ |