اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات
ہے اور قرآن ہمیں ہر ایک سے اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیر مسلموں کے ساتھ جو برتاؤ رہا اس کی تاریخ
میںمثال نہیں ملتی۔ مشرکین مکہ و طائف نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے
شمار ظلم ڈھائے لیکن جب مکہ مکرمہ فتح ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
دس ہزار صحابہ کرام ؓ کا لشکر لے کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک انصاری کمانڈر سعد بن عبادة نے ابوسفیان سے کہا
: آج لڑائی کا دن ہے یعنی آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا تو آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہو گئے اور ان سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے
قیس کے سپرد کر دیا اور ابوسفیان سے فرمایا :”(آج لڑائی کا نہیں بلکہ) آج
رحمت کے عام کرنے (اور معاف کر دینے) کا دن ہے۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مخالفین سے پوچھا کہ بتاؤ میں آج
تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کروں گا؟ تو انہوں نے کہا کہ جیسے حضرت یوسف علیہ
السلام نے اپنے خطاکار بھائیوں کے ساتھ برتاؤ کیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے بھی وہی توقع ہے۔ اس جواب پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
وہی جملہ ارشاد فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے لیے
فرمایا تھا :(تم سے آج کوئی پوچھ گچھ نہیں تم سب آزاد ہو)۔
چندر وز پہلے لاہور کے علاقہ بادامی باغ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کے
متعلق سن کر ہر ذی شعور انسان کا دل خون کے آنسو بہانے لگا اور مسلمان ہونے
کے ناطے سب کے سر شرم سے جھک گئے۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اسلام نے
ہمیشہ محبت اور اخوت کا درس دیا۔ نہ جانے اس دن مسلمانوں کے روپ میں کون
لوگ تھے جنہوں نے اسلامی حدوں کو پار کرکے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی کام
کیا۔ اسلام نے کبھی بھی کسی بھی حالت میں ہوش و ہواس کا دامن ہاتھ سے
چھوڑنے کا درس نہیں دیا۔خو د حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں
جب ایک بوڑھی عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوڑا کرکٹ پھینکتی تھی تو
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی اس کو برا نہیں کہا اور نہ ہی
صحابہ کو اس پر ظلم کرنے دیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب وہ
بیمار ہوگئی تو اس کی خدمت کرکے اسلام کا مقام بلند کیا جس کی وجہ سے وہ
اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوئی۔
سانحہ بادامی باغ کے متعلق جواطلاعات ملی ہیں ان کے مطابق ایک مسیح نوجوان
نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ۔جن لوگوں کے
سامنے یہ واقعہ ہوا انہوں نے اس کی رپورٹ تھانے میں درج کرادی ۔پولیس نے
رپورٹ درج ہونے کے بعد کارروائی کرتے ہوئے اس مسیح کو گرفتار کر لیا۔جیسے
ہی یہ خبر علاقے میں پھیلی تو ہر طرف غم و غصہ کی لہردوڑ گئی۔ہفتہ کے روز
مشتعل مظاہرین احتجاج کرتے ہوئے روڈ پر نکل آئے اوراس مسیح کی حوالگی کا
مطالبہ کرتے رہے ۔اس کے بعد سینکڑوں مظاہرین نے مسیحی آبادی کی طرف پیش
قدمی کردی جس میں ساون مسیح رہتا تھا۔ انہوں نے مسیحیوں کے گھروں کو آگ
لگانا شروع کردی۔جسکے نتیجے میںایک اندازے کے مطابق تقریبا200گھر ،دکانیں
اور چرچ نذرآتش کردیے۔مشتعل مظاہرین نے بے قابو ہو کر پولیس ، امدادی ٹیموں
اور ریسکیو اہلکاروں پربھی پتھراؤ کیا جس کے سبب کئی فراد زخمی ہوئے ۔اس
واقع میں ہلاکت نہ ہونے کی وجہ یہ ہی بتائی گئی کہ توہین رسالت کے واقع کے
بعد بستی کو خالی کرا لیاگیا تھا۔ اس سے قبل بھی کئی ایسے واقعات وقوع پذیر
ہوچکے ہیں۔
اس سارے واقعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر کوئی سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا
انتظامیہ کو معلوم تھا کہ ایسا کوئی واقع ہونے والا ہے جو اس نے بستی کو
خالی کرایا تھا ؟پھرانتظامیہ نے مسیح برادری کے املاک کو نقصان سے بچانے کے
لیے عملی اقدامات کیوں نہیں کیے؟ یہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ
پاکستان میںکچھ شر پسند لوگ انتہاپسندی ا ور لاقانونیت کی انتہاءتک پہنچ
چکے ہیں۔قانون کا احترام کرنے کی بجائے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے
ہیں۔اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
ان آگ لگانے والوں سے پوچھا جائے کہ جس نے توہین رسالت کی وہ تو گستاخ رسول
بن گیا مگر جو لوگ اس ہنگامے میں شامل تھے کیاوہ اپنے پیارے صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی سنت پوری کرتے ہیں ؟ کیا وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے بتائے ہوئے طریقے سے زندگی بسر کرر ہے ہیں؟ جب ہم خود ناچ گانے ،
بے ہودہ زبان اور دین سے دور ہوتے جائیں گے تو پھر غیر مسلموں کو تو ایسا
کرنے کا موقع ہم خود مہیا کررہے ہیں۔ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں عملی طور پر
تو ہم مسلمانوں والے کام نہیں کرتے۔ خواتین کا احترام نہیں کیا جاتا،
ناجائز قبضہ کرنا ہمارا حق ہے، غریبوں پر ظلم کرتے ہیں اور مسجد یں ہماری
ویران ہوتی ہیں اور مسلمان ہونے کا دعویٰ سب سے پہلے کرتے ہیں۔
پاکستان کے پرچم میںدورنگ ہیں جس کامطلب ہے کہ سبز رنگ مسلمانوں کی
نمائندگی کرتا ہے اور سفید رنگ اقلیتوں کی۔ پھر ان مسیحوں کے ساتھ زیادتی
کیوں؟ آج پاکستان کے کو نے کونے میں مسیح بھائی اس ظالمانہ اقدام کے خلاف
سراپا احتجاج ہیںوہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ اس احتجاج میں مسلمان بھی شامل
ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جن شر پسند عناصر نے یہ مذموم حرکت کی وہی
اب بھیس بدل کر مسیحی برادری کو مزید مشتعل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس آگ
کو بھڑکائیں گے۔ اگر حکومت نے احساس ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو پورا ملک
اس کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس شخص نے توہین رسالت کی اس کو پولیس نے گرفتار
کرلیا تو پھر یہ ہنگامہ کس لیے؟ توہین رسالت کے لیے واضح قانون موجود ہے
اور اور مجرم بھی پولیس کی حراست میں ہے پھر ان شرپسند عناصر کو ملک کی
بدنامی کرانے کا حق کس نے دیا؟ غیر مسلم شہریوں کو بیرونی جارحیت سے بچانے
کے حوالے سے حکومتِ وقت پر وہ سب کچھ واجب ہے جو مسلمانوں کے لئے اس پر
لازم ہے۔ چونکہ حکومت کے پاس قانونی و سیاسی طور پر غلبہ و اقتدار بھی ہوتا
ہے اور عسکری و فوجی قوت بھی، اس لئے اس پر لازم ہے کہ وہ ان کی مکمل حفاظت
کا اہتمام کرے۔ |