محمد میاں مالیگ(لندن)
غالباً صدی ڈیڑھ صدی ہونے والے ہے کہ یہود و نصاریٰ کے منصوبوں کے مطابق
دنیوی دولت اور بادشاہت کے لالچ میں مومنین کے قلوب و اذہان سے روح محمد
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نکالنے کے لئے مسلمانوں کے ہی مذہبی پیشوا
کہلانے والے جو تقاریر کررہے اور جو کتابیں لکھ رہے تھے ان سے یکہ و تنہا
چومکھی مقابلہ کرنے والے اللہ کے ایک سچے ولی نے نامعلوم کس عالم اور کس
خلوص میں ڈوب کر بارگاہ رسالت میں یہ استغاثہ پیش کیا تھا
سوکھے دھانوں پہ ہمارے بھی کرم ہوجائے
چھائیں رحمت کی گھٹا بن کے تمہارے گیسو
کہ اس کی قبولیت کے جلوے آج نہ صرف برصغیر پاک و ہند میں بلکہ یورپی ممالک
اور خاص طور پر برطانیہ میں بھی ماتھے کی آنکھوں سے دیکھے جارہے ہیں۔
برطانیہ میں ایک زمانے میں منکرین فضائل رسالت کی وہ یلغار تھی کہ جیسے ہی
ماہ نور شہر سرور ربیع الاول شریف کی آمد کے نقارے بجتے اس کے ہر چھوٹے برے
اُردو اخبار میں یہ لوگ عید میلاد پاک کے بدعت اور جہنمی و دوزخی عمل ہونے
کا پرچار شروع کردیتے۔ یہاں تک کہ میلاد پاک کی محافل و مجالس میں اللہ و
رسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام لینے کو بھی بدعت اور
جہنمی و دوزخی عمل بتاتے بلکہ دنیائے اسلام کے سب سے بڑے اسلامی مرکز مکے
مدینے کے ایک مفتی اور دوسرے بھی کئی ایک منکرین فضائل رسالت کی کئی ایک
چھوٹی بڑی کتابیں پوسٹ کے ذریعے مسلمانوں کو گھر بیٹھے پہنچاتے رہے۔ لیکن
جھوٹ کے سراور پاؤں کہاں ہوتے ہیں کہ ان کا یہ جھوٹ چل جاتا۔ خداوندکریم نے
اپنے محبوب بندے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رفعت
ذکر کا وہ مظاہرہ فرمایا کہ اب دو تین برس سے ان کے رویے میں کافی تبدیلی
آگئی ہے اور پہلے کی طرح خم ٹھونک کر عید میلادپاک کو بدعت اور جہنمی و
دوزخی عمل کہنے کی جرات یہ کم ہی کررہے ہیں۔ الحمد للہ ! امسال برطانیہ میں
عید میلاد پاک کی وہ گہماگہمی اور وہ رونق رہی کہ پورے مہینے روزنامہ جنگ
کا شاید ہی کوئی شمارہ ہوگا جس میں عید میلاد پاک منائے جانے کی کوئی نہ
کوئی خبر نہ شائع ہوئی ہو بلکہ امسال تو برطانیہ میں یہ جدت بھی ہوئی ہے کہ
گذشتہ رمضان شریف میں منکرین فضائل رسالت رمضان ریڈیو خرید کر پورے ماہ خوش
عقیدہ مسلمانوں کو دعوت دیتے رہے تھے کہ آؤ ہم سے بات چیت کرلو کہ ہم سچے
ہیں یا آپ حضرات ؟ اسلئے سمیدک (ویسٹ مڈ لینڈز ) کے چند خوش عقیدہ نوجوان
ٹیکسی ڈرائیوروں نے کچھ پیسے جمع کرکے فیصل آباد سے ایک نوجوان عالم باعمل
حضرت علامہ سعید احمد صاحب اسعد کو ماہ مبارک ربیع الاول شریف میں مدعو
کرلیا۔ پھر کیا ہوا ؟ سعید احمد صاحب اسعد جمعہ شریف کے خطابات اور ہفتے
اتوار کے اپنے چار چار پانچ پانچ بیانات میں منکرین فضائل رسالت کو پیارو
محبت کی زبان میں دعوت دیتے رہے ہیں کہ آؤ اور مجھ سے اپنے سچے یا غیر سچے
ہونے کے عنوان پر بات چیت کرلو، لیکن ادھر سے مکمل خاموشی پر چند ایک اجلاس
کے بعد جل بھن کر یہ بھی کہہ بیٹھے کہ اے منکرین فضائل رسالت آؤ مجھ سے بات
چیت کرو میں کہتا ہوں کہ آپ حضرات حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے
گستاخ اور بے ادب ہیں۔ جب بات یہاں تک پہنچی تو ایک دن مولانا اسعد کو
مرکزی جمعیت اہل حدیث برمنگھم کے لیٹر پیڈ پر ایک تحریر ملی کہ ہم آپ سے
بات چیت کرنے کے لےے تیار ہیں۔ لہٰذا اس خط کی یافت پر مولانا اسعد صاحب نے
جامع مسجد ضیاءالقرآن برمنگھم کے چار سر برآوردہ افراد کو جمعیت اہل حدیث
کے مرکز میں وقت جگہ اور موضوع متعین کرنے کے لےے بھیجا ،لیکن وہاں کیا ہوا
؟ امیر جمعیت اہل حدیث مولانا عبدالہادی صاحب العمری نے کہا کہ یہ خط ہم نے
بالکل نہیں لکھا ہے بلکہ شاید کسی نے ہمارا لیٹر پیڈ چوری کرکے یہ خط لکھ
ڈالا ہے۔ ہم چونکہ امن پسند اور اتفاق کے داعی ہیں اس لےے خصوصی طور سے کسی
غیر اسلامی ملک میں مناظرے ہرگز ہرگز مفید نہیں سمجھتے۔ بات چونکہ معقول
تھی اس لئے آئی گئی ہوگئی لیکن اس کے بعد پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعیت
اہل حدیث برطانیہ کے دوسرے علماءکو جب ان حالات کا علم ہواتو انہوں نے ایک
اجلاس بلاکر یہ طے کیا کہ ہم سعید احمد صاحب اسعدسے بات چیت ضرور کریں گے۔
اس لئے اسی اجلاس میں مولانا عبدالہادی صاحب العمری نے اعلان کیا کہ سعید
احمد صاحب اسعد سے ہم انگلش طرز کا مناظرہ کرنے کیلئے تیار ہیں جس میں گالی
گلوچ بالکل نہ ہوگی اور یہ مناظرہ صرف اور صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں
ہوگا۔ یہ روداد مولانا سعید احمد صاحب اسعد تک پہنچی تو28جولائی 1998ءکو آپ
نے جامع مسجد ضیاءالقرآن برمنگھم میں ہزاروں افرادکی موجودگی میں اعلان
فرمایا کہ ” دو دن بعد 30 جولائی کو اسی مرکز میں شام کو پانچ سے سات بجے
تک میں اور مولانا عبدالہادی صاحب العمری انگلش طرز کا ایسا مناظرہ کریں گے
جو صرف قرآن اور احادیث پر مشتمل ہوگا۔ جس میں نہ گالی گلوچ ہوگی نہ کسی
فرد کو کچھ بولنے کی اجازت۔ ہماری بات چیت کی ویڈیو کیسٹ بنیں گی جن کو
دیکھ کر قوم خود فیصلہ کرے گی کون سچا ہے اور کون غیر سچا ؟ ہر مقرر کو
پہلے پندرہ پندرہ منٹ اور پھر دس دس منٹ کے برابر برابر وقت ملیں گے۔ میں
ثابت کروں گا کہ منکرین فضائل رسالت نے رسول پاک ارواحنا فداہ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کی توہین اور گستاخیاں کی ہیں اور مولانا عبدالہادی صاحب
العمری ثابت کریں گے کہ ہمارے بڑوں نے رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
کی کوئی توہین اور کوئی گستاخی نہیں کی ہے اور بس۔“ لیکن افسوس کہ مولانا
عبدالہادی صاحب العمری اس پروگرام کی خبر وصول کرلینے کے باوجود 30 جولائی
1998ءکے پانچ سے سات بجے تک مولانا سعید احمد صاحب اسعد سے انگلش طرز کا یہ
مناظرہ کرنے کے لےے مقررہ وقت پر تشریف نہ لائے اور اس طرح مسلمانوں کے
درمیان نفرتوں کی خلیج پیدا کرنے والے ایک بہت بڑے فتنے کے سد باب کے موقع
کو گنوابیٹھے ۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ مولانا عبدالہادی صاحب العمری اور دوسرے
علمائے اہل حدیث آئندہ کیا اقدام کرتے ہیں؟ ادھر حسب پروگرام مولانا سعید
احمد صاحب اسعد ۴اگست کو پاکستان تشریف لے جاچکے ہیں۔ ہمارے مشاہدے کے
مطابق اسعد صاحب سادہ طبیعت کے نہایت ذہین اور اخاذ عالم دین نظر آتے ہیں۔
ان کا حافظہ بہت قوی ہے۔ جس مسئلے پر بھی ان سے گفتگو کی گئی فوراً ہی قرآن
و احادیث کے برمحل حوالے بیان فرمائے ہیں اس لئے علمائے اہل حدیث شاید ہی
آگے بڑھ سکیں گے کہ
شیر جنگل میں اکیلا ہی بہت ہوتا ہے
پھر بھی آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ |