ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے
صحافیوں کے حملہ آورکو پولیس تشدد کا شکار دکھایا گیا گرم ریت پربٹھا کر اس
طرح سے پوز کیا گیا کہ پولیس نے ”چھتر“ ما ر مارکر شدید زخمی کردیا۔ مقصد
یہ تھا کہ پولیس پر دباﺅ ڈالا جائے تاکہ ملزم اور دیگرکو ریلیف مل سکے اور
ایسا ہی ہوا کہ پولیس کو اپنے لالے پڑ گئے اور صحافیوں سے گفت و شنید کے
بعد ایک بیان حلفی لکھ دیا گیا اب پولیس بھی کچھ عرصہ کیلئے ”ٹھنڈی“ ہوگئی
اورملزمان کی بھی کچھ وقت کیلئے خلاصی ہوگئی
یہ سارا واقعہ مشہور زمانہ رابعہ یاسمین ٹیچرزیادتی کیس کا ایک پہلو ہے جو
کہ آجکل اخبارات کی سیاہی کی طرح تاریک ہے اور بہت سے سوالات جنم دیتا ہے
اسے مختصرا متاثرہ ٹیچر کی زبان میں بیان کردیتا ہوں کہ میں مثالی پائلٹ
سکول کہروڑپکا میں بطورمعلمہ اپنے فرائض انجام دیتی آرہی تھی کہ ایک دن
سکول کے پرنسپل اصغر نقشبندی اور عظمی اسلم نے مجھے اپنے آفس میں بلایا اور
مٹھائی کھانے کو دی مٹھائی کھاکرمیں مجھے اپنا کوئی ہوش نہ رہا پھر اصغر
نقشبندی (مرکزی کردار)نے عظمی اسلم اور رانا ریاض کے ساتھ مل کر انسانیت کو
شرمندہ کردینے والا شرمناک کھیل رچایا اور حالت مدہوشی و بے ہوشی میں میری
برہنہ تصاویر اور ویڈیوز بنالی اور پھر عزت و عصمت کو تار تار کردیا
گیا۔ہوش میں آنے پر مجھے میری ویڈیوزاورتصاویر دکھاکر مجھے منہ بند رکھنے
کا کہا گیااور دھمکی دی گئی کہ اگر آج کے واقعے کے بارے کسی کوبتایا تو
تمہارے ساتھ ساتھ تمہارے والدین کی عزت بھی مٹی میں ملادوں گا ۔یہ گھناﺅنا
اور قبیح کھیل کافی عرصے چلتا رہا اور بھیڑیا اصغر نقشبندی عظمی اسلم کی
موجودگی میں رانا ریاض اور دوسروں دوستوں کے ساتھ میری آبرو ریزی کرتا رہا
اسی دووران میں نے سکول بھی چھوڑ دیا لیکن عظمی اسلم اور اصغر نے مجھے بلیک
میل کرکے دوبارہ سے سکول جوائن کروالیا مرتی کیا نہ کرتی کے مصداق اپنے
والدین کی عزت کو بچانے کی خاطر میں انکی جنسی ہوس کا نشانہ بنتی رہی۔
قدرت کو شاید میری بے بسی پر رحم آگیا اور ان درندوں کی رسی کو کھینچ
لیناچاہتا تھا کہ جب آخری مرتبہ انہوں نے مجھے سکول بلایا تو مجھے گھرواپس
جانے میں دیر ہو گئی میرے والد مجھے ڈھونڈتے ہوئے اس طرف آنکلے اور سکول سے
میرے شور واویلا کی آواز سن کر سکول میں موجود بیڈ روم نما کمرے میں داخل
ہوئے تو مجھے اصغر نقشبندی نوچ رہا تھا میرے والد کو دیکھ کر وہ سب وہاں سے
فرار ہوگئے مجھے نیم بے ہوشی کی حالت میں گھر لایا گیا ایف آئی آرچاک ہوئی
دوسرے دن تینوں ملزموں نے عبوری ضمانت کروالی اور پھر ملزمان نے پور ے شہر
اور گردو نواح سے مدعی کے ملنے والوں سے پریشرائز کرنے کی بھرپور کوشش کی
گئی مزید یہ کہ سیاسی اثر رسوخ کو بھی نہایت حد تک استعمال کرنے کی کوشش کی
گئی صحافیوں کو دبانے کی کوشش کی گئی ۔مگر مدعی اور صحافیوں نے ٹھان لی ہے
کہ ان درندوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔
اوپر بیان کردہ واقعات یقینا شرمناک اور انسانیت سوز ہیں لیکن ان کے بیان
کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملزمان کو نشان عبرت بنایا جائے تاکہ حوا کی بیٹیاں
اس بے لگام معاشرے میں محفوظ و مامون رہ سکیں۔ خواتین کے ساتھ زیادتی اور
اجتماعی زیادتی کے واقعات دنیا بھر یں ایک بڑے المیے کا روپ دھار چکے ہیں
اور پاکستان جیسے اسلامی ملک میں امریکہ جیسے سیکولر اور بھارت جیسے مشرقی
ملک میں خواتین بالخصوص ملازمت کرنے والی خواتین کو جنسی طور پرہراساں کرنے
کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔پاکستان میں ہر روز خواتین کے ساتھ زیادتی کے بہت
سے واقعات میڈیا کے ذریعے سے عوام الناس تک پہنچ پاتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی
ہوتے ہیں جو کہ بہت سی وجوہات کی بناپر رپورٹ ہی نہیں کئے جاتے جس کی وجہ
سے بھی عورتوں کا استحصال بڑھتا جارہا ہے -
اس لڑکی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک بھیانک واقعہ ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ یہ واقعہ یا اس قسم کے واقعات اس قدر عام کیوں ہوتے جارہے ہیں ملزموں
کی اس قسم کے جرائم کرنے کی ہمت کیونکر ہوتی ہے پاکستان میں اس قسم کے
واقعات کو روکنے کیلئے کن اقدامات کی ضرورت ہے کہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے
واقعات کو روکا جاسکے۔ مندرجہ ذیل عوامل بھی ان واقعات کے رونما ہونے کے
ذمہ دار ہیں
٭پاکستا ن میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد نہایت کم ہے جس کی وجہ سے
خواتین کے معاملات کو تھانہ تک لے جانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پولیس اہلکاروں کی نفری نہ ہونے کی بنا پر خواتین کے مقدمہ جات کے اندراج
نہیں ہو پاتے جو کہ ملزمان کو آشیرباد دینے کے زمرے میں آتا ہے-
٭عوامی و تفریحی مقامات پر پبلک سیفٹی کی کمی بھی ایک اہم ایشو ہے جس کی
وجہ سے گھر سے باہر عورت کو تحفظ حاصل نہیں-
٭ہمارا سست عدالتی نظام بھی ان جرائم کے اضافے کا ایک اہم حصہ ہے جو کہ
ججوں کی کمی اور عدالتوں میں کیسز کی بھرمار کی بنا پر تاخیر کا شکار ہوکر
اپنی موت آپ مرجاتے ہیں اور متاثرہ فریق اس سست روی کا شکا ر ہوکر اپنی جان
چھڑانا غنیمت جانتا ہے-
٭خواتین کے ساتھ روزمرہ کے واقعات میں چھیڑچھاڑ شامل ہیں جن کے بارے میں
کوئی پراپر قانون یا لائحہ عمل موجود نہ ہے ۔ جس کی وجہ سے ملزمان کا حوصلہ
بڑھتا ہے اور ریپ کے واقعات کا رجحان بھی بڑھتا ہے-
٭ہمارے معاشرے میں خواتین کے سٹیٹس کے حوالے سے بھی بہت سے سوالات جنم لیتے
ہیں جن میں ایک اہم مسئلہ عورت کو کم تر سمجھنا ہے لڑکوں کے مقابلے میں
لڑکیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور عورت کی اہمیت میں کمی بھی خواتین
کی بے عزتی و رسوائی کا سبب ہیں-
٭جنسی زیادتی کا شکار خواتین کو مجرم سمجھنے کا وطیرہ بھی شروع سے ہی
کارفرما ہونے کی بنا پر عورت کوہی مورد الزام ٹھہرادیا جاتا ہے اس بدنامی
سے بچنے کیلئے عورت ایسے معاملے کو پوشیدہ رکھنے پر ہی اکتفا کرتی ہے
کیونکہ معاشرے میں اسے بھی برابر کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے اور ملزمان کو
شک کی بناپر جرم کرنے کی ہمت ہوجاتی ہے-
٭زیادتی کے بعد صلح کرنا یا کروانا ہمارے معاشرے میں عام ہوتا جارہاہے ملزم
کو معلوم ہوتا ہے کہ ہوس مٹانے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ معافی تلافی اور
صلح نامے سے کام چل جائے گا اور اکثر واقعات کی تاریخ بھی اسی بات پر دلالت
کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ شادی کردینا اس معاملے کا مناسب اور بہتر حل
مانا جاتا ہے-
٭لباس کی نامناسبت اور بے دھنگاپن بھی جنسی زیادتی کی وجوہات کی ایک بڑی
وجہ ہے فیشن اور ماڈرن ازم کے ماری خواتین ایسے بھڑکیلے اور جذبات کو
ابھارنے والے لباس استعمال کرتی ہیں جس سے دیکھنے والے کو ترغیب ملتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں پینٹ شرٹ اور سکرٹ وغیرہ پہننے کی وجہ سے بھی ریپ کے
واقعات عام ہوتے جارہے ہیں-
یہ تمام وجوہات اپنی جگہ اور زیادتی کے واقعات اپنی جگہ ۔اگر یہ قبیح عمل
ایک عام فرد کرتا ہے تو اس سے ایک عورت یا ایک خاندان متاثرہوتا ہے لیکن
اگر یہ عمل ایک استاد کرے تو پورا معاشرہ اس بھیانک اور لرزہ خیز عمل کا
شکار ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کو نشان عبرت بنادینا ہی اس کا واحد حل ہے- |