78 واں یوم آزادی ، آزاد و مقبوضہ جموں کشمیر میں منانے کا جداگانہ انداز

پاکستان میں یوم آزادی نمود و نمائش، ذاتی و مالی فائدے کے حصول کے لئے منایا جاتا ہے جب کہ کشمیری قوم یہ دن پاکستان سے دلی محبت و اخلاص کے ساتھ مناتی ہے
پاکستان کا 78واں یوم آزادی
آزاد کشمیر اور پاکستان میں منانے کا جداگانہ انداز
تحریر: رفیع عباسی
ماہ اگست نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ آزاد اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے باشندوں کے لیے بھی خوشی و شادمانی کا پیغام لے کر آتا ہے۔ 14اگست کو اس دن کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جب دنیا کے نقشے پر برصغیر میں پاکستان کی صورت میں نئی مملکت وجود میں آئی۔ اوائل ماہ سے ہی اس یوم کو شایان شان طریقے سے منانے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کشمیر و پاکستان میں اس تاریخی دن کو منانے کے حوالے سے جدا گانہ انداز ہے۔ کشمیری اس دن کو پاکستان کی محبت میں سرشار ، پورے اخلاص اور جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کو پاکستان سے انسیت کےجرم میں جانوں کے نذرانے بھی پیش کرنا پڑتے ہیں ۔اس کے مقابلے میں پاکستان میں جہاں ہر جگہ نمود ونمائش، تصنع و بناوٹ کا چلن عام ہے، وہیں اس قومی دن کو بھی ذاتی تشہیر و مالی مفادات کے حصول کے لیے منایا جاتا ہے۔ بڑے ہوٹلوں،کمیونٹی سینٹرز ومیرج ہالز، آڈیٹوریم، تعلیمی اداروں میں صاحب ثروت افراد کی مالی سرپرستی میں یوم آزادی کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتاہے، جن میں وفاقی و صوبائی وزراء، مشیر، کاروباری شخصیات،ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز بطور خاص مدعو ہوتے ہیں اور انہیں تقریب کی صدارت، مہمان خصوصی و اعزازی مہمان کی ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں جب کہ اس کے عوض ان سےخطیر رقوم کے مالی یا بڑے پیمانے پر سرکاری اور ذاتی مفادات حاصل کیے جاتے ہیں۔ جیسے ہی اگست کا مہینہ شروع ہوتا ہے، پاکستان کے یوم آزادی کو ایک’’ ثقافتی تہوار‘‘ کے انداز میں منانے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ ملک کی تمام چھوٹی بڑی پرہجوم سڑکوں،مرکزی شاہراہوں، چوراہوں ، فٹ پاتھوں پر قناتیں لگادی جاتی ہیں جن میں رکھے بڑے بڑے تخت، طویل و عریض سبز پرچموں،جھنڈیوں، اسٹیکرز، بیجز تلے دبے ہوتے ہیں جب کہ قناتوں کے باہر بانسوں پر لٹکے بڑے بڑے جھنڈے لہراتے نظر آتے ہیں ۔’’ جذبہ حب الوطنی کی علامات" کی خرید و فروخت کے کاروبار میں حصہ ڈالنے کے لیے درجنوں ٹھیلے والے بھی گاہکوں میں گھرےنظر آتے ہیں۔ تھانہ و ٹریفک پولیس اہلکار یکم سے 15اگست تک وطن کی محبت میں سرشار ہوتے ہیں اسی لیے وہ ملک و ملت سے اپنی والہانہ وابستگی کے اظہار کے لیے ٹھیلے اور پتھارے والوں سے غیر قانونی طور پر سڑکیں بلاک کرنے کے جرم پر کوئی بازپرس نہیں کرتے بلکہ بانی پاکستان کی ’’تصاویر‘‘ طلب کرکے قمیص کی جیبوں میں اپنے دل کے ساتھ لگا کر رکھ لیتے ہیں اور انہیں کاروبار جاری رکھنے کا زبانی اجازت نامہ جاری کردیتے ہیں۔
ان اسٹالوں اور پتھاروں پر جھنڈے، جھنڈیاں اور ’’صور اسرافیل‘‘جیسی سماعت شکن آواز والے مختلف اقسام وقامت کے باجے بھی سجے ہوتے ہیں جن کی قیمتیں بقدر جثہ اور آواز کے حجم کے مطابق ہوتی ہیں۔
اس سال 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر قوم دوہری خوشیاں منارہی ہے ، ایک تو آزاد وطن کے حصول کی خوشی دوسری معرکہ حق میں ’’بنیان مرصوص یا آہنی دیوار ‘‘ بن کر بھارت کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کرکےعظیم الشان فتح کی خوشی ہے۔ مودی سرکار نے خود ساختہ پہلگام حملے کی آڑ میں پاکستانی شہروں پر ’’آپریشن سیندور‘‘ کا نام دے کر جو میزائل حملے کیے انہیں ہماری مسلح افواج اور پاک فضائیہ نے بنیان مرصوص یا سیسہ پلائی دیوار بن کر نہ صرف ناکام بنایا بلکہ مودی سرکار کی "مانگ کا سیندور" بھی اجاڑ دیا۔ اس سال قیام پاکستان کی خوشیاں منانے کے علاؤہ پاکستانی فوج اور اس کے سربراہ، فیلڈ مارشل عاصم منیر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے قومی پرچم اور باجوں کے اسٹال پر صبح سے رات گئے تک سیکڑوں مرد و زن اور بچوں کا اژدہام جمع رہتا ہے۔
گھروں کی چھتوں پر سبز پرچم اور گھر کے باہر جھنڈیاں لگا کر ہم اپنے ملی فریضے سے سبکدوش ہوجاتے ہیں جب کہ بچے رات گئے تک صور اسرافیل پھونکتے ہوئے پڑوسیوں کا ذہنی سکون برباد کرتے ہیں، کیونکہ ’’ہم زندہ قوم ہیں"۔ بھارت کو خوف زدہ کرنے کے لیے وطن کے جیالے دھماکہ خیز مواد کا بھی استعمال کرتے ہیں اور ہر گلی کوچے پٹاخوں اور کریکرز کے دھماکوں سے لرزتے رہتے ہیں۔جن نوجوانوں کے پاس مختلف اقسام کا لائسنس و بغیر لائسنس والا آتشیں اسلحہ ہوتا ہے ، 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب وہ اس سے فائرنگ کرکے یوم آزادی کا استقبال کرتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ ان مہلک ہتھیاروں سے فائرنگ کا بھارتی سرکار پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن ان کی گولیاں اپنے ہی ہم وطنوں کے لئے ہلاکت خیز ثابت ہوتی ہیں اور یوم آزادی کی خوشی مناتے ہوئے تقریباً نصف درجن افراد قید حیات سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں آئی ہے کہ چھتوں پر لگایا جانے والا قومی پرچم جس کا احترام ہم سب پر واجب ہے، ہوا کے جھکڑوں کی وجہ سے چیتھڑوں میں تبدیل ہوکر زمیں بوس ہوجاتا ہے اور اس کا صرف ڈنڈا باقی رہ جاتا ہے۔ قومی پرچم کی اس طرح کی بے حرمتی ہم نے کراچی میں خیابان شمشیر پر واقع ملک کے سابق وزیراعظم کے محل نما بنگلے کی کمپاؤنڈ میں لگے جھنڈے کی ملاحظہ کی تھی۔
سرکاری، سیاسی و سماجی سطح پر بھی یوم آزادی کی تقریبات انتہائی زور و شور اور جوش و جذبے کےساتھ منائی جاتی ہیں جن میں ڈھول ، تاشوں اور باجے گاجے کے ساتھ محفل موسیقی کے پروگرامز کا انعقاد ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض تقریبات میں نظم و ضبط کے فقدان اور مادر پدر آزادی ملنے پر نوجوان اس قدر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں کہ قوم کی مائوں اور بہنوں اور بیٹیوں کی حرمت بھی پامال کردیتے ہیں۔ اسی نوع کا واقعہ چند روز قبل حیدرآباد میں پیش آیا۔ کراچی آرٹس کونسل کی جانب سے حیدرآباد کے ایک معروف مقام پر جشن آزادی کی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں منتظمین کا کردار صرف ٹکٹوں کی فروخت تک ہی محدود تھا، اس کے بعد تقریب کے شرکاء نے "ہمت مرداں، مدد خدا" کے مقولے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے وہ طوفان بدتمیزی برپا کیا کہ انہوں نے تقدس نسواں کا بھی خیال نہیں کیا۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس پر کسی بھی سیاسی، سماجی یا سرکاری حلقے کی جانب سے تاسف یا شرمندگی کا اظہار نہیں کیا گیا۔
سماجی تنظیموں کے پروگراموں میں تقاریر کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں ڈائس پر مکے مارتے ہوئے ملک پر جانیں قربان کرنے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے، لیکن رات بارہ بجے کے بعد جیسے ہی کیلینڈر پر تاریخ تبدیل ہوکر 15اگست کی تاریخ آتی ہے، پاکستانی قوم کا وطن سے محبت کا جذبہ اگلے یوم آزادی تک کے لیے مؤخر ہوجاتا ہے اور ان کے جوشیلے دعوے اور خوش کن وعدے کچھ روز تک آن لائن اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بنے رہتے ہیں، کچھ روز بعد وہ بھی قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔۔
ہمارے ملک میں مختلف سماجی تنظیموں کی جانب سے جشن آزادی تجارتی انداز میں منانے کا رجحان زیادہ ہے لیکن وہ سوشل میڈیا اور بینرز کے ذریعے اپنی تقریبات کو قبل از وقت مشتہر کرتی ہیں۔ چند روز قبل زیب النساء اسٹریٹ سے فوارہ چوک کی طرف مڑتے ہی ہماری نظر بڑے سے بینر پر پڑی جو ایسی ہی ایک سماجی تنظیم کی جانب سے لگایا گیا تھا، جس پر قوم "مارکہ حق" کی مبارک باد دی گئی تھی۔ ہم بینر کی تحریر دیکھ کر حیران و پریشان ہوگئے کہ "معرکہ آرائی " کے الفاظ تو ہم اکثر و بیشتر سنتے ہیں لیکن "مارکہ حق" کیا ہے؟ یہ کراچی کا انتہائی مصروف شاہراہ ہے جس کی ایک سڑک عبداللہ ہارون روڈ سے میٹروپول ہوٹل، دوسری الفنسٹن یا زیب النساء اسٹریٹ سے گورنر ہائوس، تیسری پی آئی آئی اے بلڈنگ اور وائلڈ لائف میوزیم سے شروع ہوکر آرٹس کونسل سے ہوتی ہوئی آئی آئی چندریگر روڈ کی طرف جاتی ہے۔ ان سڑکوں سے صبح سے شام تک لاکھوں لوگ گزرتے ہیں۔ کراچی شہر میں اردو بولنے والوں کی اکثریت آباد ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد پاکستان آرٹس کونسل کی صورت میں موجود ادب و ثقافت کے مرکز، اخبارات کے دفاتر کی جانب جاتے ہیں۔ ان میں بیشتر ادبی و ادب نواز شخصیات ہوتی ہیں۔ لیکن "معرکہ" کو "مارکہ" لکھنے کی غلطی کی کسی جانب سے نشان دہی کرکے ملک کی قومی زبان کا تقدس مجروح کرنے والا بینر ہٹوانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ معروف شاعر و قطعہ نگار، رئیس امروہوی مرحوم نے 1972 میں "اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے"۔ مذکورہ قطعہ کہا تو انہوں نے کسی اور موقع کے لئے تھا لیکن وہ موجودہ دور میں ملک اردو زبان کی پامالی پر صادق آرہا ہے۔
آزاد کشمیر میں بھی پاکستانی پرچموں کی بہار ہوتی ہے۔ سڑکوں اور بازاروں میں ان کی خرید و فروخت کا کاروبار بھی ہوتا ہے۔ وہاں بھی گھروں کی چھتوں پر پاکستان اور کشمیر کے قومی پرچم اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ کے نعرے والے جھنڈے نظر آتے ہیں۔ یہ بات کشمیر و پاکستان کے زیادہ تر افراد جانتے ہیں کہ "کشمیر بنے گا پاکستان" کا نعرہ ریاست جموں و کشمیر کے مجاہد اول اور غازی ملت، سردار عبدالقیوم خان نےچھ عشرے قبل لگایا تھا جو بعد ازاں آزاد و مقبوضہ کشمیر کے عوام کے دل کی آواز بن چکا ہے۔ اسے نہ صرف آزاد جموں و کشمیر کے باسی بلکہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ لگاتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے ہر علاقے میں ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ کی تحریر سے آراستہ پرچم لہراتے نظر آتے ہیں، کیونکہ کشمییری عوام کے دل پاکستان کے نام کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہ ہر وقت پاکستان کی محبت میں سرشار رہتے ہیں ۔ پاکستان زندہ باد کی ریلیاں وہاں بھی نکالی جاتی ہیں لیکن ان میں نمود و نمائش کے عنصر کا فقدان ہوتا ہے۔ دھیرکوٹ، چمن کوٹ، وادی نیلم، راولا کوٹ، نیلا بٹ، مظفر آباد، چمیاٹی، باغ سمیت ہرعلاقے میں یوم آزادی کے جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، لیکن منتظمین انہیں ذاتی یا مالی مفادات اور اپنی تشہیر کے حصول کا ذریعہ نہیں بناتے۔ وہاں نہ تو کہیں باجوں کا شور سنائی دیتا ہے اور نہ ہی پٹاخوں یا کریکرز کے دھماکوں کی آوازیں آتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام تو پاکستان اور پاکستانیوں کو جنون کی حد تک چاہتے ہیں۔ پاکستان ان کے لئے "رول ماڈل اسٹیٹ" ہے۔ انہیں نہ تو بھارت کی دس لاکھ فوج کا خوف ہوتا ہے جو ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کے لیے تعینات کی گئی ہے اور نہ ہی جان جانے کا۔
14 اگست کومقبوضہ کشمیر کے باشندے پاکستان کا جشن آزادی مناتے ہیں جب کہ بھارت کا یوم آزادی جو 15 اگست کو منایا
جاتا ہے، اسے وہ یوم سوگ کے طور پر مناتے اور پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے’’ کشمیر بنے گا پاکستان" کا نعرہ لگاتے ہیں"۔ اس نعرے کا جواب بھارتی افواج گولیوں کی باڑھ سے دیتی ہیں اور پاکستان کی محبت کے جرم میں درجنوں کشمیری باشندے شہید ہوجاتے ہیں جنہیں ان کے ،عزیز و اقارب بھارتی فوجیوں کے سامنے ہی پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفنانے کے لئے "نعرہ تکبیر، اللہ اکبر" اور "کشمیر بنے گا پاکستان" کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے قبرستان کی جانب لے جاتے ہیں۔ 
Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 214 Articles with 251562 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.