بھارت میں ہندو انتہاءپسند جب
مسلمانوں کی بستیاں اجاڑتے اور مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں تو ہم احتجاج
کرتے ہیں ۔ دنیا کا کوئی مذہب کوئی اخلاق اور کوئی ضابطہ انسانیت سے گری
ہوئی اس حرکت کو اچھا نہیں سمجھتا۔ لیکن سوچ سوچ کر ذہن ماؤف ہوتا جا رہا
ہے کہ کیا بادامی باغ جیسے واقعات کے بعد ہم اس قابل ہیں کہ ہندوؤں کے خلاف
اپنے آئندہ احتجاج کو جائز کہہ سکیں ۔ حرمت رسول تو ہر مسلمان کے ایمان کا
جزو ہے۔ رسول کریم کے بارے میں کسی غلط بات کا تصور نہ تو کوئی مسلمان کر
سکتا ہے ، نہ سوچ سکتا ہے اور نہ ہی برداشت کر سکتا ہے۔ مگر کسی شکایت کی
صورت میں اُس شکایت کی صحت کے بارے فیصلہ کرنا اور اُس کا سد باب کرنا
حکومتی اداروں کا کام ہے۔ جلسوں اور جلوسوں کا نہیں۔
سوچتا ہوں کہ انسان اس قدر بھی سفاک ہو سکتے ہیں کہ ایک آدھ نہیں ، حیوانوں
کا ایک پورا گروہ اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے ایک بستی پر یلغار کرتا
ہے کہ یہ بستی عیسائیوں کی ہے اور اس بستی کے ایک مکین نے جرم کیا ہے۔
باقاعدہ اعلان کر کے پوری بستی خالی کرائی جاتی ہے۔ پھر لوٹ مار کی جاتی ہے
اور پوری بستی جلا دی جاتی ہے۔ دو شرابی ہیں ایک مسلمان ایک عیسائی ۔ پہلے
دونوں دوست تھے۔ جھگڑے تو مسلمان شرابی نے عیسائی شرابی کے خلاف پولیس میں
مقدمہ درج کرایا کہ عیسائی شرابی نے رسول کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی
ہے۔ کسی نے نہ نہیں سوچا کہ شراب اور اسلام کیا رشتہ؟ شرابی اور مسلمان۔
کتنی عجیب بات ہے۔ حضور ﷺ کی شان تو یہ تھی کہ غیر مسلم عورت روز آپ پر
کوڑا کرکٹ پھینکتی۔ ایک روز وہ نظر نہ آئی ۔ آپ ﷺ نے پتہ کیا تو پتہ چلا کہ
بیمار ہے۔ آپ ﷺ مزاج پرسی کے لیے گئے۔ یہی وہ اخلاق تھا جس کا اظہار رسول
کریم ﷺ کی شان ہے اور یہی وہ اخلاق ہے جس نے ساری دنیا کے فرعونوں کو اسلام
کے سامنے سرنگوں کیا۔
دنیا کے تمام مذاہب کی اساس اخلاق پر ہے۔ اسلام اخلاق کا سب سے بڑا
علمبردار ہے مگر یہ کیا کہ مقدمہ درج ہونے کے بعد 36گھنٹے کے دوران لوگوں
کو ڈرا کر وہ بستی خالی کرائی جاتی ہے اور پھر 36گھنٹے بعد درندوں کا گروہ
باقاعدہ منصوبہ بندی سے اُس بستی پر یلغار کرتا ہے۔ لوٹ مار کرتا اور لوگوں
کی املاک جلا دیتا ہے۔ مگر حکومت کی طرف سے اُن کے تحفظ کا کوئی قدم نہیں
اُٹھایا جاتا۔ حکومت یا کوئی حکومتی کارندے شاید خود اس میں شریک تھے ورنہ
یہ کیسے روکا نہیں جا سکتا تھا۔ وہ بیچارے غریب لوگ جن کی جلنے والی اور
لٹنے والی ہر چیز اُن کے لیے انتہائی بیش قیمت تھی کیا اس دھرتی کے باشندے
نہیں؟ کیا یہاں پیدا ہونا اُن کا کوئی جرم ہے ؟ یہ غلط مہم جوئی اسلام اور
اُس کے تشخص کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے۔ کاش ہم جان سکتے۔ کاش اقلیتوں کی
حفاظت او ر اُن کے بارے میں اسلام کی تعلیمات کا ہمیں پتہ ہوتا۔
نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر ؓ خلیفہ بنے۔ آپ کو اونٹ پالنے کا
شوق تھا چنانچہ اسی حوالے سے آپ کو ابوبکر یعنی اونٹوں کا مالک کہا جاتا
تھا۔ آپ کا اصل نام عبدل کعبہ (کعبے کا غلام ) تھا۔ اسلام قبول کرنے پر
رسول کریم ﷺ نے انہیں کہا کہ آج سے تم عبداللہ یعنی اللہ کے غلام ہو۔
چنانچہ اُس دن سے ان کا نام عبداللہ ہو گیا مگر یہ زیادہ تر ابو بکر کے نام
ہی سے جانے جاتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے اپنی رحلت سے پہلے حضرت اُسامہ کی
قیادت میں ایک دستہ رومیوں کے خلاف جنگ کے لیے روانہ کیا تھا۔ حضرت ابو بکر
نے خلافت کا منصب سنبھالتے ہی انہیں فوری پیش قدمی کا حکم دیا اور ہدایت کی
”تباہی نہیں مچانی ، نافرمانی نہیں کرنی ، کسی بوڑھے ، بچے یا عورت کو ہلاک
نہیں کرنا، کھجور اور دوسرے پھلدار درختوں کو نہیں کاٹنا۔ ماسوائے اپنی
خوراک کی ضرورت کے کسی جانور کو نہیں کاٹنا۔ تمہیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے
جنہوں نے اپنی تمام عمر راہب کے طور پر عبادت گاہوں میں گزاری ہے۔ انہیں
کچھ نہیں کہنا۔ اُنہیں اُن کے حال پر چھوڑ دینا ہے۔ اُن کی عبادت گاہوں کا
احترام کرنا ہے“۔
محمد بن قاسم فقط چھ ہزار سوار لے کر خشکی کے راستے موسم خزاں میں دیبل
پہنچا، فقط دو سال میں اُس نے پورا سندھ اور موجودہ پنجاب کا ملتان تک کا
علاقہ فتح کر لیا۔وہ فقط چار سال ہندوستان میں رہا مگر اُس کی مقبوضات کی
حدیں کشمیر کے قریب جہاں دریائے جہلم میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے تک
تھیں۔ اُس کی ان تمام فتوحات میں اُس کی تلوار بازی سے زیادہ مفتوحوں کے
ساتھ اُس کی فیاضی ، بہتر حسن سلوک، بھائی چارے اور اخوت کا زیادہ عمل دخل
تھا۔ اس نے مالگذاری کا پرانانظام قائم رہنے دیا۔ قدیمی ملازموں کو برقرار
رکھا۔ ہندو پجاریوں اور برہمنوں کے اپنے مندروں میں آزادانہ پرستش کی اجازت
دی۔ اُن پر بہت معمولی سا ٹیکس عائد کیا جو اُنہیں اپنی آمدن کے مطابق ادا
کرنا ہوتا تھا۔ زمینداروں کو اجازت دی کہ وہ برہمنوں اور مندروں کو قدیم
ٹیکس دیتے رہیں۔ یہ سب اس لیے تھا کہ اسلام میں کہیں بھی جبر کی گنجائش
نہیں۔ اسلام تو اقلیتوں کے جذبات کا احترام کرتا ہے۔ اُنہیں تحفظ دیتا ہے۔
اُنہیں اپنی چھتری تلے پناہ دیتا ہے۔
یہ باتیں اُس وقت کی ہیں جب مسلمان حالت جنگ میں تھے۔ مسلمان ایک عظیم طاقت
میں تبدیل ہو رہے تھے۔ جنگ میں فتح کے لیے دشمنوں کے خلاف مسلمان کا سب سے
پہلا ہتھیار بہترین اخلاق اور شاندار حسن سلوک تھا۔ یہی اخلاقی اور یہی حسن
سلوک تھا کہ جس کے سبب اغیار نے اسلام میں اپنی فلاح محسوس کی اور جوق در
جوق اسلام کی طرف راغب ہوئے ۔ آج حالت امن ہے مگر ۔۔۔اُف ۔۔۔۔ اس قدر
سفاکی۔ ہم رب العزت کو کیا جواب دیں گے۔ خصوصاً یہ حکمران۔ انسانیت اور
انسانوں سے پیار مسلمان کا پہلا وصف ہے مگر ہم کیسے مسلمان ہیں کہ تمام
انسانی اور اخلاقی قدریں تار تار کر کے بے بس ، مجبور اور انتہائی غریب
لوگوں کی بستی میں لوٹ مار کرتے ہیں۔ دندناتے پھرتے ہیں ۔ آگ لگاتے ہیں مگر
نہ تو جرم کا احساس ہوتا ہے اور نہ کوئی شرم محسوس ہوتی ہے۔
اس سانحے کی تمام تر ذمہ داری پنجاب حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ یہ کیسی گڈ
گورننس ہے۔ وہ حکومت جو میڑو بس جیسے دس منصوبے بھی شروع کر دے مگر اپنے
عوام کو تحفظ اور انصاف نہ فراہم کر سکے، ایک ناکام حکومت ہے۔ ضرورت ہے کہ
مجرموں کو بلا تفریق اور بغیر کسی دباو ¿ کے کڑی سزا دی جائے۔ گو اس سے
حکومت کے گناہ کا ازالہ تو نہیں ہو سکتا مگر شاید یہ حکومتی اقدام لٹنے
والے بے بسوں کو کچھ حوصلہ دے دے۔ اس واقعے سے عالمی سطح پر ہماری رسوائی
میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یہ سفاکی ہمارے دامن پر ایک بد نما داغ ہے۔ تنویر
صادق |