آج سے تہتر سال پہلے کچھ بے نام
ونشان لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہوا اور ایک قافلہئ شوق تر تیب دیا گیا کچھ
اس قدر مرتب،متحد اور متفق کہ ایک ہی شوق اور مقصد ہر راہرو کے ماتھے پر
تحریر تھا ،ماتھے الگ تھے ، رنگ میں بھی فرق تھا ،زبانیں بھی جدا تھیں،
کوئی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا تھا ،کوئی ہاتھ چھوڑکر ،کوئی رفع ہدین کرتا
تھا، کوئی سیدھا سجدے میں جاتا تھا ۔ ہاں نماز کا سبق ، قرآن ِ، دین ،سب
ایک تھا ،پیشانی پر سجدے کا محراب ایک جیسا تھا، روشن اور چمک دار، اور وہ
تحریر جو ان ماتھوںپر لکھی ہوئی تھی اُن میں نہ زیر کا فرق تھا نہ زبر کا ،
نہ کسی پیش اور تشدید کا اور یہ تحریر تھی لے کے رہیں گے پاکستان ،بن کے
رہے گا پاکستان۔ وہ پاکستان جس کا کوئی وجود نہیں تھا اُس پر قربان ہونے کو
سب تیار تھے، جذبہ تھا کہ دشمن کو خس وخا شاک کی طرح بہا کر لے گیا کیونکہ
کندھے سے کندھا جڑا ہو اتھا اوردل سے دل ملا ہواتھا۔ دنیا نے دیکھا کہ انہی
بے نام ونشان لوگوں نے دنیا کی تا ریح بھی بدلی اور جغرافیہ بھی، آزادی
ضرور حاصل کی لیکن ملک آزاد نہیں کیا بلکہ ملک بنایااپنے گھروں کی قربانی
دی لیکن یہ گھر محبوب رکھا اپنے پیاروں کو کھویا لیکن اس گھر کو کھونے کا
تصور بھی نہیں کیا ہر مصیبت کا سامنا بھی کیااور مقابلہ بھی، نہ بے
سروسامانی سے گھبرائے اور نہ قلتِ تعداد سے ۔لیکن ۔۔۔
لیکن پھر کیا ہوا کہ یہی قافلہ جو بڑی شان سے چلا تھا آج ایک ایسے مقام پر
رُک گیا ہے کہ نہ کوئی رہبر ہے نہ میرِ کارواں اگر چہ دعوے دار بہت ہیں اور
دعوے بھی بہت ہیں لیکن ہر کوئی اپنا ہی دیا چاند بنانے کی کوشش میں مصروف
ہے اور وہ جذبہ بھی مفقو د ہے جس کے ساتھ یہ رہرو چلے تھے ۔آج پاکستان کا
نہ صرف لیڈر بلکہ عام آدمی بھی جذبہ ایمانی سے عاری ہو تا جارہاہے ۔ 23مارچ
کو یومِ پاکستان منانے کا وہ جذبہ اور جوش و خروش بھی ماند دکھائی دیتاہے
جوچند سال پہلے تھا سرکاری پریڈکا نہ ہو نا تو امن عامہ کی خراب صورت حال
ہو سکتی ہے لیکن عوام میں ایسے دنو ں کا جوش و خروش سے منانا کم ازکم وطن
سے محبت کا جذبہ اُبھار دیتاہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر ایسے دن اپنا محاسبہ
کرنے کے دن ہوتے ہیں کہ بحثیت قوم ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ۔ اگر آج
اس 23مارچ 2013کے دن ہم اپنا محاسبہ کریں تو دکھ اور افسوس ہی ہو تا ہے کہ
اُس وقت جب یہ قوم نوزایئدہ اور نو آموز تھی تو پائوں پائوں چلنا سیکھنے
والے بچے کی طرح مسلسل چلنا چا ہتی تھی دوڑنا چا ہتی تھی لیکن آج اس نے کسی
بوڑھے شخص کی طرح سہارے ڈھونڈنے شروع کر دیئے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں ساٹھ
ستر سال کہنے کو تو کچھ لمبا وقت نہیں لیکن اگر ہم یہی کہتے رہے اور سوچتے
رہے تو وقت ہمیں پیچھے چھوڑجائے گا اور خود آگے بڑھ جائے گا جیسے یہ
1971میں آگے بڑھ گیا تھا ۔ آج ملک کے حالات پر نظر ڈالیں تو نااُمیدی اپنے
پھن پھیلائے ہوئے ہے ایک طرف دہشت گردی ہے تو دوسری طرف شدت پسندی ۔ کبھی
بلوچستان کا مسئلہ سلگتا ہے تو کبھی بھڑکنے لگتا ہے، کبھی طالبان زور آور
دکھائی دیتے ہیں تو کہیں فرقہ واریت پھیلانے والے گروہ بر سر پیکار ہیں ۔
کہیں رشوت کا بازار گرم ہے تو کہیں اقربائ پروری معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ
رہی ہے اور کہیں گلوبل ولییج کی فیشن زدہ اصطلاح ثقافت اور روایات کو ختم
کرنے میں مصروف عمل ۔زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور
ہماری قیادت نیرو بنی بانسری بجارہی ہے، ہا ں جہاں ذاتی مفاد اور سیاسی
مصلحت کو ضررت پڑجائے تو ملک کی فکر میں کوئی بیان داغ دیا جاتا ہے جس ایک
حصہ اپنی تعریف اور مسیحائی کے دعوے پر مشتمل ہو تاہے اور دوسر اس خدشے پر
کہ اگر بیان دینے والے نابعہ کا یا ان کی تنظیم اور پارٹی کا سہارا نہ لیا
گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا خاکم بدہن ۔مسئلے کی نشاندہی اور اُس کا حل جس
انداز میں بیان کیا جاتا ہے وہ بذات خود قوم کو ذہنی پریشانی میں ڈالنے کو
کافی ہوتا ہے ۔
مسائل اور مصائب ہر ملک پر آتے ہیں لیکن ان سے مردوں کی طرح لڑنا اور ان پر
قابو پالینا ہی زندہ قوموں کی نشانی ہے اور اس کے لئے پہلی ضرورت ایک ایسی
لیڈر شپ اور رہنمائی ہے جو بکھرے ہوئوں کو، بچھڑے ہوئو ں کو ایک مرکز پر لے
آئے انہیں قافلے کی شکل دے ایک فاتح فوج کی صورت دے دے،رہنما اتنا باکر دار
اور باوقار ہو کہ اپنی تعریف میں ایک لفظ نہ بولے، کو ئی دھمکی نہ دے کس،ی
دوسرے کی کردار کشی نہ کر ے اور لوگ خود بخود اس کے پیچھے قطاریں بناتے چلے
جائیں، صفیں باندھتے جائیں، کسی محمد علی جناح کی طرح جس کے کردار پر کوئی
انگلی اٹھاسکا نہ خلوص پر ، کسی اقبال کی طرح جو بانگ رحیل بلند کرتا رہا
اور قافلے کو نئی قوت ملتی رہی وہ نہ بھی رہا تو اُس کی آواز نشان منزل کا
پتہ دیتی رہی ۔23مارچ 2013کو اگر ہم خود اپنی ذات سے یہ وعدہ کرلیں کہ
پاکستان کو ترقی دینے کی ،اِس کو پُر امن بنانے کی، اس کو محفوظ بنانے کی
ذمہ داری صرف میری ہے اور میری غفلت اور میری بے ایمانی مجھے آنے والی
نسلوں کا مجرم بنادے گی تو ہم اصلی پاکستان بنالیں گے وہ پاکستان جس کا
خواب بر صغیر کے ہر مسلمان کی آنکھ میں چمکا تھا اور جس نے ساری دنیا کی
آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا ۔پاکستان زندہ باد ۔ |