ہم شر پسند نہیں امن پسند قوم
ہیں۔ ہم دوسروں کی زندگیاں داﺅ پر لگانے والے نہیں ہم دوسروں کی زندگیاں
بچانے والے ہیں۔ ہم تو وہ ہیں کہ کابل میں کسی کو کانٹا چبھے تو ہم بےتاب
ہو جا یا کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی انسانیت پر مشکل وقت آیا تو
پاکستانیوں نے ان کی خوب مدد کی۔ کشمیر ، فلسطین، عراق، افغانستان، بوسنیا،
چیچنیا، جہاں بھی انسانیت پر ظلم ہوا تو پاکستان کے درد مند عوام اور
حکمرانوں ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھا۔ ہم آگ پر تیل ڈالنے والے
نہیں اس پر پانی ڈال کر اس کو بجھانے والے ہیں۔ ہمارا شیوہ دوسروں کو دکھ
دینا نہیں دکھ میں شریک ہونا اور اس کے ازالہ کی کوشش کرنا ہے۔ ہمارا مذہب،
ہمارا دین امن اور سلامتی کا درس دیتے ہیں۔ قدرتی آفات جب آتی ہیں تو اس
وقت انسانیت سسک رہی ہوتی ہے۔ اس کی مدد کرنے اور اس کی مشکلات کو کم کرنے
کیلئے پاکستانی قوم ایک ہو جاتی ہے۔ پھر کوئی شیعہ سنی نہیں رہتا۔ یہ کوئی
نہیں دیکھتا کہ جس کی مدد کی جارہی ہے وہ کس سیاسی پارٹی یا کون سی مذہبی
جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر سب انسان اور سب برابر ہوتے ہیں۔ دوسروں کی
املاک کو نقصان پہنچانا نہ ہمارا شیوہ ہے نہ ہمارا کلچر ہے نہ ہماری ثقافت
ہے اور نہ ہمارا طور طریقہ ہے۔ ہم اپنے حسن سلوک اور اچھے کردار سے غیر
مسلموں کو دائرہ اسلام میں لے آیا کرتے ہیں۔ ان کے گھروں کو برباد نہیں
کرتے۔ پاکستان میں آگ صرف بادامی باغ میں ہی نہیں بھڑکائی گئی ہے۔ بلکہ یہ
تو قیام پاکستان سے ہی بھڑکائی جارہی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس کی نوعیت
الگ الگ ہوتی ہے اور اس کا ٹارگٹ ہر مرتبہ نیا ہوتا ہے۔ کبھی ہمیں فرقہ
واریت کی آگ میں بھسم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور کبھی صوبائی اور لسانی
تعصب کی آگ پھیلائی جاتی ہے۔ کبھی ہم فحاشی کی آگ میں جلائے جاتے ہیں تو
کبھی ہمیں انتقام کی آگ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ کبھی ہم دہشت گردی کی آگ میں
جل رہے ہوتے ہیں تو کبھی ہم اغیار کے مفادات اور گریٹ گیم کی آتش میں جل
رہے ہوتے ہیں۔ اس ملک میں احتجاج کی آڑ میں سرکاری اور عوامی املاک کو آگ
میں جلا ڈالنا معمول بن چکا ہے۔ اب تک بہت سی سرکاری عمارتیں اور عوامی
املاک آگ کی نظر ہو چکی ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے وقت آتشزدگی
کے جودلدوزمناظر دیکھنے کو ملے وہ کبھی نہیں بھولیں گے۔ اس میں ٹرینیں بھی
نذر آتش کر دی گئیں تھیں۔ اس وقت ریلوے کو جو نقصان پہنچا اس کی وجہ سے آج
تک یہ محکمہ پھر سے بحال نہیں ہو سکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکلز،
کاریں، بسیں، پٹرول پمپس، دکانیں، مارکیٹیں اور نہ جانے کیا کیا آگ میں جلا
دیا جاتا ہے۔ لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کی گاڑی کو آگ لگائی گئی تھی
۔ اس وقت سے اب تک وہ ٹیم پاکستان نہیں آئی۔ ہم ایک نیوز چینلز پر دیکھ رہے
تھے کہ کراچی میں اس بس کی سی سی ٹی وی فوٹو دکھائی جارہی تھی جس کو کراچی
میں جلا دیا گیا تھا ۔ کہ اس میں دھماکہ ہونے سے آگ لگ گئی تھی۔ اسی کراچی
میں ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ایک گارمنٹس فیکٹری میں آگ بھرک اٹھی تھی
۔ اس میں تین سو کے قریب محنت کش جل کر کوئلہ بن گئے تھے۔ اس فیکٹری میں آگ
کیوں لگی اور کیسے لگی یہ ابھی تک راز ہی ہے۔ اس جرم میں فیکٹری کے مالک کے
خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا کہ اس نے حفاظتی انتظامات کیوں نہیں کیے تھے ۔
کہ اس کی اس غفلت کی وجہ سے تین سو قیمتی جانیں ضائع ہو گئی ہیں۔ اس فیکٹری
مالک سے بھی کوئی پوچھتا کہ جس وقت فیکٹری آگ میں جل رہی تھی اس وقت اس کے
دل پر کیا گزر رہی تھی۔ مان لیا کہ اس کی فیکٹری میں جو محنت کش کام کررہے
تھے وہ اس کے رشتہ دار نہ تھے ۔ اس کے اپنے نہ تھے فیکٹری تو اس کی اپنی
تھی۔ جان بوجھ کر کوئی اپنا نقصان نہیں کرتا۔فیکٹری مزدور تو اس کی روزی
روٹی میں اس کے ساتھ تعاون بھی کررہے تھے اور اپنے گھروالوں کی روزی روٹی
کا انتظام بھی کر رہے تھے ان سے اس کو کیا دشمنی تھی۔ یہ بات اپنی جگہ درست
ہے کہ اس نے حفاظتی انتظامات نہیں کیے ہوئے تھے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں
فیکٹری کی بیسمنٹ میں ہوئیں کہ وہاں دھواں بھر گیا تھا اور باہر نکلنے کا
ایک ہی راستہ تھا جو کہ بند تھا۔ ناگہانی آفت سے بچنے کیلئے زیادہ دروازوں
اور ان کا بروقت کھلا ہو ا ہونا ضروری ہے جبکہ سیکیورٹی کے انتظامات میں سب
سے کم دروازے رکھنے اور پھر ان سب کو بند رکھنا پڑتاہے۔ نہ بیرونی دہشت
گردی بتا کر کی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی آفت پوچھ کر آتی ہے۔ اس کی فیکٹری
کے دروازے کھلے ہوتے اور اس میں کوئی دہشت گرد گھس آتا تو پھر بھی اس کے
خلاف یہی فرد جرم بنتی کہ اس نے حفاظتی انتظامات کیوں نہیں کر رکھے تھے۔ آگ
جیسے بھی لگی یالگائی گئی ۔ فیکٹری تو دوبارہ بحال ہو سکتی ہے تاہم وہ تین
سو محنت کش جو اس آگ میں جل گئے تھے وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ فیکٹری
مالک بتا رہا تھا کہ اس کو کہا گیا کہ ابھی ابھی فیکٹری سے باہر چلے جاﺅ
پھر آگ لگ گئی۔ ابھی اس سانحہ کے زخم تازہ ہی تھے کہ لاہور میں ایک جوتا
ساز فیکٹری میں آگ لگ گئی اس میں کام کرنے والے پچیس مزدور لقمہ اجل بن گئے
تھے۔ تھوڑے ہی وقفہ کے ساتھ کراچی اور لاہور کی فیکٹریوں میں آگ کا لگنا یہ
محض اتفاق تھا یا کوئی اور بات تھی یہ ابھی تک راز ہی ہے۔ نہ کراچی میں
گارمنٹس فیکٹری کا مالک چاہتا تھا کہ اس کی فیکٹری کو آگ لگ جائے اور نہ ہی
لاہور جوتا ساز فیکٹری کا مال ایسا چاہتا تھا۔ لاہور میں ایک کپڑے کی
مارکیٹ کو آگ لگی اس میں بھی بہت سی دکانیں جل گئیں تھیں۔ آگ کاکام جلا
ڈالنا ہے وہ نہیں دیکھتی کہ اس کی زد میں کیا آرہا ہے اور کیا نہیں آرہا ہے۔
وہ یہ بھی نہیں دیکھتی کہ جس چیز کو وہ جلا رہی ہے اس کی قیمت کیا ہے یہ
کسی انسان کی ضرورت ہے اور کتنی ضرورت ہے۔ یوں تو آتشزدگی کے اور بھی بہت
سے واقعات ہیں ۔ اب ہم بادامی باغ لاہور میں لگائی جانے والی آگ پر بات
کریں گے۔ اس سے پہلے جہاں بھی آگ لگی ہے اس میں انسان بھی ساتھ جل چکا ہے۔
یہ ایسی آگ ہے کہ انسانی جسم کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ رپورٹ کے مطابق لاہور
کے علاقے بادامی باغ میں مبینہ توہین رسالت پر مشتعل ہجوم نے مسیحوں کی
جوزف کا لونی پر حملہ کردیا ۔ دو سو کے قریب دکانوں اور مکانوں کو آگ لگا
دی ۔ بستی کے مکین خوف کی وجہ سے بستی رات کو ہی خالی کرچکے تھے۔ پولیس نے
توہین رسالت کے مبینہ ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا اور اس کو جیل
بھجوادیا۔ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ لاہور کے علاقے بادامی باغ میں جوزف
کالونی میں ایک روز پہلے پولیس نے مقدمہ درج کرکے توہین رسالت کے الزام میں
ایک نوجوان اور اس کے والد کو حراست میں لے لیا تھا ۔ لیکن اس کے باوجود
گزشتہ رات سے ہی پورے علاقے میں کشیدگی تھی ۔ گزشتہ روز دن کا آغاز ہوتے ہی
مختلف افراد بستی کے باہر اکٹھا ہو نا شروع ہو گئے ۔انہوں نے ٹولیوں کی
صورت میں بستی کی طرف جانے والے مختلف راستوں پر ٹائر رکھ کر انہیں آگ
لگادی بعد ازاں مظاہرین نے بستی کے اندر بھی گھس کر گھروں کو آگ لگانا شروع
کردی۔ اس دوران پولیس نے مداخلت کی کوشش کی مگر وہ اس میں ناکام رہی بپھرے
ہوئے عوام اس کے قابو میں نہ آئے ۔ مظاہرین نے بہت سے رکشوں موٹر سائیکلوں
اور مکانوں کو آگ لگادی پولیس نے روکنے کی کوشش کی تو اس پر بھی پتھراﺅ
شروع کردیا ۔جس سے درجن کے قریب پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ جب پولیس ناکام
ہوئی تو علماءکرام نے عوام کو سمجھایا جس سے وہ منتشر ہوگئے۔ مظاہرین کے
منتشر ہونے کے بعد ریسکیو اور امدادی ٹیموں نے اپنی کارروائی شروع کی۔
اسلام میں کسی بھی مجرم کی سزا کسی دوسرے کو نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی
ہمارا ملک کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ کسی ایک کے کردہ یا ناکردہ
جرائم کی سزا دوسروں کو دینے کا سلسلہ تو پرانا ہے۔ کہ طیارہ سازش کیس میں
نواز شریف کے خلاف بنا ان کو خاندان سمیت جلاوطن ہو نا پڑا۔ ایک اسامہ کے
خلاف کاروائی کرتے کرتے امریکہ نے افغانستان کے ساتھ جوسلوک روارکھا ہے۔ وہ
سب دنیا کے سامنے ہے ۔ جس بدبخت نے شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم
میں گستاخی کی ہے اس کے خلاف کاروائی بھی ضرور ہونی چاہیے۔ کراچی کی
گارمنٹس فیکٹری سے لاہور کے بادامی باغ تک آتشزدگی کے تمام واقعات کو ملا
کر دیکھا جائے تو صورتحال کچھ اور ہی دکھائی دے گی۔ اس مذموم حرکت میں ملوث
افراد کے خلاف بھی کارروائی کی جائے ۔ اور ایک اعلی تحقیقاتی کمیشن بنا کر
ان سب واقعات کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ بھی بنائی جائے۔ اور ان عناصر کو
جلد سے جلد بے نقاب کرکے ان کے خلاف بھی کاروائی کی جائے۔اس سانحہ کا عدالت
عظمیٰ نے بھی نوٹس لے لیا ہے۔ ہم سپریم کورٹ سے ان صفحات کے توسط سے استدعا
کرتے ہیں کہ وہ آتشزدگی کے تمام واقعات کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا
حکم دے ۔ تاکہ اس سازش کو بے نقاب کیا جاسکے جس نے ایک اور گھناﺅنے طریقے
سے شہریوں کی زندگی سے کھیلنا شروع کیا ہوا ہے۔ جب تک تحقیقات سے اس طرح کے
واقعات کے سازشی عناصر اور اس کے پس پردہ کرداروں کوبے نقاب کرکے ان کا
بندوبست نہیں کیا جائے گا اس وقت اس طرح کے واقعات کو روکنا مشکل ہے۔ جب
پولیس نے مطلوبہ ملزم کو گرفتار کرلیا تھا ۔ تب تو اس احتجاج کا کوئی جواز
نہیں بنتا تھا۔ اس لیے ہم پھر کہہ رہے ہیں کہ اس کے پس پردہ کہانی کوئی اور
بھی ہے۔ اگر کسی کو ہماری ان باتوں پر یقین نہ آئے تو ایک وقت ایسا بھی آئے
گا جو ہماری ان باتوں کو سچا ثابت کردے گا۔ ملک میں بدامنی پھیلانے کیلئے
اب تک جو کچھ بھی کیا جارہا ہے یہ آتشزدگی کے واقعات بھی اسی سلسلہ کی ہی
کڑی ہیں۔ |