احساسِ ہمدردی کا فقدان

ربِّ کائنات نے اس دنیا میں کوئی بھی چیزبے مقصد پیدا نہیں کی۔ پوری انسانیت کو قدرت نے صرف اپنی عبادت کے لیئے ہی پیدا کیا ہے۔ عبادت کا دائرہ کار معنوی اور عملی اعتبار سے اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے۔ ہر ایک چیز کی تخلیق پر غور و خوض کے بعد انسان کسی منطقی نتیجہ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اس نتیجہ کو اخذ کرنے کے لیئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ قرآن مجید کے (سورة الحجر، آیت 27) مطابق کائنات میں جنات کی تخلیق کے بعد انسان کی تخلیق کھنکناتے سڑے ہوئے گارے سے وجود میں آئی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اشرف المخلوقات ہونے کے باعث انسان کے اندر پائی جانے والی صفات میں سے ”احساسِ ہمدردی“ جیسی انسانی صفت کو بدرجہ اتم ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ باوجود اس کے کہ انسان جھگڑالو، بے صبرا اور ناشکرا واقع ہوا ہے مگر دوسری جانب ان تمام پہلوؤں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ”احساسِ ہمدردی“ کی یہ انسانی صفت اس کی خامیوں پر حاوی نظر آتی ہے۔ قدرت نے روز اول سے ہی انسان کے اندر دوسرے انسانوں کے قریب رہنے کا رحجان پیدا کیا ہے۔ اس کی دلیل میں مزید اضافہ اس بات سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ لفظ ”انسان“ میں اُنس کی خاصیت موجود ہے جو اِسے انسانوں کے قریب رہنے کی رغبت دلاتی ہے۔

اگر اس قربت اور احساسِ ہمدردی کا مذہبی اور اخلاقی حوالے سے مطالعہ کیا جائے تو دنیا میں پائے جانے والے تمام مذاہب کے اندر جھانک کر دیکھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس اعتبار سے تھوڑی بہت کوشش ہر مذہب میں پائی جاتی ہے مگر جو لازوال اور پائیدار رشتہ احساس انسان کے لیئے اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے اندر رکھا ہے اُس کی مثال کائنات کے کسی مذہب میں بھی نہیں ملتی۔ اسلامی معاشرہ کے اندر خاندانی و عائلی زندگی میں، امن و جنگ کے معاملات میں، بلا تفریق مذہب پڑوسی کے ساتھ سلوک سے لے کر حیوانوں تک کے ساتھ جس رویے اور حسن سلوک کا طریقہ کار متعین کر دیا گیا ہے اس میں ”احساسِ ہمدردی“ کے عنصر کی جھلک غالب اور نمایاں نظر آتی ہے جو کسی بھی مذہب و تہذیب کا خاصہ نہیں رہی بلکہ یہ صرف اسلام ہی کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی سے تو عیاں ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف ان اوصافِ حمیدہ سے کس قدر متصف رہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ باتیں محض کتابی سی معلوم ہونے لگی ہیں۔ اگر چہ مغرب میں ”احساس ہمدردی“کے ان اثرات کو محسوس کیا جاتا ہے مگر حقیقت میں وہ صرف سطحی اور شدید تعصب کے زیر اثر ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عصرِ حاضر میں ”احساس ہمدردی“ اگر کہیں ہے بھی تو انفرادی طور پر تو بعید از قیاس نہیں مگر من حیث القوم ہمارے اندر اس صفت کا صفایا ہوتا چلا جا رہا ہے۔

اس وقت پوری دنیا میں نفرت و تعصب میں اضافے اور عزت نفس کی پامالی سے اس حقیقت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اوصاف حمیدہ تو صرف راسخ العقیدہ مسلم معاشرے کا ہی خاصہ رہا ہے جس معاشرے کی پہچان پر تو قرآن کریم کی یہ آیت:اِنَّ الَّذِینَ قَالُو´ا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ استَقَامُوا....o(سورة حم سجدہ، 20) صادق آتی ہے۔ کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جب صدق دل سے کلمہ پڑھ لیا اور ایک اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مان لیا تو پھر ان کے قدم متزلزل نہ ہوئے، جنھوں نے سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، ان میں عدم برداشت کی جگہ اخوت و ایثار کا جذبہ کار فرما تھا، ظلم و جبر کی بجائے عدل و انصاف کا علَم بلند رکھا، نفرت و تعصب کے خاتمے کے لیئے تکبر اور امتیازی سلوک کو خیر آباد کہہ دیا۔ انہی صفات مقدسہ کی بدولت جہالت کا خاتمہ کرتے ہوئے حقیقی علم کا چراغ روشن کیا اور انسان کو انسان کے قریب کرتے ہوئے حقیقی منزل کی جانب انسانیت کی رہنمائی میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ چنانچہ آج جہاں ہم ان باقی ماندہ صفات سے بھی محروم ہو رہے ہیں وہاں قرآن کریم کی بالا آیت کی روشنی میں ہمارے اندر کی جانے والی عملی مثبت پیش رفت میں حائل رکاوٹیں بھی دور نہ ہو سکیں۔ شاید اسی کمزوری اور اللہ کی کتاب سے دانستہ یا نا دانستہ دوری کے باعث متذکرہ صفات کے برعکس ہی ہمارے روزمرہ کے امور انجام پا رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے اپنے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کی استدعا ہے۔ آمین !
Abdul Majeed Siddiqui
About the Author: Abdul Majeed Siddiqui Read More Articles by Abdul Majeed Siddiqui: 8 Articles with 11975 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.