جب انسانیت جہالت وتاریکی اور
غلامی کی خوفناک وادیوں میں سرگرداں وپریشاں تھی،تمام انسان حریت وآزادی
کے مفہوم سے بالکل ناآشنا تھے،اگرچہ وہ آزادانہ جنگ،خونریزی،قتل وغارت
گری کے ’’پیدا ئشی حق ‘‘ سے اچھی طرح مانوس اور واقف تھے،وہ مذہبی، فکری،
سیاسی، معاشرتی،معاشی ہر اعتبار سے غلامی کے بندھن میں جکڑے ہوئے تھے ۔ایسے
حالات میں اسلام کا نور آیا اور ہر طرح کی غلامی،ظلم وجور اور طوق وسلاسل
سے انسانیت کو آزاد کیا ‘یہاںتک کہ انسان ہر اعتبار سے آزاد فضا میں
زندگی بسر کرنے لگا۔ اسلام کی عطا کی ہوئی آزادی کی عکاسی ایک موقع
پرخلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن الخطابؓ نے ان الفاظ میں کی:’’متی استعبدتم
الناس وقد خلقتہم أمہاتہم أحرارا‘‘یعنی: تم نے انسانوں کو کب سے غلام بنا
لیا ہے جب کہ وہ ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوئے ہیں؟؟
انسان اصلاًًفطری طورپر آزاد ہے، اس کو آزادی کافطری حق حاصل ہے،وہ اللہ
کے سوا کسی کا بھی غلام نہیں ہے۔اسلام چونکہ فطری دین ہے اس لئے وہ انسان
کو اس کا فطری حق عطا کرتے ہوئے اس کو عقیدے کی آزادی،فکر کی
آزادی،اظہارِرائے کی آزادی اور عمل کی آزادی عطا کرتا ہے تاکہ انسان
پوری آزادی کے ساتھ اپنے لئے خیر یا شر کا انتخاب کر کے اخروی سعادت
وسرخروی یا شقاوت وناکامی تک پہنچ جائے۔
سب سے پہلے اسلام انسان کو عقیدہ کی آزادی فراہم کرتا ہے۔اسلام اس بات کی
اجازت نہیں دیتا ہے کہ کسی کو جبراً مسلمان بنایا جائے‘یہاں تک کہ نبی
کریمﷺ کو مخاطب کر کے یوں ارشاد فرمایا گیا:’’کیا آپ لوگوں کو زبردستی
ایمان میں داخل کریں گے،اگر آپ کا رب چاہتا تو زمین پر بسنے والے تمام
انسان ایمان لے آتے‘‘۔(سورۂ یونس:۶۹) یہ مکی دور کی بات ہے جب کہ اسلام
ابھی مغلوب ومحدود اور مسلمان معدودے چند اور انتہا ئی کمزور تھے لیکن جب
مدنی دور میں اسلام کو غلبہ نصیب ہوا اور جزیرۃ العرب کی اکثریت اسلام میں
داخل ہوگئی تو واضح الفاظ میں ہمیشہ کے لئے یہ اعلان کردیا گیا کہ:’’دین
میں کوئی جبر واکراہ نہیں ہے‘‘۔(البقرۃ:۲۵۶)اور یہ صرف اعلان ہی نہیں
تھابلکہ پوری تاریخ اسلامی اس کی شاہد عدل ہے کہ عملی طور پر کبھی بھی کسی
کو جبراً اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ دوسرے مذاہب
کے ماننے والے پوری آزادی کے ساتھ اسلامی حکومت کے زیرِسایہ اپنے مذہب پر
عمل پیراہوتے رہے،اسلامی حکومت پران کی حفاظت کی ذمہ داری رہی اور ان کی
حفاظت کے لئے مخصوص قوانین متعین کئے گئے اور نبی رحمتﷺ نے یہاں تک اعلان
فرما دیاکہ:’’جس نے (اسلامی حکومت میں رہنے والے)کسی ذمی(غیر مسلم
معاہد)کوکو ئی اذیت وتکلیف پہنچائی‘ اس نے مجھے تکلیف پہنچائی‘‘۔اور عقیدہ
کی آزادی کایہ اعلان اس وقت کیا گیا جب کہ بہت سی حکومتوں کا اصول تھا کہ
یا تو عیسائیت قبول کرو ورنہ قتل کے لئے تیار رہو۔
یہاں مختصرطور پراس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ اگرچہ یہ ایک مکمل الگ موضوع ہے
کہ اسلامی جہاد لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کے لئے نہیں ہے جیسا کہ
الزام عائد کیا جاتا رہا ہے بلکہ اسلامی جہاد اصلا ًان لوگوں کے خلاف ہے جو
لوگوں کی آزدی کو سلب کردیتے ہیں۔اسلام سے قریب ہونے والوں کی راہ میں
رکاؤٹ بنتے ہیں اور لوگوں کو ظلم واستبدادکا شکار بنا کر ان کو غلامی کی
زنجیروں میں جکڑ دیتے ہیں اور دنیا میں خدائی قانون کے بجائے خودساختہ
قوانین کو نافذ کرتے ہیں۔پوری اسلامی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں مل
سکتی ہے کہ لوگوں کو جبراً مسلمان بنانے کے لئے جہاد کیا گیا ہو۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب اسلام انسان کو عقیدہ کی
آزادی فراہم کرتا ہے تو اس کو کچھ شرائط کے ساتھ مقید کرتا ہے تاکہ دین کو
لوگ کوئی کھلونا نہ بنا لیں جیسے کہ یہود اسلام کے خلاف سازش کرتے ہوئے
آپس میں کہا کرتے تھے کہ:’’جو کلام ان ایمان لانے والوں پر نازل ہوا ہے
صبح کے وقت اس پر ایمان لے آؤ اور پھرشام کواس کا انکار کردینا تاکہ
(تمہیں دیکھ کر)دوسرے بھی انکارکرلیں‘‘۔(آلِ عمران:۷۲)۔لہٰذا جو شخص پورے
اختیار ،آزدی،غور وفکر کے بعد اسلام میں داخل ہو اب اس کے لئے اسلام کو
ترک کرنا جائز نہیں ہے ورنہ وہ ارتداد کی کڑی سزا کا مستحق قرار پائے گا۔
اس کے بعد اسلام انسان کو فکری آزادی بھی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی فکری
آزادی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ مختلف نظریات،متعدد مذہبی فرقے،متنوع
اجتہادی مکاتبِ فقہ اسلام کے زیرِ سایہ پوری آزادی کے ساتھ آج تک موجود
ہیں اور شورائی نظام جس کا قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے‘ اسی لئے ہے تاکہ
مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آنے کے بعد بہتر سے بہتر پہلو کو اختیار کیا
جائے۔ قرآن میں کتنی آیات ایسی ہیں جن میں غور وفکر اور تدبر وتفکر کی
بار بار دعوت دی گئی ہے اور ان لوگوں کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے جو اوہام
وخرافات ،ظنی امور اور خواہشات کی پیروی کرتے ہیںیا آباء واجداد اور
رؤساء وأمراء کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔اسلام میں عقیدہ کے معاملہ میں بھی
عقلی دلائل دئے گئے ہیں اور عقلی بنیادوں پر الوہیت ونبوت کا ثبوت فراہم
کیا گیا ہے اور مخالفین سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ:’’اگراپنے دعوے میں
سچے ہو تو دلیل پیش کرو‘‘۔(البقرۃ:۱۱۱)۔ایمانیات وعقائدکے معاملہ میں
انسانوں کو اوہام وخرافات،اندھی تقلیدسے نکال کر دلائل کی روشنی میں صحیح
راہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مختلف اجتہادی امور میں
علماء کے مابین اختلاف رائے بھی پایا جاتا ہے اور مخلصانہ اجتہادی غلطی میں
بھی مجتہد کو ثواب سے محروم نہیں کیا گیا ہے۔فقہاء کے مابین اختلاف رائے
اسلام کی اسی فکری آزادی کی اہم ترین دلیل ہے۔
اسی طرح اسلام اظہار رائے کی بھی آزادی فراہم کرتا ہے،بلکہ بسا اوقات جب
کہ عمومی مصلحت اور اصلاحی مقصد پیش نظر ہو اس وقت اظہار رائے واجب اور
ضروری ہے۔اسلام نے بغیر کسی خوف وڈر کے حق گوئی کی تلقین کی ہے،أمر
بالمعروف اور نہی عن المنکر کو فریضہ قرار دیا ہے،اسلام میں اس بات کی
گنجائش نہیں ہے کہ لوگوں کے سانس لینے پر بھی قدغن لگا دی جائے اور ان کے
منہ پر لگام لگا دی جائے کہ وہ اجازت کے بغیر ایک حرف بھی نہ بول سکیںجیسے
کہ ہر دور کے فرعون زبانِ قال سے یا زبانِ حال سے یہ کہتے رہتے ہیں
کہ:’’میری اجازت کے بغیر اس کی بات کو کیسے تسلیم کر لیا؟!‘‘۔(سورۃ
الشعرائ:۴۹)اسلام میں کسی بھی عام شخص کو خلیفۂ وقت تک سے سوال اور
استفسار کا حق ہے اور خلیفہ رعایہ کے سامنے جوابدہ ہے،جیسے کہ تاریخ میں
ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔
اسلام نے انسان کو اظہار رائے کی آزادی دی ہے کیونکہ وہ اس کا فطری حق ہے
لیکن اس کے دین اور اخلاق کی حفاظت کرتے ہوئے ایسی چیزوں سے اس کو روکا بھی
ہے جس میں اس کا یا اور کسی کا نقصان ہو، یا معاشرہ میں اس کی وجہ سے فتنہ
برپا ہو،اسی لئے فحش گوئی ،غیبت،چغلی اور دیگر لغویات سے منع کیا گیا ہے ۔
ارشاد فرمایا گیا ہے کہ:’’جہنم میں بہت سے انسان اپنی بدگوئی کی وجہ سے
اوندھے منہ گریں گے‘‘۔(الحدیث)اس لئے اظہار رائے میں صدق وصفائی ضروری
ہے،اور حق گوئی صرف جائز ومستحسن ہی نہیں بلکہ بعض جگہوں پر واجب وضروری
ہے۔
اسی طرح اسلام انسان کو عمل کی بھی آزادی فراہم کرتا ہے۔انسان کے سامنے
خیر وشر دونوں راستوں کو واضح کیا گیا ہے اور دونوں کے نتائج سے آگاہ کر
کے اس کو آزادی دی گئی ہے کہ چاہے تو خیر کا راستہ اختیار کرے یا
شرکا،البتہ فرد ومعاشرہ کو نقصان پہنچانے والے ہر برے کام کو ممنوع قرار
دیا گیا ہے،اور اس کے لئے قوانین متعین کئے گئے ہیں تاکہ دنیا کے اندر ظلم
وانارکی اور حیوانیت عام نہ ہونے پائے۔کسی کوقتل کرنا،کسی کا مال ہڑپ
کرنا،سود اور دوسری تمام ضرر رساں چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔جہاں بھی
دوسروں کے حقوق تلف ہونے کا اندیشہ تھا و‘ہاں اسلام نے روک لگا دی ہے،اور
’’لا ضرر ولا ضرار‘‘ (یعنی:نہ خود کو ضرر پہنچاؤ اور نہ دوسروں کے لئے ضرر
کا ذریعہ بنو)جیسا ذریں اصول بیان کر کے حدود کو متعین کردیا ہے۔
بلاشبہ اسلام نے عملی طور پر انسان کو ہر قسم کی غلامی سے نجات دلائی،جس کی
عکاسی حضرت ربعی بن عامرؓ نے رستم کے دربار میں ان الفاظ میں کی ہے کہ:
’’اللہ نے ہم کو اس لئے بھیجا ہے تاکہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات
دلا کر ایک اللہ کی غلامی میں داخل کریں،دنیا کی تنگیوں سے نکال کراس کی
وسعتوں میں لے آئیں،مذاہب کے ظلم وجور سے نکال کے اسلام کے عدل تک پہنچا
دیں‘‘۔یہی اسلامی آزادی کا وسیع تصور ہے۔اس کے برعکس آج کی دنیا جس
آزادی کا کھوکھلا نعرہ لگا رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بدکاری کرو،شراب
پیو،حرام کاموں کا ارتکاب کرو،جیسے چاہو کرو،تم کو اپنے نفس کو بگاڑنے کا
حق ہے۔ اخلاق بگاڑنے کا حق ہے،خاندان اور نسل کو تباہ کرنے کا حق ہے۔البتہ
جہاں مفاد عامہ کی بات آئے، ریاست وسیاست کی بات آئے ،غلامی سے آزادی کی
بات آئے ،وہاں بولنے کا کوئی حق نہیں۔اس میں اظہار رائے کی آزادی
نہیںبلکہ ظلم کی تکلیف پر آہ کرنے کا بھی حق نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔جب کہ اسلام اس
طرح کی آزادی کا قائل نہیں ہے کیونکہ یہ گناہوں اور فساد کی آزادی ہے جس
میں حقوق کی آزادی سلب کر لی جاتی ہے۔ انسانوں کو غلامی کے بندھن میں جکڑ
دیا جاتا ہے۔انسان کو اس کے حق سے محروم کر کے جانور بنادیا جاتا ہے،آزادی
کا جھوٹانعرہ لگا کر لوگوں کو ظلم واستبداد کا شکار بنایا جاتا ہے۔ان کے
حقوق کو پامال کیاجاتا ہے،ان کے عقیدہ کی آزادی،فکری آزادی،اظہارِرائے کی
آزادی کو سلب کر دیا جاتا ہے ۔ان چیزوں کی اسلام میں قطعی کوئی گنجائش
نہیں ہے۔انسان کو سڑک پر گاڑی چلانے کا یقینا حق ہے لیکن ضروری ہے کہ وہ
ٹریفک کے قوانین کا پا س ولحاظ کرے،دوسروں سے ٹکرانے سے بچے،اپنی سمت میں
ہی چلے،پیدل چلنے والوں کو نہ روندھے ،ٹریفک کے قوانین کو پامال نہ
کرے،سگنل ملنے پر ہی آگے بڑھے یعنی شخصی آزادی کے ساتھ ساتھ مفاد عامہ
اور دوسروں کی مصلحت کا لحاظ بھی ضروری ہے۔دنیا میں کوئی ایسا نظام نہیں ہے
جس میں اس طرح کی حدود وقیود نہ ہوںلیکن حدود وقیود کے ہوتے ہوئے اسلام نے
انسانوں کو جو آزادی عطا کی ہے‘ دنیااس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔آج
آزادی کا کھوکھلا نعرہ لگا کر لوگوں کو غلام بنانے والوں سے ہر سلیم
الفطرت منصف انسان حضرتِ عمرؓ کی زبانی پوچھ رہا ہے کہ:’’تم نے لوگوں کو
کیونکر غلام بنا رکھاہے جب کہ وہ ماؤں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوئے ہیں؟‘‘ |