(۱) بہت عرصہ قبل مسجد نبوی کی
جنت البقیع کی طرف جب توسیع کی گئی تو راستے میں چند صحابہ کی قبریں موجود
تھیں۔ ۱۹۶۸ء میں جب میں مدینہ منورہ گیا تو ان حضرات کی قبروں کو دیکھا اور
صدیوں پرانی کچی دیواروں کے نشانات بھی موجود تھے۔ مسجد نبوی کے توسیع کے
مراحل میں ان قبروں کو کھولا گیا اور ان صحابہ کرام کو جنت البقیع میں
منتقل کیا گیا جس کی تفصیل اس سال نوائے وقت نے بھی دی۔
حج کا زمانہ تھا جب ان اصحاب کی قبروں کو کھولا گیا اور یہ عمل رات کے وقت
کیا گیا تاکہ لوگوں کو کم سے کم پتہ چل سکے میرے چند عزیز ان دنوں حج پر
گئے ہوئے تھے انہوں نے ان اصحاب رسول کی زیارت کی۔
جب ان کے جسموں کو نکالا گیا تو ویسے ہی تروتازہ تھے، کیڑے مکوڑے کا نام تک
نہ تھا، کافی لوگوں نے ان پاک جسدوں کی زیارت کی اور تابعین میں اپنے آپ کو
شمار کرالیا۔
ّ(۲) اسی طرح دو صحابہ کرام جو دریائے دجلہ کے کنارے پر دفن تھے، ان کو
دریا کے پانی نے تنگ کرنا شروع کیا۔ وقت کے بادشاہ کو خواب میں حکم دیا گیا
کہ انہیں یہاں سے نکال کر خشک جگہ پر دفن کیا جائے۔
ان دنوں میں غالباً شاہ فیصل کے والد شاہ طلال حکمرانِ عراق تھے۔ انہوں نے
علماء کرام سے مشورہ کیا اور قبروں کو کھول کر ان دونوں اصحابِ رسول کو
دوسری جگہ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ نظارہ دیکھنے کے لئے غیرممالک سے غیر مسلم بھی آئے تو انہوں نے ان دونوں
اصحابِ رسول کو بالکل تروتازہ پایا۔ صرف حکرت نہیں کرسکتے تھے باقی ایسے
معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی فوت ہوئے ہیں حالانکہ ان کو دنیا سے پردہ کئے
ہوئے ساڑھے تیرہ سو سال ہوچکے تھے۔
یہ نظارہ دیکھ کر بہت سے غیر مسلم اسلام میں داخل ہوئے اور قبر کی زندگی کو
برحق سمجھا۔ اس موقع پر غیرملکی نامہ نگار اور فلم بنانے والے اور کئی
ملکوں کے سفیر بھی موجود تھے۔ دنیا کے تمام اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی۔
(۳) جب منگلا ڈیم پاکستان میں تعمیر ہوا تھا اور بند باندھا جارہا تھا اور
مٹی ادھر سے اُدھر اکٹھی کی جارہی تھی تو اس کام کے دوران بلڈوزر نے ایک
قبر کو کھول دیا۔ اس قبر میں ایک مردہ لیٹا ہوا تھا اور اس کے منہ کے اوپر
ایک سانپ بیٹھا ہوا وقفہ وقفہ سے اُسے ڈس رہا تھا۔ یہ نظارہ وہاں کے تمام
لوگوں نے دیکھا چنانچہ کچھ اﷲ والوں نے ذکر اذکار شروع کردیا اور اس مردے
کے لئے تخفیف عذاب کے لئے درود شریف اور قرآن مجید پڑھنا شروع کردیا۔ کچھ
دیر کے بعد یہ سانپ کہیں غائب ہوگیا۔ یہ واقعہ وہاں کے ایک انجینئر نے
بتایا جو ان دنوں بند کے بنانے پر مامور تھا۔
(۴) آج سے قریباً بیس سال قبل قبر کشائی کے لئے ایک میڈیکل آفیسر کے ساتھ
گیا۔ یہ قبر کوٹ مٹھن کے قصبے کے باہر ایک قبرستان میں واقع تھی اور قبر
والے کو مرے ہوئے پانچ دن گزرے تھے۔ جب قبر کھولی گئے تو میں وہاں موجود
تھا۔ قبر کالی چمکدار موٹی مکھیوں اور موٹے کیڑوں سے بھری ہوئی تھی اور قبر
کی تہہ پر سانپ اور بچھو نظر آرہے تھے۔ نظارہ اتنا ڈراؤنا تھا کہ وہاں سے
سب لوگ بھاگ گئے حتیٰ کہ سرکاری افسران جو ہمارے ساتھ تھے وہ بھی اس نظارے
کی تاب نہ لاسکے۔ سب سے بڑا مسئلہ مردہ کو نکال کر اس کی چیر پھاڑ کرنا
تھا۔ مردے کو نکالنے کے لئے بڑے جتن کئے گئے۔ بڑی مشکل سے دو مزدور پولیس
کے ڈر سے رسیوں کے ذریعہ مردے کو باہر نکال کر لائے۔
کیڑوں کے انبار اور مکھیوں کے جھنڈ دیکھ کر ایک مزدور بے ہوش ہوگیا اور شام
تک مر گیا۔ جب مجھے یہ منظر یاد آتا ہے توپسینہ آجاتا ہے اور سوچتا ہوں کہ
میرے ساتھ قبر میں کیا سلوک ہوگا۔ اگر مرنے سے پہلے قبر کی تیاری کر لی تو
اچھا سلوک ممکن ہے ورنہ ہمیشہ کے لئے ناکامی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں مرنے سے
پہلے مرنے کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(۵) میرے ایک دوست ڈاکٹر قانونِ طب سے منسلک ہیں اور قبرکشائی کیلئے ان کو
سرکار کی طرف سے اکثر جانا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک جگہ قبرکشائی کی
مردے کو بطور امانت رکھا گیا تھا کیونکہ اس کو خاص جگہ منتقل کرنا تھا۔ جب
قبر کھودی گئی تو اس قدر سخت بدبو نکلی کہ مُردے کے تمام رشتے دار بھاگ گئے
اور قبر سے ایک عجیب قسم کا سانپ نکلا جو دنیا میں نہیں دیکھا جاتا۔ پورا
دن انتظار کرنے کے باوجود بو کم نہ ہوئی تو تنگ آکر اسی حالت میں مردے کا
معائنہ کیا گیا۔ یہ منظر بھی بہت پریشان کن تھا اور جو لوگ وہاں موجود تھے
سب پریشان تھے۔
یہ واقعات اس لئے لکھے گئے ہیں کہ ہم قبر کی تیاری میں لگ جائیں پتہ نہیں
کب بلاوا آجائے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اعمالِ صالحہ کی توفیق عطا فرمائے اور
قبروحشر کے عذاب سے محفوظ رکھے۔ یہ چند روزہ فانی زندگی ہر صورت میں گزر
جاتی ہے اصل فکر آخرت کی ہونا چاہئے کہ اصل اور دائمی زندگی آخرت میں ملنے
والی زندگی ہے۔
درود شریف اور اﷲ کے ذکر کے مشاہدات
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر درود شریف اتنا بڑا عمل ہے کہ خود
فرشتے اور اﷲ تعالیٰ بھی کرتے ہیں۔ اﷲ کے ذکر سے بڑی چیز اور کیا ہوسکتی ہے
کہ خود اﷲ تعالیٰ نے جنت کا ایک دروازہ ذاکرین کیلئے مخصوص فرمایا ہے۔
بزرگوں سے کئی دفعہ سنا کہ قیامت کے قریب ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں اﷲ
والوں کے لئے دنیا میں رہنا ناممکن ہوجائے گا اور جنگلوں میں چلے جائیں گے،
ان کی غذا اﷲ کا ذکر ہوگا۔ اس چیز کا خود بھی مشاہدہ کیا اور ہمارے ایک
بزرگ نے بھی کیا۔
مولانا محمد اسلم مرحوم کا واقعہ
مولانا مرحوم نشتر کالج میں خطیب رہے ہیں۔ کئی دفعہ انہوں نے بتایا کہ جب
پاکستان بنا تو انہوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ جب ان کا قافلہ امر تسر
کے قریب پہنچا تو سکھوں نے حملہ کرکے تقریباً تمام مسلمانوں کو شہید کردیا۔
مولانا صاحب اور ان کے تین ساتھی وہاں سے بھاگ کر ایک مکان کے غسل خانہ میں
پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس غسل خانہ میں انہوں نے تیرہ دن گزارے۔ ہر
وقت بھوک پیاس ستاتی تھی مگر جب اﷲ کا ذکر اور درود شریف پڑھتے تو بھوک
پیاس ختم ہوجاتی۔ ہر وقت موت کا خطرہ تھا۔ سکھوں نے کئی دفعہ اس مکان کی
تلاشی لی مگر ذکر کی برکت سے وہ غسل خانے کی طرف کبھی متوجہ نہ ہوئے۔
تیرہ دن بعد جب ہر طرف لاشوں کے گلنے سڑنے سے بدبو پھیل گئی تو یہ چاروں
ساتھی وہاں سے نکل کر پاکستان بڑی دقت کے ساتھ داخل ہوئے۔ اس طرح تیرہ دن
انہوں نے بغیر کھائے پئے گزار دئیے۔
ہماری جماعت کا واقعہ
ایک دفعہ ماہِ رمضان میں جماعت کے ساتھ پہاڑوں پر جانا پڑا۔ ایک دن پہاڑوں
پر لمبا سفر پیدا کرنا تھا۔ صبح کی نماز کے بعد سامان سر پر اٹھا کر پیدل
چل دئیے۔ دوسری پہاڑی وہاں سے دس میل دور تھی، پہاڑ خشک تھا اور دھوپ بہت
تیز تھی۔ صبح نو بجے تک کچھ فاصلہ طے ہوا تھا کہ تمام ساتھیوں کو پیاس نے
پریشان کودیا، چلنا محال ہوگیا۔
جماعت کے امیر صاحب سے کہا گیا، امیر جماعت کے ساتھ تو اﷲ کی مدد ہوتی ہے
اس نے ہم سب کو بٹھا کر ذکر اور درود شریف کی ترغیب دی اور قربِ قیامت کا
حال بتایا تو جب ہم نے ذکر شروع کیا تو کمزوری جاتی رہی، پیاس ختم ہوگئی
اور ساری جماعت تازہ دم ہوکر چل پڑی۔ اسی طرح ہم نے ذکر اذکار سے شام پانچ
بجے تک سفر جاری رکھا۔ جب منزل مقصود پر پہنچے تو وہاں ٹھنڈے پانی کا چشمہ
پاکر جان میں جان آئی بعد افطار خوب پانی پیا۔
ایک اژدھے کی موت
دو سال قبل پتو کی شہر میں جماعت کے ساتھ ٹھہرا ہوا تھا۔ شہر کے مغرب میں
ایک بستی میں جو تین میل دور تھی ایک اور جماعت گئی۔ جب یہ جماعت بستی کے
قریب پہنچی تو ایک بڑا کھالا آیا جس میں بڑی بڑی گھاس تھی۔ اس گھاس میں ایک
اژدھا تھا جس نے کافی جانور مار ڈالے تھے اور کئی آدمیوں کو بھی نقصان
پہنچایا تھا۔ وہاں کے لوگ اس اژدھے سے بہت خوفزدہ تھے کیونکہ وہ کسی کے
قابو میں نہیں آرہا تھا اور گولی سے اس کو مارنا ناممکن تھا۔
جب یہ جماعت کھالا کے قریب پہنچی تو اژدھے نے ان کو ڈرایا۔ جماعت والوں نے
ذکر اذکار شروع کردیا اور اﷲ تعالیٰ سے دُعا کی کہ اس کے شر سے بچ جائیں۔
جماعت ابھی ذکر میں مشغول تھی کہ انہوں نے دیکھا کہ سانپ کا سر نیچے گرتا
جارہا ہے۔ ایک ساتھی نے اس کو پتھر مارا تو اس نے جنبش نہ کی تو پھر سارے
ساتھیوں نے اس کو لاٹھیوں سے کچل دیا۔ اﷲ کے ذکر اور درود شریف کی برکت سے
اژدھا بالکل ختم ہوگیا۔ یہ تفصیلی واقعہ وہاں کے سارے لوگ جانتے ہیں اور ان
کی زبانی سنا۔
اوجڑی کیمپ کا واقعہ
ہر پاکستانی جانتا ہے کہ اوجڑی کیمپ کی آگ کتنی خطرناک تھی۔ سینکڑوں جانیں
اس میں ضائع ہوئیں، آگ کو بجھانے کے لئے جب غیرملکی ٹیموں سے پاکستان
گورنمنٹ نے بات کی تو انہوں نے چھ سے نو ماہ کا عرصہ مانگا۔ نیز ان کی شرط
تھی کہ راولپنڈی اور اسلام آبا دونوں شہر بالکل خالی کرانے ہوں گے اور اس
آگ کو بجھانے کے لئے خاص K.I.Tمنگانی پڑے گی جو آگ بجھانے کے دوران کام
کرنے والوں کو پہنچائی جائے گی۔
ہمارے ایک جرنل صاحب جن کو اﷲ تعالیٰ کی ذات پر بہت یقین ہے، انہوں نے اپنی
ایک ٹیم تیار کی جو ذکر اذکار میں مشغول رہی اور جرنل صاحب ’’اﷲ اکبر اﷲ
اکبر‘‘ کہتے ہوئے آگ بجھانے میں مصروف ہوگئے۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوئی
اور اتنا بڑا حادثہ اﷲ کی رحمت سے صرف گیارہ دن میں ٹل گیا۔ الحمدﷲ۔
آیۃ الکرسی کی برکت سے جن کے حملے سے بچاؤ
کئی دفعہ سنا تھا کہ چوروں سے بچاؤ کے لئے اور جن کے شر سے محفوظ رہنے کے
لئے آیۃ الکرسی بہت ہی مفید ہے۔ جب میں سعودی عرب بریدہ میں سروس کررہا تھا
تو رہائش کے لئے دو منزلہ فلیٹ نما گھر ملا۔ جو کافی مدت سے خالی پڑا تھا۔
بالکل نیا تھا اور بڑی سڑک پر واقع تھا۔ اوپر والی منزل میں، میں نے رہنا
شروع کیا اور نیچے کی منزل میں کلینک بنا لیا۔
اس فلیٹ میں تین کمرے تھے اور ایک دروازہ باہر کو کھلتا تھا۔ اس میں ایک
چھوٹا باورچی خانہ اور غسل خانہ بھی تھا۔ ایک کمرہ ہمیشہ خالی رہتا اور اس
کی کنڈی باہر سے بند رہتی۔ درمیان والے کمرے میں، میں سوتا تھا اور آخری
کمرے کو بطور بیٹھک استعمال کررہا تھا۔
ایک دن میں نے مچھلی پکائی۔ بازار سے روٹی لینے گیا، جب واپس آیا تو پلیٹ
بالکل صاف رکھی تھی اور مچھلی غائب تھی۔ اسی طرح ایک دن میں غسل خانے میں
جسم پر صابن لگا رہا تھا کہ میں نے محسوس کیا صابن کی ٹکیہ میرے ہاتھ میں
نہیں ہے تلاش کرنے پر بھی نہ ملی۔
ان دو واقعات نے مجھے کچھ شک میں ڈال دیا کہ میرے علاوہ کوئی اور مخلوق بھی
یہاں رہتی ہے۔ میں اﷲ کے فضل سے ذکر اذکار، درود شریف اور تلاوت وغیرہ کرتا
رہتا تھا اس لئے میرا دل مطمئن تھا۔
ایک رات میں سورہا تھا کہ خالی کمرے میں دھماکہ ہوا۔ میں جاگ گیا، اس کا
دروازہ جو باہر سے بند تھا ایک آواز سے کھل گیا اور ہواں سے دس سال کا بچہ
میری طرف غصہ کے عالم میں آرہا تھا، فوراً سمجھ گیا اور آیۃ الکرسی اونچی
اونچی آواز میں پڑھنا شروع کردی۔
جب یہ بچہ مجھ سے دو گز دور تھا تو میں نے دیکھا کہ وہ بائیں طرف مڑ کر
باہر دروازے کی طرف جارہا ہے، میں اس کو پکڑنے کے لئے بھاگا۔ جب وہ دروازے
کے قریب پہنچا تو وہاں سے غائب ہوگیا۔ دروازہ بند تھا اور اس کی چابی میری
جیب میں تھی۔ اس واقعہ کے بعد میں بہت محتاط ہوگیا۔ آیۃ الکرسی پڑھ کر چھت
پر سوجاتا اور کچھ نہ ہوتا۔ چند ماہ بعد میں ہسپتال کے کوارٹر میں چلا گیا،
میرے بعد اس مکان میں ایک شامی ڈاکٹر نے رہنا شروع کردیا۔
ایک دن شامی ڈاکٹر ڈیوٹی پر نہ آیا تو نوکر کو بھیجا گیا تو گھر کے اندر سے
کراہنے کی آواز آرہی تھی۔ جب دروازہ توڑ کر کھولا تو شامی ڈاکٹر زخمی پڑا
ہوا چلا رہا تھا، اس کی ساری کراکری ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی تھی۔ شامی ڈاکٹر نے
بتایا کہ ایک بچے نے جو اس سے بہت طاقتور تھا اسے کراکری سے مارا ہے۔ یہ
مکان اس کے بعد غیر آباد ہوگیا۔
بشکریہ ماہنامہ نداالخیر کراچی صفر ۱۴۳۳ھ جنوری۲۰۱۲ء |