حضرۃ الاستاذ مولانا سید عبد اﷲ محمد الحسنی ندویؒ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

حضرۃ الاستاذ مولانا سید عبد اﷲ محمد الحسنی ندویؒ
دل ِگرمے، نگاہ ِپاک بینے، جانِ بیتابے

حسنی قُطبی خانوادہ کے نامورچشم وچراغ،پیکر اخلاص،مجسّم عمل پیہم،سراپا صدق وصفا،نقیب دعوت وارشاد،مرشد روحانی، عالم ربّانی استاذ گرامی حضرت مولانا سید عبداﷲ محمدالحسنی ندوی استاذحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء،ومدیر تحریرپندرہ روزہ’’الرائد‘‘ ۳۰/جنوری ۲۰۱۳ء کی صبح اپنے افراد خاندان، بڑے بزرگوں،اساتذہ وتلامذہ ،عقیدت مندوں،جانثاروں،اورمریدین ومسترشدین سب کو داغ مفارقت دے کرآخری سفرپر روانہ ہوئے،اکلوتا فرزند ارجمند،جان پدر’’محمد‘‘زبان حال سے کہتارہا:’’واکرب أباہ‘‘(ہائے بابا کی بے چینی)،لیکن جانے والے نے یہ کہہ کر آنکھیں موند لیں کہ:’’لیس علی أبیک کرب بعد الیوم‘‘(تیرے بابا کی یہ آخری مصیبت ہے)،اس مرگ ناگہانی سے جو زخم لگا ہے وہ دیر اور بہت دیر سے بھرے گا،اور کیوں نہ ہو!
ہمارے مولاناصرف اپنی ذات کے لیے نہیں،اوروں کے لیے بھی جینے کا حوصلہ رکھتے تھے،امت کی زبوں حالی پہ روتے تھے،انسانیت کے غمگسار،اور زاہد شب زندہ دار تھے،انہوں نے اپنے آئینۂ دل کو بچا بچا کر نہ رکھا،اسے ٹوٹنے دیا،اور آئینہ ساز کی نگاہ میں عزیزتر ہوتے گئے،ماتم ونوحہ اور نالہ وشیون کی اجازت نہیں،مرثیہ کافن ہمای دسترس سے باہر، مغنّی بھی نہیں کہ کسی بربط پر ساز دل چھیڑوں اور فضائے بیکراں کو اپنے غم انگیز نغموں سے آباد کروں،بس یہی دوچار دانے حاصل کشت محبت ہیں جو ان سطور میں بکھیرنے کی کوشش ہے ؂
یہی دوچار دانے حاصلِ کِشتِ محبت ہیں
نہیں اشکِ مسلسل!! بالیاں ہیں خرمنِ دل کی

ماضی کے دھندلکوں میں جھانکتاہوں توصاف نظر آتاہے کہ مولانا سے ۱۶ـــــــــــــــــــ۔۱۷ سال پہلے واقفیت ہوئی،اور اسے واقفیت کیا کہیں گے،بس جانتا تھا،تکیہ کلاں میں دیکھتا تھا،مولانا ہمارے لیے دورکاجلوہ تھے،کبھی کبھی مدرسہ ضیاء العلوم میدان پور میں جہاں میں نیا نیا طالب علم تھامولانا کی تقریر ہوتی تھی تو آدھی ادھوری سمجھ لیتا تھا،اسی زمانہ میں مدرسہ فلاح المسلمین تیندوا کے سالانہ جلسہ میں مولانا کی ایک بڑی جوشیلی تقریر سنی،اس دن ہم طلبہ میں یہ چرچا ہوتا رہا کہ مولانا بہت اچھے مقرر ہیں،چونکہ تقریر ہم لوگوں کے نزدیک وہی تھی جو شعلہ نوائی کی تصویر ہو،خواہ اس کا مدعا اپنی سمجھ سے بالاترہو،حا لانکہ تقریر تو ہمیشہ ہی مولانا کی پرمغزاورپردرد ہوتی تھی، دار العلوم ندوۃ العلماء میں اپنی تعلیم کے دوران بارہا مولانا کے محاضرات سنے،اصلاحی تقریریں سنیں،اہم نکات قلمبند کئے،آپ کی نصیحتوں کا دل نے ایک خاموش اور دزدیدہ اثر قبول کیا،رفتہ رفتہ مولانا سے خصوصی ملاقاتوں کا موقع ملنے لگا،ان کادروازہ تو کسی کے لیے بند نہ تھا،اصحاب سیر بہت سی شخصیات کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’کان لا یغلق بابہ علی أحد‘‘(ان کادروازہ کسی کے لیے بندنہ تھا)یہ صفت ہمارے مولانا پہ حرف یہ حرف صادق آتی ہے،اس لیے کسی واسطہ اور وسیلہ کے بغیر مولانا سے تعارف ہوا،بہت سے اہم امور میں مشورہ لینے لگا،ہمیشہ فراخدلانہ اور بصیرت مندانہ مشورہ دیتے،کبھی یہ احساس نہ ہوا کہ جلدی میں ٹال گئے یا خاصان خاص میں نہ ہونے کی وجہ سے نظر انداز کردیا،فضیلت دوم میں اپنے ساتھیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے الوداعی مقالہ پیش کرنے کے لیے قرعۂ فال میرے ہی نام نکلا تھا،اور الوداعی نظم میں نے شوقیہ کہی تھی،اس بزم میں مولانا بھی تشریف رکھتے تھے،بڑی شاباشی دی تھی،اور حوصلہ افزا کلمات کہے تھے، جب میں تدریب افتاء میں تھا اس سال بھی اکثر عصر بعد کی مجلس میں حاضر ہوتاتھا جو عصر کے بعد مولانا کے گھرپر ہی ہوتی تھی،حضرت مولاناؒ کی ’’پرانے چراغ‘‘،مولانا عبد الباری ندویؒ کا فلسفۂ اسلام پر مشہور رسالہ،متعدد بزرگوں کے ملفوظات اور بہت کچھ مولانا کی اس مجلس میں سننے کی سعادت حاصل ہوئی،مولانامجلس میں متبسمانہ خاموشی کے ساتھ جلوہ گرہوتے،اورکسی سوچ میں گم ؂
انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو
شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا، سب کارفیق

مجلس کا رنگ تو ’’کأن علی رؤسہم الطیر‘‘کا ہوتا تھا،لیکن کتاب کی خواندگی کے بعد مولانا کبھی کسی کے استفسار پر اور کبھی اپنے طور پر بڑے اہم اصلاحی نکات بیان فرماتے ،اور بہت سے مفید علمی مشوروں سے بھی نوازتے،ایک مرتبہ ندوہ کے ایک نومنتخب استاذ سے پوچھا:آپ مولانا گیلانی کو پڑھتے ہیں؟انہوں نے جواب دیا:’’تدوین حدیث‘‘ پڑھی ہے،مولانا نے فرمایا:ابھی وقت ہے،مولانا گیلانی اور دریاآبادی کی ہر تحریر پڑھئے،ان انوکھی اور البیلی تحریروں میں وہ لعل وگہر مل جائیں گے جو بسا اوقات کہیں اور مشکل سے ملیں گے،بعد میں اپنے اختصاصی موضوع سے ہٹ کر پڑھنے کا موقع کم ملتاہے،فن مقاصد شریعت کے دور جدید کے امام اور مفکر محمدطاہر بن عاشورتیونسی(ت:۱۹۷۳ء) کی تفسیر ’’التحریر والتنویر‘‘کی بڑی تعریف فرماتے تھے،مولانا کے دار المطالعہ میں وہ سب سے اوپر رکھی رہتی تھی،حقیقت یہ ہے کہ چند لمحے جو ان کی معیت میں بسر ہوتے ایک عرصہ تک مجھے سرشار رکھتے،اور ہمیشہ یہ پیغام دیتے کہ ؂
یا سراپا نالہ بن جا، یا نوا پیدا نہ کر

تعلیم سے رسمی فراغت کے بعد بھی مولانا سے خط وکتابت کا سلسلہ جاری رہا،مولانا نے جواب میں ہمیشہ تفصیلی عنایت نامے سے سرفراز کیا،مولانا کے خطوط سے از سرنو زندگی کو مرتب کرنے کی امید جاگ اٹھتی ،اور امنگوں کے دیپ جلتے،یہ حقیقت ہے کہ کسی کی زبان یا قلم سے کام کا جذبہ اسی وقت پیدا ہوتاہے جب مشورہ دینے والا خود بھی جذبۂ عمل سے سرشار ہو،اس کے ذہن میں ہر ایک کو کارآمدبنانے کے منصوبے ہوں،مولانا کے ہر مشورہ سے اس کا اندازہ ہوتا تھا،ایک مرتبہ مولانا سے امامت کی ایک جگہ کے سلسلہ میں مشورہ کیا،اس میں کچھ سیاسی ذہانت کی بھی ضرورت تھی،مولانا نے صاف صاف دوٹوک لفظوں میں مشورہ دیابلکہ حکم فرمایا،میرا تردد اسی وقت ختم ہوا ،اور ایک فیصلہ کرلینے میں مدد ملی،اپنی ٹوٹی پھوٹی علمی وقلمی وابستگی میں مولانا کے اس فیصلہ کن موقف کو سنگ میل سمجھتا ہوں،ورنہ مشیخت آتے دیر نہیں لگتی،دبے پاؤں آتی ہے ،اوراعصاب پہ چھا جاتی ہے۔

ہمارے مولانا حسنی قُطبی خاندان کے اس دور کی آبرو،اور اپنے بزرگوں کے مرکزامید تھے،اپنے دادا جان ڈاکٹرسید عبد العلی صاحبؒ کی دعاؤں کا ثمرہ،چھوٹے داداجان حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے ’’عزیز القدر‘‘اور ’’نورچشم‘‘ ،اپنے والدماجد مولانا محمد الحسنیؒ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کاسرور ،سالار کارواں حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندویؒ کے برادرزادہ اور دامادتھے؂
میرا ممدوح امیر ابن امیر ابن امیر

حضر ت مولانا علی میاںؒکے خصوصی تربیت یافتہ اور تلمیذتھے،ان کے ساتھ کثرت سے آپ کے سفر بھی ہوئے،مہدئ مزعوم عبداﷲ القحطانی اور اس کے حواریوں نے جب حرم مکی پر پانچ دنوں تک قبضہ کر رکھا تھا،اس وقت خانۂ کعبہ کا طواف اور حرم کی عبادتیں سب روک دی گئی تھیں،اس موقع سے مولانا حضرت مولانا کے ساتھ عمرہ کے پہلے سفرپر گئے تھے،لیکن اس ناشدنی واقعہ کی وجہ سے عمرہ نہیں کرسکے تھے،اورایک قسم کے اس’’ احصار ‘‘کی وجہ سے احرام کھول کر کفارہ ادا کرنا پڑاتھا،اگلے سال اس کی قضاکی تھی،حضرت مولانا نے ’’کاروان زندگی‘‘میں اس سفر کا تذکرہ بڑے حسرت بھرے اندازمیں فرمایاہے،خصوصاً اس لیے بھی کہ مولانا پہلی بار گئے تھے،پڑھ کر صلح حدیبیہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

مولانا عربی کے سہل نگار انشاء پرداز،اوردرد دل رکھنے والے صاحب قلم تھے،آپ کے قلم کی جولانی اور روانی ’’الرائد‘‘کے نقوش تحریر سے عیاں ہیں،ہم طلبہ کو آپ کے اسلوب بیان سے انشاء نگاری میں بڑی مدد ملتی تھی،ایک دونمونے یہاں ذکر کرنے میں حرج نہیں کہ لذت علم کی تجدید ہوجائے گی،علم حقیقی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فالعلم الحقیقي الذي ینبلج منہ النور،وینتشر منہ الضیاء،والذي یتفجر منہ الماء العذب،ہوالعلم الذي یقطع منزلہ ویرتقي مناصبہ العلیاتحت الاسم الرباني، والمدد الصمد اني،کما ینبغي أن یتعلم ہذا العلم عند العلماء الراسخین لا عند العلماء المنحرفین،وعند المشایخ الربانیین،لا عند المشایخ المضللین،وعند العلماء العاملین المتدفقین بالعلم والحیویۃ،لا عند العلماء المتشدقین الثرثارین‘‘

ایک جگہ سیر ت رسول سے روشنی حاصل کرنے کی اس طرح دعوت دیتے ہیں:
’’نستلہم من غزوۃ بدر الکبری إیماناً صادقاً، ویقیناً کاملاً، وتوکلاً علی اﷲ،لأننا الآن في معرکۃ قائمۃ،بل في معارک شتی في آن واحد،فحیناً نلتفت ذات الیمین فنأخذ من بدر،ونلتفت ذات الشمال حیناً فنستلہم من غزوۃ أحد،وأن نستن بسنن المصطفی ﷺ دقیقہا وجلیلہا،ذہاباً وإیاباً،خروجاً وولوجاً‘‘

سب سے پہلے ’’الرائد‘‘ میں مولانا کا مضمون کرکٹ کی تباہ کاریوں پر پڑھا تھا،بڑا دلچسپ مضمون تھا،مولانا حضرت مولانا اور اپنے والد ماجدکے اقتباسات بھی اپنی تحریروں میں اہتمام سے نقل کرتے تھے،اور یہ دونوں حضرت طرز نگارش کے ا یک ہی خمیر سے بنے تھے،اس حوالہ سے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ مولانا کی اپنے بزرگوں سے علمی وفکری وابستگی کتنی گہری تھی،مولانا اپنی تحریروں میں مغربی تہذیب کی احمقانہ اور شاطرانہ چالوں پر سخت چوٹ کرتے تھے،جن کو پڑھ کر یہ یقین مزید مستحکم ہوتاتھا کہ اس تہذیب کا زرق برق لباس اندر سے انتہائی غلیظ اور ناپاک ہے،اور اس کی صناعی محض جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے،مولانا اردو زبان کے بھی رمز آشنا تھے،شستہ زبان لکھتے تھے،طوطی وبلبل کی طرح رٹے رٹائے جملے نہیں بلکہ بے ساختہ اور قلم برداشتہ لکھتے تھے،اپنے والد محترم کی زندگی کے سب سے آخری مضمون ’’سؤال حائر یحتاج إلی جواب‘‘یا ’’تناقض تحا رفیہ العیون وتطابق یُسرّ بہ المؤمنون‘‘ کااردوترجمہ انہوں نے ہی کیا تھا،جو ’’ایک تضاد جس کی کوئی توجیہ ممکن نہیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا،اور حضرت مولانا نے اس کو ان الفاظ میں سراہا تھا:’’خدا کو منظور تھا کہ یہ کام(مذکورہ مضمون کاترجمہ)ان کے ہونہار فرزند سید عبد اﷲ حسنی ندوی سلمہ کے قلم سے تکمیل پائے،انھوں نے بڑی خوبی اور کامیابی کے ساتھ اس مضمون کو اردو میں منتقل کیاجوالفرقان ماہ شوال ۱۳۹۹ھ میں ……شائع ہوا،اور بہت پسند کیا گیااور اس طرح فارسی کا وہ جملہ صادق آیا:اگر پدر نہ تواند پسر تمام کند‘‘،اس کے علاوہ بھی مولانا کو جب غم زمانہ نے فرصت دی ’’تعمیر حیات‘‘میں لکھتے تھے اور خوب لکھتے تھے،ان شاء اﷲ مولانا کے متفرق اردو عربی مضامین کے مجموعے جب مرتب ہوں گے تو بخوبی اس کا اندازہ ہوسکے گا،لیکن انہوں نے لکھنے لکھانے کو ہی سب کچھ نہ سمجھا تھا،جیسا کہ حضرت مولاناؒ اکثر فرمایا کرتے تھے:انشاء پردازی اور تصنیف وتالیف مبارک،میں بھی اس کا گنہگار ہوں،لیکن اگر خشیت وﷲیت،تعلق مع اﷲ کے ساتھ،اور ضرورت کے مطابق کام نہ کیا جائے تو یہ سب کاغذی پھول ہیں جن میں خوشبو نہیں ہوتی،یا شاعری کی بحرجس میں پانی نہیں ہوتا،حضرت مولاناؒنے آپ کا انتخاب برداران وطن کے درمیان دعوتی کاموں اور اصلاح وتربیت کے لیے آپ کے خصوصی مذاق کو دیکھ کر فرمایاتھا،چنانچہ احساس ذمہ داری تھی یا پاس وفاکہ مولانا نے کبھی ’’سوپر مین‘‘یا’’ماسٹر آف آل‘‘بننے کے شوق میں اپنے ان مجوزہ کاموں سے سمجھوتہ نہیں کیا،اور انھیں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا،اپنے اہل تعلق فارغ طلبہ سے اکثر فرمایا کرتے تھے :تالیف وتصنیف کے اس پامال کوچہ میں صرف اس مقصد سے مت قدم رکھنا کہ میری بھی کوئی نئی کتاب آجائے ،موضوع کی ضرورت کا اندازہ کرکے خلوص نیت سے یہ کام کرنا،دنیا ہمیشہ تمہاری تحریروں سے استفادہ کرے گی، ورنہ روزانہ سینکڑوں کتابیں چھپتی ہیں،خود رسم اجراء کرائیے،تبصرے کے نام پر تقریظیں لکھوائیے،یہاں وہاں لیجاکر دکھائیے،اور داد وصول کرتے رہئے،زمانہ آج بھی جوہر شناس ہے،اگر وہ کام اخلاص کی روح سے خالی ہوگا اور محض خانہ پری کے لیے کیا گیا ہوگاتویاد رکھو!لائبریریوں میں اس کے نسخے تو محفوظ ہوجائیں گے،دوسرے ایڈیشن کی نوبت تو کیا،پہلا ایڈیشن ہی تحفوں کے فضل وکرم سے نکالنا پڑے گا۔

مولانا ایک سلجھے ہوئے مقرر تھے،بھڑکتا شعلہ نہ تھے،دبی چنگاری تھے،بڑے پتے کی باتیں اپنی تقریروں میں بیان کیا کرتے تھے،ایک شبنمی طبیعت اور دھیمے مزاج کے انسان تھے،اور تقریر میں بھی یہی رنگ غالب ہوتا تھا، لیکن ضرورت پڑتی تو شعلہ بیاں بلکہ شعلہ بجاں ہوجاتے،اپنی تقریروں میں بڑی دلچسپ اور عبرت آموز مثالوں سے باتوں کو ذہن نشیں کرتے تھے،حیدرآباد میں گذشتہ سال علماء کے ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:اﷲ تعالی نے انس وجن کو’’أیہا الثقلان‘‘سے خطاب فرمایاہے،اس لیے انسان کو اپنے اندر وزن رکھنا چاہئے،ایک عالم کو تو اور بھی وزن دار ہونا چاہئے اور ایسی حرکتوں سے دور رہنا چاہئے جو اسے خفیف کردے،مولانا نے فرمایا کہ بہت سے علماء اپنے عقیدت مند اصحاب ثروت سے ملاقات کراتے ہیں،لیکن ان کے جھکاؤ سے ایسا جھلکتا ہے کہ الٹا ہے،وہ خود ان کے مرید اور عقیدتمند ہیں،اس سے علم کی وقعت گھٹتی ہے،الفاظ سے حقیقت پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا،دیر سویر پردہ ہٹ کر رہتا ہے،اور اصلی چہرہ سامنے آہی جاتاہے،مولانا کی تقریروں کا امتیازی وصف حق گوئی تھا،وہ صاف صاف باتیں کرتے تھے،لاگ لپیٹ کے عادی نہ تھے،تحریک پیام انسانیت کے اسٹیج سے مولانا کی تقریروں نے سے کج خیالوں کا زاویۂ نگاہ تبدیل کیا،اورہزاروں دلوں میں حکمت وبصیرت کے ساتھ دعوت دین کا جذبہ پیدا کیا،بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کرلوگوں نے ان کی تقریروں سے ؂
درد کی دوا پائی،دردِ بے دوا پایا

مولانا کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ افراد سازی کے کام میں ہمہ تن مشغول تھے،شخص کو شخصیت بنانے کا فن جانتے تھے،کتنے کندۂ ناتراش کو ان کی الطاف وعنایات اور توجہات نے تراش خراش کر جوہر قابل بنایا،اور آج اﷲ تعالی ان سے ملک کے طول وعرض میں کام لے رہا ہے،یہ محض اﷲ کی شان بندہ نوازی ہے،ورنہ یہ سعادت ہر ایک کے حصہ میں آسانی سے نہیں آتی،ادھر کئی سالوں سے مولانا کی طر ف رجوع عام تھا،مولانا چاہتے تودست بوسی اورقدم بوسی سب ہوتی،پیر مغاں بن کر بے موسم کے پھل کھاتے،لیکن جوبھی آتا اسے اس کی طلب کے مطابق ایک طرف تو ذکر وتسبیح اور دعاء ومناجات سے جوڑتے،دوسرے دعوت دین کا کام سپرد کرکے اسے فعال اور کارکرد بناتے،اس طرح انھوں نے فصلوں کو ضائع ہونے سے بچایا،اور ہر موسم میں ان کی اصلاح وتربیت کے درخت نئے برگ وبار لاتے رہے۔

برادران وطن میں دعوت دین کی مہم کے لیے سینکڑوں افراد مولاناسے تربیت پاکر میدان عمل میں کام کررہے تھے،یہ کام ملک کی موجودہ صورتحال میں تندو سرکش گھوڑوں کو دوڑانے،خوفناک آبشاروں میں کودنے سے زیادہ مشکل تھا،،مولانا کی نگرانی میں کام کرنے والے داعیان اسلام مستقل مولانا سے مربوط رہتے تھے،مولانا کے ایماء پر مولانا کے کئی شاگردوں نے اسی مقصد سے سنسکرت زبان سیکھی،بغیر اشتہار اور بینر کے برسوں سے مولانا کا یہ کام جاری تھا،اخیر میں ادھر چند سالوں سے ’’العافیہ‘‘ کے نام سے ایک سینٹرقائم کیا گیا تھاجس کے ذریعہ دعوتی لٹریچر کی فراہمی اور ضروری تیاری میں آسانی ہوتی تھی،لیکن مولانا دعوت کی تجارت نہیں کرتے تھے کہ بہی کھاتے میں اندراج ہوتارہے کہ میرے دست حق پرست پر اتنے لوگ مشرف بہ اسلام ہوچکے ہیں ،اور یومیہ یہ تناسب ہے،جیساکہ اس زمانہ میں بعض نام نہاد داعیوں کی اس کے بغیر سیری نہیں ہوتی،آج پس مرگ جب لوگ تعزیت کے لیے آرہے ہیں تومولانا کی دعوتی فتوحات کا اندازہ ہورہاہے۔

ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ ان کے اندر کسی بڑی سے بڑی ہستی یا کسی سکۂ رائج الوقت نظریہ کے بارے میں کسی قسم کی مرعوبیت یا بے جا تأثر کاشائبہ بھی نہیں پایا جاتا تھا،اپنے مسلک پر پختگی اور صلابت کے ساتھ چٹان کی طرح مستحکم،لیکن دوسروں کے معتقدات ونظریات کے بارے میں وسیع القلبی ان کا خاصا تھا،ان کی خدمات قوسِ قزح کے رنگوں سے لبریز ہیں،، ذکر وفکر ،جذب وسرور،تب وتاب ،سوزوگداز،غیرت ایمانی اور حمیت دینی کی دولت ورثہ میں ملی تھی ،سینہ میں دل گرم رکھتے تھے،ذکر کے آب حیات سے اپنی تشنہ کامی کا سامان کرتے تھے،مبالغہ آمیز تعظیم کوناپسندکرتے تھے،لب ولہجہ میں نفاست اور صفائی تھی،میانہ قد، موزوں اندام ،اورور کشادہ جبیں تھے،برق رفتاری سے چلتے تھے،زاویہ نشینوں میں تھے لیکن فقیری میں بادشاہی کرتے تھے۔

ابھی دسمبر کے وسط میں مولانا سے ملاقات کو خاتون منزل پہونچا،بظاہر ملاقات مشکل بلکہ طبیبوں کی طرف سے ممنوع تھی،لیکن خوش قسمتی سے حضرت مولانا رابع صاحب اور حضرت مولانا واضح صاحب ندوہ کے لیے نکل رہے تھے،مولانا باوجود ضعف ونقاہت کے رخصت کرنے کے لیے باہر تشریف لائے تھے،اپنے بڑوں کے احترام کا یہ حال تھا، وہیں آگے بڑھ کر ملا،مولانا نے اندر بلایا،میں مولانا کی صحت دیکھ کر حیرت کی تصویر بنا ہواتھا،سکتہ اور صدمہ سے کچھ پوچھنے کی بھی ہمت نہیں ہوپارہی تھی،تشویش اور حیرانی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ عیادت کی سنت اداکی، استاذ محترم مولانا محمودحسن حسنی ندوی مدظلہ بھی تشریف رکھتے تھے،ا س حالت میں بھی مولانا اس صورتحال پر بار بار افسوس کا اظہار کررہے تھے کہ مدارس کے بہت سے فضلاء نے اپنی عربی دانی کو محض ذریعۂ معاش بنارکھا ہے،اور اس میں بھی ربا،قماراوررشوت جیسے قطعی حرام معاملات سے بھی اپنے دامن کو آلودہ کررکھاہے،اور ایسے ہی ناجائز مال سے اپنے تن بدن کی پرورش کررہے ہیں،مولانا جوش میں باربار کررہے تھے:میں اس پر خاموش نہیں بیٹھوں گا،میں یہ نہیں ہونے دوں گا، ایسی عربی سکھا کر کوئی فائدہ نہیں،جو رسول عربی سے بیگانہ کردے،ایسا نہیں ہوسکتا،لیکن افسوس کہ میری صحت نہیں رہی،تم لوگ دعاء کرو،اسی درمیان عشاء کا وقت ہوگیا،جس شخص کے لیے خود سے اٹھ کر بیٹھنا اور بیٹھ کر اٹھنامشکل تھا،اس نے عشاء کی نمازصبروہمت کے ساتھ کھڑے ہوکر ادا کی،حالانکہ قیام وقعود اور رکوع وسجود مولاناجس مشقت سے کررہے تھے،وہ ہم دیکـھ کر حیران تھے،اورفقہی گنجائش کو سوچ رہے تھے، لیکن انھوں نے عزیمت پر عمل کیا۔

پرنم آنکھوں،مغموم دل،اور لرزتے قلم سے کسی طور یہ دولفظ رقم کردیئے،سچی بات تو یہ ہے کہ مولانا کو کھوکر ہم نے دین کے ایک مخلص داعی،ملت کے بے لوث خادم،ایک عارف باﷲ،ایک مشفق استاذ،ایک دوربیں مربی،اور ایک رہبر فرزانہ کو کھودیا،مولاناپر کسی خانہ خراب ،ناعاقبت اندیش اورشقی نے جادو کیایاکرایاتھا ،جو مرض کی شکل اختیارکرگیاتھا،اس کا فیصلہ توروزمحشر پر اٹھا رکھئے،اگر یہ صحیح ہے تو لائق صد رشک ہے کہ مولانا کو شہادت مل گئی،اور وہ ستمگرحرماں نصیبی کا شکار ہوا’’والغیب عند اﷲ تعالی‘‘،اﷲ تعالی آپ کے کاموں کو آپ کے برادر عزیز مولانا سیدعمار عبدالعلی ندوی اورسب سے چھوٹے بھائی اورجانشین استاذ محترم مولانا سید بلال عبد الحی حسنی ندوی حفظہمااﷲ،صاحبزادہ محمد،افرادخاندان،اور تلامذہ کے ذریعہ زندہ وپایندہ رکھے،اور دولت جاوید سے سرفراز کرٍے ؂
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہوترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہوترا
Muhammad Azam Nidvi
About the Author: Muhammad Azam Nidvi Read More Articles by Muhammad Azam Nidvi: 4 Articles with 7122 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.