حضرت مولانا یوسف کاندھلوی ؒ
اپنی تصنیف حیات الصحابہ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت زید بن اسلم ؒ کہتے
ہیں ایک رات حضرت عمر بن خطاب ؓ دیکھ بھال کرنے نکلے تو انہوں نے ایک گھر
میں چراغ جلتے ہوئے دیکھا وہ اس گھر کے قریب سے گئے تو دیکھا کہ ایک بڑھیا
کاتنے کے لیے اپنا اون تیرسے دھن رہی ہے اور حضور ﷺ کو یاد کر کے یہ اشعار
پڑھ رہی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے۔
(۱) محمد ﷺ پر نیک لوگوں کا درود ہو (یا رسول اللہ ﷺ) آپ پرچنے ہوئے بہترین
لوگ درود بھیجیں۔ (۲) آپ راتوں کو خوب عبادت کرنے والے اور صبح سحری کے وقت
(اللہ کے سامنے) بہت زیادہ رونے والے تھے۔ موت کے آنے کے بہت سے راستے ہیں۔
(۳)اور کاش میں جان لیتی کہ کیا میں اور میرے حبیب حضور کسی گھر میں کبھی
اکٹھے ہو سکیں گے؟
یہ (محبت بھرے اشعار) سن کر حضرت عمر ؓ بیٹھ کر رونے لگے اور بڑی دیر تک
روتے رہے۔ آخرکار انہوں نے اس عورت کا دروازہ کھٹکھٹایا اس بڑھیا نے کہا
کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ عمر بن خطابؓ ۔ اس بڑھیا نے کہا مجھے عمر ؓ سے کیا
واسطہ اور عمر ؓ اس وقت یہاں کس وجہ سے آئے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے کہا اللہ تم
پر رحم فرمائے! تم دروازہ کھولو تمہارے لیے کوئی ایسی خطرے کی بات نہیں ہے۔
چنانچہ اس بڑھیا نے دروازہ کھولا۔ حضرت عمر ؓ اندر گئے اور فرمایا ابھی تم
جو اشعار پڑھ رہی تھی ذرا مجھے دوبارہ سنانا۔ چنانچہ اس نے وہ اشعار دوبارہ
حضرت عمرؓ کے سامنے پڑھے۔جب وہ آخری شعر پر پہنچی تو حضرت عمر ؓ نے اس سے
کہا تم نے آخری شعر میں اپنا اور حضور ﷺ کا تذکرہ کیا ہے کسی طرح تم مجھے
بھی اپنے دونوں کے ساتھ شامل کر لو۔ اس نے یہ شعر پڑھا
ترجمہ (یعنی اے غفار! عمرؓ کی بھی مغفرت فرما )اس پر حضرت عمر ؓ خوش ہوئے
اور واپس آ گئے۔
حضرت عاصم بن محمد ؒ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں جب بھی حضرت ابن عمر ؓ حضور
ﷺ کا تذکرہ کرتے تو ایک دم بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑتے۔
حضرت مثنیٰ بن سعید دارع ؒ کہتے ہیں میں نے حضرت انس بن مالک ؓ کو یہ
فرماتے ہوئے سنا کہ میں ہر رات اپنے حبیب ﷺ کو خواب میں دیکھتا ہوں اور یہ
فرما کر رونے لگ پڑے۔
قارئین کائنات کی تخلیق سے لے کر آج تک اس دنیامیں آیا ہے رب کائنات کی طرف
سے عطا کردہ مخصوص وقت گزار کر رختِ سفر باندھتے ہوئے اس عارضی ٹھکانے سے
مستقبل ٹھکانے کی طرف کوچ کر جانا ایک لازمی امر ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار
انبیاءکرام ؑ نے اس کائنات کے خالق کا یہی پیغام مخلوق خدا کو دیا کہ صرف
اسی کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراﺅ، نیکی کرو، برائی سے
خود بھی بچو اور دوسروں کو بھی بچنے کی تلقین کرو۔ الغرض اخلاقیات کے وہ
تمام سبق الہامی کتابوں اور آخر میں نبی آخرالزماں ﷺ پر اترنے والی زندہ
کتاب قرآن مجید میں موجود ہیں جو کسی بھی انسان کے لیے زندگی گزارنے کے
طریقے بتاتی ہیں۔ اگر انسان قرآن پاک میں موجود اللہ تعالیٰ کے احکامات پر
عمل کرے اور نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل کرے تو اسے اللہ کی قربت حاصل ہوتی
ہے جو بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بقول اقبال ؒ یہ
فرماتا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
قارئین اسی طریقے سے اگر انسان اپنے خالق کے احکامات اور نبی کریم ﷺ کی سنت
کو چھوڑ کر شیطان کے راستے کو اپناتا ہے تو راہ راست سے ہٹتے ہٹتے وہ
اتنادور چلا جاتا ہے کہ یہ دنیا بھی اس کے لیے جہنم بن جاتی ہے اور آخرت کا
علم تو یقینا اللہ تعالیٰ کی ذات ہی رکھتی ہے کہ اس شیطانی رستے پر چلنے
والے انسان نما حیوان کا کیا ٹھکانا ہو گا۔
قارئین یہ آج کے کالم کی تمہید ہے آج پورا کشمیر اور دنیا بھر کے وہ ممالک
جہاں کشمیری رہتے ہیں رو رہے ہیں اس کی وجہ آزاد کشمیر کے سب سے بڑے طبی
محسن ڈاکٹرغلام محی الدین پیرزادہ پر گزرنے والی وہ قیامت ہے کہ جس نے ان
کے پورے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مسز نجمہ پیرزادہ کو 69سال کی عمر
میں ان کے بیٹوں کی طرح رکھے گئے نمک حرام ملازم نے دو دن انتہائی بے رحمی
کے ساتھ انتہائی سائنٹفک طریقے سے پہلے تو خواب آور گولیاں دے کر اور
بعدازاں انسولین کی بھاری مقدار جسم میں منتقل کر کے قتل کرنے کی کوشش کی
اور جب یہ دیکھا کہ ان کے بیٹے ڈاکٹر معید پیرزادہ گھر میں ڈاکٹر زبیر اور
ان کی بیگم قیصرہ زبیر کو علاج معالجے کے لیے بھیج رہے ہیں تو عجلت میں منہ
پر تکیہ رکھ کر آٹھ منٹ تک سانس روک کر ان کا خاتمہ کر دیا۔ تنویر نامی اس
ملزم نے یہ تمام باتیں ہمارے ساتھ اس وقت شیئر کیں جب ہم اپنے ٹی وی نیوز
چینل کی طرف سے اپنے ریکارڈنگ انچارج کامران چودھری کے ہمراہ سٹی تھانہ
میرپور میں اس ملزم کا موقف جاننے کے لیے گئے تو اس نے یہ تمام باتیں آن
کیمرہ ریکارڈنگ کے دوران بتائیں۔
قارئین ڈپٹی کمشنر میرپور چودھری گفتار حسین ، ایس پی چودھری امین، ایڈیشنل
ایس پی راجہ عرفان سلیم، انسپکٹر چودھری عنصر اور تمام ضلعی انتظامیہ
مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے انتہائی مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
پروفیشنل گراﺅنڈز پر اس انتہائی پیچیدہ نوعیت کے کیس کو حل کرنے کے لیے کام
کیا۔ ملزم اس وقت پولیس کسٹڈی میں ہے اور جلد ہی قانونی کاروائیاں مکمل
کرنے کے بعد عدالتی عمل شروع ہو جائے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آزاد کشمیر
کی انتہائی فعال اور دیانتدار عدلیہ اس کیس کو ”ٹیسٹ کیس “کے طور پر لے گی
اور اسلامی قوانین کے مطابق جو سزا ایک قاتل کی بنتی ہے وہ اس قاتل یا اس
کے پیچھے چھپے ہوئے کوئی قاتل اگر ہیں تو ان کو دی جائے گی۔ ہم دل سے یقین
رکھتے ہیں کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ آزاد کشمیر جسٹس مصطفی مغل ایک انتہائی
دیانتدار، انتہائی ایماندار، انتہائی پروفیشنل منصف ہیں اور وہ اس حد تک
آہنی اعصاب کے مالک ہیں کہ منصف کی کرسی براجمان ہوتے ہوئے ایک پراسرار
واقعے میں ان پر جان لیوا حملہ بھی کیا گیا لیکن رب کائنات کو ان کی زندگی
منظور تھی وہ آج بھی منصف کی کرسی پر بیٹھ کر مظلوم خلق خدا کو انصاف مہیا
کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اللہ انہیں نظر بد سے بچائے اور ان کی
حفاظت فرمائے آمین۔ ہمیں یقین ہے کہ چیف جسٹس ہونے کی حیثیت سے وہ اس قتل
کو ایک عام قتل کے طور پر نہیں لیں گے کہ جس کی وجہ سے آزاد کشمیر بھر کی
”ورکنگ لیڈیز“اور ”سینئر سیٹیزنز“میں انتہائی خوف وہراس پھیل چکا ہے کہ
انسان اعتماد کرے تو کس پر کرے ۔
قارئین مسز پیر زادہ جو ہمارے ساتھ بھی اپنے بیٹوں جیسا سلوک کرتی تھیں اور
ہم بھی انہیں اپنی ماں جیسا سمجھتے تھے اس اندوہناک سانحے میں شیطانی لالچ
شکار ہو کر ہم سے روٹھ کر چلی گئیں اب ہم پر یہ قرض ہے کہ ہم اسلامی قوانین
کے مطابق ان کے اصل قاتل یا اصل قاتلین کو انجام تک پہنچائیں ہم ان کے
بیٹوں ڈاکٹر معید پیرزادہ،بصیر پیرزادہ،ہادی پیرزادہ اور بیٹی ڈاکٹر انیلہ
سے وعدہ کرتے ہیں کہ پوری کشمیری قوم کے ساتھ مل کر ہم تمام جدوجہد میں ان
کا ساتھ دیں گے جو انصاف کے حصول کے لیے کی جائے گی۔ انشاءاللہ تعالیٰ۔مسز
پیرزادہ کی یاد میں کشمیر پریس کلب میرپور میں ایک تعزیتی ریفرنس ”لیڈیز
کلب میرپور“اور کشمیر پریس کلب میرپور کے اشتراک سے منعقد ہوا۔ کشمیر پریس
کلب کے صدر سید عابد حسین شاہ، جنرل سیکرٹری سجاد جرال، جموں و کشمیر
جرنلسٹس آرگنائزیشن کے صدر حافظ محمد مقصود، اے پی پی ، ٹریبیون اور دی
نیشن کے نمائندے الطاف حمید راﺅ، سینئر صحافی اور استاد محترم راجہ حبیب
اللہ خان، سینئر صحافیوں ارشد بٹ،سید قمرحیات ، محمد رضوان ،سینئر اینکر
پرسن اور ممتاز ریاستی صحافی محمد رفیق مغل، فرخ ڈار، راجہ سہراب خان، راجہ
آزاد ، ناصر رفیق چودھری، محمد وقاص ،کامرا ن بخاری اور دیگر نے راقم کے
ہمراہ کشمیر پریس کلب کی نمائندگی کی۔ جبکہ لیڈیز کلب میرپور کی خواتین کی
بہت بڑی تعداد پریس کلب کے ہال میں موجود تھی ان خواتین میں دی گائیڈنس ہاﺅس
اور دیا فاﺅنڈیشن سے مسز غزالہ خان، میرپور پبلک سکول سے مسزنذہت کامران،
ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ کی صاحبزادی ڈاکٹر انیلہ پیرزادہ، مسز قیصرہ زبیر،
سابق چیئرپرسن تعلیمی بورڈ میرپور پروفیسر صفیہ اکرم، سابق ڈویژنل ڈائریکٹر
تعلیم مجاہدہ نقوی، موجودہ ڈویژنل ڈائریکٹر تعلیم پروفیسر شہناز اعجاز،سابق
وزیر رہنما مسلم کانفرنس ناہید طارق، پروفیسر نرجس افتخار کے علاوہ ہر شعبہ
سے تعلق رکھنے والی ہر ایج گروپ کی نمائندگی موجود تھی ڈاکٹر پیر زادہ کے
صاحبزادگان بصیر پیرزادہ اور ہادی پیرزادہ کے علاوہ ان کے داماد محمد کامل
بھی موجود تھے جو پاکستان ایئر فورس سے تعلق رکھتے ہیں اس تعزیتی ریفرنس کی
تمام تر کاروائی آنسوﺅں اور یادوں کے پھولوں سے پروئی ہوئی تھی آنسوﺅں میں
مسز پیرزادہ کے لیے عقیدت اور احترام کی خوشبو کچھ اس طریقے سے گندھی ہوئی
تھی کہ الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہیں ہر مقررہ نے مسز پیرزادہ کی راولپنڈی
سے رخصت ہو کر میرپور ”پیا دیس“ آنے کے سفر اور اس کے بعد اپنے انتہائی
لائق احترام شوہر ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ کی خدمت کے واقعات جب بیان کرنا
شروع کیے تو کشمیر پریس کلب میں موجود ہر آنکھ میں آنسو تیرنے لگے اور
فضاءسوگوار ہو گئی۔ جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے گئے تو یقین جانیے کہ تمام
لبوں پر مرحومہ کے لیے خلوص اور احترام سے رچی ہوئی وہ دعائیں نکلیں کہ
ہمیں یقین ہے کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ کے حضور شرف قبولیت حاصل کریں گی۔
علامہ اقبال ؒ نے اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں جب ایک طویل نظم لکھی تو وہ
دنیا بھر کے ادب کا ایک شہکار بن گئی۔ہم مسز پیرزادہ کے بچوں اور خود سمیت
دنیا بھر کے بچوں سے آج یہ نظم شیئر کر رہے ہیں جو ماں کے احترام اور مقام
کے متعلق علامہ اقبال ؒ نے لکھی تھی۔
کس کو اب ہو گا وطن میں آہ ! میرا انتظار؟
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار؟
خاکِ مرقد پر تری لیکر یہ فریاد آﺅں گا
اب دعا ئے نیم شب میں کس کو میں یاد آﺅں گا؟
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایہ ءعزت ہوا
دفتر ِہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین ودنیا کا سبق تیری حیات
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کے قابل جب ہوا،تو چل بسی
تخم جس کا تو ہماری کشتِ جاں میں بو گئی
شرکت ِ غم سے وہ الفت اور محکم ہوگئی
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہءنورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
قارئین والد ہ محترمہ کی یاد میں علامہ اقبال ؒ نے جو طویل نظم لکھی تھی اس
کے چند اشعار ہم نے اس کالم کا حصہ بنادیئے مسز پیرزادہ کے بچوں کے دلوں
میں بھی یقینا ایسے ہی جذبات ہوں گے اور دنیا بھر کے وہ تمام بچے جو اپنی
ماﺅں سے پیار کرتے ہیں ان کے دلوں میں بھی جذبات اور احساسات کا ایسا ہی
سمندرٹھاٹھیں مارتا ہو گا جس کی عکاسی اس نظم میں علامہ اقبال ؒ نے کی ہے
ہم آج کے اس کالم کو یہیں پر ادھورا چھوڑ رہے ہیں لیڈیز کلب میرپور کی ان
قراردادوں کے ساتھ جو انہوںنے آزادکشمیر کی معزز عدلیہ سے اپیل کی صورت میں
کیں جن کا ایک ہی تقاضا تھا کہ ہمیں صرف اور صرف انصاف چاہیے وہ انصاف جس
کا سبق اللہ تعالیٰ اور رسول مقبول ﷺ نے دیا ہے ہمیں امید ہے کہ پوری دنیا
میں آباد لاکھوں اہل دل کشمیری آنسوﺅں کے ساتھ یہی التجا لیے اللہ تعالیٰ
کے ہاں بھی دعاگو ہیں اور معزز عدلیہ سے بھی یہی اپیل کرتے ہیں کہ سپیڈی
ٹرائل کے ذریعے سچا انصاف مسز پیرزادہ کے لواحقین کو فراہم کیاجائے تاکہ
معاشرے میں رہنے والی ہر ”ورکنگ لیڈی “اور ”سینئر سیٹیزن “خوف کی فضا سے
باہر نکل کر نارمل زندگی گزار سکے اللہ مسز پیرزادہ مرحومہ کو جنت الفردوس
عطا فرمائے اور ان کے بچوں اورہمارے آئیڈیل ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ کو صبر کی
دولت سے نوازے آمین ۔ |