8مارچ خواتین کے حقوق کے
طور پر تقریباًایک صدی سے منایا جارہاہے ،افسوس سے کہناپڑتاہے کہ اس دن یا
اس عنوان تلے جب بھی خواتین کے حقوق کی بات ہوتی ہے ، ان کی مزید تذلیل ،تحقیر
او راھانت کی ہوتی ہے ،روزگار،آزادی اور نمائندگی گفتگو کے محور ہوتے ہیں ،جبکہ
درحقیقت روزگار ان کا کام ہی نہیں ،صرف اور صرف مجبوری ہے ، آزادی اس دنیا
میں کس کو حاصل ہے ،ہر کوئی کسی نہ کسی کاماتحت ہے ، ایک خدا کی ذات ہے جو
سب سے مستغنی ہے اور بقیہ سب محتاج ہیں ، ظاہر سی بات ہے کہ محتاج اپنی
حاجت برابری کے لئے بطور بیٹا،باپ ، بیٹی ، ماں، بہن ، بھائی ، میاں ، بیوی
، حاکم محکوم اور خادم ومخدوم سب ایک دوسرے خواہی نہ خواہی غلام اور تابع
ہیں ، نمائندگی کا مسئلہ بھی کچھ اسی طرح ہے ،خواتین کی فطری کمزوریاں اور
بیماریاں انہیں کہاں عوامی اجتماعات اور امورِعامہ کی انجام دہی کی اجازت
دیتی ہے ،ایک خالی الذہن آدمی اگر ٹھنڈے دل سے سرجوڑکر بیٹھے گا ،تو اسے
روز روشن کی طرح نظر آجائے گا کہ مذکورہ منہاج کے مطابق حقوقِ نسواں کے
نعرے جوکہ فزیکلی ناممکن ہیں دھوکہ دہی اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ۔
ہاں اگر اعتدال اور توازن کے ساتھ مذاہب ِعالم اور دنیوی حکومتی نظاموں میں
کہیں حقوق نسوا ں کی بات نظر آتی ہے تو وہ فقط اسلامی نظام میں ہے ۔قرآن
وحدیث میں ماں کے قدموں تلے جنت ہے ،بیٹی رحمت ہے ،بہن نعمت ہے ، خالائیں
اور پھوپھیاں ماں کے درجے میں ہیں ، ماں کی خدمت اگرفرض عین ہے تو بیٹی کی
تعلیم وتربیت اور پرورش عین واجب ہے ،رضاعی مائیں ، بہنیں اور دیگر حقیقی
رشتہ داروں کے برابر ہیں ،بیوی ایک شریک حیات ہے ،خریدے ہوئے مال کی طرح
نہیں ہیں ، باندھیوں کے متعلق بھی حکم ہے کہ جوخود کھاؤ،وہ انہیں کھلاؤ
،جوخود پہنو،وہ انہیں پہناؤ، یہاں تک کہ غیر مسلم معاشروں کی طرح بیوی کو
اپنے نام کے ساتھ شوہر کے نام کا لاحقہ ضروری نہیں ،جہالت کی بنیاد پر
ہمارے یہاں کچھ حضرات محترمہ بے نظیر بھٹو پر اعتراض کیا کرتے تھے ،کہ شادی
کے بعد اب ان کوبے نظیر زرداری کہلوانا چاہئے ،حالانکہ اسلامی نقطۂ نظر سے
وہ بے نظیر بھٹو ہی تھی ،وجہ یہ ہے کہ باپ والی نسبت کی تبدیلی ممکن نہیں
ہے اور شوہر کی طلاق یا فوتگی وغیر ہ کی صورت میں ممکن ہے، تہمینہ درانی ،
تہمینہ کھر ،تہمینہ شہباز ۔۔۔کی مثالیں ہمارے یہ دوست بھول جاتے ہیں ، نام
عَلَم ہے اور قانون یہ ہے کہ ’’الأعلام لاتتغیر ولا تتبدل ‘‘ وضع شدہ نام
تغیر پذیر نہیں ہوتے ۔
اسلام نے خواتین کے لئے میراث میں ان کی حیثیتوں کے مناسبت سے حصص مقرر
کردیئے ہیں ، ہمارے یہاں سورۂ نساء کے مطابق میراث کی تقسیم نہیں ہوتی ،
خواتین کو محروم کردیا جاتاہے ، اس لئے وہ مارے مارے پھرتی ہیں ، پوری دنیا
میں 90 فیصد اشرافیہ اور مال دار طبقے کا تعلق خاندانی مالدارلوگوں سے
ہے،گویا ان کو سب کچھ میراث میں ملاہواہے ،جبکہ ہمارے یہاں ماؤں بہنوں کو
اس بنیادی حق سے محروم رکھا جاتاہے، جس کی وجہ سے وہ مفلس ہوجاتی ہیں ، وہ
شوہر ،باپ ، بیٹے اور بھائی کی دست نگر بن جاتی ہیں،وہ کسی جائداد کی مالک
نہیں ہوتیں ،اب آپ ہی بتایئے کہ وہ اپنی صنفی کمزوریوں کے باوجود وافرمال
صرف اپنی کمائی سے کیسے حاصل کرسکتی ہیں، میری ناقص رائے میں تو کوئی مرد
بھی ایسا نہیں کرسکتا ،تو یہ بے چاری کیونکر ؟
مرادر قعرِ بحر افنگندئی،باز می گوئی کہ دامن ترمکن
آپ کے معاشرے نے خود ہی انہیں تہی دست کردیا ، پھر آپ ان کے حقوق ،آزادی
،نمائندگی اور روزگار کے نعرے لگاتے ہیں ،بھلا تہی دست کے بھی کوئی حقوق
درندگی کے اس عالم میں ہیں ؟
عاصمہ جہانگیر کی خدمت عالیہ میں گزارش ہے کہ اگر آپ اس میدان کی حقیقی
چیمپین ہیں، تو آغاز اسلامی نظام میراث سے کیاجائے ، نظام میراث سے فیوڈ
لزم جیسے ناسور بھی ازخود تہ وبالا ہوجاتے ہیں ،فیوڈلزم ،خانزم اور
سردارانہ نظام ختم ہوں گے تو خواتین کو اپنے حقوق کی تحصیل میں نمایاں
آسانی مل جائیگی ،لیکن مسز جہانگیر کی اس میدان میں الٹی گنگا بہانے کو جب
بھی میں دیکھتاہوں ، یقین ہونے لگتاہے کہ مرض کی صحیح تشخیص اور علاج کی
بنیادی باتوں سے ناواقفیت کی یہ مثال ہی عقل ِخاتون کی نقص پر کافی شافی
دلالت کرتی ہے، اغیار کے اشاروں پر اس قسم کے بہت سے لوگ اس عنوان سے اسلام
کو بدنام کرنے کی لاحاصل کوششیں کرتے ہیں ،ذرہ بھی اگر ان کو اس موضوع سے
اخلاص ہوتو یہ اسلامی نظام ِوراثت پر عمل کرائیں، پھر دیکھیں انسانی
سوسائٹی میں کتنا بڑا اور صحت مند انقلاب برپا ہوتاہے ، لیکن ۔۔
بنے ہیں شہ کے مصاحب ،پھرے ہیں اتراتا
ورنہ اس شہر میں غالب کی آبرو کیاہے
مجھے ان کے حقوق کی متعدد جہتوں سے ضیاع کا بخوبی ادراک ہے، اس لئے میں
ذاتی طور پر حقوقِ نسواں کے عالمی دن کی تائید میں ہوں ’’تحریک احیائے
میراث پاکستان ‘‘ کا مؤسس وبانی ہوں ،اس حوالے سے میرے پاس علماء اور وکلاء
کی ایک ٹیم بھی ہے، جوخواتین وحضرات بین الأقوامی قانوں اور قرآن وحدیث کے
تناظر میں اس حوالے سے کام کرنا چاہیں وہ ہماری Email پر رابطہ کر سکتے ہیں
۔ |