ہندوستان میں جرائم کے روک تھام
کے سلسلے میں حکومت کا نظریہ اس کے شاخ کو کاٹنے کا زیادہ رہا ہے ۔ کبھی
بھی اس کی جڑ یا بنیاد پر توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی حتمی طور اسے جڑ سے
اکھاڑنے کی کوشش کی گئی۔ ہندوستان میں نام نہاد مفکرین اور ٹی وی پر نمودار
ہونے والی خواتین نے کبھی اصل جڑ کی طرف انگلی نہیں اٹھائی ۔ آج ہر شخص
قدرت کا باغی نظر آرہاہے۔ٹی وی اینکر، مباحثے میں حصہ لینے والے جن میں
وکلاء، پروفیسرز، صحافی،سماجی خدمات گار خواتین، ماہر سماجیات وغیرہ شامل
ہیں، فطرت سے دو دو ہاتھ کرنے میں بہادری اور دانشوری سمجھ رہے ہیں۔ یہ
بھول جاتے ہیں قدرت کا ایک قانون ہے جو دنیاوی کسی بھی قانون سے بالاتر ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مغرب اور یورپی ممالک جن برائیوں سے کنارہ کشی
اختیار کررہے ہیں انہیں ہندوستان میں ماڈرن اورروشن خیالی تصور کرکے اپنانے
میں مسابقہ ہورہا ہے۔ اگر کسی نے ان برائیوں کے خلاف لب کشائی کی تو انہیں
دقیانوسی فکر کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔ اس سے افسوسناک صورت حال اور کیا
ہوسکتی ہے کہ برائیوں کو قانون کا جامہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے جو چیز
غلط ہے اسے ہر حال میں غلط تصور کیا جانا چاہئے لیکن اترن پہننے کا عادی
ہندوستانی معاشرہ غلط کاری کو بھی ذاتی اختیاراور حق سمجھ کراسے برحق تصور
کرتا ہے۔ ہندوستان کی اپنی ایک تہذیب و روایات ہیں جس کی وجہ سے ہندوستان
کو بیرون دنیامیں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن عورتوں کے حقوق و
اختیارات دینے میں وہ اس چیز کو بھول جاتے ہیں کہ یہ معاملہ قانون کا نہیں
ہے بلکہ معاشرتی ہے۔ معاشرہ اورمعاشرے کی سوچ کو تبدیل کئے بغیر یہ ممکن ہی
نہیں کہ خواتین کا سڑکوں پر احترام کیا جائے گا۔ معاشرے کی سوچ اگر خراب ہے
کہ اس کے لئے صر ف مرد ہی ذمہ دار کیوں ہوگا خواتین کیوں نہیں ہوں گی کیوں
کہ جرم کرنے والا مرد کے کوکھ سے نہیں عورت کے کوکھ سے جنم لیتاہے ۔ اخلاق
و عادات اورتربیت کی ذمہ داری مردوں سے کہیں زیادہ خواتین کی ہوتی ہے۔ گھر
کا حکمراں خواتین ہوتی ہیں اگر خواتین کے تئیں مردوں کی سوچ بری ہے تو اس
میں ماں اور باپ دونوں ذمہ دار ہیں۔ آزادی کا مطلب کا حق تلفی نہیں ہوتا
بلکہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے ۔ قانون کے مطابق اگر کوئی مرد اپنی بیوی
سے بالجبر جنسی عمل کرتا ہے تو وہ زنا کے زمرے میں آئے گا ۔ یہ کیسا عجیب و
غریب قانون ہے اس طرح کا قانون خانگی نظام کو درہم برہم کرنے والا ہے ۔
یہیں سے مرد دوسری عورتوں کی طرف راغب ہوتا ہے۔یہ کیسا معاشرہ ہے اس پر
دانشوروں اور ماہرین سماجیات کو غور و فکر کرنا چاہئے۔ یوروپ اور مغربی
ممالک کی نقل میں ہندوستان نے یہ قانون وضع کرلیا ہے لیکن عورتوں کو تفویض
اختیارات کے معاملے میں ناکام رہا۔ ایک طرف اسے دیوی سمجھ کر اس کی پرستش
کی جاتی ہے دوسری طرف جہیز کیلئے زندہ جلادیا جاتا ہے۔ وہی لوگ آج خواتین
کے حقوق کے علمبردار بنے ہوئے ہیں جنہوں نے انہیں قابل فروخت اشیاء کے زمرے
میں لا کھڑا کیا ہے۔ خواتین پیسوں کے لئے آج کیا نہیں کرتیں۔ اشتہارات اور
پردوں پر جس طرح کے سین پیسے کیلئے کرتی ہیں کیا اسے معاشرتی طور درست
سمجھا جاسکتاہے۔ پردے پر جو عمل ہوتا ہے خواتین کو اس کے ردعمل کے لئے بھی
تیار رہنا چاہئے۔اس ردعمل کو قانون بناکر نہیں روکا جاسکتااگر روکنا ہے تو
پہلے اس عمل کو روکنا ہوگا۔حکومت صرف قانون کے سہارے اس طرح کے ردعمل کو
روکنا چاہتی ہے ۔ خصوصاَ 16 دسمبر کے اندوہناک ، وحشتناک اور دل دہلا دینے
والا واقعہ کے بعد خواتین کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کے تئیں بیداری آئی
ہے ۔چاروں طرف سے سخت قانون بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس کے نتیجے
میں جسٹس ورما کمیٹی قائم کی گئی تھی جس نے اپنی رپورٹ پیش کی اور اس کی
بنیاد پر حکومت نے نوٹی فیکشن بھی جاری کردیا جس کی مدت اگلے ماہ ختم
ہوجائے گی اس سے پہلے حکومت اس کی جگہ ایک نیا قانون بنانا چاہتی ہے جس پر
کافی ہنگامہ ہورہاہے۔ خاص طور پر اس شق کے سلسلے میں جس میں بالرضا و رغبت
جنسی عمل کی عمر 18 سے کم کرکے 16 کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
ہندوستان کی مرکزی کابینہ میں14 مارچ 2013 کو منظورہونے والا اس نئے بل کے
تحت خواتین کی عصمت دری اور دیگر جرائم کے لیے سخت سزا کا بندوبست کیا گیا
ہے ۔ بل میں تیزاب سے حملہ کرنے، پیچھا کرنے، گھورنے اور چھپ کر تاک جھانک
کرنے کو مجرمانہ فعل گردانا گیا ہے۔ اس بل میں رضامندی سے جنسی عمل کرنے کی
عمر 18 سے کم کرکے 16 سال کرنے کی تجویز ہے۔ آرڈیننس میں یہ عمر 18 سال تھی۔
عصمت دری کی شکار متاثرہ کے ہلاک ہونے یا اس کے کوما جیسی حالت میں جانے پر
مجرم کو موت کی سزا دینے کا اس میں انتظام کیا گیا ہے۔فوجداری قانون ترمیمی
بل 2013 میںآبروریزی کوجنس سے منسلک مخصوص جرم مانا گیا ہے یعنی اسے خواتین
مرکوز بنایا گیا ہے اور اس کے لئے صرف مردوں پر ہی الزام لگے گا۔ آرڈیننس
میں جنسی حملے کا لفظ استعمال کیا گیا تھا جو جنس کے لحاظ سے زیادہ غیر
جانبدار تھا۔ دوسری طرف اقوام متحدہ نے خواتین کو مساویانہ حقوق فراہم کرنے
کرنے کے لئے 15 مارچ ایک اعلامیہ منظور کیا جس میں تقریباً 200 حکومتوں کے
دو ہزار سے زیادہ نمائندے موجود تھے۔ یہ اتفاقِ رائے دو ہفتوں سے جاری اس
اجتماع کے عین آخری لمحات میں عمل میں آیا۔ اس سے پہلے ایران، مصر، سعودی
عرب، قطر، لیبیا اور سوڈان جیسے مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ روس اور ویٹی کن
کی جانب سے بھی شدید مزاحمت دیکھنے میں آئی تھی۔اٹھارہ صفحات پر مشتمل اس
اعلامیے میں ریاستوں کو اس امر کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ خواتین اور
لڑکیوں کے حقوق کا بھی اْسی طرح سے تحفظ کریں، جس طرح کہ وہ مردوں اور
لڑکوں کے حقوق کا کرتی ہیں۔ اعلامیے کی پابندی رکن ممالک کے لیے لازمی نہیں
ہے تاہم سفارت کاروں اور حقوق انسانی کے علمبردار کارکنوں کے خیال میں یہ
اعلامیہ کافی زیادہ وزن اور اہمیت کا حامل ہے اور مختلف ممالک کو اپنے یہاں
خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے پر مجبور کرے گا۔اس کانفرنس
میں 193 ممالک کے ہزارہا مندوبین کے ساتھ ساتھ چھ ہزار تنظیموں کے نمائندوں
نے بھی شرکت کی تھی۔
مغرب اور یورپی ممالک میں قانوناً خواتین کومساویانہ حقوق و اختیارات حاصل
ہیں لیکن اس سے خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی اور جنسی طور پر ہراساں کرنا
بند ہوگیا ہے ایسا نہیں ہے۔ امریکہ سب سے زیادہ انسانیت اور انسانی حقوق
اور عورتوں کے حقوق کی پرچم بلند کرتا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایک
منٹ کے دوران پچیس لوگ جنسی زیادتی، تشدد یا تعاقب کا نشانہ بنتے ہیں۔ایک
امریکی سروے کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک عورت زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی
تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔امریکہ میں بیماریوں سے بچاؤ اور روک تھام سے متعلق
ایک حکومتی ایجنسی کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ کی مطابق زیادتی کا شکار
نصف خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے موجودہ یا سابق ساتھی یا شوہر نے
جنسی تشدد کا نشانہ بنایاتھا۔امریکہ میں جنسی زیادتی سے مراد نشے کی حالت
میں یا جبراً جنسی تعلق قائم کرنا ہے رضامندی کے ساتھ جنسی عمل جنسی زیادتی
کے دائرہ میں نہیں آتا۔رپورٹ کے مطابق ہر سات میں سے ایک مرد بھی اپنے
ساتھی کے ہاتھوں شدید نوعیت کے جسمانی تشدد کا شکار ہوا۔رپورٹ کے مطابق
پچیس فیصد مردوں کو دس سال سے کم کی عمر میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا
گیا۔اس سروے کے نتائج کے مطابق بارہ ماہ کے عرصے کے دوران دس لاکھ عورتوں
کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آئے، ساٹھ لاکھ سے زائد مرد اور
خواتین کا تعاقب کیا گیا جبکہ ایک لاکھ بیس ہزار مرد و خواتین نے اپنے ہی
ساتھی کی جانب سے جنسی زیادتی، جسمانی تشدد یا تعاقب کیے جانے کی شکایت کی۔
ہندوستان امریکی تہذیب اور امریکہ پرستی میں بہت آگے جاچکا ہے یہاں کی
معاشرتی حالت بہت ہی دگرگوں ہے۔ عورتوں کے حقوق اور جنسی عمل کی عمر مقرر
کرنے جیسے موضوع پر بحث میں حصہ لینے والوں کی مانیں تو تقریباً 80 فیصد
لڑکے لڑکیاں اسکول اور کالج لائف میں جنسی عمل سے گزر چکی ہوتی ہیں۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز اور دی پاپولیشن کونسل کی 2007
کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 15 سے 24 سال کے پیار کرنے والے لڑکے
لڑکیوں میں سے 42 فیصد لڑکوں اور 26 فیصد لڑکیوں نے اپنے ساتھی کے ساتھ
سیکس کیا ہے۔جنوبی افریقہ میں اسکولوں کی 28 فیصد لڑکیاں اس وقت ایڈز کی زد
میں آ چکی ہیں۔جنوبی افریقہ کے وزیر صحت ایرن موٹسوالیڈی نے معاشرے کے تمام
طبقوں، سول سوسائٹی اور والدین کو خاص طور پر ہدایت کی ہے کہ وہ اس مسئلے
کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اسکولوں کی طالبات میں پیدا شدہ اس رجحان کی نفی
کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ایرن موٹسوالیڈی کے
مطابق 2011 کے دوران ملک میں اسکولوں کی 94 ہزار طالبات حاملہ ہوئی تھیں
اور ان میں کئی دس برس کی عمر کی بھی تھیں۔ان حاملہ لڑکیوں میں سے 77 ہزار
کو اسقاط حمل کی سرکاری سہولت بھی فراہم کی گئی تھی۔وقت رہتے ہندوستان میں
اس پر توجہ نہیں دی گئی تو اس کا حال افریقہ جیسا ہوسکتا ہے۔
ْ خواتین کے ساتھ زیادتی ہندوستانی سماجی ایک اہم حصہ ہے اور یہاں عورتوں
کے خلاف تشدد کے واقعات بڑی حد تک عام ہیں۔ اس میں پڑھے لکھے یا جاہل کی
قید نہیں ہے ۔27 نومبر1973 کو اس پچیس سالہ خاتون کو اپنے ہی ہسپتال میں
صفائی کرنے والے ایک ملازم سوہن لال بھارتہ نے اپنی ہوس کا شکار بنایا اور
زنجیروں کی مدد سے ان کا گلا گھونٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔اس واقعے نے
ارونا شانباگ کی جان تو نہ لی مگر ان کی زندگی ضرور چھن گئی وہ اب تک کوما
میں ہے۔ 2003 میں ایک اٹھائیس سالہ سوئس سفارتکار کو دلی کے ایک خوشحال
علاقے سری فورٹ میں دو مردوں نے ان کی گاڑی میں دھکیلا اور ان میں سے ایک
سفارتکار کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔جیلوں میں خواتین قیدی محفوظ نہیں ہیں۔
سوھنی سوری کو اکتوبر 2011 کوماؤنوازکی مدد کرنے کے الزام میں پولیس نے
گرفتار کیا تھا۔ حراست ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور ان کی بچہ دانی
میں پتھر گھسائے گئے ۔2004 میں آسام رائفلز کے فوجی منی پور میں بتیس سالہ
منوراما کو ان کے گھر سے باغیوں کی مدد کرنے کے الزام میں لے گئے تھے۔ چند
گھنٹے بعد ان کی تشدد زدہ لاش ایک سڑک کے کنارے ملی اور ان کے پیٹ کے نیچے
کئی گولیاں ماری گئی تھیں۔گذشتہ سال چودہ سالہ سونم کو اتر پردیش کے ایک
پولیس سٹیشن کے اندر ہی زیادتی کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔2002 میں گجرات
میں ہونے والے فسادات کے دوران سیکڑوں مسلم خواتین کے ساتھ اجتماعی جنسی
زیادتی کی گئی تھی۔کشمیر میں کے سلسلے میں کئی تنظیم بار بار کہتی رہی ہیں
کہ سکیورٹی اہکار خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔2007 شرواستی میں
ایک مسلم گاؤں کی عورتوں کے ساتھ جس میں بچی سے بوڑھی تک شامل تھیں
آبروریزی کی گئی تھی۔ ساتھ ہی ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں خواتین کے ساتھ
جنسی زیادتی کو اجتماعی سزا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔مگر حکومت کو
یہاں کی عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی نظر نہیں آتی ہے ۔ ہندوستان میں میں ہر
اکیس منٹ کے بعد جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ رپورٹ کیا جاتا ہے۔ یہ تعداد وہ
جس کی رپورٹنگ ہوتی ہے اگر سارے جنسی زیادتی کے واقعات کی رپورٹنگ ہوگی تو
ہر منٹ ایک یہ تعداد پچاس سے اوپر پہنچ جائے گی۔
گزشتہ سال دلی میں ایک جج نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ایسے کسی اقدام سے،
"لڑکی کی رضامندی ہونے کے بعد بھی اس کے خاندان کی شکایت پر لڑکوں کے خلاف
معاملات کا سیلاب آ سکتا ہے۔ ایک وکیل اور خواتین کے حقوق کی تنظیم کی
سربراہ کے بقول ہندوستان میں ایک تہائی آبروریزی کے معاملے لڑکی کے اہل
خانہ کی طرف سے ایسے لڑکوں کے خلاف درج کیے جاتے ہیں جن کے ساتھ ان کی لڑکی
نے رضامندی سے سیکس کیا تھا۔ جنسی عمل کی عمر کم کرنے سے لڑکیوں کے ساتھ
جنسی زیادتی کم نہیں ہوگی صرف ہوگا کہ پہلے لڑکیاں رضامندی سے جنسی عمل
کریں گی اور تعلقات خراب ہونے کے نتیجے میں پھر لڑکے پر آبروریزی کے
الزامات عائد کریں گی اور معاملہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ جنسی عمل کی
اجازت شادی کے بغیر نہیں ہونی چاہئے۔ ورنہ یہی حال ہوگا مرض بڑھتا گیا جوں
جوں دواکی۔ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی ، چھیڑ خانی، تاک جھانک اور تعاقب
کو کسی قانون کے سہارے نہیں روکا جاسکتا۔ اس قانون پر عمل کرانے کے لئے
حکومت کے پاس نہ تو افرادی قوت ہے اور نہ ہی اتنی بڑی تعداد میں پولیس کا
دستہ ہے اور پھر اس کی کیا ضمانت ہے کہ پولیس کا دستہ خواتین کے ساتھ بد
سلوکی نہیں کرے گا اس کے علاوہ خواتین کے تحفظ کیلئے ہر جگہ پولیس موجود
نہیں رہے گی۔ اس کے لئے جہاں ہندوستانی معاشرہ کو درست کرنا ہوگا ، اس
خواتین کے تئیں احترام کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا وہیں خواتین کو مشرقی تہذیب
کا خیال کرتے ہوئے اس کے دائرہ کا لحاظ کرنا ہوگا۔ کسی نے بہت اچھی بات کہی
ہے کہ مٹھائی کو باہر رکھ دیں اور یہ توقع کریں کہ اس پر مکھی نہیں بیٹھے
گی تو اسے بیوقوفی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتاہے۔ اگر مٹھائی کی حفاظت
کرنی ہے تو اسے ڈھک کر رکھنا ہوگا۔ اس لئے صرف سخت قانون کافی نہیں ہے بلکہ
خواتین اور خصوصاً لڑکیوں کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی ۔ یہ
معاشرہ ابھی امریکی یا یوروپ کا معاشرہ نہیں ہوا جہاں خاندانی نظام تباہ
ہوچکا ہے۔ ہندوستان میں ابھی بہت کچھ باقی ہے اس بقا کی ذمہ داری مردوں سے
کہیں زیادہ خواتین پر ہے۔ خواتین کو بھی اپنے بیٹوں کو لڑکیوں کے احترام کے
تئیں تربیت کرنی ہوگی۔ خواتین کے مسائل کیلئے خواہ وہ گھریلو تشدد ہو
گھریلو جنسی زیادہ اس میں خواتین کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔ |