انیسویں صدی کا دور مسلمانوں کے
لیے بڑا پر فتن تھا۔ ہندوستان میں بنام مسلم بہت سے باطل فرقے وجود پا چکے
تھے جن کی پشت پناہی انگریز کر رہے تھے۔ ان میں قادیانی فتنہ سر فہرست ہے،
جس نے اسلام کے اس قصر رفیع میں شگاف ڈالنے کی کوشش کی جس کی بنیاد عقیدۂ
ختم نبوت پر ہے۔ انگریزوں سے قادیانی مذہب کے رشتے اس قدر مستحکم و مضبوط
ہیں کہ اس کے ثبوت کے لیے ہمیں خارجی شہادت کے جمع کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ
قادیانی لٹریچر خود اعتراف میں موجود ہیں، جن میں بعض تو چونکا دینے والے
ہیں جن سے اس تحریر میں خالص علمی انداز میں پردہ اٹھایا جائے گا۔
قرآنی حکم:
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے جس میں یہود و نصاریٰ (انگریز) سے بچنے کی تعلیم دی
گئی ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُواالْیَھُوْدَ
وَالنَّصٰرٰیٓ اَوْلِیَآءُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَمَنْ
یَّتَوَلَّھُمْ مِنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْھُمْ (سورۃ المآئدۃ:۵۱) ’’اے ایمان
والو یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور
تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انھیں میں سے ہے۔‘‘ (ترجمہ
کنزالایمان)
آیت مبارکہ سے کئی باتیں معلوم ہوئیں: (۱)عیسائی و یہودی سے دوستی رکھنا اﷲ
کی نا فرمانی ہے۔ (۲)ان سے دوستی رکھنے والا انھیں میں سے ہے۔ (۳)وہ سب آپس
میں ایک ہیں۔ (۴)ان کی دوستی صرف ان کے اپنوں سے ہوتی ہے۔ (۵)ایمان والا
انھیں برا جان کر ان سے دور رہے گا۔ ان نکات کی توضیح قادیانی مذہب کی
انگریز دوستی کے پس منظر میں آگے ملاحظہ کریں۔
قادیانیت کی آبیاری انگریز نے کی:
جامعۃ الازہر مصر کے عالم شیخ محمد ابو زھرہ اپنی کتاب ’’المذاہب الاسلامیہ‘‘
میں قادیانی مذہب کے تناظر میں لکھتے ہیں: جب انگریز وں نے مغلوں کی اسلامی
حکومت ختم کر کے بر صغیر ہندوستان میں مغربی تہذیب و تمدن کو بہ زور رائج
کرنا چاہا اور اس میں ناکام رہے تو ان کو ایسے نام نہاد مسلمانوں کی ضرورت
محسوس ہوئی جو مغربی اور مسیحی افکار و نظریات کو مسلمانوں میں رواج دینے
میں مدد دے سکیں۔ (ماہنامہ ضیاے حرم لاہوردسمبر ۱۹۷۴ء)
انگریز کے منصوبے کی تعمیل کو مرزا غلام احمد قادیانی سامنے آیا جس نے
مختلف دعوے کیے اور آخر ۱۹۰۰ء میں نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ علماے اسلام
نے اسے متفقہ طور پر کافر اور خارج از اسلام قرار دیا، علماے حرمین نے اس
کے کافر ہونے کا فتویٰ جاری کیا (دیکھیں:حسام الحرمین از امام احمد رضا
محدث بریلوی) لیکن برطانوی حکومت کی سرپرستی اور مالی تعاون سے یہ فتنہ اب
تک پروان چڑھ رہا ہے۔ یہ خود کو مسلمان کہہ کر سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان
کو لُوٹ رہے ہیں۔
انگریز کا دو نکاتی منصوبہ:
برطانوی سامراج نے غور و فکر کے بعد مسلمانوں کی تباہی کے لیے دو نکاتی
منصوبہ بنایا: اول محبت رسول ﷺ دلوں سے نکالنا، دوم جہاد کی روح نکالنا۔
اقبالؔ نے کہا تھا
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
بارگاہِ رسول ﷺ سے دور کرنے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا
جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ رہی بات جہاد کی تو اس کے خاتمہ کے لیے مرزا کی جاں
فشانیاں اسی کے الفاظ میں دیکھیں۔
ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت:
مرزا قادیانی اپنی کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ ص۱۵ پر لکھتا ہے: میں نے ممانعت
جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار
شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں
ان سے بھر سکتی ہیں۔ (ماہنامہ ضیاے حرم لاہوردسمبر ۱۹۷۴ء) اس عبارت سے
متاثر ہو کر مولوی ظفرؔ علی خاں مدیر زمین دار لاہور نے کہا تھا
جن پچاس الماریوں پر تھا غلام احمد کو ناز
حشر ان کا کاتبِ تقدیر کے دفتر میں ہے
اپنی کتاب ’’ستارۂ قیصرہ‘‘ ص۷ پر لکھتا ہے: مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں
جو خدمت ہوئی وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور
اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلام میں اس مضمون کے شائع
کیے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے۔ (چند سطور کے بعد فخریہ
لکھتا ہے۔) لاکھوں انسانوں نے جہاد کے وہ غلیظ خیالات چھوڑ دیے جو نا فہم
ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔ یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں
آئی کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمانوں میں سے اس کی
نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکتا۔ (مرجع سابق ص۹۸)
قادیانی کتاب ’’تبلیغ رسالت‘‘ جلد دہم ص۱۲۲میں مرزا غلام احمد قادیانی کا
یہ اعلان درج ہے: نہایت تاکید سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ (قادیانی) میری اس
تعلیم کو خوب یاد رکھیں جو قریباً سولہ برس سے تقریری اور تحریری طور پر ان
کے ذہن نشین کرتا آیا ہوں۔ یعنی یہ کہ اس گورنمنٹ انگریزی کی پوری اطاعت
کریں کیوں کہ وہ ہماری محسن گورنمنٹ ہے۔ (قادیانی مذہب ص۶۹۱)
انگریز کاخود کاشتہ پودا:
قادیانی مذہب کا بانی انگریز کی اس کاوش کا اعتراف کرتا ہے کہ انگریز نے ہی
قادیانی مذہب کو پروان چڑھایا وہ ’’تبلیغ رسالت‘‘ جلد ہفتم ص۱۹۔۲۰ پر لکھتا
ہے: اس خود کاشتہ پودا (قادیانی مذہب) کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور
تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی
اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری
جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ (مرجع سابق ص۷۴۶)
انگریزی حکومت رحمت:
مرزا اپنے ماننے والوں کو اپنی کتاب ’’تبلیغ رسالت‘‘ جلددہم ص۱۲۳۔۱۲۴ پر یہ
نصیحت کرتا ہے: سو انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے۔ تمہارے لیے ایک
برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے۔ پس تم دل و جان سے اس سپر کی
قدر کرو اور تمہارے مخالف جو مسلمان ہیں، ہزارہا درجہ ان سے انگریز بہتر
ہیں۔ (مرجع سابق ص۷۴۸)
مسلمانو ذرا غیرت کرو قادیانی مذہب کا بانی انگریز کو تم سے بہتر بتا رہا
ہے اس کے باوجود بھی اس فتنے کو کم زور سمجھنا اور اس سے غافل ہو بیٹھناغیر
دانش مندانہ بات ہو گی۔
انگریز سے اٹوٹ رشتے:
قادیانیت انگریز کی پروردہ ہے لیکن لیبل مسلم کا لگا لیا حالاں کہ ان میں
اور انگریز میں فکری تعلق و رشتہ گہرا ہے۔ برطانوی حکومت سے ملنے والی
امداد سے متعلق قادیانی اخبار الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۵ء کی اشاعت میں لکھتا ہے:
تازہ تر مثال جس نے احمدی (قادیانی) جماعت کو برٹش گورنمنٹ کے اور بھی قریب
کر دیا ہے، وہ احمدیان مالا بار کی مصیبت میں اس کا مدد کرنا ہے۔ (مرجع
سابق ص۷۵۱)
قادیانی بھی انگریز کا تعاون کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے اور جب بھی وقت
آتا برطانوی حکومت کی مدد کرتے۔ قادیانی اخبار الفضل قادیان ۴ جولائی ۱۹۲۱ء
کی اشاعت میں لکھتا ہے: ہم نے ہر مشکل کے وقت اور بے امنی کے زمانہ میں
برطانیہ کی گورنمنٹ کی وفاداری کی ہے۔ (مرجع سابق ص۷۱۰)
اخبار مذکور ۲۲ دسمبر ۱۹۱۹ء کی اشاعت میں لکھتا ہے: امید کرتے ہیں کہ برٹش
گورنمنٹ کی قیام امن اور اشاعت تہذیب کی کوششوں میں ہم آئندہ اور بھی زیادہ
مدد کریں گے۔ (مرجع سابق ص۷۰۷)
اخبار مذکور یکم نومبر ۱۹۳۴ء کی اشاعت میں لکھتا ہے: ہم نے اپنی جانیں اس
لیے قربان کیں کہ انگریزوں کی جانیں بچیں۔ (مرجع سابق ص۷۳۶۔۷۳۷) دنیا ہمیں
انگریزوں کا ایجنٹ سمجھتی ہے۔ (مرجع سابق ص۷۳۸)
وفاداری:
قادیانی مذہب کا بانی ’’تبلیغ رسالت‘‘ ص۱۳ پر لکھتا ہے: مسلمانوں کے تمام
فرقوں میں سے گورنمنٹ کا اول درجہ کا وفادار اور جانثار یہی نیا فرقہ (قادیانیت)
ہے جس کے اصولوں میں سے کوئی اصول گورنمنٹ کے لیے خطرناک نہیں۔ (مرجع سابق
ص۷۴۴)
قادیانی کتاب ’’انوار احمدی‘‘ ص۲ پر مرقوم ہے: آپ (یعنی مرزاقادیانی) نے اس
زمانہ کے مولویوں اور عام مسلمانوں کی ذرا بھی پرواہ نہ کر کے بڑی مدلل اور
پر زور تحریروں سے اس بات کا ثبوت دے دیا ہے کہ ایسی محسن گورنمنٹ کی نسبت
بغاوت کا خیال رکھنا اور اس سے جہاد کرنا سخت بے ایمانی ہے۔ (مرجع سابق
ص۷۵۷)
قادیانی اخبار الفضل قادیان یکم اکتوبر ۱۹۴۱ء کی اشاعت میں لکھتا ہے: حکومت
برطانیہ کی وفاداری اور اس سے دوستی کو جماعت مذکور نے اپنا فرض قرار دیا
جس کے لیے اسے اپنے ہم وطنوں کے طعن و تشنیع برداشت کرنے پڑے۔ (مرجع سابق
ص۷۴۳) اسی لیے ظفرؔ علی خاں نے غالبؔ کے مصرعے کو بنیاد بنا کر کہا تھا
’’وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے‘‘
مرے گر کعبے میں لندن میں گاڑو قادیانی کو
قادیانی اخبار الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں محمد امین قادیانی کا ایک
خط شائع ہوا جس کا ایک جملہ اس طرح ہے: سلسلۂ احمدیہ اور برٹش حکومت کے
باہمی مفاد ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اس لیے جہاں میں اپنے سلسلہ کی تبلیغ
کرتا تھا وہاں لازماً مجھے گورنمنٹ انگریزی کی خدمت گزاری کرنی پڑتی تھی۔ (مرجع
سابق ص۷۷۴)
برطانوی حکومت سے بے پناہ محبت:
انگریز حکومت سے محبت و اطاعت کا جذبۂ جنوں خیز بانی قادیانی مذہب کے الفاظ
میں دیکھیں، مرزا اپنی کتاب ’’تبلیغ رسالت‘‘ جلدہفتم ص۱۱۔۱۳ پر لکھتا ہے:
میں اٹھارہ برس سے ایسی کتابوں کی تالیف میں مشغول ہوں کہ جو مسلمانوں کے
دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی محبت اور اطاعت کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ (مرجع
سابق ص۶۸۸)
میاں محمود قادیانی کا خطبۂ جمعہ اخبار الفضل میں ۷ جولائی ۱۹۳۲ء کو شائع
ہوا اس میں یہ اعتراف ہے: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (غلام احمد
قادیانی) نے فخریہ لکھا ہے کہ میری کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں، میں نے
گورنمنٹ کی تائید نہ کی ہو۔ (مرجع سابق ص۶۹۶)
لارڈ ریڈنگ کا تشکر:
انگریز کو بھی خوب احساس تھا کہ قادیانی مذہب نے ان کی بڑی مدد کی اور
وفاداری نباہی، اخبار الفضل قادیان نے ۴ جولائی ۱۹۲۱ء کی اشاعت میں انگریز
وائسرائے لارڈ ریڈنگ کا قول نقل کیا جس میں قادیانی خدمات کی قدر دانی ہے:
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں آپ کی جماعت کی خدمات کا اپنے پیش رو سے
کم قدر داں نہیں ہوں۔ (مرجع سابق ص۷۱۱)
برطانوی سامراج کی خیر خواہی:
بانی قادیانیت اپنی کتاب ’’آریہ دھرم‘‘ ص۸۰۔۸۱ پر لکھتا ہے: بلا شبہ ہمارا
جان و مال گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی میں فدا ہے اور ہو گا۔ ہم غائبانہ
اس کے اقبال کے لیے دعا گو ہیں۔ (مرجع سابق ص۶۴۹)
برطانوی سامراج سے وفاداری کا عہد باندھتے ہوئے اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘
ص۵۰۹ پر لکھتا ہے: ہر ایک سعادت مند مسلمان کو دعا کرنی چاہیے کہ اس وقت
انگریزوں کی فتح ہو کہ کیوں کہ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں اور سلطنت برطانیہ کے
ہمارے سر پر بہت احسان ہیں۔ (مرجع سابق ص۶۸۲)
انگریزی میں الہام:
انگریز سے تو الفت غلام احمد قادیانی کو تھی ہی بلکہ ان کی تہذیب و تمدن
اور زبان کے تو وہ دل دادہ اور فدائی تھے ایسے کہ ان کے جھوٹے الہامات جسے
وہ وحی کہتا انگریزی زبان میں نازل ہوتے، اس کے انگریزی الہامات کی جھلک
قادیانی لٹریچر ’’حقیقۃ الوحی‘‘ اور ’’براہین احمدیہ‘‘ میں دیکھی جا سکتی
ہے۔ اور الہام کے الفاظ ایسے اخلاق سے گرے کے ان کو نقل کرتے شرم آتی ہے۔
ایک نکتہ یاد آیا اس کی جھوٹی وحی سے متعلق، امام احمد رضا قدس سرہٗ نے
قادیانی مذہب کے کفریات سے پردہ اٹھانے کے لیے علماے حرمین کی خدمت میں جو
معروضہ پیش کیا اس میں بانی قادیانیت کے عقائد بتلاتے ہوئے اس کے دعویٔ وحی
کی حقیقت پر لکھا: وحی کا اِدّعا کیا اور واﷲ وہ اس میں بھی سچا ہے اس لیے
کہ اﷲ تعالیٰ دربارۂ شیطان فرماتا ہے: ایک ان کا دوسرے کو وحی کرتا ہے،
بناوٹ کی بات دھوکے کی۔ (سورۃ الانعام:۱۱۲) رہا اس کا اپنی وحی کو اﷲ
سبحٰنہٗ کی طرف نسبت کرنا اور اپنی کتاب براہین غلامیہ کو اﷲ تعالیٰ کی
کتاب بتانا یہ بھی شیطان ہی کی وحی سے ہے کہ لے مجھ سے اور نسبت کر رب
العٰلمین کی طرف۔ (حسام الحرمین ص۷۶)
قادیانی مذہب کی انگریز نوازی پر دلائل کا انبار موجود ہے لیکن اختصار کے
پیش نظر اتنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ ہاں ضرورت ہوئی تو مزید حقائق سے
پردہ اٹھایا جائے گا۔ اخیر میں یہی عرض مسلمانوں سے ہے کہ کلام الٰہی کے
حکم ’’یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ‘‘ پر عمل پیرا ہوں اور اس کے لیے
ضروری ہے کہ یہود و نصاریٰ کے اس دور کے سب سے بڑے دوست و احسان مند اور
عزیز ’’قادیانی مذہب‘‘ سے سخت دور رہیں ان کے نام و کام سے شدید نفرت کریں
اور انھیں سب سے بدتر جانیں تا کہ ایمان کے گلستاں میں خوش بو پھیلے اور
ایمان تازہ ہو اٹھے۔ |