اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺکو
انسان کامل بنایا ۔ آپ ﷺ کی زندگی کا ہر گوشہ اور آپ ﷺ کے کردار کا ہر رخ
مسلمانوں کے لئے نمونہ اور اسوہ کامل ہے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو انسانوں
میں پیدا کیا اور انسانوں کی طرح پیدا کیا اور آپ ﷺ نے عام انسانوں کی طرح
ہی اپنی پوری زندگی گزاری ۔ آپ ﷺ بیٹے بھی تھے اور باپ بھی ،شوہر بھی تھے
اور بھائی بھی ۔ عمر میں چھوٹے بھی تھے اور بزرگ بھی ۔آپ ﷺ نے تجارت بھی کی
اور فوجیں بھی لڑائیں ،محنت کشی بھی کی اور حکمرانی بھی ۔ آپ ہر حیثیت سے
شاہراہ حیات پر ایسے نقوش قدم چھوڑ گئے جو قیام قیامت تک لوگوں کے لئے
نمونہ بنے رہیں گے ۔
لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوة حسنہ۔”بیشک تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی
زندگی قابل تقلید نمونہ ہے ۔“
چنانچہ ایک شوہر اور رفیق حیات کی حیثیت سے حضور اکرم ﷺ کا جو کردار ہے وہ
ہر شوہر کے لئے نمونے کا کردار ہے ۔آپ ﷺ نے چند احکام ارشاد فرمائے ،ملاحظہ
فرمائیں ۔حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ”تم میں سے بھلا آدمی وہ ہے جو
اپنے اہل خانہ کے لئے بھلا ہو۔“(ترمذی ،دارمی، ابن ماجہ)
دوسرا ارشاد :”تم میں سب سے بھلے لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لئے بھلے
ہوں ۔“(ترمذی)
ایک بار ایک صحابی کو جو زہد و عبادت کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کی وجہ سے
اپنے ”اہل “ سے غافل رہتے تھے ۔ بلوایا اور فرمایا:”اور تمہاوی رفیقہ حیات
کا بھی تم پر حق ہے ۔“(بخاری شریف)
عورت کے حقوق کا سرکار مدینہﷺکو کتنا خیال تھا ،اس کا اندازہ اس سے کیجئے
کہ آپ ﷺ نے اپنی حیات کے آخری خطبہ حج میں جن اہم تر مسائل پر احکام و
نصائح فرمائے تھے ان میں عورت کے حقوق کا مسئلہ بھی تھا
فرمایا:”لوگو!عورتوں کے حق میں میری نیکی کی نصیحت کو مانو کہ بے شک تمہارا
عورتوں اور عورتوں کا تم پر حق ہے ۔تمہارا حق تمہاری عورتوں پر یہ ہے کہ وہ
تمہارے بستر کو دوسروں سے پامال نہ کرائیں جن کو تم پسند نہیں اور ہاں ان
کا حق تم پر یہ ہے کہ ان کو پہنانے اور کھلانے میں نیکی کرو۔ “(ابن ماجہ)
بیوی کے حق کی وضاحت ایک اور موقعہ پر ایک سوال کے جواب میں یوں فرمائی کہ
”بیوی کا حق شوہر پر یہ ہے کہ جب خود کھائے تو اس کو کھلائے ،جب خود پہنے
تو اس کو بھی پہنائے، نہ اس کے منہ پر تھپڑ مارے، نہ اس کو برا بھلا کہے،
نہ گھر کے علاوہ (سزا کے لئے ) اس کو علیحدہ کرے ۔“(ابن ماجہ)
اختصار کے خیال سے میں نے یہ چند ارشادات نبوی ﷺ نقل کئے ہیں ورنہ بیویوں
کے حقوق کے سلسلہ میں آپ ﷺ کے احکام و ہدایات بکثرت ہیں۔
ایک شوہر کی حیثیت سے حضور اکرم ﷺ کیسے تھے اس کا جواب عرض کرنے سے پہلے ہم
یہ سوچتے چلیں کہ ایک شوہر کے لئے عمومی شرائط کیا ہونی چاہیں؟
پہلی شرط یہ ہے کہ وہ بیوی کے لئے محبت کا پیکر ہو ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس
کی ضروریات اور خواہشات کا حتی الامکان پورا پورا خیال رکھے ۔
تیسری شرط یہ ہے کہ جہاں تک اس کے اصول اجازت دیں ،بیوی کی ان فرمائشوں اور
خواہشوں کی تکمیل میں سعی کرے جو چاہے خود اس کے مزاج کے خلاف ہوں۔
چوتھی شرط یہ کہ اگر ازواج ایک سے زیادہ ہوں تو اپنی محبت ،وقت ،مال اور
توجہات کی ان میں ٹھیک ٹھیک اور عادلانہ تقسیم کرے ۔
اب ان شرائط کی روشنی میں شوہر کا مثالی کردار ملاحظہ ہو ۔ جہاں تک شرط اول
یعنی محبت کی کوشش ہونے کا تعلق ہے اس کے لئے تو کچھ سوچنا ہی تحصیل لاحاصل
ہے کیونکہ وہ پاک ہستی ﷺ سراپا محبت تھی محبت کیش تھی ،جس کا پیغام محبت کا
پیغام تھا جس کا مشن محبت کا مشن تھا ۔جس نے محبت اور صرف محبت ہی کے زور
پر ساری دنیا کو فتح کیا تھا ۔ جسے دوستوں ہی سے نہیں دشمنوں سے بھی محبت
تھی ۔ایسے محبت کیش کی محبت کوشیوں کا کیا ٹھکانہ ہو گا اور وہ بھی اپنی
ازواج مطہرات کے لئے ۔
آپ نے چھٹی صدی کے عرب معاشرے میں عورت سے جیسی محبت کر کے دکھائی اور کرنا
سکھائی ہے اس کا اندازہ کرنے کے لئے سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول
سنیئے۔”ہم لوگ اسلام سے قبل عورتوں کو کچھ نہیں سمجھتے تھے ،اسلام نے
عورتوں کے لئے احکام نافذ کئے اور ان کے حقوق مقرر کئے ۔“
یہ تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے اس سے بھی دلچسپ بات خود حضور اکرم
ﷺ کی ملاحظہ ہو۔ عورتوں کے حقوق کے اس داعی اعظم ﷺ نے اپنی ہر رفیقہ حیات
کو عملاً بہت آزادی دے رکھی تھی اور بہت زیادہ حقوق عطا فرمارکھے تھے ۔صرف
دوسروں کو نصیحتوں اور ہدایتوں تک بات ختم نہیں کی تھی خود اپنے گھر میں اس
پر عمل کر کے دکھایا تھا۔
ایک بار حضور اکرم ﷺ اپنی زوجہ حیات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے
مصروف کلام تھے ۔کسی خانگی اور نجی مسئلے پر گفتگو تھی بات ذرا بڑھ گئی
جذبات ذرا تلخ ہو گئے ۔سرکار دو عالم ﷺ ایک طرف حلیم تھے دوسری طرف عملاً
مساوات کی تربیت کرنی تھی اس لئے طرفین میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی
کے الفاظ میں ترشی تھی اور لہجہ بھی بلند تھا ۔میاں بیوی میں یہ کار زار
گرم تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آنکلے ۔ وہ ادھر سرکار مدینہ ﷺ
کے جان نثار تھے تو ادھر حبیبہ رسول ﷺ کے پدر بزرگوار بھی تھے ۔ گویا دو
چند ذمے داری حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے محسوس کی۔ باپ اپنی بیٹی کی
سر زنش کے لئے آگے بڑھا اور جوش میں گرجا ۔ ”عائشہ !تو رسول اللہ ﷺ کے
سامنے آواز اونچی کرتی ہے !“اور ہاتھ بھی بلند کر دیا مگر بیٹی اپنے غضبناک
باپ کی سرزنش سے صاف بچ نکلی ۔کس نے بچالیا، حقوق نسواں کے مبلغ اعظم ﷺ بیچ
میں حائل ہو گئے تھے ۔ سلام ان پر جنہوں نے عورتوں کی دستگیری فرمائی۔جناب
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے غیظ و غضب کا پارہ کتنی ہی بلند ی پر کیوں نہ
چڑھ گیا ہو جس فعل میں ان کے رفیق و حبیب ﷺ حائل و مانع ہوں اس کی تکمیل کی
انہیں کب جرات ہو سکتی تھی ۔غضب پر ادب غالب آیا اور صدیق اکبر رضی اللہ
عنہ والا مقام واپس لوٹ گئے ۔یوں میاں بیوی کی چپقلش ایک تیسرے فریق کے بیچ
میں آنے سے ختم ہو گئی ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہو گا:”کیوں حمیرا! میں نے
بچالیا ورنہ ابا اچھی طرح خبر لے ڈالتے۔“
سیدہ حمیرا کھل کھلا کر ہنس دی ہو گی اور رحمت عالم ﷺ کا قلب مبارک بھی و
فور مسرت سے لبریز ہو گیا ہو گا کہ ”دیکھو میرا مشن اللہ کے فضل و کرم سے
کس قدر کامیاب ہو رہا ہے ۔ یہ صنف ضعیف اپنی ”خودی“ کو پہچانتی جا رہی ہے ۔
“
جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ چند روز بعد کاشانہ نبوت پر حاضر ہوئے تو آج
رنگ دوسرا تھا ،مثالی شوہر اور معیاری بیوی آج حسب معمول خوش مزاجی کی حالت
میں تھے ۔
جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دل کی کلی کھل اٹھی اور عرض کیا :” میں نے
جنگ میں دخل دیا تھا اور اب صلح میں بھی مجھے شریک کیجئے۔“سرکارمدینہ ﷺ
مسکرائے اور فرمانے لگے ”ہاں ہاں !ضرور۔“
سرکار مدینہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنی بیویوں کے حقوق ادا کرنے
پر جس طرح بار بار بتکرار متوجہ فرمایا اس کے نتیجے میں چند سال کے اندر
اندر صنف ضعیف کو جو آزادی حاصل ہو گئی تھی اس کا اندازہ بھی آستانہ نبوی
کے ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے ۔
حضور اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات کو حضور اکرم ﷺ سے بناءبشریت کبھی کبھی عارضی
طور پر کچھ شکوہ بھی ہو جاتا تھا ۔ ممکن ہے اس رنج و شکوے کی کوئی حقیقت
اور اساس ہوتی ہی نہ ہو اور یہ ”ناز“کا ایک انداز ہی ہو تا ہو ،بہر حال
ازواج مطہرات کبھی کبھی اپنے شکوے کا اظہار حضور اکرم ﷺ سے کیا کرتی تھیں
۔یہ اظہار کس شان سے ہوتا تھا ،یہ بھی سننے کی چیز ہے یہ بھی حضور اکرم ﷺ
کی کامل و ہمہ جہتی تربیت کا ایک شاہکار ہے ۔اس انداز شکایت کی مثال خود
سرکار دو عالم ﷺ ہی کی زبان مبار ک سے سنیے ۔آپ ﷺ نے ایک بار حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:” تم مجھ سے برہم ہو جاتی ہو تو میں سمجھ
جاتا ہوں۔“سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا۔”وہ کیسے؟“
”جب تم مجھ سے خوش رہتی ہو او رکسی بات پر قسم کھانی ہوتی ہے تو ”محمد ﷺ کے
خدا کی قسم کہتی ہو اور جب مجھ سے خوش نہیں ہوتی تو ابراہیم علیہ السلام کے
خدا کی قسم کہتی ہو۔“
زوجہ رسول نے عرض کیا:”جی ہاں! یا رسول اللہ ﷺ (میں نا خوشی میں) صرف آپ کا
نام چھوڑ دیتی ہوں۔“
سنا آپ نے !اب بیوی نا خوش ہو نا بھی جان گئی ہے اور اس ناخوشی کے برملا
اظہار کی جرات بھی اس میں پیدا ہو گئی ہے ۔کیا آپ کو اس پر کوئی حیرت نہیں
ہو رہی؟ اگر چھٹی صدی عیسوی میں پوری دنیا کی اخلاقی و معاشرتی حالت آپ کے
سامنے ہے اور اس دور کے عرب کی عورت کی حالت زار کا نقشہ آپ بھول نہیں گئے
تو آپ کی حیرت کی کوئی حد نہیں رہی ہو گی ۔
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سرکار دو عالم ﷺ کے سن میں بہت
فرق تھا ۔ ایک ذہین اور طباع اور پھر کمسن لڑکی کا مزاج ،مذاق ،رنگ طبیعت
،انداز فکر ،دلچسپیاں غرض ہر چیز ایک پختہ عمر، سنجیدہ،متین ثقہ اور ذمہ
دار مرد سے مختلف ہونی چاہیے اور پھر مرد سرکار مدینہ ﷺ جیسا ،جن کے دوش پر
ساری دنیا کی قیادت کابار تھا۔ جن کے دل میں ساری انسانیت کی اصلاح کا جذبہ
تھا اور جن کے ذہن میں نئے اور عظیم ترانقلاب کے منصوبے پر ورش پا رہے تھے
۔جن کو شوق تھا آدمی کو انسان بنانے کا جن کو فکر تھی نئے خطوط پر معاشرے
کی تشکیل جدید کی۔ مختصر یہ کہ حضور اکرم ﷺ کی دلچسپیاں حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا کی دلچسپیوں سے جدا نوعیت کی تھیں۔ یا یوں کہئے کہ ان کے
مزاجوں میں اتنا ہی بعد تھا جتنا بڑھاپے اور جوانی میں بعد ہوتا ہے ۔
لیکن دوسروں کے جذبات کا پاس کرنا بھی تو آپ ﷺ سکھانا چاہتے تھے ۔ دوسرے کی
جائز خواہشوں کو حتی الامکان پورا کرنا بھی آپ ﷺ ضروری سمجھتے تھے ۔
عید کا دن تھا ۔چند حبشی باشندے حرم نبوی ﷺ کے قریب ایک تماشہ دکھا رہے تھے
۔بتقاضائے عمر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ تماشہ دیکھنے کی خواہش
ظاہر فرمائی ۔سرکار مدینہﷺ کے دوش مبارک پر ٹھوڑی رکھ کر تماشہ دیکھنے لگیں
اور دیر تک دیکھتی رہیں ۔ایک بار دریافت فرمایا”کیوں حمیرا جی نہیں بھرا۔“
حبیبہ رسول ﷺ نے بے تکلف انکار فرمادیا”ابھی نہیں بھرا ۔“
چنانچہ آپ ﷺ یوں ہی کھڑے رہے یہاں تک کہ خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا تھک کر ہٹ گئیں ۔شادی کے ابتدائی زمانے میں آستانہ نبوی میں حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بہت ہی کمسن سہیلیاں جمع ہو جایا کرتی تھیں۔
سرکار مدینہ ﷺ اندر تشریف لاتے تو وہ بھاگ جاتیں مگر آپ ﷺ ان کو بلالیا
کرتے ۔
ابتدائی زمانے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا گڑیاں تک کھیلا کرتی
تھیں۔ حضور انور ﷺاس کھیل میں حارج و مانع نہیں ہوتے تھے بلکہ کبھی کبھی
کسی کھلونے کے متعلق کوئی سوال بھی فرمالیا کرتے اور بھولے پن کا کوئی جواب
سن کر مسکرادیتے ۔شادی کے چند دن بعد ایک بار خود حضور اکرم ﷺ کی تحریک پر
دونوں میں دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاپھریرے بدن کی
تھیں آگے نکل گئیں ۔بہت دن بعد جب عمر کے ساتھ سیدہ کا بدن مبارک بھی بھاری
ہو گیا ایک بار پھر دوڑ ہوئی ۔اب کے میدان حضور ﷺ کے ہاتھ رہا ۔ حضور اکرم
ﷺ نے پہلا مقابلہ یاد دلا کر فرمایا:”آج اس دن کا بدلہ ہو گیا۔“
ایک مرتبہ عید کا دن تھا ،حرم نبوی میں چند بچیاں جمع ہو کر کچھ گانے لگیں
۔ آپ ﷺ نے فرمایا”ان بچیوں کو گانے دو یہ ان کا عید کا دن ہے ۔“(بخاری)
ایک سفر میں ازواج مطہرات بھی ساتھ تھیں سار بانوں نے اونٹوں کو دوڑانا
شروع کیا تو آپ ﷺ کو خواتین کا خیال آگیا اور ساربانوں سے فرمایا:”ذرا دیکھ
کر ! یہ (عورتیں)آبگینے(بھی ساتھ ہیں)۔“اور سچ ہے کہ سیرت مبارکہ کا مطالعہ
بتاتا ہے کہ آپ ﷺ نے ان آبگینوں کی نزاکت کا پورا پورا خیال رکھا ۔ صنف
لطیف کے مزاج کی نزاکت کا آپ ﷺ نے ہر قدم اور ہر بات میں خیال فرمایا:”بے
شک حضور اکرم ﷺ ایک مثالی شوہر تھے۔“ |