تحریر : محمد اسلم لودھی
یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان میں حب الوطنی کامعیار کیا ہے جن
سیاسی رہنماﺅں کے نام مشرقی پاکستان علیحدگی اور قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ
میں شامل ہیں ان کے نام پر تو نہ صرف نئے شہر آباد کیے جارہے ہیں بلکہ
ائیرپورٹس ، شاہراہوں اور تعلیمی اداروں کے نام اس لیے رکھے جارہے ہیں کہ
وہ ایک سیاسی جماعت کے قائد تھے لیکن ایم ایم عالم جس نے اپنی ساری زندگی
پاکستان کی حفاظت اور دفاع میں صرف کردی اس سے قطع نظر کہ انہیں اب بھی
پاکستانی تسلیم نہیں کیا جاتا تھا بلکہ بہاری کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اس
کے نام پرنہ تو کسی ائیرپورٹ کانام ہے اور نہ ہی اس کے نام پر کسی قابل ذکر
شاہراہ کا نام رکھاگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج لوگ بھٹو اور بے نظیر کو تو
خوب جانتے ہیں جن کی لاکھوں کے حساب سے تصویریں ایوان صدر اور حکومتی
ایوانوں میں آج بھی پاکستانیوں کو منہ چڑا رہی ہیں ۔ لیکن پاکستان کی
بنیادوں میں اپنالہو شامل کرنے والے فضائی سرفروش ایم ایم عالم کو کوئی
نہیں جانتا ۔مہدی حسن جو ایک گائیک تھا اس کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے
ساتھ ساتھ الیکٹرونکس میڈیا کے مکمل پروگرام آن ائیر کیے جاتے رہے لیکن ایم
ایم عالم کی قومی خدمات اور سرفروشانہ جدوجہد کو کسی بھی صحافتی ادارے نے
کو اجاگر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔اب جبکہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکا ہے
تو اس کے بارے میں تحریریں اورکالم شائع ہورہے ہیں 1965 کی پاک بھارت جنگ
میں جس جنگی جہاز پر انہوں نے بھارت کے ایک منٹ میں پانچ اور مجموعی طور پر
9 طیارے اپنی ذہانت اور صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے تباہی سے ہمکنار کیے
تھے چائنہ چوک لاہور میں رکھے اس جہاز کو بھی ایم ایم عالم کے مرنے کے بعد
ہی رنگ کیا جارہا ہے ۔میں سمجھتا ہوں ایم ایم عالم جیسے لوگ قوموں کا
افتخار اور اعزاز ہوتے ہیں ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایم ایم عالم ہندوستان
کے صوبہ بہار کے شہر کلکتہ میں6 جولائی 1935ء پیدا ہوئے قائداعظم محمد علی
جناح کے پیش کردہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر جب تقسیم ہندوستان کا وقت آیا
تو انہوںنے اپنے خاندان کے ہمراہ مشرقی پاکستان میں ہجرت کرلی پھر 1952 میں
پاکستان ایئر فورس کو جوائن کرلیا6 ستمبر 1965 کی صبح جب بھارت نے رات کے
اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کیا تو جہاں پاک فضائیہ کے دیگر شاہینوں نے
اپنے ابتدائی جارحانہ حملوں میں ہی بھارت کی فضائی طاقت کو ملیا میٹ کردیا
وہاں7 ستمبر کو پاکستان کی فضاﺅں میں آنے والے یکے بعد دیگرے پانچ بھارتی
جہازوں ایک ہی جنگی معرکے میں راکھ کا ڈھیر بنا کر ایک ایسا عالمی ریکارڈ
قائم کردیا جسے آج تک کوئی نہیں توڑ سکا ۔بھارت نے 1965 کی ہاری ہوئی جنگ
کے کئی ہیرو کو اعلی حکومتی عہدوں پر فائز کرکے ان کی حب الوطنی کااعتراف
کیالیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرح ایم ایم عالم بھی ان بدقسمت ہیرو میں
شامل تھے جنہوں اعلی حکومتی عہدوں پر فائز کرنے کی بجائے 1982 میں ائیر
کموڈور کے عہدے سے جبرا ریٹائر کردیا گیا ۔ 1971ءمیں خواہش کے باوجود انہیں
فلائی نہیں کرنے دیاگیا۔ایم ایم عالم کی خوبیوں اور صلاحیتوں کا اظہار صرف
یہاں تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد شہادت حاصل کرنے کا جنون
انہیں مجاہد ین کے روپ وادی کشمیر لے گیا جہاں وہ ایک مجاہد کی حیثیت سے دو
سال تک بھارتی سیکورٹی اداروں کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوئے لیکن شہادت
وہاں بھی نصیب نہ ہوئی پھر مجاہد کی حیثیت سے شہادت حاصل کرنے کے لیے
افغانستان جاپہنچے جہاں انہوں نے افغانیوں کا روپ دھار کر روسی فوجوں کے
خلاف قندھار اور جلال آباد کے جنگی معرکوں میں حصہ لیا۔ پانچ سال تک بے
شمار جنگی معرکوں میں حصہ لینے کے باوجود شہادت انہیں نصیب نہ ہوئی ۔ ایم
ایم عالم حضرت خالد بن ولید ؓ سے بے حد متاثر تھے اور میدان جنگ میں آپ کی
بہادری کی داستانوں کو دور حاضر میں عملی جامہ پہنانے کے ہر لمحہ متمنی رہے
۔جب انہیں جبرا ریٹائر کیا گیا تو صحافی نے سوال کیا کہ آپ کا اس توہین
آمیز ریٹائرمنٹ پر کیا تاثر ہے تو ایم ایم عالم نے دو لفظوں میں بات ختم
کرتے ہوئے کہا کہ اگر خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ، میدان جنگ
میں معرکہ آرائی کے دوران مسلمان افواج کے سپہ سالار حضرت خالدبن ولید ؓ کو
معطل کرکے سپہ سالار سے سپاہی بنا سکتے ہیں تو میں کس باغ کی مولی ہوں اگر
حضرت خالد بن ولید نے حضرت عمر ؓ کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے
بطور سپاہی جنگ میں حصہ لیا تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے ۔اس عظیم
پاکستانی مجاہد نے ساری زندگی اس لیے شادی نہیں کی کہ کشمیر آزاد ہوگا تب
شادی کروں گا یا ایک بار پھر بنگلہ دیش اور پاکستان اکٹھے ہوجائیںگے تب ۔
یہ بات بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ وزیر اعظم بنگلہ دیش کی حیثیت
سے شیخ مجیب الرحمان نے ایم ایم عالم کو بنگلہ دیش آکر کمانڈرانچیف کا عہدہ
سنبھالنے کی پیش کش کی تھی لیکن ایم ایم عالم نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ
میں پاکستانی فوج کے ایک سپاہی کی حیثیت پر فخر کرتا ہوں بہ نسبت بنگلہ دیش
فضائیہ کے کمانڈر انچیف کے ۔ ایک ایم ایم عالم تو پاکستانی حکمرانوں ، بے
حس سرکاری حکام اور مردہ سول سوسائٹی کے پے درپے زخموں کی تاب نہ لاکر اور
پھیپھڑوں کی طویل بیماری کے ہاتھوں لاچار ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوگیا کہ
زندگی میں کراچی کے ہسپتال میں کوئی ان کو پھولوں کاایک گلدستہ دینے بھی
نہیں گیا لیکن جب اس عظیم پاکستانی ہیروکی روح جسم سے جدا ہوگئی تو ائیرچیف
اور دیگر اعلی فضائی حکام کو بھی اس مرد مجاہد کی عظمت کا احساس ہوگیا ۔ اس
جیسے اور کتنے ہی ہیرو خود کو پاکستانی کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے لیکن
ایم ایم عالم جیسے عظیم محب وطن اور پاکستان سے والہانہ محبت کرنے والے
پانچ لاکھ بہاری اب بھی سرزمین بنگلہ دیش پر اپنی چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں پر
پاکستانی پرچم سجائے ، قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویریں لگائے اس انتظار
میں ہیں کہ کب پاکستان سے ان کو بلاوا آتا ہے ۔افسوس تو اس بات کاہے کہ ہم
وہ بدقسمت قوم ہیں جو 30 لاکھ افغانوں کوتو اپنی سرزمین پر بساکر انہیں
زندگی کی سہولتیں فراہم کررہے ہیں لیکن وہ پانچ لاکھ بہاری جنہوںنے 1971ءکی
جنگ پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑی تھی وہ 42 سالوں سے بنگلہ دیش میں ہی غیروں
کی طرح رہ رہے ہیں انہوں نے بنگلہ دیش کی شہریت بار بار اصرار کے باوجود اب
تک قبول نہیں کی۔ ایک جانب ممتاز صحافی مجید نظامی اور نوائے وقت کی جانب
سے کاوشیں لائق تحسین ہیں جنہوں نے نوائے وقت کے پلیٹ فارم پر مستقل
بہاریوں کی آبادکاری کے لیے ایک فنڈ قائم کررکھا ہے اور اس فنڈ میں جمع
ہونے والی رقم بنگلہ دیش میں بہاریوں کو پہنچا دی جاتی ہے۔ تو دوسری جانب
نواز شریف نے چند لاکھ بہاریوں کو پنجاب کے مختلف اضلاع میں لاکر آباد کیا
تھا وہ آج پاکستانی معاشرے میں خود کو ایڈجسٹ کرچکے ہیں میں سمجھتا ہوں اگر
پانچ لاکھ مزید بہاریوں کو لاکر پنجاب میں آباد کرلیا جائے تو عالمی ریکارڈ
ہولڈر بہاری پاکستانی ایم ایم عالم کا وہ قرض کسی نہ کسی حد تک ادا ہوجائے
گا جو پاکستانی قوم کی جانب مدت دراز سے واجب الادا چلا آرہا ہے ۔اگر
پاکستان مخالف سیاست دان سرحدی گاندھی ( باچا خان) کے نام پر پشاور
ائیرپورٹ کا نام اور بے نظیر کے نام پر اسلام آباد ائیرپورٹ کا نام رکھا
جاسکتا ہے ۔ قائداعظم میڈیکل کالج کا نام تبدیل کرکے زیڈ اے بھٹو رکھا
جاسکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایم ایم عالم کے نام پر کسی انٹرنیشنل ائیرپورٹ
اور کسی یونیورسٹی کا نام کیوں نہیں رکھا جاسکتا ۔ایم ایم عالم حقیقت میں
اقبال کا وہ شاہین ہے اگر ہم نے اقبال کے شاہین کے کارناموں اور بہادری کی
داستانوں کو نصابی کتابوں میں محفوظ نہ کیا تو مجھے ڈر ہے کہ ہم اپنا حقیقی
ورثہ کھو بیٹھیں گے اور یہ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی ہوگی ۔ اب قائداعظم
محمدعلی جناح ، علامہ محمداقبال کے ساتھ ساتھ ایم ایم عالم ، ڈاکٹر
عبدالقدیر خان ، محافظ لاہور میجر شفقت بلوچ اور نشان حیدر حاصل کرنے والے
پاک فوج کے دس عظیم افسروں اور جوانوں کے کارہائے نمایاں بھی شامل کیے
جائیں تاکہ پاکستانی نوجوان نسل اپنے ہیروز کو پہچان کر ان جیسا عظیم محب
وطن بننے اور کارنامے انجام دینے کی کوشش کرے ۔ |