بچے اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہیں،
جس کاکوئی نعم البدل نہیں۔خوبصورت نازک پھولوں سے انہیں تشبیہ تودی جاتی ہے
لیکن حقیقتاً پوری دنیا کے پھول مل کربھی خوبصورتی میں ایک بچے کی معصوم
مسکراہٹ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔چاند سے بچوں کو تشبیہ تو دی جاتی ہے، لیکن
ایسے ہزاروں چاندوں کی چمک دمک بھی ایک بچے کی شرارتی آنکھوں میں ابھرنے
والی چمک سے بڑھ نہیں سکتی۔ ہمارے دین میں انبیاءکے علاوہ صرف بچے ہی ہیں
جن کے لیے معصوم کا لفظ استعمال ہوتاہے، اس لیے ان کو تو بس بجا طور پر
فرشتوں ہی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔بچے جس گھر میں ہوں، وہ ہی صحیح معنوں
میں گھر کہلاتا ہے، اورجس گھر میں بچے نہیں، وہ گھردنیا بھر کی آسائشیں
رکھنے کے باوجوداک ویران مکاں ہے۔ بچوں کی ایک الگ ہی دنیا آباد ہوتی ہے،
جس میں وہ مگن ہوتے ہیں۔ ان کے بظاہر ننھے دل اتنے صاف اور مضبوط ہوتے ہیں
کہ یہلڑتے ہیں، جھگڑتے ہیں، لیکن یہ لڑائیجھگڑا حسد و نفرت بن کر ان کے دل
میںداخل نہیں ہو تا اور کچھ دیر میں وہ سب بھول بھال کر پھر شیروشکر ہو
جاتے ہیں، غرض بچے ہر چھل کپٹ سے ، ہر بھید بھاو ¿ سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ یہ
ساری صفات اُن میں بے خبری سے پیدا ہوتی ہیں اوربے خبری سے بے فکری جنم
لیتی ہے۔ اسی لیے بچپن کی بے فکری ضرب المثل ہے جس کی آرزو پھر آدمی موت تک
کرتا ہے۔ جیسے جیسے بچہ باخبر ہوتا چلا جاتا ہے، ویسے ویسے اس کا بچپن دور
ہوتا چلا جاتا ہے،اور پھر یکلخت کوئی جوہری تبدیلی ہوتی ہے کہ بچہ ، بچہ
نہیں رہتا، وہ بڑا ہو جاتا ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ ہر بچے کواپنے وقت پر
بڑا ہونا ہی ہوتا ہے۔ لیکن جب غیر فطری طور پر بچوں کے معصوم ذہنوں کو اپنی
خودغرضی کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ انہیں اپنے مسموم ارادوں کے لیے استعمال
کیا جائے تو یہ فطرت کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔
صدیوں سے ایسا ہو رہا ہے۔تاریخ میںبچوں کو اپنی عسکری و نظریاتی جنگ میں
استعمال کرنے کاسب سے پہلا واقعہ آج سے ٹھیک آٹھ سو سال پہلے1212 ءمیںملتا
ہے۔ یہ زمانہ صلیبی جنگوں کا تھا۔ عیسائیوںکی مذہبی و عسکری قیادت نے پے در
پے شکستوں کے بعد اپنے شکستہ دل عوام کے جذبات کو ابھارنے کے لیے ایک عجیب
چال چلی۔ انہوں نے اس مذہبی جنگ میں اپنے بچوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ
کیا۔ اس کام کے لیے اٹلی کے شمالی کوہستانوں کو چنا گیا۔ ایک دن عوام نے
دیکھا کہ بچوں کے جلوس گروہ در گروہ وادیوں میں پھیلتے جا رہے ہیں،وہ اپنے
معصوم ہاتھوں میں لکڑی کی صلیبیں اٹھائے اور اونچی آواز میں حمد کے گیت
گاتے شہروں اور دیہاتوں سے گزررہے تھے۔ان کی قیادت اسٹیفن نامی ایک بارہ
سالہ بچہ کررہا ہوتا ہے جس کا دعویٰ تھا کہ یسوع مسیح نے اسے خود ایک خط
سونپا ہے جس میں یہ ہدایت ہے کہ وہ صلیبی جنگوں کا راستہ دوبارہ ہموار
کرے۔وہ ساحلِ سمندر کی طرف رواں دواں تھے۔انہیں یقین دلایا گیاتھا کہ جب وہ
سمندر کے کنارے پہنچیں گے تو سمندر معجزةًان کے لیے راستہ چھوڑ کر سمٹ جائے
گا اور وہ سرزمین مقدس پہنچ کر سب مسلمانوں کو عیسائی کرلیں گے۔وہ اس مقدس
شہر کو حاصل کرنے جارہے تھے جس کی فتح کے بعد ان کے مطابق دنیا میں امن او
امان کا دورہ ہوجائے گا۔جب بھی کوئی ان سے پوچھتا کہ تم کہاں جارہے ہو؟ وہ
کہتے”خدا کے پاس“۔دراصل وہ وینڈوم کے کی وادی کے غریب چرواہوں کی اولاد تھے
۔بچوں کا یہ جلوس عیسایئت کے لیے ایک معجزہ بن گیا۔ لوگ جوق در جوق اسے
دیکھنے جاتے۔اس وقتکے پوپ انوسنٹ جو چرچ کی تاریخ کا طاقتور ترین پوپ رہا
ہے، نے کہا کہ یہ ہمارے لیے باعثِ شرم ہے کہ بچے تو سرزمین مقدس کی آزادی
کے لیے نکلیں اور ہم گھروں میں بیٹھے رہیں۔اس بات پرعوام کا جم غفیر جمع ہو
گیا اور چرچ کا مقصد حاصل ہو گیا۔مگر دوسری طرف اِن بچوں کا انجام بڑا
دردناک ہوا۔جب یہ ساحلِ سمندر پر پہنچے تو ان کی توقعات کے برعکس سمندر شق
نہ ہوا، بہت سوں کی ہمت وہیں دم توڑ گئی اور وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے
، جو بقیہ رہ گئے ان کے اندر عیسائی بردہ فروشوں کے گروہ مل گئے ۔
ان لوگوں نے انہیں جہازوں کی پیش کش کی۔ معصوم بچے یہ مکروفریب سمجھ نہ سکے
اور جہازوں میں سوار ہو گئے۔ بردہ فروش انہیں بجائے یروشلم لے کر جانے کے
تیونس اور اسکندریہ میں غلام بنا کر بیچ آئے۔وکی پیڈیا کے مطابق ان میں سے
ایک جہاز راستے میں ہی غرق ہوگیا تھا۔کچھ بچے راستے کی ہزاروں صعوبتیں اٹھا
کر سالوں بعد کسی طرح اپنے گھرپہنچنے میں بھی کامیاب ہوئے لیکن ان کے
ہاتھوں سے صلیبیں گرچکی تھیں اور وہ دکھوںسے لاچار تھے۔کتاب دی چلڈرنز
کریسنٹ کے مطابق وہ لوگ جنہوں نے معجزے کی توقع میں ان کی مدد کی تھی،
انہیں واپس آتا دیکھ کر آوازے کسنے لگے، جو بچیاں انسانی درندوں سے اپنا سب
کچھ لٹوا چکیں تھیں، اُن کو انہی کی قوم کے لوگ نفرت و حقارت سے کہتے :
”ارے یہ شیطان کی کنیزیں خدائی کام کے لیے نہیں بدکاری کے لیے گئی
تھیں۔“اسی سال بچوں کا ایک دوسرا لشکر جرمنی سے بھی برآمد ہوا جس کا انجام
بھی اسی طرح دردناک ہوا۔ بہرحال پاپائے روم کو صلیبی جنگوں کے مردہ بدن میں
جان ڈالنے کے لیے ایک نئی تحریک مل گئی۔[حوالہ: "The Children's Crusade of
1213"(1977).Journal of Medieval History]
آج آٹھ سو سال کے بعد بھی بچوں کی معصومیت کو ”بڑے“ اپنے خبیث مقاصد کے لیے
کیش کرا رہے ہیں۔اپنے پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لیے بچوں سے جان توڑ مزدوری
کروانا، بچوں کو اغوا کرکے اور معذور بنا کر ان سے بھیک منگوانا، بچوں کو
بے تحاشا مارنا اور اس سے بڑھ کر ان کا جنسی استحصال اب معمول بن کر رہ گیا
ہے۔ صرف جنسی استحصال کو دیکھ لیجیے، یہ اب صرف ایک انفرادی واقعہ یا اپنی
شیطانی خواہش کو پورا کرنا ہی نہیں رہا، بلکہ آج کے ستم گر زمانے میں بچوں
کا جنسی استحصال عالمی کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سیکس
انڈسٹری جو دنیا کی تیسری بڑی انڈسٹری ہے ،کا چوتھائی حصہ چائلڈ
سیکس(Pedophilia)کا ہے۔ ہزاروں بچوں کو کروڑوں کمانے کے لیے اتنی بے حیائی
اور بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے کہ اگر قیامت کا دن متعین نہ ہوتا تو
آسمان ٹوٹ پڑتا۔
اسی طرح عسکری میدان کو دیکھ لیجیے۔ساری دنیا میں جہاں جہاں سامراج نے اپنے
مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے جنگوں کی بساط بچھائی۔ وہاں بڑوں کے ساتھ بچے
بھی برابر سے متاثر ہوئے۔ اسرائیل، عراق، افغانستان ، شام اور اب پاکستان
میں بلامبالغہ لاکھوں بچے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ انہیں مارا بھی
گیا، اور ایک قدم بڑھ کر ان کو بطور کیرئیر جنگ میں استعمال بھی کیا گیا۔
گویا صلیبی جنگوں کی طرح آج بھی اپنی جنگ بچوںکے کاندھوں پر چڑھ کر لڑی جا
رہی ہے۔ جنگوں میں بچوں کو جھونکنے کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پرخود اقوام
متحدہ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں جنگ زدہ علاقوں میں بچوں کے متاثر
ہونے اور ان پر پڑنے والے نفسیاتی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ لڑاکوں کی
حیثیت سے بچوں کی بھرتی کا طریقہ پوری دنیا میں عام ہوچکا ہے،یہاں تک کہ ان
کو خود کش بمباروں کی حیثیت سے خصوصی تربیت دے کر جنگ میں استعمال کیا جاتا
ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ایسی 56 پارٹیوں اور گروپوں کی نشاندہی کی
گئی ہے جن میں سرکاری اور باغی گروپ بھی شامل ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق دنیا
کے مختلف مقامات پر اب تک کم ازکم دو لاکھبچوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان
مسلح گروپوں میں شامل افراد بچوں کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے، اور ان
کو وحشیانہ تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ اسکولوں اور کھیل
کے میدانوں پر حملے کرنا بھی ایک عام رواج بن چکا ہے جہاں اس بات کی کوئی
پروانہیں کی جاتی کہ اس سے کتنے معصوم بچے ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں۔ بچوں کی
نفسیات پر خود کش حملوں کے ہونے والے اثرات کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ
اسکول جانے والے 80 فیصد بچوں میں خود کش حملوں کے متعلق آگاہی کا سب سے
بڑا ذریعہ میڈیا ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی بمباری، تمل علاقوں میں سری لنکن
فوج کی بمباری، پاکستان میں عسکریت پسندوں اورسیکورٹی فورسز کی لڑائی اور
افغانستان میں امریکہ کی فضائی بمباری نے درجنوں بچوں کی لاشیں بکھیردی
ہیں۔ پچھلے دنوں یہ خبر آئی کہ شام میں بچوں کوجاسوسی کرنے کے لیے، لڑائی
کے لیے حتیٰ کہ بعض خبروں کے مطابق انسانی ڈھال کے طور پربھی استعمال کیا
جا رہا ہے۔ صحیح تعداد کا اندازہ تو کبھی نہیں ہو سکے گا کہ کتنے معصوم
پھول بن کھلے مرجھا گئے لیکن صرف ایک رپورٹ کے مطابق وہاں اب تک مسلح
فریقین کے لیے کام کرنے والے کم ازکم سترہ بچے ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ کئی
بری طرح زخمی یا عمر بھر کے لیے معذور ہو چکے ہیں۔پاکستان بھی جب سے دہشت
گردی کے خلاف پرائی آگ میں کودا ہے، یہاں بھی معصوم بچوں کو اپنے مذموم
مقاصد میںاستعمال کیا جا رہا ہے۔ کئی خود کش حملے ایسے ہیں جن میں خود کش
حملہ آوردس پندرہ سال تک کے بچے تھے۔صرف خود کش حملے ہی نہیں، بم دھماکوں
میں یہاں تک کہ دو بدو لڑائی میں بھی چودہ پندرہ سال کے بچے ملوث پائے گئے
ہیں۔
مثلاًابھی حال ہی میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس نے دعویٰ کیا
ہے کہ اس نے گیارہ ایسے بچے حراست میں لیے ہیں جو جنوری میں میزان چوک پر
ہونے والے بم دھماکے میں ملوث تھے، جس کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک اور
چونتیس سے زائد زخمی ہوئے تھے۔کوئٹہ کے کیپٹل سٹی پولیس چیف آفیسر میر زبیر
محمود کے مطابق پولیس نے کوئٹہ میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد گیارہ بچوں کو
حراست میں لیا ، جن کی عمریں دس سال سے لے کر پندرہ سال تک ہیں ۔ان بچوں کو
یونائیٹڈ بلوچ آرمی یعنی بی ایل اے اپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کر رہی
تھی اور ان سے تخریب کاری کرواتی تھی۔ان بچوں نے یہ اعتراف کیا کہ ہر
کارروائی کے لیے انہیں دو ہزار سے پانچ ہزار روپے تک دیے جاتے تھے۔ان چند
ہزار روپوں کے عوض ان بچوں سے عبادت گاہوںمیں، کچرے کے ڈھیروںمیں اور
سیکورٹی فورسز کی گزرگاہوں میں دھماکہ خیز موادکے پیکٹ اور بم رکھوائے جاتے
تھے۔ان سارے بچوں کا تعلق انتہائی غریب خاندانوں سے بتایا جاتا ہے۔
معصوم بچوں کو اپنی جنگ کا ہتھیار بنانے والوں کا اسلام، انصاف یا انسانیت
سے کیا تعلق ہو سکتا ہے، ظاہر ہے! ہم تو ان سطور کے ذریعے والدین سے یہ
درخواست کریں گے کہ اپنے بچوں پر خصوصی نظر رکھیں کہ اُن کا میل جول، اٹھنا
بیٹھنا کن لوگوں کے ساتھ ہے۔بالخصوص غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کو
پرتشدد ماحول سے بچانااور ان کی نہ صرف ظاہری حفاظت کرنا بلکہ ان کے معصوم
ذہنوں پر بھی نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ کہیں کوئی مفاد پرست اپنے مقصد کے
لیے ان کے ذہن کو مسموم تو نہیں کر رہا۔
اے کاش دوسروں کے بچوں کو اپنے مذموم مقاصد میں استعمال کرنے والے کبھی
اپنے بچوں پربھی نظر ڈال لیا کریں۔ بچے تو سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ نوخیر
کلیوں کی طرح معصوم!کہیںایسا نہ ہو کہ دوسروں کا خرمن پھونک کر تماشا
دیکھنے والے خود اپنے ہی ہتھیار کا شکار ہو جائیں، کیوں کہ مکافاتِ عملکے
سدا بہار قانون کو حرکت میں آتے دیر نہیں لگتی۔ |