اگر آپ کے پاس روزگار نہ ہوں اور
آپ دوسروں کی گریبانوں پر ہاتھ ڈالنا بھی چاہتے ہیں تو آپ کو قبضہ
مافیابننا ہوگا یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں حقیقی معنوں میں بہت سارے لوگ
راتوں رات کروڑ پتی بن گئے ہیں اور آج کل ان کے بڑے بڑے بنگلوں پر" ان اللہ
یرزق من یشاء بغیر حساب" اور "تعز من تشاء و تعزل من تشائ" لکھا ہوا دکھائی
دیتا ہے اور تو اور بہت سارے ہمارے لیڈر بھی بن گئے ہیں اور اب جلسے جلسوں
میں عوام کو بتاتے ہیں کہ ہم آپ کے حق کیلئے بہت کچھ کرسکتے ہیں اور اس
کیلئے آواز بھی اٹھائیں گے- اللہ مغفرت نصیب کرے پختونوں کے علمبرداروں اور
ان سے پہلے مولویوں کی اتحادی حکومت میں شامل لوگوں کو اتنی توفیق تو
نہیںہوئی کہ قبضہ گروپوں کے خلاف اقدامات اٹھاتے ہماری بدقسمتی کہ کچھ
عوامی نمائندے اس مرض میں خود بھی شامل ہوگئے اور انہوں نے باقاعدہ سرپرستی
بھی کی اس عمل میں کتاب کو آسمانی کتاب بنانے والے بھی شامل تھے جن کی
باقیات ابھی بھی مختلف علاقوں میں موجود ہیں-یہی وجہ ہے کہ قبضہ مافیا جو
کسی زمانے میں سرکاری زمینوں کو مال مفت سمجھ کر قبضہ کرتا تھا بعد ازاں
غریب غرباء کی زمینوں پر قابض ہونے لگے اور یہ ایک ایسا کاروبار ہے کہ اب
مخصوص علاقوں میں تھانوں کے بل بوتے پر قابض گروپ راتوں رات زمینوں پر
دیواریں کھڑی کردیتے ہیں اور پھر قبضہ ختم کرنے کیلئے متعلقہ لوگوں سے پیسے
وصول کئے جاتے ہیں آج سے دس سال قبل اس طرح کے واقعات صرف دیہی علاقوں میں
زیادہ ہوتے تھے لیکن اب یہ گروہ نڈر اور بے باک ہوگیا ہے کہ شہری علاقوں
میںاس طرح کے واقعات عام ہونے لگے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں-
آ ج سے تقریبا ڈیڑھ سال قبل دالگراں بازار میں ایک دکاندار نے روتے ہوئے
راقم کو بتایا تھا کہ اس شہر کے ایک اہم عہدے پر تعینات جو بعد میں کروڑوں
روپے دیکر اور مخصوص جماعت سے تعلق کی بناء پر ایواں تک پہنچ گیا کے بارے
میں انکشاف کیا کہ اس موصوف نے پٹواری کیساتھ ملکر کاغذات میں اس کے آبائو
و اجداد کی دکان کو اپنے کھاتے میں ڈال دیا اور اب وہ دکاندار اس پوزیشن
میں تھا کہ وہ روتے ہوئے راقم کو بتارہا تھا کہ میں خودکشی کرو ں کیونکہ
بقول اس کے ایک بھائی دھماکے میں شہید ہوا تھا اور اس کے گھر والوں کی ذمہ
داری بھی اس کی تھی اور یہ دکان اس کی روزگار کا واحد ذریعہ تھا لیکن قبضہ
مافیا نے اس کے ساتھ یہ ڈرامہ کیا وقت کی مناسبت سے راقم نے اسے مشورے دئیے
اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ بھائی میرے اب ہماری میڈیا اتنی آزاد بھی نہیں
کہ مخصوص لوگوں کے خلاف آواز اٹھائے اور تم بھی راقم کی طرح نتھو خیرے قسم
کے بندے ہو اس لئے رونا ہی تمھاری قسمت میں لکھا ہوا ہے-دکاندار کی آہ و
فغان سے پتہ چلا کہ کیسے کیسے منافقین قبضہ مافیا کے اس مکروہ دھندے میں
اپنے گھر کا راشن چلاتے ہیں جس کا کوئی پوچھنے والا بھی نہیں یہی وجہ ہے کہ
اب تو شہر میں قبرستانوں پر بھی قبضہ ہونے لگے ہیں جس سے بچائو کیلئے پشاو
ر ہائیکورٹ نے احکامات بھی جاری کئے لیکن اللہ ہی جانے کہ اس پر عمل کس طرح
ہوگا کیونکہ مخصوص لوگ ہی اس کی پشت پناہی کرتے ہیں-
ہمارے دفتر کے ایک ساتھی کے رشتہ دار نے کسی شخص سے شہر میں گھر خرید لیا
مگر اس گھر میں رہائش پذیر کرایہ دار نے اسے خالی کرنے سے انکار کردیا س پر
نئے خریدار نے پشاور کے ایک اہم تھانے میں تعینات ایس ایچ او سے رابطہ کیا
ایس ایچ او نے ایک لاکھ روپے میں قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یقین
دہانی کرادی کہ قبضہ ختم ہوگا جب پیسے ادا کئے گئے تو متعلقہ ایس ایچ او نے
کرایہ دار سے پیسے بھی لئے اور اسے خالی کرنے سے انکار کردیا جب خریدار نے
ایس ایچ او سے رابطہ کیا تو اسے بتایا جاتا کہ یہ پولیس کے ایک بڑے افسر کا
رشتہ دار ہے میں کچھ نہیں کرسکتا ہمارے دوست کے رشتہ دار نے قبضہ نہ ملنے
پر اپنے ایک لاکھ روپے واپس لینے کا مطالبہ کیا جس پر ایس ایچ او کو غصہ
آیا اور پھر اس نے متعلقہ شخص کو تھانے میں بند کردیا اس کے رشتہ دار اسے
ڈھونڈتے رہے اور ایس ایچ او نے غریب آدمی کو اپنے کمرے میں بند کردیا ایس
ایچ او سے غلطی یہ ہوئی تھی کہ اس شخص کی گاڑی تھانے میں رہ گئی تھی اسی
وجہ سے غائب ہونیوالے شخص کے رشتہ دار وں نے پتہ کروایا تو پتہ چلا کہ ایس
ایچ او جو کہ خود قبضہ مافیا سے تعلق رکھتا ہے کو پیسے واپس مانگنے پر غصہ
آیا تھا اس وجہ سے اب وہ شخص کو نہیں چھوڑا جارہا خیر منت سماجت کے بعد اور
ایک لاکھ روپے کو بھولنے کی یقین دہانی کروانے کے بعد اس شخص کی جان چھوٹ
گئی یہ پوری کہانی اس شخص نے اپنے رشتہ دار کو جو کہ ہمارے دفتر کا ساتھی
ہے بتائی جب راقم نے اس سے کہا کہ متعلقہ ایس ایچ او کے اس اقدام کے خلاف
اگر وہ میڈیا کے سامنے بات کرے تو اسے انصاف مل سکتا ہے لیکن وہ شخص ڈر کر
کہنے لگا کہ خود تو مرو گے ہمیں بھی قبضہ مافیا سے مروائو گے اور یوں یہ
سلسلہ بے نتیجہ ہی ختم ہوگیا-
|