چند متروک انتخابی نشانات

پاکستان میں سیاسی پارٹیاں موسمی کھمبیوں کی طرح بڑھتی جا رہی ہیں۔پارٹیوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ان کے لئے انتخابی نشانات ایک مسلہ بنتے جا رہے ہیں۔217رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کے لئے 193انتخابی نشانات ہیں۔34نشانات کی ابھی بھی تلاش ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر سیاسی امیدوران کو مطلوبہ ٹکٹ نہ ملے تو الیکشن سے قبل’’رد عمل ‘‘ کے طور پر سینکڑوں کی تعداد میں مذید سیاسی پارٹیاں معرض وجود میں آ جائیں۔پھرماضی میں امپورٹ کئے گئے وزیر اعظم کی طرح انتخابی نشانات بھی شائد امپورٹ کرنے پڑیں ۔چند متروک انتخابی نشانات جو اگر یورپ میں ہوں تو ٹاپ پرارٹی پر ہوں یہاں کیوں متروک ہیں۔
آدمی (انسان)
دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
زردار،بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے جو مانگتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

ا گر نظیر اکبر آبادی کے دور میں ’’آدمی‘‘ کو بطور انتخابی نشان پیش کرنے کی ضرورت پیش آتی تو شائدمختلف اقسام کے آدمیوں کی تعداد سینکڑوں میں نکل آتی جو انہوں اپنی طویل نظم ’’آدمی نامہ‘‘میں پیش کئے ہیں۔لیکن آج کے دور میں اگر ’’آدمی‘‘کو بطور انتخابی نشان پیش کیا جائے تو صرف دوہی اقسام مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔امیر ترین آدمی،غریب ترین آدمی ان دونوں کے درمیان میں ایک گہری خلیج حائل ہے۔اور یہ گہری خلیج الیکشن کے دنوں میں پاٹ دی جاتی ۔سیاستدان ہنستے ہوئے موجو مصلی سے کہتا ہے ’’ویکھ لے،پورے پنج سال تو سانوں اپنا منہ نیں ویکھایامجبوراً اج سانوں ای تیرے کول آنا پے گیا۔جا ابے نوں بلا ،تے بے بے دے ہتھ دی گھاڑے دودھ دی چاء اسیں پی کے جانی اے۔‘‘اور جانو مصلی چپ چاپ بڑ براتا ہوا چائے کے اٹھ جاتا ہے ۔اب ایک سے برھ ایک مہنگی گاڑی اور اتنے سارے بندوں میں وہ بھی خطر ناک اسلحے والے کیا کہے چوہدری تو جھوٹ بول رہا ہے ۔ابا بھی مر گیا ،اماں وی ٹر گئی تجھے بتانے گیا تو ،تو نے توحویلی سے باہر نکلنا ہی نہیں تھا تجھے پیغام دینے والے تیرے ملازم نے اتنی دیر کروا دی کہ ابے کا جنازہ لیٹ ہو گیا ۔آج پھر ووٹ کی لوڑ پڑ گئی تو آگیا۔الیکشن کے گزرتے ہی ایک بار پھر خلیج گہری ہو نا شروع ہو جاتی ہے۔ پارٹیوں کے لئے اپنا سب کچھ تیاگ دینے والے ’’انسانوں‘‘کے انتخابی نشان سے اتنی نفرت کیوں۔
***
بلی
بلی کا نشان مسلم لیگ (ن) کے اعتراض کے بعد انتخابی نشانات کی فہرست سے نکال دیا گیا ۔ان کا موقف ہے کہ شیر اور بلی آپس میں مشابہت رکھتے ہیں۔جس کی وجہ سے ووٹر دھوکاکھا سکتا ہے ۔شیر اور بلی آپس میں مشابہت ضرور رکھتے ہیں لیکن ان کی جسامت کا بہت گہرا فرق ہے۔بلیوں کے ایک عالمی مقابلے میں افریقہ سے لائی گئی بلی سب سے آگے تھی۔آخر کار مقابلہ بھی اسی نے ہی جیتا۔بلی کے مالک نے کپ اور جیتنے والی رقم ہاتھ میں پکڑ کر بلی کو فخر سے ہوا میں لہرایا۔ایک صحافی نے بلی کے مالک سے سوال کیا ’’آپ کی بلی اس مقابلے میں پہلے نمبر پر رہی ۔آپ کیا محسوس کر رہے ہیں‘‘۔’’ بلی کہاں میرے بھائی یہ تو افریقی چیتا ہے وہاں کی بھوک نے اسے بلی بنا دیا ہے۔‘‘ ۔ سابق جرنیلی صدر پرویز مشرف نے اپنی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ کے لئے عقاب،گھوڑے یا توپ کا نشان مانگ لیا ہے ۔بلی ایک پیارا انتخابی نشان تھا۔اگر یہ موجود رہتا تو شائد وہ اس کے لئے بھی سوالی ہوتے ۔اس اتخابی نشان کے اصل حقدار سابق جرنیلی صدر پرویز مشرف ہی تھے۔ شائد اسی وجہ سے مسلم لیگ (ن) نے پرویزمشرف کی واپسی سے قبل ہی اس نشان کو ختم کروادیا ہے۔کیونکہ کیا خبر کہ بلی کی آڑ میں ایک مرتبہ پھر کسی چیتے سے پالا پڑ جائے۔
***
لوٹا
بہت سے لوٹوں نے اس پر اعتراض اٹھائے تھے۔حالانکہ لوٹوں کو اصلاح تو اپنی کرنی چاہئے۔اس میں بے چارے لوٹے کا کیا قصور۔پاکستان میں چونکہ غربت کی شرح ذیادہ ہے۔اسی غربت کا کمال ہے کہ سوا گیارہ کروڑ پاکستانیوں کے پاس موبائل فون تو ہیں ۔چار کروڑ پاکستانیوں کے پاس بیت خلا نام کی کوئی چیز نہیں ۔اس طرح چار کروڑ لوٹے بھی ہاتھوں میں لہراتے رہتے ہوں گے۔بہت سے گھرانے دادا حضور کے دور سے ہی اکھٹے رہتے چلے آ رہے ہیں۔پیتیس افراد کے رہنے کے لئے ایک پانچ سے تین مرلے کا گھر اور اس میں ایک باتھ روم ،اس باتھ روم میں ایک لوٹا ۔اس ایک لوٹے کو آبادی میں ہوش ربا اضافے کی وجہ سے تین شفٹ میں کام کرنا پڑتا ہے اورحرام ہے جو فرصت اور تخلیہ کے چند لمحات میسر آتے ہوں۔چونکہ یورپ میں رفع حاجت کے کچھ اور سٹائل ہیں۔وہ لوگ ٹشو پیپر افورڈ کر سکتے ہیں۔ اس لئے یورپ میں لوٹا مقبولیت حاصل نہیں کر سکا۔پروین شاکر کا ایک شعر ہے۔جنہیں لوٹنے والے اکثر شر مندگی میں گنگناتے ہیں۔’’وہ جب بھی لوٹا تو میرے پاس آیا ۔بات یہی اچھی ہے میرے ہرجائی کی۔‘‘’’باباجی‘‘ نے اس کی تشریح کچھ اس طرح کی ہے۔جب اس نے زمانے بھر کی ’’کھے‘‘ کھالی اور اس کی عقابی آنکھوں نے تاڑ لیا کہ اب کی باری میری ہو گی تو وہ شرمندہ سا میرے پاس واپس آ گیا ۔میں نے پھر اس کو دھو دھلا کر اپنے ’’لوٹوں ہووؤں میں ‘‘ شامل کر لیا ہے۔وہ ہر جائی ضرور ہے لیکن اس کی یہی بات اچھی ہے۔لیکن کوئی کسی بھول میں نہ رہے۔ ہم سارے لوٹے بھی واپس نہیں لیتے کوئی خواہ ٹی وی کے پروگرام میں اپنی چھاتی پر ہاتھ مار کر جذباتی انداز میں چاہے یہ ہی کیوں نہ کہے’’کوئی ساتھ دے یا نہ دے شیخ رشید ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو گا۔‘‘
***
گدھا
امریکہ میں گدھے کو عقل مندی اور ہمارے ہاں بے وقوفی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں دو ہی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ری پبلکن کا نشان ہاتھی اور ڈیمو کریٹک کا انتخابی نشان دولتی جھاڑتا ہوا گدھا ہے۔خاموش کھڑا ہوا گدھا بھی اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ دو لتی جھاڑتا ہوا ۔بارک اوباما ڈیمو کریٹک سے ہیں ۔اس کے بر عکس جارج ڈبلیو بش جو نیئر اور سینئر دونوں ری پبلکن سے تھے۔اگر ان تینوں کی ’’کاکردگی‘‘کا بغیر کھپ ڈالے جائزہ لیا جائے تو ’’اگاڑی اور پچھاڑی‘‘دونوں ہی خطرناک ہیں۔۔اگرایک کی دولتی خطرناک ہے تو دوسرے کی سونڈ بھی جان کھینچ سکتی ہے۔ کیونکہ جنگ عظیم دوم میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسانے کا حکم دینے والے امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین بھی انتخابی نشان گدھے سے ہی تھے۔ پاکستان میں سب سے ذیادہ کام آنے کے باوجود اب تو بعد از مرگ ’’صاحب‘‘ کے کباب بھی بکتے ہیں۔ گدھے کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس مسکین کو کوئی بھی اپنا انتخابی نشان بنانے کے لئے تیار نہیں، اس کے باوجود کہ انتخابی نشان لینے والا سیاستدان یہ بھی جانتا ہے کہ اصل میں گدھا کون ہے۔
***
کتا
مغرب میں انسانوں کی بجائے کتے کو قابل بھروسہ سمجھا جاتا ہے۔تقریبا سو فی صد مغرب ہی آپ کو انسان کی بجائے کتے کی رسی تھامے نظر آئے گا۔وہاں کے نامی گرامی ہوٹلز کتوں کو ویل کم کرنے کے لئے بے تاب رہتے ہیں ۔حیرت کی بات یہ ویل کم بھی’’ انسان نما انسان ‘‘کرتے ہیں۔ماضی میں بہت سے پاکستانی مغربی کتوں کو نہلانے کے لئے بے چین رہتے تھے۔اس کام میں انہوں نے بہت نام کمایا۔اب بھی اگر اجازت کے مرحلے دشوار نہ ہو ں تو حالت اب بھی یہی ہے۔پاکستان میں کتا وفاداری کا استعارہ تو ہے ۔ اس کے باوجود اس کو ذیادہ تر گالی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن بابا بلھا شاہ صاحبؒ جو فرما گئے ہیں۔وہ شائد ہماری سمجھ سے با ہرہے۔
راتیں جاگیں تے شیخ سڈاویں۔راتیں جاگن کتے۔تیتھوں اتے
رکھا،سکھا ٹکڑا کھا کے۔دنے جا رکھاں وچ ستے۔تیتھوں اتے
توں نا شکرا اتے پلنگاں۔او شاکر روڑیاں اتے۔تیتھوں اتے
در مالک دا مول نہ چھوڑن۔بھانویں مارے سو جتے ۔تیتھوں اتے
اٹھ بلہیا تو وی یار منالے۔نیں تے بازی لے گئے کتے۔تیتھوں اتے
***
Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 35305 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.