رحمٰن ملک، منظور وسان، غلام
احمد بلور اور رانا ثناءاللہ خان کی طرح نواب اسلم رئیسانی کا دم بھی غنیمت
ہے کہ جب وہ لب کُشا ہوتے ہیں تو قوم کچھ ہنس لیتی ہے اور ہم کچھ لِکھ لیتے
ہیں! اللہ اُنہیں اور اُن کے فارمولوں کو سلامت رکھے۔ ڈگری کے معاملے میں
آفاقی حقیقت کو فارمولے کا درجہ دیکر اُنہوں نے گویا قلم توڑ دیا تھا! مگر
خیر، بڑپّن کی انتہا یہ ہے کہ قلم توڑنے کے بعد بھی اسلم رئیسانی نے
فارمولے دینا جاری رکھا! معاشرے میں جن کی برائے نام عزت نہیں ہوتی وہ بھی
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ کے فرمودات سے بہت خوش تھے کیونکہ اسلم
رئیسانی کے فارمولے کے مطابق عزت عزت ہوتی ہے چاہے ہو، چاہے نہ ہو!
نواب اسلم رئیسانی پانچ سالہ دور اِس طرح گزارا کہ اُن کی حکومت کے دامن پر
کوئی داغ نہ لگ سکا۔ لگتا بھی کیسے؟ حکومت کہیں ہوتی تو داغوں کی لپیٹ میں
بھی آتی! آپ سوچیں گے جب حکومت تھی ہی نہیں تو اسلم رئیسانی پانچ سال کیا
کرتے رہے؟ سیدھی سی بات ہے۔ حکومت حکومت ہوتی ہے، چاہے ہو چاہے نہ ہو!
اسلم رئیسانی نے پانچ برس اُسی طرح گزارے جس طرح اُن کی حکومت نے گزارے۔
بلوچستان میں بد امنی تھی، قتل و غارت تھی، دھماکے تھے، اغواءکی وارداتیں
تھیں۔ سب کچھ تھا، ریاست کی عملداری نہیں تھی۔ یہی حال حکومت کا تھا۔ وہ
خود صوبے میں نہیں تھی! کابینہ اسلام آباد میں سُکونت پذیر رہتی تھی اور
وزیر اعلیٰ رئیسانی کا ایک پیر کراچی میں ہوتا تھا اور دوسرا اسلام آباد
میں۔ جب وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ ہی کو بلوچستان کے دارالحکومت میں
رہنے کی توفیق نصیب نہ ہوئی تو حکومت کی عملداری وہاں کیونکر دِکھائی دیتی؟
ایک بات کی داد تو دینی پڑے گی۔ جب نام نہاد حکومت تھی تب اور اب کے اسلم
رئیسانی میں کچھ بھی فرق نہیں۔ بلوچستان کے نگراں وزیر اعلیٰ نواب غوث بخش
باروزئی کی تقریب حلف برداری کے موقع پر گورنر ہاؤس (کوئٹہ) میں میڈیا سے
گفتگو کے دوران اسلم رئیسانی نے شگفتہ مزاجی کا خوب مظاہرہ کیا۔ ہم نے
قوسین میں کوئٹہ اِس لیے لکھا ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ تقریب اسلام آباد
میں رکھی گئی تھی! میڈیا سے گفتگو میں اسلم رئیسانی نے کہا کہ سیاست میں
آنے سے بہتر نسوار بیچنا ہے!
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ کا دعوٰی ہے کہ اُنہوں نے پانچ سال تک عوام کی
خدمت کی۔ شِکوہ یہ ہے کہ جو لوگ پانچ سالہ اقتدار کے دوران اُن کے ساتھ
بیٹھ کر پکوڑے کھاتے رہے وہ مُشکل گھڑی میں (یعنی حکومت پر ”شب خون“ مارے
جانے پر) اُن کی فون کال بھی اٹینڈ نہیں کرتے تھے! ساتھ ہی اُن کا یہ بھی
کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے اُن کی رکنیت پانچ ماہ قبل معطل کردی تھی۔ اب
وہ آزاد ہیں۔ چاہیں تو سیاست میں رہیں اور چاہیں تو نسوار بیچیں!
اسلم رئیسانی کی شگفتہ مزاجی اپنی جگہ، حقیقت یہ ہے کہ سیاست اور نسوار کا
کوئی جوڑ نہیں۔ نسوار غریب محنت کشوں کا من پسند شغل ہے۔ مختلف ورائٹی میں
دستیاب نسوار بہت محنت سے تیار کی جاتی ہے۔ نسوار کی تیاری کا عمل سیاست کی
طرح ہڈ حرامی سے عبارت نہیں۔ نسوار تیار کرنے والے بھی محنت کش اور نسوار
خرید کر داڑھ میں اُڑسنے والے بھی محنت کش۔ دوسری طرف اہل سیاست ہیں جن کی
زندگی میں محنت اور حلال خوری نام کی کوئی چیز شاذ و نادر ہی دکھائی دیتی
ہے۔ ہاں، نشا دونوں میں قدر مشترک ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ نسوار کا نشا
بار بار ری چارجنگ کا تقاضا کرتا رہتا ہے جبکہ سیاست کا نشا وہ ہے کہ
اُتارے نہیں اُترتا۔ ایک بار چڑھ گیا تو گیا بندہ کام سے۔
سیاست ترک کرنے کا ارادہ لاکھ نیک سہی مگر ترجیحی شعبے کا ذکر کرتے وقت
نسوار سازی کا ذکر کرنا درست نہیں۔ نسوار تیار کرنا اور بیچنا تو محنت طلب
کام ہے۔ سیاست سے نکل کر کئی ایسے شعبے اپنائے جاسکتے ہیں جن میں سیاسی
ذہنیت اور تربیت بہت کام آسکتی ہے۔ بالخصوص خالص جرائم کے شعبے میں! اور اب
تو یہ دونوں شعبے آپس میں ایسے گڈمڈ ہوگئے ہیں کہ فرق کرنا مشکل ہوتا جارہا
ہے۔ طاقت کی مثلث میں دونوں معاون زاویے ہیں۔ |