جعلی ادویات نتیجہ اموات

ضعیف،بیماراور نحیف ماں کی حالت زاردیکھ کربیروزگارفاروق بھی تڑپ اٹھامگر ماں کی بیماری سے زیادہ اسے اپنی بے بسی اوربیچارگی پرروناآرہا ہے ،اب اس کے گھر ایساکوئی سامان نہیں بچا جوفروخت کرکے وہ ماں کیلئے دوائی لے آتا۔پھر اچانک کچھ سوچ کروہ تیزی سے گھر سے باہر نکل گیا اورکچھ دورایک نجی بلڈ بنک میں اس نے اپنے نحیف جسم سے ایک خون کی بوتل دی جس کے عوض اسے جوچندسوروپے ملے ۔فاروق یہ رقم اپنے ہاتھ کی بندمٹھی میں دبائے اوردوسرے ہاتھ میں پکڑی روئی سے اپنا بازو ملتے ہوئے وہ ایک میڈیکل سٹور میں داخل ہوا اوروہاں سے ماں کیلئے دوا لے کر خوشی خوشی گھر پہنچا ۔فاروق یہ سوچ کرمسکرادیا کہ دوائی کے استعمال سے اس کی ماں تندرست ہوجائے گی اوروہ ایک دوروزبعد مزدوری کی تلاش میں گھر سے نکلے گااورواپسی پرماں کیلئے کوئی پھل لے کرآئے گااورماں مجھے ڈھیروں دعائیں دے گی ۔فاروق نے گھرداخل ہوتے ہوئے بلندآوازمیں ماں کوسلام کیا اورماں کے پیروں کوچوم لیا ،فوراً ماں کوسیرپ پلایا اورچارپائی پربیٹھ کرماں کاسر اوربازودبانے لگا ۔اچانک ماں کادردبڑھ گیا اوروہ دردکی شدت سے تڑپ اٹھی ،ماں کوتکلیف میں دیکھ کرفاروق نے زاروقطاررونااورمددکیلئے پکارناشروع کردیا ،اس نے ماں کوسہارادے کراپنے بازوﺅں میں تھام لیا ،اس دوران اس کاایک محلے دارڈاکٹرکولے کرفاروق کے گھر پہنچا توان کے دیکھتے دیکھتے ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کے بازوﺅں میں دم دے دیا۔ڈاکٹر نے سیرپ کی پیکنگ غورسے دیکھی تومعلوم ہواوہ پچاس روپے کا سیرپ جعلی ہے ۔

سلجھے ہوئے بزنس مین میاں محمدطاہر نے پسرورجاتے ہوئے گاڑی میں مجھے اوربرادرم چودھری عظمت علی کوایک واقعہ سنایا۔میاں طاہر کے مطابق انہوں نے اپنے دوست ڈاکٹر کو پاک عرب فیروزپورروڈ کے نزدیک ان کی اراضی پرایک شاندارمارکیٹ بنانے کا مشورہ دیا اورساتھ بتایا کہ فی دکان تیس ہزارروپے ماہانہ رینٹ آئے گااس پرڈاکٹرکی آنکھوں میں ایک مخصوص چمک ابھرآئی اوراس نے بڑے اطمینان سے میاں طاہر کو جواب دیا ،میں اس اراضی پر دس دکانوں کی بجائے اپنے نجی ہسپتال کیلئے بیس پرائیویٹ روم بناﺅں گااورمجھے روزانہ کی بنیاد پر فی روم تین سے چارہزارروپے رینٹ ملے گا۔میاں طاہرنے بتایامجھے ڈاکٹرکاجواب سن کر شدیدجھٹکا لگا اورمیں اس کی کاروباری سوچ پردنگ رہ گیا اورمجھے لگاکامیاب بزنس مین میں نہیں بلکہ میرادوست ڈاکٹر ہے اوراس دن کے بعدمیں نے دوبارہ کبھی ڈاکٹر کو ایساکوئی مفت مشورہ نہیں دیا ۔

ہمارے ہاں تعلیم،صحت اورادویات کے شعبہ جات منفعت بخش کاروبار کی صورت اختیار کرگئے ہیں،متعلقہ اداروں کی مٹھی گرم کرکے انہیں خاموش کردیا جاتا ہے ۔گلی گلی دکانوں کی طرح نجی تعلیمی ادارے ،نجی ہسپتال اورکلینک چل رہے ہیں ،کوئی ادارہ انہیں پوچھنے اورروکنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا لہٰذا ءنتیجتاًہمارے ہاں تعلیم اورصحت کامعیار دن بدن گرتااورعوام کاسرکاری اداروں پرسے اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ان شعبہ جات میں انوسٹمنٹ برائے نام جبکہ نفع بہت زیادہ ہے۔اب گرمیوں میں مختلف نام سے غیرمعیاری جوس اورمنرل واٹرسرعام فروخت ہوں گے مگرکوئی نہیں جو انہیںروکے ۔ٹیکس بچانے اورثروت منداحباب سے بڑی رقوم ہتھیانے کیلئے ان ادارو ں کوٹرسٹ کانام دیا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں یہ کاروباری ادارے ہیں۔جس معاشرے میں جعلی ادویات اورعطائی ڈاکٹرزکی بھرمار ہووہاں شفاءکیلئے دوانہیں دعا کی ضرورت پڑتی ہے۔عطائی ڈاکٹرزکیخلاف حقیقی ڈاکٹرزکومیدان میں نکلنا ہوگاورنہ لوگ ان پربھی اعتماد کرناچھوڑدیں گے اوریہ مقدس پیشہ بدنام ہوجائے گا۔پی آئی سی لاہورکا ایک مشہور ادارہ ہے مگر وہاں بھی پچھلے دنوں جعلی ادویات استعمال کرنے سے بیچارے بیسیوں مریض بے موت مارے گئے تھے ۔شاہدرہ میں بھی بیسیوں افراد''ٹائنو''نامی جعلی سیرپ پینے سے موت کی آغوش میں چلے گئے ،ان کے واقعات سے متعلق چندروزتک ارباب اقتدار کے سخت بیانات آتے رہے ،میڈیا نے بھی اپنے طورپراوراپنے اپنے اندازسے یہ ایشواٹھایا مگرچندروزبعدسب اس سانحہ کوبھول گئے اورمرنیوالے افراد کے پسماندگان کوبھی صبر آگیامگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔سرورکونین حضرت محمد کافرمان ذیشان ہے ''جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے''،دین فطرت اسلام ناجائزمنافع خوری اورملاوٹ کی اجازت نہیں دیتا ۔ایک حدیث نبوی ہے ،''جھوٹی قسم اٹھانے سے مال توبک جاتا ہے مگربرکت نہیں رہتی'' ۔ محض مالی فائدے کیلئے خوردونوش کی مصنوعات میں ملاوٹ یازندگی بچانے والی ادویات کی غیرمعیاری نقل تیار کرنابلاشبہ غیرانسانی اورغیرقانونی فعل ہے اور جعلی ادویات استعمال کرنے کے نتیجہ میں ہونیوالی اموات قتل عام کے زمرے میں آتی ہیں اوراس مکروہ کاروبارمیں ملوث ہرایک فردقرارواقعی سزاکامستحق ہے۔

اس قسم کے حادثات اورسانحات کے بعد سرکاراورسرکاری ادارے چندروز کیلئے متحرک ہوجاتے ہیں اورپھر تحقیقات کی بھاری فائلیں دفاتر کے کباڑخانوں میں ردی کی طرح پھینک دی جاتی ہیں اورا ن واقعات میں ملوث عناصر اپنے بااثر آقاﺅں کے آشیرباد سے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک کر صاف بچ جاتے ہیں۔ہمارے ہاں جس وقت تک پانی سرکے اوپرسے نہ گزرے اس وقت تک ہمارے ارباب اقتدارواختیار ہوش میں نہیں آتے ۔کیا ہمارے ملک میں ایسا کوئی فعال ادارہ نہیں بنایا جاسکتا جوادویات کے معیار ،مضراثرات کومانیٹر اوران کی جائز قیمت مقررکرے۔اس ادارے کا این اوسی ملے بغیرکوئی دوامارکیٹ میں آنے پائے اوراگرخدانخواستہ کسی قسم کی جعلی ادویات سے کوئی سانحہ ہوتواس ادارے کے سربراہ کامحاسبہ کیا جائے ۔مگر یہ کون کرے گا،ہمارے ارباب اقتدارکویہ سب کرنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ وہ تواپنے زکام ،پیٹ درداوربلڈ پریشر کی دواکیلئے بھی پیرس ،لندن اورنیویارک کارخ کرتے ہیں،انہیں اسمبلیوں سے مفت ادویات ملتی ہیں ،ان کاسرکاری پیسے سے علاج کریا جاتا ہے۔وہ ا پنے اپنے شہروںمیں بیٹھ کر مختلف بیرونی ملکوں سے آیا پانی نوش کرتے ہیںجبکہ ان کے کروڑوں ہم وطن گندااورمضر صحت پانی یاپانی کے نام پرزہرپی کربیمار ہوتے ہیں اورپھرسرکاری ہسپتال کی کسی بدبوداروارڈ کے گندی چادروالے بیڈ پرجعلی ادویات استعمال کرتے کرتے کیڑے مکوڑوں کی طرح مرجاتے ہیں اوران کے مرنے پرحکمران سرکاری سطح پرسوگ مناتے ہیں اورنہ قومی پرچم سرنگوں کیا جاتا ہے۔جس ملک میں پینے کے صاف پانی ،ملاوٹ سے پاک ادویات اورعلاج کی مناسب سہولیات کافقدان ہووہاں اربوں روپے کے تعمیراتی منصوبوں ،گوادرپورٹ چین کے سپردکرنے اورپاک ایران گیس معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔میرے نزدیک توانائی سے زیادہ صحت کی سہولیات اہم ہیں کیونکہ جان ہے توجہان ہے ۔حکمرانوں کواپنے ہم وطنوں کوزندہ رہنے کاحق دینے کیلئے اپنی ترجیحات بدلناہوں گی ورنہ ایٹمی پاکستان زندہ لاشوں کاقبرستان بن جائے گا۔اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں سن لوتمہارامنشورسن کر قبورمیں پڑے مردے زندہ نہیں ہوں گے توپھرتمہارے حق میں نعرے اورتمہاری پارٹی کے انتخابی نشان پرمہرکون لگائے گا،تم کس پرحکومت کروگے۔ان بیچاروں کوبھی زندہ رہنے دوایڑیاں رگڑرگڑکرمرنے کیلئے ،انہیں جعلی ادویات سے کیوں مارتے ہویہ تو ویسے ہی مرے ہوئے ہیں۔مہنگائی اوربدعنوانی کے بوجھ سے ،ناانصافی کی گھٹن سے ان کادم توکب کا نکل گیا ہے بس تجہیزوتدفین باقی ہے۔

جس طرح ہمارے ملک میں سرکاری ونجی تعلیمی ادارو ں کااپنا اپنا نصاب اوران کے اپنے اپنے اصول وضابطے ہیں اس طرح کئی ڈاکٹرزنے اپنے اپنے طورپرادویات بھی بنواناشروع کردی ہیں اوراس آڑ میں جعلی ادویات کاکاروبار فروغ پارہا ہے۔ہرطرف جعلسازی،ملاوٹ اورشعبدہ بازی کادوردورہ ہے شرح جہالت کی طرح شرح اموات میں بھی اضافہ دیکھا جارہا ہے ۔جودواہم کام ریاست نے کرناتھے وہ نجی کاروبارکی صورت اختیار کر گئے ہیں اورعوام سرمایہ دارانہ نظام کے رحم وکرم پرہیں ۔امریکہ اوربرطانیہ سمیت دنیا کی ہر مہذب ،متمدن اورفلاحی ریاست میں تعلیم اورصحت کی سہولت مفت فراہم کی جاتی ہے توپاکستان میں کیوں نہیں۔ان ملکوں میں تعلیم وتربیت اورعلاج کے نام پرانسانوںکی چمڑی نہیں اتاری جاتی ۔ان ملکوں میں جعلی ادویات بنانااوربیچنا منشیات فروشی کی طرح ایک سنگین جرم ہے ۔

ڈاکوتوڈاکوبن کرلوٹ ماراورمزاحمت پرشہریوں کوقتل کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کاپیشہ ہے جبکہ ہمارے ملک میں سیاستدان ،ڈاکٹر اوراستاد مسیحابن کرلوٹتا ہے ۔پاکستان کواسلامی فلاحی مملکت کہا جاتا ہے مگرہمارے سرمایہ دارسیاستدان اس ملک کواسلامی اور فلاحی ریاست بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہیںکیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں ان کے مالی اورسیاسی مفادات پرمنفی اثرپڑے گا۔تعلیم مافیا ،میڈیسن اور ہیلتھ مافیا یاپھرلینڈ مافیا ہو،ان کالے دھندوں اورتاریک راہوں میں آپ کا زیادہ ترسیاستدانوں سے آمناسامنا ہوگا۔ہم جس وقت نقاب پوش شدت پسندوں کوکسی انسان کاسرتن سے جداکرتے دیکھتے ہیں توہمارا خون کھولتا ہے اورہرکوئی اپنے اپنے طورپراس واقعہ کیخلاف ریلیاں منعقداورقراردادیں پاس کرتے ہیں مگرجب نام نہاد مسیحا بیچارے بیمارانسانوں کی بوٹیاں نوچتے ہیں توہماری زبان نہیں کھلتی۔جعلی ادویات کاکاروبار کرنیوالے انسان نہیں درندے ہیںاوردرندوں کی جگہ معاشرے میں نہیں بلکہ جیل کی کال کوٹھریوں میں ہے ۔مریض کے وہم کافائدہ اٹھاتے ہوئے اسے مختلف ٹیسٹ کرانے کیلئے کہنا اور مخصوص نجی لیب جبکہ ادویات کیلئے مخصوص میڈیکل سٹور میں جانے کاپابندکرناکیا یہ مسیحائی ہے۔محض زیادہ کمیشن ،مختلف تحائف اورنذرانے وصول کرنے کیلئے جان بوجھ کرمہنگی اورغیرضروری ادویات لکھنا کیا یہ حلال روزی ہے ۔ یہ لوگ اس پیسے سے بروسٹ یاروسٹ تناول نہیں کرتے ہیں بلکہ ان بیمار اوربے بس انسانوں کی بوٹیوں سے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کی ناکام کوشش کررہے ہوتے ہیں جوانہیں مسیحااورہمدردسمجھ کران کے پاس آتے ہیں۔ اس قدردولت ہونے کے باوجودیہ لوگ کئی حلال نعمتوں کاذائقہ نہیں چکھ سکتے اورخواب آورگولی کے بغیر انہیں نیند نہیں آتی ۔دوسروں کے منہ کانوالہ چھین کرکسی کے پیٹ کی آگ نہیں بجھتی اوراُدھر مرنے کے بعد جہنم کی آگ ان کی منتظر ہوتی ہے۔جس کااپنا ضمیر مردہ ہووہ کسی بیمار انسان کو نئی زندگی نہیں دے سکتا ۔جعلی ادویات بیمارانسانوں کیلئے سلوپوائز ن کاکام کرتی ہیں ، جوبیمارافراد جعلی ادویات استعمال کرتے ہیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اورنتیجتاً مرض کی شدت بڑھ جانے سے زیادہ ترمریض انتقال کرجاتے ہیں اوراس قتل عام کاکسی تھانے میں مقدمہ درج ہوتا ہے اور نہ کسی منصف کی طرف سے از خودنوٹس لیا جاتا ہے ۔ جعلی ادویات کے سبب شرح اموات کے ہوشربااعدادوشمارغورطلب ہیں ،جعلی ادویات کے سدباب کیلئے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139622 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.