زندگی کی شاخ سے لُوں کچھ حَسیں پَل میں چُن

(ایک بنگالی نوجوان کی آشا کے سمندر میں طُغیانیوں اور محبت کے ہاتھوںبرباد زیست کی سچی رُومانی کہانی)۔۔۔۔۔

قارئین کرام!آداب۔۔۔انسانی تخیل کے ساتھ عجب تماشے روا رہتے ہیں،کبھی چاند راتوں میں یخ بستہ نظاروں اور خموشی کے اُس پار،ان گنت تاروں کے جَلو میںچاند دلکشی اور سرکشی سے سرگوشیاں کرتا اورچہچہاتا ہے تو دل میں مسرتوں کی اِک بہار سی کِھلا دیتا ہے!کبھی تاروں کیِ دلرُبا بِھیڑ کے بیچوں بیچ مُسکاتا چاند اپنے آپ تنہائی کا ایک ایسا استعارہ بن جاتا ہے جس کے معانی اور اسرار کو آج تک کوئی پا سکا اور نہ ہی شاید کبھی جان سکے!میں جب بھی خاموش راتوں میںچاند کی صُورت کا مطالعہ کرتا ہُوں تو اس کی مے کش چاندنی سے فقط اُداسی کے ترانے پُھوٹتے لگتے ہیں،جیسے وہ بے اختیا کہہ ر ہی ہو!
کچھ تُو ہی مِرے کرب کا مفہوم سمجھ لے
یہ ہنستا ہُوا چہرہ تو زمانے کے لئے ہے!

کبھی رات کو دیر تک ”جاگتے رہو“کی صدائیں دیتی بُھولی یادیں آآکرسونے نہیںدیتیں!آج رات جس یاد نے مجھے سونے نہیں دیااورمیری نیند کی آرزُو کو بھی پتھر بنا کے چھوڑا،وہ برسوںپہلے کی ایک سچی پریت کہانی ہے!بہ قولِ شاعر
یادوں کا اِک جھونکا آیا ہم سے ملنے برسوں بعد
پہلے اتنا روئے نہیں تھے جتنا روئے برسوںبعد!

بھئی!یہ کہانی کیا ہے !اِسے اگردردکی راجدھانی کہا جائے توزیادہ قرینِ حُسن وانصاف ہوگا،قریب بیس سال پیچھے مُڑ کر جب میں یادوں کی قوسِ قزح میں جھانکتا ہُوں تو ایک انتہائی مہرباں بنگلہ(جانے اس لفظ کے سُنتے ہی ہمارے ذہن کے پردوں پر”پیسہ،کار اور بنگلہ“ کا تصور کیوں جگمگا اُٹھتا ہے!اہلِ بنگلہ یش بھی تویہی کہلاتے ہیں)دوست جمال الدین کی رہ رہ کر یاد آتی ہے،محبت کی راہ پرچل کر وہ جتنا آبلہ پا ہُوا،جتنے دُکھ وہ جھیلا،میں چاہ کر بھی ان باتوں کو فراموش نہیں کر سکتا،کبھی کراچی کی اورنگی ٹاؤن نامی کچی بستی کے ایک کونہ میں اس محبت کہانی کا جنم ہُوا تھا،اسلام نگر نامی اس بستی میں مجھے بھی دل ہارنے اور بے کلیوں سے دوستی کرنے کااتفاق ہوا جس کی ندیا کی لہروں جیسی الگ اور اِک اپنی کہانی ہے، جمال کی پرِیت کہانی نے آگے چل کرایک ہنستے بستے جیون میں ایساطوفاں اور تلاطم سا لایا کہ خُدا کی پناہ!جمال جب چٹاگانگ سے روانہ ہو کر کراچی آیا تھا تو اپنے اہلِ خانہ کی خوشحالی کا سامان کرنے کا خواب اپنی آنکھوں میں پرو کر لایا تھا!اس کے جانے کتنے اور کیسے نامساعد گھریلو حالات تھے جن کے جبرنے اسے کراچی کا رختِ سفر باندھنے پر مجبورکیا تھا،وہ انتہائی معمولی پڑھا لکھا تھالیکن دوستوں پر جان وارنے میں تو جیسے اس نے پی ایچ ڈ ی کر رکھی ہو!تواتر کے ساتھ شیو بنانا اور اپنے لباس پر پرفیوم چھڑک کر باہر جانا اس کی محبوب عاد ت تھی،بنگلہ دوستوں کی قُربت میں ،میں بھی ان کی طرح پان اور چاول کھانے کا عادی ہو گیا وگرنہ میرے لئے کھانے کے اسباب کی کچھ ایسی کمی بھی تونہ تھی !
کھاتے کھاتے غم کِسی کے عِشق میں
ہم کو غم کھانے کی عادت ہو گئی !

جمال اورمیری دوستی کو کافی دن ہو چلے تھے اور اب ہم ہر موضوع پر بے تکان اور بے تکلف تبالہ خیال کیاکرتے،یہاں تک کہ وہ اپنے مَن کی ہر بات مجھ سے شیئرکرتا ،میں نے جمال کے محسوسات کا سرسری اندازہ کیا اور پھراس کے جذبوں کا عمیق خاکہ بھی اپنے دل میں بنا ڈالالیکن وہ ہر بارخوابوںاورخیالوں کی دنیا سے پرے ایک عملی انسان لگا،اسے ہر وقت کام اور بس کام کی پڑی رہتی،کراچی آنے کے تھوڑے ہی عرصہ میں وہ تولیہ کے کارخانہ کا کاریگر بن گیا،اب وہ کہیں سے بھی غُربت کا ستایا نہیںلگتا تھابلکہ لوگ اسے ایک کھاتاپیتا نوجوان خیال کرتے،اس نے چند مہینے اپنی بنگلہ کمیونٹی کے لئے ایک ہوٹل بھی کھولا جس کے دروازے گاہکوں سے زیادہ دوستوں کے لئے کُھلے رہتے،وہ کبھی من پسند دھوتی پہن لیتا تو کبھی لائیننگ والی شوخ رنگ شرٹ کے ساتھ ڈریس پینٹ میں نظر آتا،اُدھر بنگلہ دیش کے ایک فلاکت زدہ گھر میںاس کی راج دلاری بہن اور ماں دونوںجمال کے حوالہ سے متفکر رہتیں اور اس کے بہ خیریت وطن لوٹنے اور پیسے پس انداز کرنے کی دعا کرتی رہتیں،وہ سوچتیں،”جب جمال پیسے بچا کر گھر آئے گا تو وہ اس کے لئے کوئی مناسب لڑکی دیکھ کر اسے فوری شادی کے کھونٹے سے باندھ دیں گی،وہ اپنے گھر والوں سے برابر رابطہ میں رہتا ،وہ تنخواہ ملتے ہی چند ہزار روپے گھر روانہ کرنا کبھی نہ بُھولتا،وہ پیار،محبت کی باتوں سے سخت بور ہوتا تھا،اسے تو بس یہ پتہ تھا کہ گھر والوں سے دُوری کیا بلا ہے! تولیہ کیسے بنتا ہے،کارخانہ کی مشین جب گڑبڑ کرنے لگے تو اسے کیسے راہِ راست پہ لانا ہے، اپنوں کا سہارا کیسے بنا جاتا ہے!پیسہ کما کر گھر کو بُھول نہیںجانا ہے،گھر والوں کی بے تاب خواہش اپنی جگہ مگرجمال کو شادی کی کوئی پروا تھی اور نہ ہی اس بات کی جلدی،اس کے اہلِ خانہ نے لمبا عرصہ مفلسی کے سایوں میں بیِتایا تھا جس کا دھیان اس کی سوچوں سے کبھی محو نہ ہو پاتا!چنانچہ اپنے کمرہ سے کام کی جگہ اور بہت ہُوا تو اپنے چند دوستوں کے ٹھکانوں تک کُل اس کی مُلا کی سی دوڑ تھی!میں ان دنوں ایک نجی سکول میں پڑھاتا تھا،ایک شام جب میں جمال کی طرف گیا تو وہ بڑا ہشاش بشاش اوربے خود سا لگا،اس کی چمکدار لیکن دُبلی پتلی اور اچھے مستقبل کے خواب سے لدی آنکھوں سے عیاں ہو رہا تھا جیسے کسی بات نے اس کا اندر مہکا کر رکھ دیا ہو،میرے پوچھنے پر پہلے تو وہ تھوڑا شرمایا ،پھر چہک کر بولا،”سجاد بھائی!مجھے کسی سے محبت ہو گئی ہے!“اس کا یہ بتانا میری سمجھ پر ایک ہتھوڑا بن کر برسا کیوں کہ اِس سے پہلے اُس نے اپنے کوچہءدل کے نزدیک محبت نامی جذبہ کو کبھی پھٹکنے کا موقع تک نہ دیا تھا! میںنے استعجاب اور چِڑانے کے سے انداز میں کہا،” تم مشینوں پر کام کرتے کرتے خودبھی ایک مشین بن کے رہ گئے ہو،تمہیں تو بس یہ سوچناآتا ہے کہ صبح ناشتہ میں چاولوں میں گوشت ہو یا بھنڈی،دوپہر کے چاولوں میں بینگن ہو یا مُرغی،شام کو چاولوں میں قیمہ مزہ کرے گا یا پھر کریلا!“جمال کوئی پِیٹو نوجواں ہرگز نہ تھا بلکہ وہ انتہائی دُبلا(slim (اورکھانوں میں تنوع برتنے کا بڑا شوقین تھااور اسی شوقِ بے حساب میں اکثر شاہانہ خرچ کرنے سے بھی باز نہ آتا،خیر میں نے جمال سے کہا کہ وہ کُھل کر بتائے،آخرکس کی نگاہوں کا تیر اس کے دل کو یُوںنرما گیا ،جمال کی رہائش گاہ کے بیرون میں سڑک پڑتی تھی،اس سڑک سے ملحقہ گھروں میں سے ایک میں وہ دوشیزہ رہتی تھی جس کی شوخ اداؤں نے اپنا کام کیا تو جمال کو بھی آخرمحبت کرنے میں کمال حاصل ہو گیا! اس واقعہ کے بعد شاموں کو جب میںجمال سے مجلس کرتا تو وہ محبت کی پروان چڑھتی رُت سے آگاہ کرتا رہتا،پھر ایک دن اس نے مجھے رازدار جان کر ایک خط دیکھایا،دُوسرے اس کی مجبوری یہ تھی کہ وہ اُردو سے بالکل انجان تھا،اسے خط پڑھ کر سنانے والے کی ضرورت تھی،خط کیا تھا ،جمال کو مسمرائیزاور ہپناٹائیزکر کے محبت کے شیشہ میں اتارنے کا ساراساماںایک مکتوب میںبھر دیا گیا تھا،جیسے
تُجھے سوچتا ہُوںمیںشام و صبح
اِس سے زیادہ تُجھے اور چاہُوں توکیا!
تِرے ہی خیالوںمیںڈُوبا رہا!
اِس سے زیادہ تُجھے اور چاہُوںتو کیا!
اُس سارے غم میںجاناں!
سنگ ہُوں تِرے!
ہر اِک موسم میں جاناں!
سنگ ہُوں تِرے!

اس خط کے اثر سے جمال کا دل اس لڑکی کی یاد میں سُلگنے،تڑپنے لگ گیا!میں نے اسے پیار ویار سے دُور رہنے کو کہا لیکن وہ دل کے ہاتھوں سخت مجبور ہو چلا تھا،اس کے لاکھ اصرار کے آگے ہتھیار ڈال کر میں نے جمال کے دل کا حال ایک کاغذپرلکھ دیا، اس دوران جمال کو جب اور جیسے بھی موقع ملتا وہ اپنی محبوبہ کی گلی کا پھیرا لگا آتا،وہ اُسے ایک نظر دیکھ کر ہی خوشی سے پُھول ساجاتا!ایک دن جمال تو نے کمال ہی کر دیا،وہ دوٹوک انداز میں بتایا”میں اپنی سجنی کو دیکھنے کے لئے روز اس کی گلی میں جاتا ہُوں،اب یہ روز کا تماشہ مجھ سے سَہا اوردہرایا نہیںجاتا،اس سے ملاقات کی کوئی صورت نہیں بن پاتی،اب مجھ سے رہا نہیں جاتا،میں اسے پاس سے دیکھنا چاہتاہوں،اسے اپنی اور اس کے دل کی سُننی اور سنانی چاہتا ہُوں،میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ صرف اسی سے شادی کروں گا، میں نے بیرونی سڑک پر دکان کھولنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب توجگہ بھی دیکھ لی ہے،اس کام میں سُود ہو گا یا زیاں،اس سے میرا کوئی لینا دینا نہیں،میں تو بس اس سے ملاقات کا بہانہ چاہتا ہوں،اور اگر میں اسے نہ پا سکا تو میں جیتے جی مر جاؤں گا،“جمال اپنی دُھن کا پہلے ہی پکا تھا ،اُوپر سے محبت کی حِدت اورتمازت نے جلتی پر تیل کا کام کیا!پھردو،چار دنوںمیں جمال سڑک کنارے دکان سجائے بیٹھا تھا،اُس کی دکان کیا تھی ،بنیادی ضروریاتِ زندگی سے آراستہ ایک چھوٹی سی جگہ تھی،لوگ اس سے سودا لینے آتے لیکن اُس کا اپنا دل لوگوں کی حاجتوں سے بے نیاز اور کِہیں دُور بلکہ بہت دُوراپنی من چاہی کے خیالوں میں جا اُلجھا تھا!وہ لڑکی اپنی ماں سے سودا سلف لانے کا بہانہ تراش کر وہاں چلی آتی،چند لمحے جمال سے راز و نیاز کی باتیں کرتی اور پھر اپنی پُرفریب مسکراہٹ جمال کے وجود پر نچھاور کرتی دوبارہ آنے کا وعدہ سُنا کر واپس چلی جاتی، ایک بار جمال نے مجھے اس لڑکی سے خاص طور ملایا،اُس دن جمال اس من موہنی کے لئے کوئی خاص تحفہ بھی ہمراہ لایا تھا ،شاید وہ ایک پرفیوم ہی تھی،میں نے لڑکی سے پوچھا کہ کیا وہ بھی جمال کو سچ مُچ چاہتی ہے یا محض فلرٹ کر رہی ہے؟اس نے شرما کرجب اثبات میں جواب دیا تو پھر میں اس کی نیت پر شک نہ کر سکا،لڑکی کا باپ کافی دنوں سے سعودیہ میں تھا،جمال جب بھی لڑکی سے اُس کے گھر رشتہ چاہنے کے لئے جانے کی بات کرتا تو وہ خُوبصُورتی سے ٹال دیتی اور کہتی،”ایک بار میرے اَبُو کو آلینے دو،میں انہیں صاف بتاؤں گی کہ میںتم سے پیار کرتی ہُوں اور تم ہی سے شادی کرنا چاہتی ہُوں،“جمال محبت میں اندھا ہو کر نہ جان سکا کہ لڑکی کے دل میں محبت کے نام پر دھوکہ آمیز کچھڑی پک رہی ہے اور یہ کہ لڑکی کی طرف سے پیار توایک ناٹک،صرف وقتی اور خود کو خوشی دینے کا ایک کاری ہتھیار ہے!اپنے انجام سے بے خبر جمال محبت کی سنگلاخ پنہائیوں میں اترتا چلا گیا،اس لڑکی کو دیکھنا جمال کی ایک عادت اور پھر نشہ سا بن گیا،اُدھر جمال کو مطلق ہوش نہ تھا کہ اس کی دکان خسارہ میں جارہی ہے،وہ پیار میں اتنا ڈُوب گیا تھاکہ اب مادی نفع اور نقصان کی باتوں پر توجہ کرنے کے لئے اس کے پاس فرصت ہی نہ تھی! وہ اسی بات پہ نازاںتھا کہ پہلی بار اسے کسی سے پیار ہُوا ہے،اس کی منتشر سوچوں نے کتنا دل آویز آشیاں،اِک خوابناک بسیراسا ڈُھونڈ لیا تھا،ایسے میں اُسے دکان کا خسارہ بھلا کیا رنج دے سکتا تھا!بہ قولِ فیض
جس نے دل کھویا اُسی کو کچھ مِلا
فائدہ دیکھا اِسی نقصان میں!

محبت کی راہوں پر چلتے چلتے جمال کی کارخانہ کے کام میں دلچسپی معدوم ہونے لگی،اِدھر دکان بھی گھاٹا دے رہی تھی،لیکن اس سب کے باوجود وہ خوش و خرم رہ کر سوچتا اور دعا کرتا کہ کسی طرح سے اس کے دل کا کاروبار چمک جائے اور وہ لڑکی اس کے جیون میں آجائے!مہینوں ،لمحوں کی سی تیزی سے گزر گئے،جمال کبھی بُجھے دل سے کام پر چلا جاتا اور کسی دن کام کو بُھول بھال اپنی دکان میں بیٹھا سجنی کا رستہ تکتا رہتا،اس لڑکی اور خود جمال نے آپس میں کتنے وعدے کئے تھے،ایک ساتھ جینے،مرنے کا سُندرسپنا دیکھا تھا،ان باتوں کو یاد کرنا اس کی اِک عبادت سی بن گئی تھی!ایک دن جمال کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا،ملاقات پر اس نے لڑکی سے کہا،”تم مجھے اور کتناآزماؤ اور انتظار کراؤگی،سُنا ہے اب تمہارے ا بُو بھی آگئے ہیں،تم ان سے ہماری شادی کی بات کیوں نہیں کرتیں؟“اس مطلبی لڑکی نے جمال کے دیوانہ وار سوال کا جواب جب گوشِ گزارکیاتو جمال کو لگا جیسے وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی بازی ہار گیاہے!لڑکی کے بہ قول اس کے ابُو نے اپنی بیٹی کا رشتہ گھر سے باہر دینے سے صاف انکار کر دیاہے اوریہ کہ جمال کے حق میں تووہ ہیں ہی نہیں!“اس دل شکن صورت حا ل میں خودکو سنبھالنا بے چارے جمال کے بس میں نہ تھاکہ میںبھی اسے اِک مدت سے جانتا تھا،پہلے پہل وہ اپنی پریشانی سگریٹ کے دھوئیں میں اُڑا دیاکرتا تھا،لیکن یہ افتادسگریٹ پی لینے سے ٹلنے والی کب تھی،وہ تُرش مزاجی،تنہائی پسندی اور خود انتقامی کی بھیانک راہ پر چل پڑا،ایک دن جب میں سکول سے لوٹا تو ایک دوست نے جمال بارے بُری خبر دی،گذشتہ رات جمال نے بہت زیادہ پی لی تھی،پھر وہ مدہوشی کی حالت میں اپنے ہم کمرہ دوستوں سے چُھپ چُھپاکر باہر سڑک پر نکل گیا،سڑک پر چاروں اور سناٹا تو کہیں مدہم روشنی،جمال نے بہت پی لی تھی،وہ لڑکھڑا کر فٹ پاتھ پر چلنے لگا،وہ اس وقت ہوش میں نہ تھا،اوپر سے اس کے اندر کا انسان محبت میں ناکامی پراس کو طعنے دے رہا تھا،اسے ان لمحوں میں یہ بھی یاد نہ تھا کہ دُور اس کے وطن میں بہن اور ماں کتنی بے تابی سے اس کے سر پہ سہرا سجنے کے سپنے دیکھ رہی ہیں،شراب کا نشہ جب بڑھ بلکہ چڑھ گیا تو جمال فٹ پاتھ پردھڑام سے گر پڑا،وہ اتنی شدت سے گر کر بھی بہ ظاہر پُرسکوں رہا!اس کے دل سے درد کی کوئی ٹِیس نہ اُٹھی،وہ اُف تک نہ کیا،اُس کی آنکھ بھی پُرنم نہ ہُوئی!رات تھی اور اسے سہارادے کر زمیں سے اُٹھانے والا بھی آس پاس کوئی نظر نہ آیا،پھر اُس نے خود ہی اوپر اُٹھنے کی کوشش کی،بڑی مشکل سے وہ اُٹھا اور بے خودی میں سامنے کی طرف چل پڑا،اتنے میں پولیس کی ایک موبائل گاڑی اس کے پاس آن رُکی،یہ مقام مومن آبادپولیس ستیشن سے بہ مشکل تین سو گز پہ پڑتا ہے اور یہ تھانہ ایشیا بلکہ شاید دنیا کا واحد پولیس آفس ہے جسے فٹ پاتھ پربنایا گیا ہے،پولیس اہلکاروں نے مدہوش جمال کو گھیر کر اسے اپنے ساتھ کر لیا،تھانہ میں اُسے ایک لاک اپ میں بند کر دیا گیا،پولیس والوں کی کچھ بہ جا اور کچھ بیہودہ باتوں سے اس کی تواضع ہی ہو رہی تھی کہ ایک اہلکار نے اسے پہچان لیا،اس نے اپنے ساتھیوں کو جمال پر سختی کرنے سے منع کیا اور کہ وہ جمال کو کافی جانتا ہے اور یہ کہ اسے جمال سے مے نوشی کی توقع ہرگز نہ تھی،پولیس والے اس کی مزید گت بنانے سے باز رہ گئے،جمال کے شناسا پولیس والے نے دل میں سوچا کہ کہیں ضرور گڑبڑہو گئی ہے ورنہ جمال میں توکتنے ہی لوگوں نے صرف شرافت، محبت،نرمی،سادگی اور قانون کے احترام کا مادہ ہی دیکھا تھا!آخرکار سب پولیس والے اس نکتہ پر متفق ہو گئے کہ کسی بات سے دل برداشتہ ہو کر ہی جمال نے یہ انتہائی قدم اٹھایا ہے،تھوڑی دیر بعد اسے تھانہ سے نکال کر اس کے کمرہ تک پہنچا دیا گیا،لیکن بات یہیں پر ختم ہونے والی نہ تھی،جمال کو پینے اور پی کر اپنا غم بھلانے کی عادت پڑ گئی تھی،اس دوران وہ کئی بارنشہ کی حالت میں پولیس کے ہاتھ لگا ،ایک بار اسے جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی اور چند ہمدرد جانے کیسے اسے جیل سے واپس لے آئے!محبت میں ناکامی کا زخم بھرنے والا تھا اور نہ ہی اب اس مرضِ لاادواکا کسی طبیب کے پاس کوئی شافی علاج تھا،جمال کو ہم چند دوست سمجھا سمجھا کر تھک ہار گئے،اب وہ محنت سے جتنا کماتا وہ کچھ کھانے اور دوسری ضرورتوں پر اُڑجاتااور کچھ روپوں سے وہ اس لڑکی کی بے وفائی کا گہرا زخم دھونے،مندمل کرنے بیٹھ جایا کرتا،میں چشم ِ تخیل سے اب بھی دیکھ سکتا ہُوں،ایک رات اس نے جب شراب کو منہ لگایا تو اسے اپنی سجنی کی بے رُخ باتوں کی یادنے رُلا سا دیا،اس نے کتنی شدت اور سچے جذبوں سے کسی کو چاہا تھا ،اتنی ہی سنگ دلی سے وہ لڑکی جمال کو چھوڑ اور بُھول بھال کر اپنے مزوں میں کھو گئی!خیرجمال پر جب شراب خُمار لا چکی تو اسے لگا جیسے اس کی بے وفا محبوبہ اس کی بد حالتی پر ترس کھا نے اور بین کرنے اس کے پاس چلی آئی ہے،شراب کے زیرِ اثر ہونے کی وجہ سے وہ اس لڑکی کو اپنے سامنے دیکھ کر مدتوں بعدکِھل سا گیا اور اس کی تشنہ رُوح محبت کا دُعائیہ گیت گانے میں مگن ہو گئی!
جو بھی سانسیں میںبھرُوں
اُنہیں تِرے سنگ بھرُوں
جو بھی ہو راستہ
اُسے تِرے سنگ چلُوں!
sajjad haider tanoli
About the Author: sajjad haider tanoli Read More Articles by sajjad haider tanoli: 2 Articles with 4298 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.