محبت کا حصار

احسا س بھی کیا عجب شے ہے۔روح میں لمس کی طرح روا ں رہتا ہے۔ محبت کا احسا س مکمل ہونے کا نا م ہے تبھی محبت میں کوئی ہا ر کے اور گھٹنوں کے بل اپنی ما ت کا اعتراف اتنے مطمئن ہو کے کرتا ہے کہ اُس کی شکست بھی قا بلِ رشک لگتی ہے۔ اپنی فتح کا احسا س اور بھی سر چڑھ جا تا ہے۔ یہ لذت میں نے کئی با ر محسوس کی تھی پر کبھی ما ت میں سرشا ری میرے حصے میں کیو ں نہ آئی۔ کتنے ہی دلوں کی دھڑکن ، نرم ہا تھوں کا لمس ، روح کی تڑپ اور آنکھوں کی نمی مرے وجود سے لپٹی تھی مگر روح تو اُس احسا س سے خا لی تھی جس کے لئے میں اتنے عر صے سے ہر وجود کا در کھٹکا رہی تھی۔ ہر چہرے کا نقا ب اُترتا گیا تھا۔ اور تشنگی بڑھتی جا رہی تھی۔ چا ہے جا نے کی خوا ہش لا کھ شدید سہی مگر مجھے تو چا ہنے کی خو تھی۔ کوئی تو ایسا ہو جس میں مجھے اپنا آپ دکھائی دے اور میں اس میں خو د کو سما کے خو د فنا ہو جا ﺅں ۔ عجب بے چینی تھی جو میری ذا ت میں کسی آسیب کی طرح سرا یت کرتی جا رہی تھی اور میں اس خو ل میں قید ہوتی جا رہی تھی۔ جس کے پا ر سب آرزوئیں، خوا ہشیں، خوشیا ں اور خوا ب دھندلا گئے تھے ۔ اس دیوار کے اس پار کون میرا منتظر تھا سب بے معنی تھا ۔حتیٰ کہ وہ بھی کہ جس کی کا ئنا ت مجھ سے شروع ہو کے مجھ پر ہی ختم ہو تی تھی۔ جس کے سبھی احسا س میرے ہونے سے زندہ تھے۔ وہ نجا نے کیوں میرے خیالات کے صحرا میںقیس کی طرح بھٹکنا چاہتا تھا۔ میرے پا س اس کے شکستہ وجو د میں تیرتی ادا سی کا کوئی متبا دل بھی نہیں تھا۔ میں اس کے پا س ہو کے بھی اس کے سا تھ نہیں تھی۔ اس کی وا رفتگی مجھ میں احسا سِ جرم کو اور بڑھا دیتی تھی۔ میں اس کی بے پا یا ں محبت کی حدت کو محسوس کر سکتی تھی اور اس کی قدر کرتی تھی مگر ممنوعیت کے چند الفا ظ کے سوا میرے پا س کچھ نہیں تھا۔ میرے گرد اس کی وفا کا حصا ر تھا اور میں اس میں خود کو سب سے زیا دہ محفو ظ سمجھتی تھی۔ یو ں لگتا تھا کہ میرے اوردنیا کی جسم کو چیرتی نظروں کے درمیا ن وہ ایک دیوار تھا۔ وہ جب بھی اپنے عشق کا اظہا ر کرتا تو اس کی نگا ہوں کی سچا ئی میرے پیروں کو تھا م لیتی اور مجھے اس لمحے میں قید ہو جا نے پر مجبور کرتی مگر میری روح کو تو کسی اور نظر میں سما نے کی جستجو تھی۔ نجا نے کیو ں اس کا لمس میرے جسم سے روح تک نہیں پہنچ پا تا تھا۔ میں بر ف کی مورت تھی جس کو اس نے اپنے جذبوں کی حدت سے پگھلا نا چا ہا تھا۔میں اس کی سوچ کا محو ر تھی مگر میری سو چ کی پروا ز تو آسما ن کی حدوں سے بھی آ گے تھی۔میرے اندر آ زا د فضا ءمیں اڑنے کی خو اہش نے سر اٹھا یا تو وفا کا وہ حصا ر مجھے اپنے گلے کا طو ق لگنے لگا۔اور میری ذا ت کے آ ئینہ میں جھو ل آگیا۔کچھ دنوں سے میرے وجو د میں انجا نے جذبے نے جنم لیا تھا۔ میری سو چ کے سمندر میں کسی نے اپنے احسا س کا کنکر پھینک دیا تھا۔ اچا نک سے میرے خوا بوں کی دنیا میں چاندنی اتر آئی تھی۔ کسی کے آ نے سے میرے وجود کے نخلستا ن میں خوشی کی خوشبو پھیل گئی تھی۔ کسی کی نظروں میں اپنا آ پ مجھے سب سے حسین لگنے لگا تھا۔ پہلی با ر کسی کے سا منے سر جھکا کر اپنی ہستی کو مٹا نے کو جی چا ہا تھا۔ وہ کس دیس سے آ یا تھا معلو م نہیں تھا مگر میرے لئے وہ محبت کا دیوتا تھا جو انسا ن کے روپ میں اس دنیا میں آ یا تھا اور میں اس دیوتا کی داسی بن گئی تھی۔ مگر چکو ری کتنا بھی چا ند کا طوا ف کرے چا ند اس کا نہیں ہو سکتا۔ یہ ممکن بھی کیسے ہے کیو نکہ چا ند نے بھلا کب یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ صرف چکوری کو اپنی چا ندنی کا لبا س پہنا ئے گا ۔ دیوتا کب اپنے چر نوں میں بچھی دا سی کو دیکھ پا تا ہے۔ یہ تو دا سی کا انتخا ب ہے کہ وہ اس ہرجا ئی کو ہی ہر پل دیکھنا چا ہتی ہے، اس میں سما نا چا ہتی ہے۔اور پھرایک دن جس دیس سے وہ آ یا تھا وہیں لو ٹ گیا ۔ میرے وجود کو بکھرا چھوڑ کے وہ کسی اور راہ پہ چل نکلا تھا۔ میرا جنوں ، میرا عشق را ہ میں پڑے ہوئے پتھر کی طرح تھا جسے اس کی ایک ٹھوکر نے ریزہ ریزہ کر ڈا لا تھا۔ یہ کیسا موڑ تھا جہا ں میں خود کو پہچا ن نہ پا رہی تھی۔ کسی ایک شخص کے جا نے سے زندگی رکتی تو نہیں مگر جو خاص ہو اس کے نہ ہونے سے زندگی بدل ضرور جا تی ہے۔ میں اپنی انا کی لاش اٹھا ئے کہا ں پھرتی ؟ لوٹ کے اُسی حصا رمیں آ نا تھا سو آ گئی۔ میرے دل کی سوگوا ری فضا ءمیں در آ ئی تھی۔آ نسوﺅ ں کا ایک سیلا ب تھا جو اپنے سا تھ سب کچھ بہا کے لے جا نا چا ہتا تھا ۔ اور میں اُس شخص کے کا ندھے پر سر رکھے اپنی تھکن کا بو جھ اُتا رنا چا ہ رہی تھی جو نجا نے کب سے میری ذا ت کے صحرا میں خود کو تلاش کرتے کرتے تھک چکا تھا۔ میری آ نکھوں کے آ نسو اس کی آ نکھوں میں ا تر آ ئے تھے۔ میرا کرب اس کے چہرے سے عیا ں تھا اور وہ میرا ہا تھ تھا مے مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میری وفا کے حصا ر میں چھید کیسے ہو گیا ؟ میرے سوا تمھا ری ذا ت کے دروا زے تک کوئی کیسے پہنچ گیا؟ تم میرے لئے چا ند نہیں ! تم تو جگنو ہو جسے میں نے اپنی مٹھی میں سب سے چھپا کے رکھا تھا ۔ چا ند بے حجا ب ہے ہر ایک اُس کا دعویدا ر ہے مگر جگنو تو نا یا ب ہے وہ سب کے نصیب میں کہاں! تم میرا مقدر ہو۔اورمجھ میں تمھاری ہر خطا کو معا ف کرنے کا حو صلہ ہے ۔ میری محبت میرا جنوں ہے۔ میرے سبھی احسا س تم سے ہیں۔ آج اس کا ہر لفظ نیا تھا۔پہلی با ر اس کے ہونے کا احسا س میرے دل پہ دستک دے رہا تھا۔ وہ جو صدیوں سے میری انا کے سا منے شکست خوردہ کھڑا تھااور اس دیوار کے گرنے کا بے تا بی سے انتظا ر کر رہا تھا۔ آ ج اس نے اپنی ایک نظر سے مجھے فتح کر لیا تھا۔ میری انا نے ڈھلتے ہو ئے سورج کی طرح خو د کو اس کی محبت کے سمندر کے حوا لے کر دیا تھا۔ وہ اس سے بے خبر تھا کہ میرے جذ با ت کی دنیا میں انقلا ب آ چکا تھا اور اس کی فتح کا پرچم میرے دل کی سرزمین پر لہرا رہا تھا۔ میں نے آ ج جا نا تھاکہ محبت میں شکست کا غم نہیں بلکہ خوشی کا احسا س ہو تا ہے ۔ محبت تو خود دل کے دروا زے پر دستک دیتی ہے اوراُس کے کھلنے کا انتظا ر کرتی ہے۔ اور کبھی دروا زہ نہ کھلے تو اُسی در سے سر پٹھک پٹھک کر دم توڑ دیتی ہے مگر اُس در کو نہیں چھوڑتی۔ اُس کی نگا ہوں کی روشنی نے میرے دل میں پھیلے ہوئے غم کے اندھیرے کو مٹا دیا تھا۔ عجیب با ت تھی کہ میں اس کے پہلو میں بیٹھی خو د کو مکمل محسو س کر رہی تھی اور وہ میرے ادھورے پن پر افسردہ تھا۔ میں نے اُس میں خود کو پا لیا تھا اوروہ میرے کھو جا نے پر آ نسو بہا رہا تھا!!!
Umme Kulsoom
About the Author: Umme Kulsoom Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.