ویران شہر

آبادی سے دور، کھنڈرات کے دامن میں صدیوں سے و ہ شہرآبادتھا۔جہاں ہرطرف سناٹوں کی حکمرانی اور خوفناک ہولناکیوں کی تاناشاہی تھی، جہاں بستی کاکوئی آدمی اپنی خوشی ورضاسے اس سرزمین پرجانے کوتیارنہیں ہوتاتھا۔ مگرہاں،جب اس کامتعین وقت آپہنچتاتواسے مجبوراً،چاہے نہ چاہے وہاں کاشہری بنناپڑتا۔

اس ویران شہرسے جب بھی کسی کابلاواآتاتولوگ اسے نہلادھلاکر، سفیدکپڑوں میں لپیٹ کر ، اسے کندھوں پراٹھائے اشک بارآنکھوں سے اس پراسرارجگہ پہنچادیتے اور وہاں اس کے لیے دوگززمین کاتنگ وتاریک مکان بناتے اوراس پر مٹی کے تودے اور کچی لکڑیوں کی چھت ڈال کراسے کروٹ سلاکرواپس آجاتے۔

آج تک کسی آنکھ نے اس وادی ٔہولناک میں بستی سے بلائے گئے کسی بھی انسان کو چلتے پھرتے نہیں دیکھاتھا، نہ کسی کے قہقہے گونجتے ہوئے سنے گئے اورنہ ہی کسی کی پکارپردہ سماعت سے ٹکرائی تھی ۔

’’کیساشہرتھاوہ! کیسے لوگ تھے وہ! وہاں لوگوں کوکیوں بلایاجاتاتھا! کون سی ہستی جیتے جاگتے ، ہنستے کھیلتے انسانوں کوبے بس کرکے ایک بے جان پتلے میں تبدیل کردیتی تھی اور پھر بستی کے لوگ اس پتلے کواسی کھنڈرات کے دامن میں واقع دوگزکے مکان میں بے یارومددگارچھوڑکرچلے آتے تھے!یاپھراسے دیکھتے ہی دیکھتے دہکتے شعلوں کی نذرکردیتے تھے !آخرنہ چاہتے ہوئے بھی بستی کاکوئی نہ کوئی آدمی اس سرزمین کاباسی کیوں بن جاتاتھا!‘‘

ان پیچیدہ خیالات میں الجھے ہوئے وہ گڈمڈسوالات تھے جوآج بستی کے اورایک آدمی کے اس ہولناک دیارکاشہری بننے پرہرطرف عفریت بن کر فضاء میں منڈلارہے تھے۔ آج تک کسی کے سمجھ میں یہ فلسفہ نہیں آیاکہ آخراس پراسرارآبادی کابانی کون تھا اورکیوں کریہ آبادکی گئی؟

بستی کے اُس نئے مسافرکو اس کی آخری منزل تک الوداع کہنے کے بعد تعزیت دہندہ مرحوم کے گھرپرجمع تھے، ہرطرف سرگوشیاں ہورہی تھیں ، عورتوں کی دلدوزآہوں، بچوں کی دیکھادیکھی، معصوم آنسؤوں کے قطارسے پوری بستی بوجھل بوجھل اوربھیگی بھیگی سی ہورہی تھی۔ مردوں کی آنکھوں میں آنسوں سیسے کی طرح جم کررہ گئے تھے ۔

’’بھیاسناگیاہے پرسوں رات کھنڈروں والی بستی میں کوئی انسان زورزورسے چیخ رہاتھا……اور……ہائے رے……ہائے رے…… مجھے بچالو……اب میں کبھی جرم نہیں کروں گا……کبھی کسی کی عزت پر ڈاکا نہیں ڈالوں گا……سودنہیں لوں گا………………‘‘مجمع میں سے شیخونامی ایک معمرشخص نے کانپتے ہوئے کہا۔

کیاکہاآپ نے !! اس سناٹے میں چیخ……!!سب نے بیک زبان کہا!

’’ہاں! ہم نے اپنے ان کانوں سے سناہے ، اور اسے زورزورسے چیختے اوریہ سب باتیں کہتے ہوئے میں نے بھی سنی ہے۔ ‘‘ شیخونے خوف ودہشت کی ملی جلی کیفیت میں کہا۔

’’……اور……ہائے رے مجھے بچالو……اب میں کبھی جرم نہیں کروں گا……کبھی کسی کی عزت پر ڈاکا نہیں ڈالوں گا……سودنہیں لوں گا………………‘‘ یہ کس کی آوازہوسکتی ہے؟؟ ارے ہاں !! ہونہ ہویہ ماسٹرکلّو کی آوازہوگی……!! کیوں کہ وہی سودکا کاروبار کرتاتھا۔ ابھی پچھلے سال ہی تواس کابلاواآیاتھااورہم نے اسے اُس کھنڈروں میں پہنچایاتھا۔ اورکمبخت مرتے مرتے اپنے بیٹوں کوبھی وصیت کرگیاتھاکہ پڑوسی کے یہاں جومیں نے دس ہزارروپئے ہرمہینے دوہزارکے سودپردیے ہیں۔ انہیں تم ضروروصول کرتے رہنا۔اورہاں یادرکھنابھولنامت ۔میں دس سال سے برابراس سے سودلیتارہاہوں۔مگراب میرابلاوآرہاہے۔اس لیے میں……میں…… مجبورہوں ۔یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بندکرلیں تھی اور پھرکبھی نہ اٹھا۔‘‘ ایک دوسرے آدمی نے اپنی یادداشت پرزوردیتے ہوئے کہا۔

’’ارے مومن بھیا! جیسی کرنی ویسی بھرنی! بھگوان جھوٹ نہ بلوائے۔پچھلے سال اس نے پاس بستی کے کھلیانوں میں اس لیے آگ لگادی تھی کہ وہاں کے لوگوں نے اس کے ظلم کے خلاف تحصیل دارسے نالش کرنے کی تیاری کی تھی کہ اچانک اس ظالم کو کانوں کان خبرہوگئی اور پھر اس نے غریب کسانوں کے سال بھرکے ارمانوں میں آگ لگاکرخاک کردیا!!‘‘کشنوکاکانے کھنکھارتے ہوئے کہا۔کچھ دیرکے بعد ساراچوپال سنسان ہوگیالوگ زندگی کے میلے میں ہمیشہ کی طرح کھوگئے ۔

عرصہ درازکے بعد پھر ایک بار کھنڈروں کے دامن میں شعلے دہکتے ہوئے نظرآئے،اورفضاء میں عجیب سی بومحسوس کی جانے لگی، انسانی ہڈیوں کے چٹخنے کی آوازلاوہ بن کرلوگوں کے کان سے ٹکرارہی تھی۔

دہکتاسورج آسمان کے درمیان میں معلق ہوگیاتھا۔نجمہ نے گھبراکرادھرادھردیکھا۔اورگھرسے باہرنکل آئی ۔عجیب سی مہک اس کے نتھنوں سے ٹکرارہی تھی، قریب تھاکہ اسے قے آجاتی۔اورکسی چیزکی چرچراہٹ مسلسل اسے پریشان کیے دے رہی تھی۔

ہے لچھمی! یہ کیسی بوباس ہے رے !! اوریہ کیاچرچراہٹ کی آوازہے ؟؟ نجمہ نے باہرسڑک پرکھڑی ہوئی لچھمی کو ٹہوکالگائے ہوئے کہا۔‘‘ ارے بہن تمہیں معلوم نہیں! آج رات شُکلہ بنیاگزرگیا۔ اورابھی ابھی تھوڑی دیرپہلے اسے کھنڈروں کے دامن میں واقع شمشان گھاٹ میں جلانے کے لیے لے گئے ہیں۔ یہ اسی کے ہڈیوں کے بوکرنے اور جلنے کی آوازہے۔‘‘لچھمی نے افسوس کرتے ہوئے کہا ۔

دونوں تھوڑی دیرتک کھڑی افسوس بھری نگاہوں سے فضاء میں اٹھتے ہوئے کالے لے دھویں کے چکراتے مرغولوں کوگھورتی رہیں اور پھر ایک طرف بیٹھ گئیں۔ اچانک نجمہ نے خاموشی کے اس پردہ کوچاک کیا اورسرگوشیوں میں کہا’لچھمی !ایک بات توبتا! یہ شکلہ تووہی بنیاہے ناجس نے دشمنی کی وجہ سے اپنی اچھی خاصی گائے کو اپنے پڑوسی ہری لال کے جانوروں کے باڑے میں باندھ کر خودہی اس کاگلہ رسییوں سے دباکر، اس پر گؤہتھیاکاالزام لگایاتھااورپھر برہمنوں نے اسے گؤہتھیا کے اس جرم میں گاؤں چھوڑنے اور سات سال تک اسے دردربھیک مانگنے کے لیے مجبور کردیاتھا …… اوربیچارہ اب بھی جوگی بنا …… دوار……دوار……بھٹک رہاہے……ابھی تک اس کے سنکٹ کے دن پورے نہیں ہوئے……!!‘‘

ہاں وہی ہے بہن! بڑاظالم تھا وہ انسان! نہ جانے اس نے کیاکیاپاپ کئے تھے !تبھی تواس کی ہڈیاں اس طرح توڑی جارہی ہیں اور اس کاجسم اس طرح جل رہاہے!!لچھمی نے ناک سکوڑتے ہوئے رہی سہی کسرپوری کردی۔

کچھ بھی ہوبہن! یہ توایک اٹل حقیقت ہے۔ چاہے شُکلہ ہویاماسٹرنصروہرایک کواپنی دوگززمین یاپھر دہکتے شعلوں کی نذرہونا پڑے گا۔جگت کی ریت یہی ہے۔یہی زمانہ کادستور اوررسم ورواج ہے۔’’نجمہ نے سرآہ بھرتے ہوئے کہا۔

’’ہاں ایک بات توصاف ہوچکی ہے کہ آخرانسان جوکچھ اس دھرتی پرکرتاہے چاہے نیکی ہویاپاپ اس کاحساب تواسے دیناہی پڑے گا۔ اوراس کے لیے کوئی نہ کوئی جگہ توہونی ہی چاہئے ۔شایداسی لیے وہ شہربسایاگیاہے۔اوراسی لیے ہرایک کووہاں پرلے جایاجاتاہے۔اورپھرایشور کی طرف سے وہاں فیصلے ہوتے ہیں اور قصوروارکوسزادی جاتی ہے جس کی آوازکبھی کبھی ہمیں بھی سنائی دیتی ہے۔ اور جولوگ نیک اور اچھے ہوتے ہیں وہ جلائے جانے یاہزاروں ٹن مٹی میں دفن ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ میٹھی نیندسوتے ہیں ۔‘‘لچھمی نے خلاؤں میں گھورتے ہوئے کہا۔

’’ہاں بہن! ہمارااسلام تویہ کہتاہے کہ جب انسان مرجاتاہے اوراسے قبرمیں دفن کردیاجاتا ہے تو اس پرہول سٹاٹے کوٹھڑی میں مردہ کی ساری کاروائی پلک جھپکتے ہی نہایت پرسکون اندازمیں ہوجاتی ہے۔اسی لیے توکوئی آوازنہیں آتی کیوں کہ وہاں فیصلے خدائی نظام کے تحت ہوتے ہیں، جس کاسمجھناہمارے سمجھ سے باہرہے۔ اورخداتعالیٰ اس کے کیے کاپوراپورابدلہ تول تول کربغیرکمی بیشی کے دے دیتے ہیں۔

اگرگنہگاراورپاپی ہوتاہے تواسے سخت ترین سزادی جاتی ہے اورکبھی کبھی اس شہرخموشاں سے تکلیف اورعذاب کے بھڑکتے شعلوں میں اس کی آوازہمیں بھی سنوائی جاتی ہے تاکہ ہم لوگ سنبھل جائیں اورنیک کام کرکے اِسی شہرکاشہری بننے کے لیے ہم اپنے آپ بھی تیارکرلیں۔‘‘نجمہ نے جاتے جاتے کہا۔

اذان کی آوازلاؤڈسپیکرسے نکل کر فضاؤں میں توحیدکے نغمے بکھیرنے لگی۔اچانک نجمہ نے اپنا سرکتادوپٹہ اپنے سرپرڈالا اوریہ بڑبڑاتے ہوئے گھرمیں داخل ہوگئی :
ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کرلے جو کرنا ہے آخر موت ہے
Abdullah Salman Riaz
About the Author: Abdullah Salman Riaz Read More Articles by Abdullah Salman Riaz: 12 Articles with 36698 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.