ہمارے اساتذہ کی گاڑی آگے ہوجائے
تو وہ آہستہ ہوا تو پچھلی گاڑی پیچھے ہی رک گئی۔ وجہ پوچھی گئی تو معلوم
ہوا کہ پچھلی گاڑی کا ڈرائیور شاگرد تھا اور اگلی گاڑی کا ڈرائیور استاد
تھا اب ان طلبہ کو سمجھ آئی کہ استاد کا ادب اس شاگرد کو آگے نہیں بڑھنے
دیتا تھا۔
ایک یورپ کے لکھنے والے جن کا نام کارنیگی ہے اور ان کی کتابیں اردو میں
بھی ترجمہ ہوتی رہیں لوگ جب ان کی تحریریں دیکھتے تو ہر ایک کے اپنے تاثرات
ہوتے کسی کو ان کی تحریر پسند آتی اور کوئی ناپسند کرتا جب میں نے ان کی
تحریروں کا مطالعہ کیا تو میں نے دنیا میں کامیابی کی لئے تو ان کی تحریروں
کو اچھا سمجھا مگر ساتھ ہی ایک بات جو کہ مجھے کھٹکتی تھی وہ یہ کہ دھوکہ
دیکر دل نہ چاہتے ہوئے دوسروں کی تعریف کرنا اور ان کے بچوں سے پیار محبت
کرنا (جبکہ دل نہ چاہ رہا ہو مگر دنیاوی فائدہ کیلئے جھوٹ بولو گے تو
منافقت ہوئی نا؟)
میں نے سوچا کہ یہ باتیں یہ اعمال تو ہمیں ماں کی گود میں سکھائے جاتے ہیں
اور بغیر لالچ کے ہر ایک سے محبت کرنا‘ پیار کرنا‘ بڑوں کا ادب و احترام
کرنا اور آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کرنا‘ یہ تو ہمیں ہماری مائیں گود ہی میں
لوریاں کہہ کر سب کچھ سکھادیتی ہیں مجھے ان لوگوں پر بڑی حیرانگی ہوئی جو
کارل لائل ڈینگی کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے تھے۔
میرے ایک کلاس فیلو نے ایک عجیب بات مجھے بتائی جو کہ سونے سے لکھنے کے
قابل تھی وہ یہ کہ تمام دنیا میں امن کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے استادوں کا
ادب کریں۔
وہ ایسے کہ تمام دنیا کے جو انسان ہیں کہ جو بات جس کسی کے علم میں آئے جو
کہ اس سے پہلے اس کے علم میں نہ تھی تو یہ بات جو کہ اس شخص نے بتائی تو
بتانے والا استاد ٹھہرا اور سننے والا شاگرد ہر ہر شخص جس کے علم میں جو
بات جس کے ذریعے آئی وہ استاد اور پہلے آنے والا شاگرد ہوا اور ادب اور
احترام کا عمل شروع ہوگیا کہ ہر کوئی دوسرے یا تیسرے یا چوتھے یا پانچویں
کا شاگرد ہوگا ہم اس معاشرے میں بڑے پیار سے رہ رہے ہیں مگر ہم سب اگر آپس
میں ادب و احترام سے رہیں تو تمام مسائل کا حل موجود— ورنہ ہر کوئی اپنی
اپنی علیحدہ علیحدہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالے گا۔
بروز جمعہ المبارک کو تقریر کے دوران مولوی صاحب استاد و شاگر کا تعلق بتا
رہے تھے۔ علمائے کرام کا ایک وفد جو کہ 35/30 افراد (علماءاور ان کے شاگرد)
کسی پروگرام میں شرکت کیلئے جارہے تھے جو کہ دو گاڑیوں میں تھا لامحالہ
گاڑیوں کو تو آگے پیچھے ہی ہونا تھا اب ایک گاڑی آگے اور دوسری پیچھے اتفاق
سے تمام علمائے کرام ایک گاڑی میں اور طلبہ (شاگرد) دوسری گاڑی میں تھے
اگلی والی گاڑی میں طلبہ شاگرد اور پیچھے والی گاڑی میں اساتذہ کرام تھے کہ
ایک طالب نے جو کہ ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ڈرائیور کو کہا کہ خان
صاحب آپ مہربانی کرکے رک جائیں یا آہستہ ہوجائیں کہ ہمارے اساتذہ کی گاڑی
آگے ہوجائے تو وہ آہستہ ہوا تو پچھلی گاڑی پیچھے ہی رک گئی۔ وجہ پوچھی گئی
تو معلوم ہوا کہ پچھلی گاڑی کا ڈرائیور شاگرد تھا اور اگلی گاڑی کا ڈرائیور
استاد تھا اب ان طلبہ کو سمجھ آئی کہ استاد کا ادب اس شاگرد کو آگے نہیں
بڑھنے دیتا تھا۔
یہ ہے استاد اور شاگرد کا تعلق ادب احترام اور شفقت— اسی طرح مجھے جو کہ
انڈیا کے ایک انگریزی اخبارکے صحافی جو کہ (کلدیپ نیر کے نام سے لکھتے ہیں)
لاہور میں پڑھتے تھے رہائش ہی لاہور کی تھی‘ بٹوارے کے بعد ہندوستان ہجرت
کرگئے‘ تقسیم کے بعد کچھ عرصہ بعد لاہور کی یاد آئی تو لاہور دیکھنے آگئے‘
اپنے علاقہ محلے کے دوستوں‘ سکول‘ کالج کے لڑکوں دوستوں سے ملے۔ پنجاب
یونیورسٹی بھی گئے ان کے ساتھ ان کا ایک کلاس فیلو بھی تھا جو کہ پاکستانی
مسلمان تھا آپس میں پرانی یادیں تازہ کررہے ہیں‘ اساتذہ (پروفیسروں) کے
بارے میں باتیں ہورہی ہیں‘ فلاں پروفیسر فلاں فلاں مگرسب تقریباً یا تو اس
دنیا سے رخصت ہوگئے یا تبادلہ ہوگیا۔ ناگہاہ ایک پروفیسر صاحب سامنے سے
آرہے تھے ارے! ابھی آپ اُن پروفیسر صاحب کا پوچھ رہے تھے جن کا انتقال
ہوچکا ہے۔ یہ صاحب ہمارے اس محترم استاد کے لائق بیٹے ہیں تو کلدیپ نیر
صاحب آگے بڑھے اور پروفیسر صاحب (مرحوم پروفیسر کے بیٹے) کے پاؤں چھوئے‘
پروفیسر صاحب گھبرا گئے ارے یہ کیا بے ادبی کررہے ہیں؟ آپ بزرگ ہیں‘ احترام
تو مجھے کرنا چاہیے مگر آپ؟ تو ایک دم کلدیپ نیر صاحب کا پاکستانی کلاس
فیلو بول پڑا کہ میں اور یہ صاحب (کلدیپ نیر) مرحوم پروفیسر (آپ کے والد
صاحب) ہمارے استاد تھے تو میں نے کہا کہ پروفیسر صاحب تو مرحوم ہوگئے یہ
بھی ان ہی کی طرح علم پھیلانے میں مصروف ہیں اور یہ ان ہی کے صاحبزادے ہیں
تو محبت اور احترام نے ان کو مجبورکردیا کہ یہ آپ کے پاو ¿ں چھوئیں۔ (شاید
کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات) |