ارسطو کا مشہور قول ہے ’’کتاب
قوموں پر حکم رانی کرتی ہے‘‘ اسی طرح فیضی کہتا ہے اگر میرے سامنے تحت شاہی
اور کتابیں رکھ دی جائیں تو میں کتابوں کو ترجیح دوں گا، کتاب سیرت و
رشدورہنمائی کا ذریعہ ہے، تکمیل عبادت ہے اور تکریم و تسکین ہے، جس سے
کائنات ہستی کا مظہر اور فرشوں سے بھی بلند درجہ حاصل کر کے دوام حاصل کیا
تو اس کتاب کی قدر منزلت کیا ہو گی کہ جو اشرف المخلوقات کے لیے اتاری گئی
آج کے اس دور میں تہذیب و تمدن سے آشنا ہونے کے باوجود بھی اسلوب نیرنگ کے
ناشناسائی اور ضمیر اندو کل سے نے خبری آکر کیوں؟ آج مطالعے کی سخت کمی
ہے۔خصوصاً نوجوان طبقہ اپنی نصابی کتب بھی پوری نہیں کر پاتے،آج کے نوجوان
کا دماغ اتنا ہی کام کرتا ہے جتنا پرانے زمانے کے انسانوں کا کرتا
تھا،حالاں کہ پرانے زمانے میں اتنے ذرائع موجود نہیں تھے جتنے آج موجود ہیں
آج تو انسان انٹرنیٹ پر بیٹھ کر لاکھوں کتابوں کا مطالعہ کر سکتا
ہے۔انگلینڈ کی ایک بڑی لائبریری جس میں لاکھوں کتب موجود ہیں وہ تمام کتب
لائبریری کی انتظامیہ نے انٹر نیٹ پر کاپی کر دی ہیں جو گھر بیٹھے انٹرنیٹ
آسانی سے پڑھی جا سکتی ہیں۔ آج نوجوان تاریخ (ہسٹری) سے بھی ناآشنا ہیں، آج
کے نوجوان اور ماضی کے نوجوان کا مطالعے کے حوالے سے موازنہ کیا جائے تو
قدر مایوسی ہوگی۔تاریخ کے اوراق پرکھے ابن سکویہ کتابوں کا بڑا دلدادہ تھا۔
اس نے ہزاروں کتابیں جمع کر رکھی تھیں۔ اس کا خاص مشغلہ مطالعہ اور تفکر و
تدبر تھا۔ اس کی قابلیت اور شہرت سے متاثر ہو کر ایک امیر نے اس کو خفیہ خط
لکھا اور وزارت کا عہدہ پیش کیا ابن سکویہ اپنے عملی مشاغل میں کمی نہیں
چاہتا تھا چنانچہ اس نے امیر سے معافی چاہی اور جواب لکھا اے امیر صرف
کتابوں کو ساتھ لانے کیلئے مجھے چار سو اُونٹوں کی ضرورت پڑے گی۔سنن ابن
ماجہ کی حدیث مبارکہ ہے ’’آپ ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو دنیا کی کتنی ہی قومیں
تمہارے پاس آئیں گی علم کی طلب میں،تو تم انہیں مرحباً کہنا اور انہیں علم
سکھانا‘‘حضرت علیؓ کہا کرتے تھے کہ مجھ سے علم حاصل کرو اور میں علم کا
سمندر ہوں اور ہے کوئی جو مجھ سے علم لے جائے۔ آپؓ نے فرمایا علم تمہاری
حفاظت کرے گا۔ آج نوجوان کو موبائلز میسج اور کال سے فرصت ملے تو وہ مطالعے
کیطرف آئے مطالعے کی انتہائی کمی اور کتابوں سے دوری کی ہمیں کیا سزا ملی؟
علی بن عیسیٰ نے امراض چشم پر ایک انسائیکلو پیڈیا کتاب تذکرہ الک ح لین
تحریر کی جس کے بعد یورپ اور دیگر کوئی بھی فرد اس میں مزید اضافہ نہ کر
سکا، پھر جب یورپ نے ان کتابوں سے استفادہ کیا او ران کتابوں کو اپنی
زبانوں میں منتقل کر لیاپھر بنیاد پر عمارت کی تعمیر شروع ہوئی اور انگریز
جب برصغیر آئے تو جو کتابیں ساتھ لے کر جا سکتے تھے، وہ لے گئے یعنی 91 فی
صد ساتھ لے گئے اور کچھ جلا دی اور کچھ دریا میں بہادی۔ہمارے دین اسلام نے
پڑھنے (مطالعے غور و فکر) پر زور دیا ہے، اﷲ رب العزت نے ہمارے نبی حضرت
محمدؐ پر جو پہلی آیت نازل کی وہ یہی تھی۔
ترجمہ: ’’پڑھ اﷲ کے نام سے جس نے انسان کو پیدا کیا‘‘
تاریخ بہترین سبق ہے اگر اس سے کوئی قوم سبق نہ سیکھے تو ذلت ہی اس کا مقد
رٹھہرتی ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنا کھویہ ہوا مقام واپس حاصل
کریں اور شوق مطالعہ کو فروغ۔ آج یورپ جو ترقی کی منازل طے کر رہا ہے وہ تو
مسلمان مصنفین کی کتابیں اور مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک کے باعث ہے آپ
روشناس حقیقت ہوں کہ آپ دُنیا کو کیا دے رہے ہیں نہ کہ دنیا آپ کو کیا دے
رہی ہے۔ چین اور دنیا کے دیگر ممالک ضرور جائیں مگر نصیرالدین ہمایوں کی
طرح کتاب آپ کے پاس موجود ہو، جو جنگ کی حالت میں کتابوں کو ساتھ رکھتے تھے۔
علم کسی کی میراث نہیں نہ ہی اس کے حاصل کرنے میں قیود کے پابند۔ یہ وہ نور
تین ہے جو چمکنے سے ہر ایک کو روشن کر دیتا ہے اور اس کوشش میں کہاں تک
کامیاب ہوا ہوں یہ اب آپ کے مطالعے (علم) کی تڑپ ہے جو کہ بحربے کراں کیلئے
ہے۔ آپ علاقے کی سطح پر دوست احباب کو ملا کر لائبریری کا قیام عمل میں
لائیں اور روزانہ ایک گھنٹہ کم از کم ہسٹری، اسلامی کتب سائنس کا مطالعہ
ضرور کریں تاکہ مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام واپس لے سکیں۔ اﷲ رب العزت
پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ (آمین) |