کوئی مانے نہ مانے حقیقت یہی ہے

اس تحریر میں ہم ایک ایسی تقریب سعید کے آداب لکھنے جا رہے ہیں ۔ جو سب تقریبوں کی سردار تقریب ہے۔ ہم اس محفل کے آداب لکھ رہے ہیں جو تمام محافل کی جان ہے۔ ہم اس جلسہ کے آداب لکھنا چاہ رہے ہیں جو سب جلسوں کی بنیاد ہے۔ ایسا بہت پہلے ہوتا تھا کہ جوں ہی ربیع الاول کا چاند نظر آتا تھا ۔ تو ملک کے طول وعرض میں میلاد شریف کی محافل کا انعقاد شروع ہو جاتا تھا۔ مسلمان اپنے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آمد کی خوشی اسی مہینہ میں ہی منایا کرتے تھے۔ لیکن اب وہ صورتحال نہیں رہی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ
( اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) ” آپ کیلئے ہر آنے والا زمانہ گزرے ہوئے زمانے سے بہتر ہو گا۔ “
ایک اورمقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ذیشان ہے کہ
(اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) ” ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند کر دیا ہے “

یہی وجہ ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے محافل میلاد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ان محافل میلاد کا سلسلہ اب ربیع الاول تک ہی محدود نہیں رہا ۔ اب تو سارا سال ہی ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ البتہ ربیع الاول میں ان محافل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جو مسلمان سارا سال میلاد کی محفل نہیں کراتے ۔ وہ اس مہینہ میں ضرور کراتے ہیں۔ اب تو ہمارے شہر میں ہر ماہ دس سے بارہ محافل منعقد کی جا رہی ہیں ۔ ماہانہ محافل یوں تو طویل عرصہ سے منعقد کی جا رہی ہیں تاہم ان میں باقائدگی گذشتہ بارہ سال سے آئی ہے اب تو ہفتہ وار محافل کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس وقت اگر چہ ماہانہ اور ہفتہ وار محافل کا انعقاد محدود پیمانہ پر ہی ہے۔ جن میں حاضرین کی محدود تعداد شامل ہو تی ہے۔ تاہم ان محافل کا تسلسل کے ساتھ ہونا بھی اہمیت سے خالی نہیں ہے۔ بڑی محافل جن میں بڑے بڑے نعت خوانوں اور علماءکرام کو بلایا جاتا ہے ۔ پہلے ایسی محافل بھی ربیع الاول کے مہینہ میں ہوا کرتی تھیں۔ اب اس طرح کی محافل بھی سارا سال جاری رہتی ہیں اب اس طرح کی محافل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ میلاد کی محافل کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے ۔ اس کے شرکاءکا جوش جذبہ بھی قابل تعریف ہوتا ہے۔ محافل کے انتظامات بھی اچھے ہوتے ہیں ۔ نہ جانے کیا بات ہے کہ ان محافل میں وہ روحانیت نہیں ہے جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ محفل میں آنے والے اس روحانیت سے اب محروم ہی رہ جاتے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ جس جگہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام لیا جائے۔ چرچا کیا جائے ذکر کیا جائے اوراس جگہ اس مقام پر اللہ پاک کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اب میلاد شریف جیسی بابرکت محافل بھی روحانیت سے خالی ہوتی ہیں۔ ان محافل میں وہ رنگ نہیں ہوتا جو اب سے پندرہ سال پہلے ہوا کرتا تھا۔ میلاد مصطفی کی محفل ہو اور اس میں روحانیت اوررنگ نہ ہو یہ بات عجیب ہی نہیں تشویش ناک بھی ہے۔ ان محافل کی شان تو یہ ہے کہ ان میں شریک وہ شخص بھی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے محروم نہیں رہتا جو محفل یا میلاد کی نیت سے نہیں کسی اور ارادے سے آتا ہے تو پھر کیا بات ہے کہ ان محافل میں روحانیت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس بات پرغور کیا جائے تو ہم ہی اس کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔ ایسی محافل جن میں شرکاءکی تعداد ایک سو سے کم ہوتی ہے ان میں اب بھی روحانیت پائی جاتی ہے۔بات اصل میںیہ ہے کہ پہلے ہم دنیاوی کام دیکھا دیکھی کیا کرتے تھے ۔ اب دین کے کام بھی دیکھا دیکھی کرتے ہیں۔ اسی طرح میلاد کی محافل بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی ہی کرتے ہیں ۔ جس محبت، جذبہ اورشوق سے ایسی محافل اب سے پندرہ بیس سال پہلے کیا کرتے تھے۔ اس محبت اور جذبہ سے اب نہیں کرتے۔ اب میلاد شریف جیسی مقدس محافل بھی ہم رسم کے طور پر کرتے ہیں محبت اور عشق کے طور پر نہیں کرتے۔ ایسے عشاق رسول آج بھی پائے جاتے ہیں جو میلاد کی محافل محبت اور خلوص کے ساتھ منعقد کرتے ہیں۔ لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ہمارا ٹارگٹ ہوتا ہے کہ شرکاءزیادہ سے زیادہ آئیں۔ تاکہ لوگ کہیں کہ ہم نے بہت بڑا میلاد کرایا ہے۔ اس مقصد کیلئے بڑے بڑے اشتہار بھی شائع کرائے جاتے ہیں ۔ ان کا مقصود ظاہر میں تو یہ ہوتا ہے کہ عوام کو پتہ چل جائے کہ کس جگہ کس دن اور کون سے وقت میلاد کی محفل کرائی جا رہی ہے۔ تاکہ محبت رکھنے والے شامل ہو سکیں۔ اس کے ذریعے ہم اپنی مشہوری بھی کراتے ہیں۔ ان محافل میں جن علماءاور نعت خوانوں کو بلایا جاتا ہے جن سے کسی نہ کسی حوالے سے تعلق ہوتا ہے۔ ہم علماءاور نعت خوانوں کو تعلق کی بنیاد پر مدعو کیا کرتے ہیں۔ محبت کی بنیاد پر نہیں۔ جس سے ہمارا تعلق نہ ہو چاہے وہ کتنا ہی معیاری کلام ہی کیوں نہ پڑھتا ہو اس کو نہ تو ہم دعوت دیتے ہیں او ر نہ ہی اس کو پڑھنے دیتے ہیں۔ اگر مجبوری سے اسے وقت دینا بھی پڑجائے تو مشکل سے دو منٹ دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارا کوئی تعلق دار ہے چاہے وہ گانوں کی طرز پر ہی نعتیں کیوں نہ پڑھتا ہو اس کو شوق سے بلاتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں۔ روحانیت عشق، محبت اور خلوص سے آیا کرتی ہے تعلق نبھانے سے نہیں آتی۔ اب پہلے والا جذبہ نہ تو میزبانوں میں پایا جاتا ہے اور نہ ہی مہمانوں میں۔ نہ سنانے والے پہلے جیسے شوق اور محبت سے سناتے ہیں اور نہ ہی سننے والوں میں پہلے جیسا جذبہ اور شوق پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایسی ایسی سنگین غلطیاں کر جاتے ہیں کہ ہمیں ان کا شعور ہی نہیں ہوتا۔ اب اگر کوئی عالم دین سٹیج پر نصیحت کی بات کردے تو کہتے ہیں کہ اس کو سن کر مزہ نہیں آیا۔ سپیکر اسمبلی اسمبلی کی کاروائی چلاتا ہے۔ اور نقیب محفل محفل کی کاروائی چلاتا ہے۔ یہ ہر محفل کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ اس کا کام محفل کی کاروائی چلانا اور اس میں نظم و ضبط قائم رکھنا ہوتا ہے۔ جب کہ آج کے پیشہ ور نقیب اپنی اصل ڈیوٹی تو کسی گڑھے میں دفن کر آتے ہیں۔ وہ خوشامد در خوشامد کرکے اپنی دیہاڑی بنانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ جو افراد ان کو زیادہ نظرانے دیتے ہیں ان کو سٹیج کے ساتھ بلا لیتے ہیں اور بار بار ان کی تعریفیں کرتے ہیں ۔ اتنی تعریف وہ اس ہستی کی نہیں کرتے جس عظیم ہستی کی یاد میں وہ محفل سجائی گئی ہوتی ہے۔ محفل میں روحانیت اور رنگ بنانے میں نقیب محفل کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ افسوس کہ نامور نقیبوں نے اپنا یہ کردار ادا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ رٹے رٹائے اشعار اور جملے یاد کر لیے جاتے ہیں اور ہر محفل میں وہی اشعار اور جملے طوطے کی طرح سنا دیے جاتے ہیں ۔ محفل کے شرکاءکس طرح بیٹھے کیا کر رہے ہیں۔ ان کی توجہ کس طرف ہے اس سے ان کو کوئی غرض نہیں ہوتی۔ نقابت کرنا بہت دور ہے ہم نے آج تک ایسا نقیب نہیں سنا جس نے اس کا حق ادا کیا ہو۔ نقیب ایسی نقابت کرے جیسا کرنے کا حق ہے اور محفل میں روحانیت نہ آئے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ بات بھی اٹل حقیقت ہے میلاد کی محافل میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لے آتے ہیں ۔ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میلاد کی محفل میں تشریف لاتے ہیں تشہیری مہم کی محافل میں نہیں ۔جیسا کہ ہم پہلے بھی اس تحریر میں لکھ چکے ہیں کہ ہم علماءاور نعت خوانوں کو ہم تعلق کی بنیاد پر ہی مدعو کرتے ہیں ۔ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ اس کو بلاتے ہیں جس کی آواز اچھی ہو ۔ یہ نہیں دیکھتے وہ کلام کیسے پڑھتا ہے۔ چاہے وہ تعریف کی جگہ گستاخی آمیز کلام ہی کیوں نہ پڑھتا ہو۔ اب توہین آمیز نعتیہ کلام بہت زیادہ پڑھے اور سنے جا رہے ہیں ۔ اور جو نشاندہی کردے تو اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ بھی بادشاہ ہے۔ لکھنے والا پاگل ہے کیا اس نے یہ لکھ دیا ہے تو ہم کیوں نہ پڑھیں اور سنیں۔لیکن یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اس نے لکھا کیا ہے اور اس کا مطلب کیا نکلتا ہے۔ اور نعت خواں صاحبان بھی ان محافل میں جاتے ہیں جہاں سے ان کی آمدنی ہونے کی امید ہوتی ہے۔ کچھ تو باقاعدہ طے کرکے ہی آتے ہیں ۔ جس محفل میں ایسی کوئی توقع نہ ہو تو وہاں جاتے ہی نہیں ۔ بہت کم ہی ایسے نعت خواں ہیں جو صرف محبت اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خوشنودی کیلئے ہی پڑھتے ہیں ۔ محفل کے پنڈال کی خوبصورتی کیلئے بینرز وغیرہ لگائے جاتے ہیں ۔ یہ سٹیج کے پیچھے بھی لگائے جاتے ہیں ۔ جو بھی سٹیج پر آتا ہے تو اس کی اس طرف پیٹھ ہو رہی ہوتی ہے۔ بہت کم مولوی اور نعت خواں ہوتے ہیں اس طرح مائیک پر کھڑے ہوتے ہیں کہ قابل احترام بینرز کی طرف ان کی پیٹھ نہیں ہوتی۔ سنانے والے تو رہے سنانے والے سننے والے بھی تعلق اور دوستی کی بنیاد پر محافل میلاد میں جاتے ہیں ۔ عشق ، محبت اور خلوص کے ساتھ نہیں ۔ گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھی اور سنی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اب نعتوں کے ساتھ فلمی گانوں کی طرح ڈانس بھی کیا جانے لگا ہے۔ نقیب محفل بار بار شرکاءسے زبردستی حلف بھی لیتے رہتے ہیں تاکہ ان کی ڈھاک بیٹھ جائے۔ اور زبردستی شرکاءکی زبانوں سے سبحان اللہ کہلوایا جاتا ہے۔ مزہ تو تب ہے کہ ایسا کلام سنایا جائے یا ایسی بات کی جائے کہ شرکاءخود کہیں ۔ یوں تو اور بہت سی باتیں جو اس موضوع پر لکھی جا سکتی ہیں تاہم ایک بات جو بہت ضروری ہے کہ ایک طرف تو قرآن پاک کا ختم شریف پڑھا جا رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف لنگر تقسیم ہو رہا ہوتا ہے۔ سب کی توجہ لنگر تقسیم کرنے کی طرف ہوتی ہے قرآن پاک کی طرف نہیں ہوتی۔ حالانکہ قرآن سننا فرض ہے۔ اور لنگر کھانا مستحب ہے۔ ہم مستحب کی خاطر فرض کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہ بھی تو توہین قرآن ہے ۔ اس طرف کسی کی توجہ نہیں۔ اور جو توجہ دلا بھی دے تو اس کی بات سنی ان سنی کر دی جاتی ہے۔ ہم نام تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا لیتے ہیں ۔ اور پھر خود ہی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات کا الٹ بھی کرتے ہیں ۔ کسی بھی عالم دین سے تصدیق کرلیں کہ رحمت دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب بھی کوئی چیز تقسیم فرماتے تھے تو سب سے پہلے اس کو دیتے جو اس محفل میں سب سے چھوٹا ہوتا تھا۔ ہم کیا کرتے ہیں کہ جوں ہی لنگر تقسیم کرنے لگتے ہیں ہم بچوں کو پنڈال سے باہر بھگا دیتے ہیں ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ میزبان کی بھی خلوص نیت سے محفل کراتا ہے اور اس میں آنے والے علماءاور نعت خواں بھی اچھے ہوتے ہیں لیکن میزبان کے جو انتظامات میں معاونین ہوتے ہیں ۔ خلل ڈال دیتے ہیں یا وہ دوستی اورتعلقداری نبھانے لگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے محافل کی روحانیت ختم ہو جایا کرتی ہے۔ ہمیں تو اب روحانیت سے غرض نہیں ۔ ہمیں تو دوستی اور تعلق قائم کرنے سے غرض ہے ایسی بابرکت محافل میں بھی ہم گپ شپ لگا رہے ہوتے ہیں ۔ ہنسی مذاق کررہے ہوتے ہیں ۔ ہم محافل میلاد کے آداب کا خیال کریں ان محافل میں خالص اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خوشنودی کیلئے کرائیں اور ان میںشرکت کریں تو اب بھی روحانیت لوٹ آئے گی۔ اب بھی محفل کا رنگ بن جائے گا۔ اب بھی محفل میں بیٹھنے والوں کو سکون ِ قلب مل سکتا ہے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ اب ان باتوں کی طرف بہت کم مسلمانوں کی توجہ ہے ۔کوئی مانے نہ مانے حقیقت یہی ہے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351209 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.