دین دنیا یہ دو لفظ ہیں ہمارے
معاشرہ میں یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کی ضد اور نقیض کے طور پر استعمال ہوتے
ہیں لیکن اسلامی نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کا تکملہ ہیں، اگر
مسلمان احکام الہی کا اور رضائے الہی کا پابند ہے تو دنیا بھی اس کے لئے
دین ہے اور اگر پابند نہیں ہے تو دین بھی دنیا ہے اور جس کام میں رضائے
الہی کی نیت نہ ہو وہ موجب ثواب نہیں بلکہ نیت خراب ہو تو موجب عقاب ہے۔ اس
وقت مسلم معاشرہ دو قسم کے لوگوں پر مشتمل ہے ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو
احکام الہی کی پابندی کرتے ہیں اور کسی دینی جماعت اور دینی تنظیم سے
وابستہ ہیں، دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو آزاد خیال، آزاد فکر، آزاد رو اور
آزاد طبع ہیں اور کسی پابندی کو قبول نہیں کرتے ہیں وہ احکامِ الہی سے رو
گرداں ہیں اور عام طور پر مغربی طرز زندگی کے دلدادہ ہیں ،ان کی زندگی میں
نہ نماز ہے نہ روزہ نہ پردہ حجاب، تقریباً ہر ملک میں مسلم معاشرہ ان ہی
دوقسموں میں بٹا ہوا ہے۔ ملتِ اسلامیہ میں بہت سے فرقے اور گروہ ہیں لیکن
اصل بڑی تقسیم دیندار اور غیر دیندار طبقہ کی تقسیم ہے امت انہیں دو طبقوں
میں منقسم ہے ایک طبقہ مذہب سے بے گانہ اور بے پرواہ ہے دوسرا طبقہ مذہبی
ہے اور مذہب کاطرفدار ہے اور بڑی حد تک پابندِشریعت ہے اگر چہ ” صفیں کج دل
پریشاںسجدہ بے ذوق“ کا مصداق ہے اور ان میں کچھ لوگ خرافات ِعمل کا بھی
شکار ہیں اور بے روح مذہبیت میں بھی مبتلا ہیں۔اکثریت میںوہ لوگ ہیں جو
مذہب کی گرفت سے آزاد ہیں۔
جو مذہبی جماعتیں ہیں ان کے علماءباہمی کشمکش میں گرفتار ہیں، انہیں اس بات
کا اندازہ ہی نہیں کہ اصل کشمکش ساری دنیا میں مذہب اور لا مذہبیت کے
درمیان اور دینداری اور بے دینی کے درمیان ہے سب کو اس وقت متحدہو کر
لادینیت کا مقابلہ کرنا ہے، علماءکو اور مذہبی تنظیموںاور جماعتوں کے
نمائندوں کو باہمی کشمکش کو چھوڑ کر اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ مذہب کی
گرفت سے مکمل طور پر آزاد جو معاشرہ ہے اس کی طاقت بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی
ہے، اس کا دائرہ پھیل رہا ہے یا کم ہورہا ہے، مسلمانوں کی آبادی کی اکثریت
مسجد میں آتی ہے یا مسجد سے کنارہ کش رہتی ہے، وہ احکام شریعت کی
فرمانبرداری کرتی ہے یا نافرمانی کر تی ہے، وہ عبادت گذار اور تقوی شعار ہے
یا فاسق اور گناہ گار ہے، مسلم جماعتیںادارے خانقاہیں اور مدرسے سب ملکر کر
فسق وفجور کے طوفان پر بند لگانے میں کامیاب ہورہے ہیں یا ناکام ہورہے ہیں،
کس کی جیت ہورہی ہے اور کس کی ہار، کون فاتح ہے اور کون مفتوح، کون غالب ہے
اور کون مغلوب، مسلم معاشرہ کا جائزہ لے کر صاحبِ نظر شاعر اکبر الٰہ بادی
نے ” مسجد میں فقط جمّن“ کہکر اہل دین کی شکست کا اعتراف کرلیا تھا اور اس
کے مقابلہ میں ایک رند مشرب شاعر نے لشکرِ فسق وفجور کی فتح کا ڈنکا اس طرح
بجا یا ہے۔
رہیں نہ رند یہ زاہد کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے دوچار دس کی بات نہیں
مسلم معاشرہ میں یہ جنگ اسلام اور کفر کی جنگ نہیں ہے کیوں کہ جو طبقہ بے
دین ہے اس نے دین کے خلاف کھل کر بغاوت نہیں کی ہے، اس نے ترکِ اسلام کا
اعلان نہیں کیا ،در اصل یہ کشمکش اور یہ سنگھرش بے دینی اور دینداری کے
درمیان ہے اور یہ کشمکش تقوے اور فسق وفجور کے درمیان ہے، یہ کشمکش چراغِ
مصطفوی (دین داری) اور شرار بو لہبی (فسق وفجور) کے درمیان ہے،اور یہ کشمکش
بہت وسیع اور ہمہ گیر ہے۔
بے دینی اور فسق وفجور کے محاذ کی طرف سے نہ خدا کا انکار ہوا ہے نہ رسول
کا اور نہ شریعت کے خلاف واضح طور پر بغاوت کا اعلان ہوا ہے البتہ اس محاذ
نے کہیں کہیں فلسفیانہ اساس بنانے کی کوشش کی ہے لیکن اسے کامیابی نہیں
ملی، مثال کے طور پر احادیث کے انکار کے ذریعہ شریعت میں نقب لگانے کی کوشش
کی گئی اور اس طرح کی کچھ اور بھی کوششیں ہوئی ہیں لیکن علماءنے مدلل جواب
دیا اور یہ سارے فتنے بڑی حد تک فرو ہوگئے۔ الحاد ودہریت کو خود علم جدید
نے قبول نہیں کیا بلکہ علم جدیدخود مذہب کا پشت پناہ بن گیا۔ سائنس خدا کی
گواہی دیتی ہے، اس موضوع پر خود یورپ سے کتابوں کا سیلاب آگیا۔ فلسفیانہ
اساس سے محروم ہونے کے باوجود بے دینی اور آزادروی کا سیلِ بلا خیز ہے جو
تقوی اور دینداری کو خس وخاشاک کی طرح بہالے جارہا ہے۔مشرق مغرب ہر جگہ
تقوی اور دین شکست خوردہ اور زخم خوردہ ہے، باغ ملت خزاں رسیدہ ہے، گلشن
اخلاق ویران ہے، بے دینی اور لا مذہبیت کا طوفان ہے جو بحروبرپر چھا گیا
ہے، ”ظہر الفساد ف¸ البر والبحر“ کی تصویر سامنے آرہی ہے، نہ معاملات درست
ہیں نہ عبادات، قصر شریعت پر حملہ ہے اور اس پر شب خون مارا جارہا ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ بے دینی اوربے قید زند گی کو عالم گیر اقتدار حاصل ہے اور
دین داری اور پابند شریعت زندگی کو شکست اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا
ہے۔ اس صورت حال کاتجزیہ کیا جائے تو اس کے دو بنیادی سبب معلوم ہوتے ہیں
ایک تو وہ حقیقت ہے جس کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے: ”ن النفس لامارة
بالسوئ“ یعنی نفس انسانی بدی کی طرف بہت زیادہ بلانے والا اور اس کی تحریض
کرنے والا ہے۔ جو چیزیں کہ گناہ ہیں ان کو لطف ولذت سے آراستہ کر دیا
گیاہے۔اس لئے خواہشات نفس کا مقابلہ کرنا مشکل ہے اور خواہشات کے نشیب پر
اترنا آسان ہے۔ اس لیے اگر خوف آخرت نہ ہو اور اس کے ساتھ سماج یا حکومت کا
کوئی دباؤ نہ ہو تو انسان کا برائیوں سے بچنا مشکل ہوجاتا ہے بقول اکبر الہ
آبادی
بہت دشوار ہے شائستہ راہ طلب ہونا
نظر کا حد میں رہنا شوق دل کا با ادب ہونا
اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وقت کی غالب تہذیب یعنی مغربی تہذیب میں بھی
نفس کی ترغیبات کی پیروی اور مدہوشی اور بدمستی کا عنصر ایک اہم عنصر ہے،
بلکہ مغربی تہذیب کا یہ تشکیلی عنصر ہے۔ یعنی مغربی تہذیب کی تشکیل میں
خواہشات نفس کے اتباع اور لطف اندوزی اور بوالہوسی کو اساسی اہمیت حاصل ہے۔
جن لوگوں نے مغربی تہذیب کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیںکہ
اس تہذیب کا نسبی تعلق یونانی اور رومی تہذیب سے ہے۔ یونانی تہذیب کے
کھنڈرپر رومی تہذیب قائم ہوئی تھی اور رومی تہذیب کے کھنڈر پر مغربی تہذیب
کی عمارت قائم ہوئی ہے۔ خالص مادہ پرستانہ نگاہ اور دنیا طلبی کا بحران اور
حاسہ مذہبی کا فقدان وہ ترکہ ہے جو موجودہ یورپ کو رومی مورثوں سے ملا ہے۔
یورپ کے اخلاقی انحطاط کا اور تعیش کے سیلاب کا اور حیوانی ہوس رانی کا اگر
سراغ لگایا جائے تو اس کا سبب اہل روماکی عیش پرستی اور عشرت پسندی میں ملے
گا۔ اور چونکہ مغربی تہذیب سائنس اور تکنولوجی پر مکمل گرفت کی وجہ سے بام
عروج پر ہے اس لیے یونان اور روم کی وراثت یعنی اخلاق باختگی بھی پوری دنیا
میں اپنے شباب پر ہے۔ اس کے اثرات دنیا کے تمام ملکوں پر پڑے ہیں اور عالم
اسلام بھی اس سے مستثنی نہیں۔ دنیا میں اسلام اور اسلامی اقدار کے احیاءکا
کام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مغربی تہذیب کے فاسد عناصر کی پورے طور پر
کاٹ نہ کی جائے۔اور اس کے جڑوں پر تیشہ نہ چلایا جائے، مغربی تہذیب کے
مفاسد سے لوگوں کو متنبہ کرنا ضروری ہے۔ لیکن کامل علاج اسی صورت میں ممکن
ہے کہ مغرب کی بالاتری اور بالا دستی کو ختم کیا جائے، قرآن میں ایک حکم
”واعدّوا لہم ما استطعتم“ کا ہے۔ اس آیت میں سامان جنگ کی تیاری کا حکم دیا
گیا ہے۔ یہ تیاری اس درجہ کی ہونی چاہئے کہ ”ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم“ کا
منشا ¿ خداوندی پورا ہوسکے۔ مغربی تہذیب کی جہاں گیری اور جہاںداری کا
خاتمہ اس کے بغیر نہیں ہوسکے گا اور یہ کام ظاہر ہے کہ مسلم حکومتوں کے
کرنے کا ہے۔ اور اس کے لئے سائنس اور ٹکنولوجی میں بہت اونچا مقام حاصل
کرنا ضروری ہے۔ ایسا عظیم انقلاب جو زمانہ کا رنگ بدل دے صرف طاقتور مسلم
حکومت کے ذریعہ بر پا کیاجاسکتا ہے۔
بیسوی صدی تحریکات کی صدی ہے، نئے نئے ازم اور فلسفے تراشے گئے اور ان کو
مقبولِ عام بنانے کے لئے کانفرنسیں منعقد گی گئیں مسلمانوں نے بھی بے دینی
کا مقابلہ کرنے کے لئے دینی تحریکیں برپا کیں اور ان کو ملک کے اندر اور
باہر تک پھیلایا۔ یہ دینی تحریکیں بہت سے ملکوں میں اٹھیں اور مسلمانوں میں
دینداری اور بیداری پیدا کرنے کے لئے اٹھیں۔ہندوستان کی تبلیغی جماعت کی
ایمانی تحریک دنیا کی تمام دینی تحریکوں میں سب سے زیادہ کار گذار اور
فعّال اور ہمہ گیر تحریک ہے اس کے اجتماعات اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ اس کی
نظیر بس حج کے موسم میں عرفات کے میدان میں ملتی ہیں، اگر چہ اس تحریک سے
اسلام کی جامعیت کا تصور نہیں سامنے آتا لیکن اس تحریک کی بدولت ہزاروں
لاکھوں مسلمان نمازی بن گئے اور جو نمازی تھے وہ تہجد گذار بن گئے۔ تبلیغی
جماعت کا کام بہت دور رس اور عالم گیر ہے، اس کے اجتماعات شہر بہ شہر قریہ
بہ قریہ منعقد ہوتے رہتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ خانہ بدوشوں کا کارواں ہے جو
رواں دواں ہے، گرد آلود لباس میں اور سفر بردوش اور تسبیح بدست لوگوں کو
دیکھ کر کسی شاعر کے یہ اشعار یادآتے ہیں۔
یہ تیری گلیوں میں پھر رہے ہیں جو چاک واماں سے لوگ ساقی
کریں گے تاریخ مئے مرتب یہی پریشاں سے لوگ ساقی
لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ جلو میں صد انقلاب رقصاں
نہ جانے آتے ہیں کس جہاں سے یہ حشر داماں سے لوگ ساقی
تمام دینی کوششوں اور تبلیغی جماعت کی تگ ودو کے باوجود اصلاح یافتہ لوگ
بہت کم اور اصلاح طلب معاشرہ بہت بڑا ہے، بہت سے دینی رہنماؤں کو صورتِ حال
کی نزاکت کا اندازہ نہیں ہے وہ اپنے محدود اور نظرفریب ماحول کو دیکھ کر
غلط طور پر یہ رائے قائم کرلیتے ہیں کہ ”بیمار کا حال اچھا ہے“ اور لشکرِ
ابلیس کو پسپائی اختیار کرنی پڑ رہی ہے یہ سادہ لوح علماءاور اتقیاءاپنے
محدود ماحول اور ارد گرد کی فضاءپر پورے معاشرہ کو قیاس کر لیتے ہیں
حالانکہ رائے قائم کرنے سے پہلے مجموعی فضا کو دیکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے
بقول اکبر الٰہ آبادی
نقشوں کو تم نہ جانچو لوگوں سے مل کر دیکھو
کیا چیز جی رہی ہے کیا چیز مررہی ہے
تبلیغی جماعت کے علاوہ ہندوستان کی جماعت اسلامی اور عرب دنیا کی اخوان
المسلمین کی تحریک تبلیغی جماعت کی طرح صرف حرکی اور عملی تحریک نہیں ہے
بلکہ ان کی نظریاتی بنیاد بھی بہت مضبوط ہے اور اس کی بنیاد پر ایک پورا
کتب خانہ اور عظیم لیٹریچروجود میں آیا ہے یہ لٹریچر بہت فکر انگیز اور
انقلاب انگیز ثابت ہوا ہے اور الحاد اور دہریت اور اشتراکیت کے سیلاب پر
بند لگانے میں اس نے کامیابی حاصل کی ہے، مسلم نوجوانوں کو غیر اسلامی
تحریکات میں شامل ہونے سے اس نے روکا ہے اس نے جد ید تعلیم یافتہ لوگوں کے
فکر وذہن کا قبلہ درست کیا ہے، اس نے دنیا میں اسلام کو ایک سیاسی طاقت
بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پریس اور لٹریچر کے زمانہ میں اس کام کی
اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتاہے،مغربی تہذیب پر علامہ اقبال کی شعری
تنقید کے بعد مولانا ابوالاعلی مودودی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی کی
نثری تنقید قابل ذکر ہے۔ مودودی صاحب کی ”تنقیحات“ اور مولانا علی میاں کی
” انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عرووج وزوال کا اثر “ یہ دونوں کتابیں مغربی
تہذیب کے طلسم سامری کا توڑ کرنے میں اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں۔ مغربی تہذیب
کا مقابلہ کرنے کے لئے اس طرح کے لٹریچر سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ہم نے یہاں صرف بطور مثال دو تین دینی تحریکوں کانام لیا ہے۔ مسلمانوں کے
ہر ملک میں دینی تحریکیں اٹھی ہیں، لیکن تمام دینی تحریکات، دینی مدرسے اور
خانقاہیں مل کر بھی صرف پانچ دس فی صدمسلم عوام تک پہونچنے اور ان کی اصلاح
کرنے میں کامیابی حاصل کرسکی ہیں، نوے فی صد سے زیادہ مسلمان بے دینی اور
بے راہ روی میں مبتلا ہیں۔ اصلاح کا وزن ایک تولہ ہے تو فساد فی الارض کا
وزن ایک من کے برابر ہے۔ اکثریت کے اخلاق وکردار کے اعتبار سے دین ہر جگہ
مجروح اور بے روح ہے، فسق وفجورہرجگہ تقوی سے دست بگریباں ہے، اور اپنی
کامیابی پر نازاں اور خنداں ہے۔ بزم عشرت ہر مقام پر آراستہ ہے ہر گلی کوچہ
میں ساز چھیڑا جارہا ہے اور شراب کا دور چل رہا ہے میخانے آباد ہیں، نہ سود
سے پرہیز ہے نہ جوے سے ،فتنے قدم قدم ہیں ، نغموں کے زیروبم ہیں، زلفوں کے
پیچ وخم ہیں، اس سراب رنگ وبو میں ہر شخص جینے کی تمنا رکھتا ہے، نفس پر
ستی اور مغربی تہذیب کے غلبہ کی وجہ سے مسلم معاشرہ میں عیش کوشی، لطف
اندوزی اور مادہ پرستی عام ہوچکی ہے اصلاح کے لئے اور اللہ کی فرماں برداری
کا ماحول بنانے کے لئے کیاکرنا چاہئے، اس کام کے لئے ہمیں مسلم معاشرہ کو
دو حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا ایک مسلم ملکوں کامعاشرہ دوسرے غیر مسلم ملکوں
کا مسلم معاشرہ ، جہاں تک غیر مسلم ملکوں کے مسلم معاشرہ کاتعلق ہے یعنی
وہاں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں مسئلہ کا اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ
محراب ومنبر کی آواز کو زیادہ سے زیادہ موثر اور طاقتور بنایا جائے دین پر
عمل کے لئے ماحول کو ساز گار بنایا جائے ہر بستی اور شہر کے ہر محلہ میں
دینی مکاتب کا جال بچھایا جائے دینی مدارس کو زیادہ کار گذار اور فعّال
بنایا جائے دینی جماعتوں کے حلقہ اثر کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے اور
پھیلایا جائے، مسلمانوں کے دینی معتقدات اور اعمال کی اصلاح کی جائے،
انفرادی اور اجتماعی زندگی کو موثر مواعظ کے ذریعہ قرآن وسنت کے تابع کیا
جائے۔ تزکیہ نفس کے مراکز کو عام کیاجائے، اسلامی تعلیمات اور فکر اسلامی
سے متعلق لٹریچر کی نشر واشاعت کا انتظام کیاجائے اور دینی جماعتوں کو باہم
ٹکرانے سے روکا جائے اور تعاون علی الخیر کی فضاءقائم کی جائے دینی تعلیم
کے مراکز پر شب خون مارنے کی حکومت کی اسکیموں کا بروقت تدارک کیا جائے،
جمعہ کے خطبات سے اصلاح وانقلاب کا کام لیا جائے۔
غیر مسلم ملکوں کے مسلم معاشرہ میں جو کچھ کہ ممکن ہے اس کا سطور بالا میں
ذکر کیا گیا لیکن جہاں تک مسلم ملکوں کا تعلق ہے وہاں لازمی طور پر مذکورہ
بالا کوششیں بھی کی جائیں گی، لیکن وہاں صرف وعظ ونصیحت اور تعلیم وتبلیغ
کافی نہیں، اسلام کا قانون شرعی یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے ایک خلیفہ وامام
او رخود مختار مسلمان سربراہ ضروری ہے، جو مسلمانوں کی حفاظت اور شریعت کی
اجراءونفاذ کی پوری قدرت رکھتا ہو، مسلمانوں کی اکثریت کے ملک میں ایسے
نظام کا قیام ضروری ہے جو غلط روی اور فتنہ وفساد کو بزور طاقت رو ک
سکے،مذہب اور سیاست کی آمیزش مس خام کو طلائے خالص بناتی ہے، امام ابن
تیمیہؒ نے اپنی کتاب الحسبہ فی الاسلام کے مقدمہ میں سلطنت وحکومت کی اہمیت
بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اقتدار وسلطنت کے ذریعہ وہ روک
لگاتا ہے جو قرآن کے ذریعہ نہیں لگاتا ہے، ”فن اللہ یزع بالسطان ما لا یزع
بالقرآن“ مولانا سید سلمان ندوی نے اپنی مشہور کتاب سیرت النبی کی ساتویں
جلد میں تحریر فرمایا ہے :
”ایک مدت سے علماءکی گوشہ گیری اور صوفیاءکی خانقاہ نشینی نے عوام کو یہ
یقین دلایا ہے کہ قیام سلطنت اور امور سلطنت میں دخل وتدبیر دنیا کا کام ہے
جس سے اہل علم اور اہل اتقاءکو کنارہ کش رہنا چاہئے لیکن اسلام اس خسروی کا
قائل نہیں، اس کی نگاہ میں سلطنت احکام الہٰی کی تبلیغ تنفیذ اور اجراءکے
لئے ہے اور یہ عین دین ہے“۔
اس دور کے معروف عالم مفکرِ اسلام مولانا ابو الحسن علی الندویؒ نے اپنی
کتاب نیا طوفان اور اس کا مقابلہ میں یہ جملہ رقم فرمایا ہے:
”میں ان لوگوں کی اگلی صف میں ہوں جو مسلمان قوموں کی صحیح سیاسی شعور کے
داعی ہیں اور ہر اسلامی ملک میں صالح قیادت کو بروئے کار دیکھنا چاہتے ہیں،
میںان لوگوں میں ہوں جن کا اعتقاد ہے کہ دینی معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں
ہوسکتا جب تک دین کو اقتدار حاصل نہ ہو او رحکومت کانظام اسلامی بنیادوں پر
استوار نہ ہو، میں اس کا داعی ہوں اور زندگی کی آخری سانس تک رہوں گا“
جن لوگوں نے سیاست کو آدم کے باغ عدن کا شجر ممنوعہ سمجھ رکھا ہے انہوں نے
اسلام کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ نہیں کیا ہے، دین کا تعلق مسجد سے لے کر
بازار اور بازار سے لے کر میدان کارزار تک ہے، صد شکر کہ مسلم ملکوں میں اب
بیداری آئی ہے اور اسلامی نظام کے مخالفوں کا کہیں تو تختہ الٹ دیا گیا ہے
اور کہیں ابھی انقلاب کی کوششیں جاری ہیں، مصر میں الاخوان المسلمین کے لوگ
تختِ حکمرانی پر جلوس افروز ہوچکے ہیں عنقریب شام میں بھی بے کردار کلیت
پسندانہ اور آمرانہ اسبتدادی نظام کا خاتمہ ہونے والا ہے ، جو کم علم اہل
قلم صحافی اسلامی نظام سے اور ان ملکوں میں ظلم وستم کی حکمرانی کی تاریخ
سے ناواقفیت کی وجہ سے شام کے ان غیر جمہوری اور ظالم حکمرانوں کی حمایت
کرتے رہے ہیں جو خدائی قوانین کو منسوخ کر کے ذاتی سطوت و اقتدار چاہتے
ہیں، ان کو اپنا نقطہ نظر فوراً تبدیل کرنا چاہئے، اور ان کو سجدہ سہو کرنا
چاہئے۔ کیونکہ وہ اب تک ان اہل اقتدار کی حمایت کرتے رہے ہیں جو زمین میں
وہ برائیاں بوتے ہیں جن کو اللہ بیخ وبن سے اکھاڑنا چاہتا ہے۔ امید ہے کہ
اہل دین کے اقتدار میں آنے سے عمومی فضابدلے گی اور دینداری اور خدا کی
فرمانبرداری انقلاب کے بعد بے دینی اور سرکشی پر غالب آئے گی، چراغ مصطفوی
سے ہر طرف اجالا ہوگا اور شرار بولہبی خاک اور خاکستر ہوگا۔ الغرض جن ملکوں
میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں دین اور تقوی کو فسق وفجور پر غالب آنے کے
لئے ایسے سیاسی انقلاب کی ضرورت ہے جس میں اقتدار کی باگ ڈور بھی صلحاءاور
اتقیاءاورفکرِ اسلامی کے نمائندوں کے ہاتھ میں ہو،اقتدار اور حکومت مردِ
آہن کے فولادی ہاتھ کے مانند ہے، اور خیر کوشر پر غالب کرنے کے لئے اور عدل
وانصاف کے قیام کے لئے اس فولادی ہاتھ کی ضرورت ہے۔ بقول اقبال
وہ نبوت ہے مسلماں کے لئے برگ حشیش
جس نبوت میں نہ ہو قوت وشوکت کا پیام |