خالد احمد کی یاد میں

خالد احمد کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی کو اپنے طریقے سے جیا ہے۔ ان کی زندگی پابندیوں سے آزاد تھی۔ لاہور کا ادبی منظر نامہ کبھی اُن کے تذکرے کے بغیر مکمل قرار نہیں پاسکتا۔ خالد احمد جناب احمد ندیم قاسمی کے خاص چہتوں میں سے تھے۔ خالد احمد کی محبت بھی احمد ندیم قاسمی کے ساتھ ہمیشہ رہی۔ احمد ندیم قاسمی کی وفات کے بعد صحیح معنوں میں خالد احمد ہی رہ گئے تھے جو اُن کے ادبی وارث کے طور پر سامنے آئے۔ جس طرح احمد ندیم قاسمی نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی فرماتے اسی طرح انہوں نے بھی کبھی کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کی اُن کے زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ’بیاض‘ میں انہوں نے شاعروں اور نثر نگاروں کو جس طرح پرموٹ کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ خالد احمد اردو شاعری میں یاد رہ جانے والے شاعر کے طور پر زندہ رہیں گے۔
ترک تعلقات پہ رویا نہ تُو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تُو نہ میں
حالات کے طلسم نے پتھرا دیا مگر
بیتے سموں کی یاد میں کھویا نہ تُو نہ میں

وہ ایک زمانے میں واپڈا کے شعبہ تعلقات عامہ کے ساتھ وابستہ تھے۔ ظاہر ہے جناب خالد احمد جیسی قد آور ادبی شخصیت کا کسی ادارے میں کام کرنا اُس محکمے کے لئے بھی ایک اعزاز کی بات تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اکثر صحافی اور ادیب حضرات خالد احمد کے پاس ہی بیٹھے دکھائی دیتے۔ میں اور توفیق بٹ 1990 میں جب پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے طالب علم تھے تو ہم سخن ساتھی کے پلیٹ فارم سے تقریبات وغیرہ کرواتے رہے۔ ہم جناب خالد احمد کو متعدد بار نسبت روڈ پر واقع ان کی رہائش گاہ پر ملنے یا کارڈ دینے جاتے تو وہ ہمیشہ بڑی محبت سے ملتے اور تقریب میں بھی ضرور تشریف لاتے۔

لاہور کی ادبی تقریبات کی تو وہ گویا جان تھے جس محفل میں وہ ہوتے وہ محفل کشت ِزعفران بن جاتی۔ بزلہ سنجی ان کے چہرے سے عیاں ہوتی تھی۔ میری ذاتی رائے ہے کہ لاہور میں عطاالحق قاسمی اور امجد اسلام امجد صاحب کے پائے کی جملہ بازی اگر کوئی کرسکتا تھا تو وہ خالد احمد تھے۔ جناب شہزاد احمد بھی اس میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ عطاءالحق قاسمی تو خود ایک کالم میں اپنے کسی قاری کے حوالے سے لکھ چکے ہیں کہ آپ لطیفہ لکھتے وقت یہ کیوں کہتے ہیں کہ ایک مراثی نے کہا حالانکہ آپ خود بہت کچھ کہہ لیتے ہیں۔

اسی طرح اگر خالد احمد کی موجودگی میں اُن کے حوالے سے کسی سے کوئی جملہ سرزد ہوجاتا تو اُس کے لئے خالد احمد کا ہلکا سا دیکھنا ہی کافی ہوتا تھا۔ اُن کی یہ جملہ بازی اپنے خاص احباب اور دوستوں کے ساتھ اور بھی منفرد رنگ لئے ہوتی۔ لاہور میں عطا الحق قاسمی کے بیٹے کے ولیمے پر وہ احمد عقیل روبی اور دیگر دوستوں کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ مجھے دیکھتے ہی خالد احمد صاحب نے آواز دی میں اُن کے پاس جاکے بیٹھ گیا تو وہ احمد عقیل روبی سے کہنے لگے ”تیری ملاقات ہے ناں ایہناں نال؟ عقیل روبی صاحب کہنے لگے ہاں ہاں میرے دوست نیں یوسف عالمگیرین۔ اس پر فوراً خالد احمد کہنے لگے ”یار روبی خدا دا خوف کر آپنی عمر تو ادھی عمر دے بندیاں نوں وی توں دوست ای کہنا ایں ایہہ تے تیرا شاگرد رہیا ہونا اے کِتے“

یوں عام زندگی میں جس طرح سے خالد احمد روٹین میں کی جانے والی باتوں میں اپنی شخصیت کا رنگ بھرتے وہ کبھی نہیں بھولے گا۔ نوائے وقت میں ان کا کالم ”لمحہ لمحہ“ صحیح معنوں میں ادب پارہ ہوا کرتا تھا۔ خالد احمد بھی اب اپنے کالم کی طرح لمحہ لمحہ یاد آتے رہیں گے۔
موت لے جائے گی مہ پاروں کو
ہائے یہ لوگ بھی مر جائیں گے

جناب خالد احمد کو میں نے کسی تقریب ‘پاک ٹی ہاﺅس یا الحمرا ہال کی ’بیٹھک‘میں جب بھی دیکھا وہاں شاعر نجیب احمد کو اُن کے ساتھ ضرور دیکھا۔ ان کے ساتھ خالد احمد کی نہ صرف عزیز داری تھی بلکہ گُوڑی اور پکی دوستی بھی تھی۔ نجیب احمد بھی خالد احمد کے حوالے سے بہتPossessive رہے ہیں۔ کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہم لوگ الحمرا میں بیٹھے ہوئے تھے تو ہمارے ایک بیرون ملک مقیم شاعر دوست نے کہایار خالد احمد صاحب کی صحت بہت گرتی جارہی ہے اور وہ بہت کمزور ہوگئے ہیں اس پر نجیب احمد نے بات کاٹتے ہوئے کہا ایسی تو کوئی بات نہیں وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ گویا خالد احمد کے ساتھ نجیب احمد کی Attachment کا یہ عالم تھا کہ وہ اُن کی گرتی ہوئی صحت کے بارے میں بھی کوئی جملہ نہیں سن سکتے تھے۔

خالد احمد بیاض کے ایڈیٹر عمران منظور کے بہنوئی تھے اب بیاض کی ذمہ داری عمران منظور اور ان کے بھائی نعمان منظور کے کندھوں پر ہے۔ جناب خالد احمد کی رحلت پر میری نعمان منظور سے بات ہوئی وہ بہت غمزدہ تھے۔ یقینا جناب خالد احمد کی شخصیت نہ صرف اپنی فیملی بلکہ شعر و ادب سے وابستہ بہت سوں کے لئے بھی ایک چھتری کی مانند تھی۔ جناب خالد احمد کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ تینوں شادی شدہ ہیں۔ بڑا بیٹا چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ اور چھوٹا بیٹا ایک ٹی وی چینل میں نیوز پروڈیوسر ہے۔ یوں وہ ماشا اﷲ ایک کامیاب والد تھے کہ اُن کے بچے اُن کی زندگی ہی میں Settle ہوچکے تھے ۔ خالد احمد اپنے بچوں کے والد ضرور تھے لیکن وہ پبلک فِگر ہونے کے ناطے بہت سے لوگوں کی پسندیدہ شخصیت بھی تھے۔ وہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔ وہ جتنے دن اس کشمکش میں رہے ان کا ہسپتال آنا جانا لگا رہا۔ آخری روز بھی انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے ضد کی کہ انہیں گھر لے چلیں اُن کا یہاں رہنے کا دل نہیں ہے۔ لیکن خالد احمد کا مسکن اب کہیں اور بن چکا تھا کہ یہ دنیا فانی ہے اور ہر کسی کو یہاں سے جانا ہے۔ خود خالد احمد ہی نے کبھی کہا تھا!
عمر بھر دکھ رگوں میں پھرتا ہے
جان لے کر ہی دل ٹھہرتا ہے

خالد احمد ایک زندہ دل اور خوش گفتار شخص کا نام تھا۔ وہ صرف اچھا شعر کہنے والے شاعر ہی نہیں بلکہ وہ اپنی شخصیت کے باساختہ پن کی بدولت شاعر دِکھتے بھی تھے۔ خالد احمد کی خوبی تھی کہ انہوں نے جو مقام بنایا وہ پی آر کے زور پر نہیں بلکہ اپنی تخلیقی جوہروں کی بدولت آگے بڑھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جناب خالد احمد ہم میں نہیں ہیں لیکن لوگ اُن کو یاد کرتے ہیں۔ فیض احمد فیض کی رحلت پر اُستاد دامن نے انہیں اس طرح یاد کیا تھا کہ
اِیہہ دنیا مثل سراں دی اے
تے مسافراں بیٹھ کھلو جانا
واری واری اے ساریاں کوچ کرنا
آئی وار نہ کسے اٹکو جانا
میرے وہنیدیاں وہنیدیاں کئی ہو گئے
تے میں کئیاں دے وہنیدیاں ہوجانا
دامن شال دو شالے لیراں والیاں نے
سبھناں خاک وِچ سمو جانا
Yousaf Alamgirian
About the Author: Yousaf Alamgirian Read More Articles by Yousaf Alamgirian: 51 Articles with 93812 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.