’’سالی تو مانی نہیں ۔کبھی تو مانے
گی‘‘شہزاد رائے کا یہ نغمہ شائد کسی ایف ایم پر سننے کا اتفاق ہوا ۔حیرت
ہوئی اگر کوئی بات ہے تو دل میں رکھ لو کیوں سالی کی تشہیر کر رہے ہو۔لیکن
چند دنوں کے بعد اس کا ویڈیودیکھا تو پتہ چلا کہ گٹاری بھائی کسی محلے دار
کی سالی کے پیچھے ہیں۔پاکستان کا شمار ان چند ایک ممالک میں ہوتا ہے جہاں
جو نہ مانے وہ ’’سالی‘‘ کے ذمرے میں آتا ہے۔پاکستان میں جو تھوڑی بہت غیرت
کے معاملات ہیں وہ انہی’’سالیوں ‘‘ کے دم سے قائم دائم ہیں۔جو فوراً میدان
عمل میں خم ٹھونک کر آ جاتی ہیں۔ورنہ یہاں نہ صرف تعلیمی نصاب تو ایک طرف
بلکہ آئین پاکستان میں بھی ایسی درفظنیاں چھوڑی جاتی کہ توبہ ہی بھلی
ہوتی۔شہزاد رائے کے پروگرام ’’چل پڑھا‘‘ کے بعد جہاں اس پر بہت ذیادہ تنقید
ہو رہی ہے ۔وہاں ’’سالی ‘‘والے نغمے پر بھی اس کو گالیوں سے نوازا جا رہا
ہے۔نغمے کا ویڈیو دیکھے بغیر اس کی شاعری پر ہی تبصرے کئے جا رہے ہیں۔اس
میں کوئی شک نہیں کہ ’’چل پڑھا ‘‘ ایک اچھی کاوش ہے ۔اگر نصاب خصوصاً مذہب
کو ہدف تنقید نہ بنایا جائے۔کیونکہ دل کی سرجری کرنے کا اسی کو حق ہے جو
ہارٹ سپیشلسٹ ہو۔کسی اپریشن تھیٹر بوائے سے چاہے اس نے ہزار سے زائد دل کے
اپریشن میں حصہ لیا ہو۔آپ دل کی چیر پھاڑ نہیں کروا سکتے۔اور گٹار کا شمار
آلات جراحی میں نہیں ہو سکتا۔گٹار سے مجمع لگایا جا سکتا ہے ۔رولا ڈالا جا
سکتا ہے۔اپنا’’ سودا‘‘ بھی بیچا جا سکتا ہے ۔لیکن ان خرافات سے اگر آپ کے
خیال میں کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے یہ خام خیالی ہو گی۔
ایک نجی ٹی وی کے’’شاہ رخ‘‘ بھائی کے پروگرام میں ’’چل پڑھا‘‘ کے بارے میں
اظہار خیال کرتے ہوئے شہزاد رائے کا کہنا تھا ۔ہم نے مذہب کو اسلامیات کے
علاوہ ،معاشرتی علوم اور اردو میں بھی شامل کر دیا ہے۔بچے بہت چھوٹے ہوتے
ہیں۔ان کو پہلے چوہے،بلی،ہاتھی،وہیل مچھلی وغیرہ کے بارے میں بتایا جائے۔ہم
ان کو یہ بتانا شروع کر دیتے ہیں’’سبھی کچھ خدا کا بنایا ہوا ہے ۔یہ گلشن
اسی کا لگایا ہوا ہے‘‘پروگرام میں شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ میں علامہ
اقبال کی شاعری بچپن سے پڑھتا آ رہا ہوں لیکن اس کی سمجھ مجھے اب آئی
ہے۔’’چل پڑھا‘‘میں آکسفورڈ کی امینہ سعید اس بات کا گلہ کرتی نظر آئی کہ ہم
ٹیکسٹ بک بورڈ سے بہتر نصاب تیار کرکے دے سکتے ہیں۔لیکن کوئی ہم سے کام ہی
لینا نہیں چاہتا۔شہزاد رائے کا یہ کہنا کہ انہیں علامہ اقبال کی شاعری کی
سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے۔حیرت کی بات ہے وہ کب سے اقبال شناس ہو گئے۔اقبال
کی شاعری کی سمجھ کا دعوی تو وہ لوگ بھی نہیں کرتے جو اقبال پر ’’اتھارٹی
‘‘ ہیں۔ایک مسلمان کے لئے یہ کہنا کہ خدا سے پہلے خدا کی بنائی ہوئی چیزوں
کا تعارف کروایا جائے دکھ کی بات ہے۔خود تو ’’خودی کا سر نہاں ‘‘ میں خود
کو نہ جانے ،محمد بن قاسم ،سلطان صلاح الدین ایوبی ،یا محممود غزنوی سمجھتے
ہوئے پر فارم کیا ہے بلکہ ننھے بچوں کو مجاہد کے روپ میں قرآنی آیات کا ورد
کرتے ہوئے دکھاتے ہو۔اور اب کہتے ہو کہ یہ غلط ہے ۔یہ دوغلی یا نہ جانے
کونسی پالیسی ہے۔۔آکسفورڈ کے نصاب سے کون واقف نہیں ۔جن کانام لینا ہی ایک
مسلمان گوارا نہیں کرتا ۔ان کی بچوں کے لئے سٹوری بک ہی "The little three
pig"سے شروع ہوتی ہے۔ان کے ہاتھ میں نصاب کی بھاگ دوڑ دینے سے کیا حاصل ہو
گا۔بس اللہ پاکستان میں ’’سالیوں ‘‘ کا دم سلامت رکھے۔جو پنجاب ٹیکسٹ بورڈ
کے نصاب میں تبدیلی کے خلاف فوراً علم بغاوت بلند کر دیتی ہیں۔او ارباب
اختیار کور’’سالی تو مانے نہیں‘‘کہتے ہوئے اپنے فیصلے واپس لینا پڑتے ہیں۔
’’چل پڑھا‘‘ میں شہزاد رائے ایک میڈیکل سٹور سے قیام پاکستان کے وقت کی
دوائیں مانگتے ہیں۔اس بات سے وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس طرح
ایک کومریض کو پچاس ساٹھ سال پرانی دوائیاں نہیں دی جا سکتیں۔اسی طرح بچوں
کو پچاس ساٹھ سال پرانا نصاب نہیں پڑھایا جا سکتا۔ خدا جانے یہ تحقیق بھی
اپنے ’’گٹاری بھائی‘‘ کی ذاتی ہے ۔حالانکہ ہمارا اسلامی نصاب تو پچاس ساٹھ
سال نہیں چودہ سو سال پرانا ہے ۔یہ بات انہیں اگر پہلے معلوم ہوتی تو شائد
ان کے پروگرام کی ریٹنگ میں ہزار گنا اضافہ ہو جاتاکہ پاکستان میں بچوں کو
چودہ سو سال پرانا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔شہزاد رائے کے خیال میں اسلام بھی
قیام پاکستان کے وقت ہی پاکستان میں داخل ہوا ہو گا۔دنیا میں تقریباً تمام
مذاہب میں بچوں کو بچپن سے ہی ان کی مذہبی تعلیمات سے روشناس کروایا جاتا
ہے۔حتی کہ ہندو اپنے ہر پروگرام میں خواہ وہ کسی بھی موضوع پر ہو ہندو ازم
کا ٹچ ضرور دیتے ہیں۔تو پھر ایک مسلمان کے لئے پابندی کیوں کہ وہ اپنے بچے
کو مذہب سے روشناس کروانے کے لئے ایک مناسب وقت کا انتظار کرئے۔
یہ کام جس طرف’’چل پڑا ‘‘ ہے۔ان گٹاری جہادی‘‘بھائیوں سے اس ’’فتوی ‘‘ کی
امید بھی رکھنی چاہیئے کہ نوازائیدہ بچے کو جب اذان کی پہچان ہی نہیں تو
پھر پیدائش کے فوراً بعد اذان دینے کا کیا فائدہ، اذان بھی اس وقت تک موقوف
کر دینی چاہیئے جب تک وہ شعور کی حالت میں نہیں آ جاتا ۔
آپ بے شک پل سے آئیں ۔مگر ہمارا یقین اس مرید کی طرح کامل رہنے دیں۔ایک پیر
صاحب اور انکے مرید پیدل ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں ایک اور مرید سے خاطر
مدارت کر وانے کے لئے جا رہے تھے۔سفر کے راستے میں ایک نہر سے ان کا واسطہ
پڑا۔وہ سستانے کے لئے نہر کے کنارے ایک گھنے دررخت کی چھاؤں میں بیٹھ
گئے۔مرید نے پیر صاحب کے پاؤں دبانے شروع کر دیئے۔’’پل ابھی کتنی دور ہے
؟‘‘پیر صاحب نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا
’’شاہ جی!بس پانچ سات میل ہو گا۔‘‘
’’لیکن یہ گاؤں تو سامنے نظر آ رہا ہے‘‘۔
وہ جی دونوں گاؤں کو اکٹھا پل دیا ہے اس لئے پل کچھ فاصلے پر ہے۔‘‘
’’سات میل ابھی جائیں گے اور سات میل پھر واپس آئیں گے۔‘‘
’’جی شاہ جی۔‘‘مرید نے نظریں جھکائے پاؤں دباتے ہوئے کہا
کوئی سواری بھی نہیں ملی سارا رستہ پیدل ہی آئے ہیں‘‘پیر صاحب نے لہجے سے
تھکاوٹ اور بھوک نمایاں تھی۔
شاہ جی،اس نہر کو یہاں سے کراس کر لیتے ہیں‘‘۔
’’ناں بھئی،مجھے تیرنا نہیں آتا۔‘‘
’’شاہ جی تیرنا تو مجھے بھی نہیں آتا۔مگر وہ آپ کہتے تھے اللہ کا پاک کلام
پڑھ کر پانی پر پھونکوں تو پانی بھی راستہ دے دیتا ہے۔مجھے بسم اللہ،پہلا
کلمہ،درودپاک اور سورت فاتحہ آتی ہے۔آپ کو تو مجھ سے بھی بہت ذیادہ کچھ آتا
ہے۔لوگوں کے جن ،بھوت ،چڑیلیں بھی نکال دیتے ہیں‘‘۔
ہاں ،ہاں،یہ بات تو درست ہے‘‘۔
تو پھر میں چلا‘‘۔مرید نے پڑھتے ہوئے نہر کی جانب چلنا شروع کر دیا۔پانی نے
اس کو راستہ دے دیا۔اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا شاہ جی ،حیرت سے بت بنے اس کو
پانی میں جاتا دیکھ رہے تھے۔مرید نے چلا کر کہا’’شاہ جی،آ جائیں ۔راستہ مل
گیا ہے‘‘۔
شاہ جی نے جواب دیا،’’یہ راستہ تمہارے لئے ہے۔میں پل سے ہی آؤں گا‘‘۔
ہمارے ایمان ،عقیدے ،اعتقاد کو پرکھنے کی بجائے اپنے ایمان کو پختہ
کریں۔کبھی اگر فجر کی نماز کے وقت آنکھ کھل جائے تو نماز کے بعد مظفر وارثی
کی حمد کے چند اشعار اپنی آواز میں نہیں مظفر وارثی کی آواز میں سنیں۔مجھے
امید ہے ایک نئی روشنی سے ہمکنار ہو گے۔
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آ رہا ہے وہی خدا ہے
وہی ہے مشرق ،وہی ہے مغرب۔سفر کریں سب اس کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے ۔وہی خدا ہے
سفید اس کا،سیاہ اس کا۔نفس نفس ہے گواہ اس کا
جو شعلہ جاں جلا رہا ہے ،بجھا رہا ہے۔وہی خدا ہے۔ |