پاکستان میں تعلیم کا المیہ

تعلیم ایک سادہ،عام فہم،وسعت آمیز،گہرا اوربلند ترمعنی کاحامل لفظ ہے جسے ہرشخص چاہے خواندہ،نیم خواندہ ہوباآسانی سمجھ جاتا ہے،آپ کسی بھی راہ چلتے شخص سے پوچھیں کہ جناب یہ سڑک کدھرجاتی ہے وہ کہے گا مجھے اسکا علم نہیں۔اگراُسی شخص کوعلم ہوگا توفوراََجواب دیگا کہ یہ سڑک ایوان صدر کوجاتی ہے۔اگروہ اپنے علم کی روشنی میں آپ کی مزید مددکرنا چاہے تو کہے گا کہ تھوڑا آگے جائیں وہاں ایک سائن بورڈلگاہے جس پر سب سڑکوں کے نام اورتیرکے نشان سے سمتیں واضع کی گئی ہیں آپ آسانی سے اپنی منزل پرپہنچ جائنگے۔دنیا میں ہرشخص کواپنی منزل پرپہنچنے اورمراد پانے کیلئے تعلیم کی ضرورت ہے۔تعلیم علم سکھانے،اُسے عام کرنے اورمعاشرے اورریاست کے ہرفردکوعلم تک رسائی دینے کانام ہے۔کرہ ارض پرانسانی پیدائش کے ساتھ ہی رب کائنات نے انسان کی اصلاح کیلئے علوم کا اجراکیا اورمخلوق کی تربیت کیلئے اُن ہی میں سے پیغمبر،ہادی اورمرسل مبعوث فرماکراُنھیں علم کی روشنی عطاکی۔تاریخ عالم گواہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں آتی جسکی رہنمائی اورتربیت کے لئے خدا نے معلم نہ بھیجے ہوں۔اِن معلمین کے ذریعے اﷲنے بنی نو ح انسان کووہ سب علوم سکھلائے جن کی معاشرے اورریاست کے فرد کوضرورت تھی۔تاریخ کے مطابق حضرت نوحؑ کی عمرنوسوپچاس سال ہوئی۔ حضرت نوحؑ اورحضرت ابراہیمؑ کے درمیان دوہزار چھ سوچالیس برس کا زمانی فرق ہے اورحضرت ابراہیم ؑ حضرت نوحؑ کے طریقہ سنت پر تھے۔ ان دوجلیل القدر پیغمبروں کے ادوار کے درمیان صرف دو نبی حضرت ھودؑ اورحضرت صالحؑ ہوئے جن کی اُمتیں تعلیم یافتہ تھیں۔کشتی نوحؑ کی حقیقت سے کسی بھی مذہب اورفرقے کے عالم ،محقق اوراُستاد کوانکار نہیں۔یہ کشتی تین درجوں پرمشتمل تھی۔اس کشتی کی لمبائی ہزارگز اورچوڑائی چارسوگزتھی۔مقدس آسمانی کتابوں اورتاریخ ادیان کے مطابق اس کشتی کی تعمیر کاطریقہ حضرت جبریل امین نے اﷲکے حکم سے سکھلایا جس پرچارسوگز چوڑے اورچھ سوگز لمبے ایک لاکھ چوبیس ہزار تختے استعمال ہوئے۔حضرت صالحؑ کی قوم نے آبپاشی کیلئے بہترین نہری نظام وضع کیا اورحضرت ھودؑ کی قوم نے دنیا کا پہلا ڈیم اورجدید سہولیات سے مزین شہر ارم تعمیر کیا۔تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے توانسانی پیدائش کے ساتھ ہی خالق نے علم اورتعلیم کابھی بندوبست کیا اورانسان کو سہولیات کے لئے بنیادی علوم سکھلائے۔بنیادی سائنسی اورعمرانی علوم بھی فرشتوں کے ذریعے اورکبھی پیغمبروں اوربرگزیدہ بندوں کے ذریعے تعلیم کئے گئے اورپھر بعد کے ادوار میں یہ کام حکومتوں اورحکمرانوں کے سپرد ہواتاکہ ایک کامیاب معاشرے اورریاست کے افراد کوعلم کے ذریعے معاشرتی آداب سیکھلا کر قانون کے تابع اچھا شہری بنایا جا سکے۔

تاریخ ایسا علم ہے جسکی روشنی میں ہم ماضی کے احوال نہ صرف سمجھ سکتے ہیں بلکہ دیکھ بھی سکتے ہیں۔قرآنی تاریخ ایک ایسی روشنی ہے جس کی موجودگی نے من گھڑت تاریخی حوالوں اورمحض قیاس وحکایات اورروایات پرمبنی واقعات کی نہ صرف نفی کی ہے بلکہ بنی نوح انسان کواپنی سچائی اورپرکھ کی کھلی دعوت بھی دی ہے۔ قرآن کریم علوم ظاہریہ اورباطنیہ کاخزانہ ہے جوانسان کوفکری،علمی اورعقلی تحریک دیتا ہے تاکہ انسان اپنے فکروعمل کو علم کی قوت اورعقلی استدلال کے تحت متحرک کرے اورکرہ ارض پرپھیلے خزانوں سے فیض حاصل کرسکے۔جیساکہ عرض کیاکہ ہزاروں سال پہلے نوحؑ کے چالیس حواریوں کا ایک طویل اورتین منزلہ بحری جہاز بنانا ایک سائنسی کارنامہ ہے جبکہ اُسکے قریبی وقت میں ارم جیسا ماڈرن شہر بسایا ایک معاشرتی ،معاشی اورزرعی علوم کے عام ہونے کی دلیل ہے۔

نزول قرآن سے پہلے عمرانیات کے علم سے کوئی عالم و محقق واقف نہ تھا البتہ عمرانی افکار موجود تھے جنکے پیچھے یونانی فلاسفہ کی سوچ کا عمل تھا۔یونانی فلاسفروں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ افکار محدود جغرافیائی حدود تک اثررکھتے تھے اورجس دور میں اِن افکار کی تشہیر ہوئی تب تک انسان لامحدود جغرافیائی حدود سے آگے نکل چکا تھا۔عمرانی علوم کا بابا اول ابن خلدون ایک مسلمان محقق فلاسفر اورحکیم تھا جسکا علم عقلی اور مشائداتی تھا۔ابن خلدون کو یونانی فلاسفہ پر ہر لحاظ سے فوقیت حاصل ہے چونکہ وہ اپنے خیالات اورافکار کو قرآن کی کسوٹی پرپرکھتا ہے تاکہ عمرانی علوم خداکی بنائی ہوئی حدود سے نکل معاشرے کے لئے شروفساد کا باعث نہ بنیں۔وہ انسان کی تربیت علم ،عقل اور اخلاقیت کی روشنی میں کونے کادرس دیتا ہے تاکہ انسانی معاشرہ اعتدال پر رہے۔ابن خلدون کے مطابق ایک معتدل انسانی معاشرے کیلئے ضروری ہے کہ اسے دینی اوراخلاقی مدار میں رہنے کا پابند بنایا جائے تاکہ عدل وانصاف میں جھول پیدا نہ ہو۔

قرآن اورخلدونیات کو باہم ملاکر دیکھا جائے تو قرآن نوح انسانی کی ہدایت کی پہلی اورآخری کتاب ہے جس میں دین اوردنیا کے تمام تر مسائل پرحتمی اورمدلل بحث کی گئی ہے۔ قرآن کریم نے ہر علم چاہے اُسکا تعلق سائنس،فلسفے،عمرانیات یا انسانی ناسوتی،مادی اوررومانی علوم سے ہو پرتوجہ دینے کی دعوت دی ہے۔قرآن کہتا ہے کہ زمین کی وسعتوں میں اُترو اورساتھ توجہ مبذول کراتا ہے کہ سمندروں میں تمہارے فائدے کہ بڑی چیزیں ہیں۔پھر انسانی سہولیات کیلئے طرح طرح کی سواریوں،پھلوں اوراناج کا ذکر کرتا ہے۔قرآن انسانی معاشرتی آداب کا بیان کرتا ہے۔ جس میں ماں باپ اولاد ور ازواج کے حقوق سے لے کر پڑوسیوں ،یتیموں،مسکینوں،معذوروں اورجانوروں کے حقوق کی تلقین کرتا ہے۔علامہ جلال الدین سیوطی کے مطابق قرآنی علوم کی روشنی میں مسلمان حکماء و فلاسفر نے ساڑھے تین ہزار علوم دریافت کئے۔علامہ جلال الدین سیوطی کی اس تحقیق پرجرمن محقق ڈاینل ہائنے برگ نے قرآن کی بنیادی اساس اورذرائع پرمبنی تین ہزار علوم دریافت ہونے کوتسلیم کیا اورساتھ ہی اس بات کوبھی حقیقت بیان کیا کہ ہرعلم کی روشنی میں بیس مزید علوم دریافت ہوئے۔یہی محقق آگے چل کرلکھتا ہے کہ مسلمان محقیقن نے دوسو کے قریب نظام علوم دریافت کئے اوران نظاموں نے مزید بیس علوم کی بنیاد ڈالی۔

فلپ کے ہٹی لکھتا ہے کہ مسلمان حکماء نے ریاضی کے علم کونقط عروج تک پہنچایا جس سے آج ساری دنیا فوائد حاصل کررہی ہے ۔اس طرح علم طب کیلئے درس گاہیں قائم کیں اورعوام الناس کوطبی سہولیات فراہم کرنے کے لئے ہرسطح پرشفاخانے قائم کئے۔فلپ کے مطابق صرف بغداد شہرمیں نوسو سندیافتہ ڈاکٹر موجود تھے جن کے مطب جدید جراحی کی سہولیات سے مزین تھے۔

ڈریپر کے مطابق اہل مغرب نے ہمیشہ منافقت سے کام لیا ورعربوں کی علمی کا ؤشوں کواپنا کہہ کرمسلمان حکماء کے احسانات سے روگردانی کی ۔ڈریپر مزید لکھتا ہے کہ پلی،پیئے،لیور او ر رسی سے لیکر رصد گائیں اورلیبارٹریاں سبھی عربوں کی ایجادات ہیں۔عربوں سے دنیا کا نقشہ بنایا،چاند گرہن کے اوقات متعین کئے اورستاروں کی حرکات اورموسموں کے تغیروتبدل سے لیکر پرندوں کی حرکات پرمفصل کتب تحریر کیں۔قرآن نے انسانی شعور کوجلا بخشی اوراُسے علم و حکمت کے خزانے تلاشنے کی تحریک دی۔دنیا میں سب سے پہلی یونیورسٹیاں بغداد،ثمرقند،بخارہ اورقرطبہ میں قائم ہوئیں۔سائنسی تجربات کیلئے لیبارٹریاں اورکتب خانے تعمیر ہوئے جن کی سرپرستی مسلمان بادشاہ اوراُن کی بیگمات کرتی تھیں۔بغداد میں خلیفہ ہارون الرشید کہ ملکہ زبیدہ کی ذاتی لائبریری میں چھ لاکھ کتابیں اورقرطبہ کی پبلک لائبریری میں چار لاکھ کتابیں تھیں جس کاکیٹلاگ چوالیس جلدوں پرمشمتل تھا۔ بغداد کی صرف ایک گلی میں کتابوں کی دوسودکانیں تھیں اورہرمدرسے کے ساتھ مسجد اورلائبریری کی تعمیر شاہی حکم میں شامل تھا۔

پنڈت نہرو نے اپنی کتابGlimpses of World History میں لکھا ہے کہ عربوں سے پہلے مصر،چین اورہندوستان میں کسی بھی جگہ کوئی سائنسی علم نہ تھا۔عربوں نے سائنسی علوم کی بنیاد ڈالی جنکی بناپروہ جدید سائنس کے باپ کہلانے کے حقدار ہیں۔

کیرن آرم سٹرونگ نے اپنی تحقیق پر مبنی ایک ڈاکومنٹری فلم دکھلاکراہل مغرب کے علمی تعصب پرگہری چوٹ لگائی ہے ۔کرن کہتی ہیں کہ اہل مغرب پرعربوں اورمسلمانوں کے بڑے احسانات ہیں۔آج جتنی جدید سہولایات اورسائنسی علوم سے اہل مغرب فیض یاب ہورہے ہیں ان کی بنیاد عربوں نے رکھی۔ کیا کوئی سائنس دان اورمحقق ابن الہیثم،بوعلی سینا،البیرونی،الخوازمی، الجواہری،الفارابی،ابوالنصر منصور،جابر بن حیان سمیت سینکڑوں مسلمان اورخاص کرعرب سائنس دانوں کے وضع کردہ بنیادی علوم سے ہٹ کر کچھ نیا ایجاد کر سکتا ہے۔ تعصب اوربخل کے سیاہ پردے ہٹاکر اورسچائی کا دامن تھام کر جواب ہوگا کہ نہیں ؟آج دنیا بھر میں جتنی بھی سائنسی ایجادات ہیں اُسکا بنیادی نظریہ مسلمان سائنس دانوں نے ہی وضع کیا اوراہل مغرب کی طرح اُسے گھر کی لونڈی بنانے کی بجائے عام انسانوں تک پھیلایا۔ تاریخ ،فلسفے اورعمرانیات پرمسلمان اورعرب مفکروں کی اجارہ داری ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ ابن رُشد اورابن خلدون کے فکروفلسفہ کی حیثیت کم کرنے پرجتنا مغربی محققین نے زور لگایا ان کی حیثیت اورمرتبہ اُسی قدر بلند ہوا۔

دیکھنا یہ ہے کہ علم وفکر کے عظیم خزانوں کے امین عرب اوردنیا بھر میں پھیلے مسلمان خاص کراہل پاکستان اسقدر مفلس،تہی دست،اغیار کے محتاج اورمحکوم کیوں ہیں۔ اس حقیقت کی وجوہات پرغور کرنے سے پہلے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مسلمانوں خاص کر پاکستانیوں کی علمی ،معاشی ،سیاسی اوراقتصادی ابتری کا ذمہ دار کون ہے۔عوام یاحکمران یا پھر دونوں ؟

اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ علم کے بغیر کوئی فرد،معاشرہ اورریاست ذاتی اوراجتماعی حیثیت سے ترقی نہیں کرسکتی۔اگرمعاشرے اورریاست میں کچھ لوگ یا گروہ لوٹ مار،کرپشن،سمگلنگ اوردوسرے ہتھ کنڈوں کے ذریعے عوام الناس اورحکومتی خزانے پرنقب لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اوردولت کے انبار لگا کران پرترقی کی تختی نصب کردیتے ہیں تویہ محض ایک فریب ہے ترقی نہیں۔

اس بات میں شک نہیں کہ آج پاکستان شدید معاشی دباؤ میں ہے۔دہشت گردی کی فصل ہمارے حکمرانوں نے خود بوئی جسے کاٹنے کے طریقے دوسرے سے پوچھ رہے ہیں۔سیاستدانوں نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ کالاباغ ڈیم نہیں بنے گا چاہے سارا ملک اندھیرے میں ڈوب جائے، زمینیں بنجرہوجائیں،فیکٹریاں اورکارخانے بند ہوجائیں،عوام بیروزگاری اورمفلسی سے تنگ آکر بچے فروخت کریں،اپنی عزتوں اورعصمتوں کونیلام کریں، خودکشیاں کریں یا پھر دہشت گردوں کوخودکش بمبار فراہم کرکے اپنا پیٹ بھریں۔

جس معاشرے اورریاست کے عوام روٹی کوترس رہے ہوں اورخواص لندن،پیرس ،اوسلو،ٹورنٹو اودبئی میں عالیشان محل تعمیر کرنے کی فکرمیں ہوں اُس معاشرے اورریاست میں تعلیم کی بات کرنا مذاق کے سوا کچھ نہیں۔1947؁ء میں پاکستان آزاد ہواتو پشاور میں تین ،راوالپنڈی اورکراچی میں پانچ اورلاہور میں تین انگلش میڈیم سکول تھے جنہیں عیسائی مشنری ادارے چلاتے تھے۔

آج پاکستان بھر میں درجنوں پرائیویٹ یونیورسٹیاں،کالج اورہزاروں سکول ہیں مگرمعیار تعلیم انتہائی پست اورواجبی ہے۔اچھے اورمعیاری تعلیمی اداروں پرامراء اورنودولتوی کی اجارہ دارئی ہے جبکہ سیاستدانوں ،جرنیلوں،معروف صحافیوں،ججوں،سیکرٹریوں سمیت کارخانہ داروں بڑے زمینداروں اورجاگیرداروں کے بچے بیرون ملک رہتے اورپڑھتے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں اور نہ ہی کسی قسم کا ڈسپلن ہے۔حکومت نے ہائیرایجوکیشن کمیشن کا اس لئے برباد کیا چونکہ اس ادارے نے سیاستدانوں کی جعلی ڈگریوں کا سراغ لگایا۔

ملک بھرمیں گھوسٹ سکولوں کی بھرمار ہے جنکا بجٹ باقاعدگی کیساتھ جاری ہوتا ہے اوراُستادوں کوتنخواہیں بھی ملتی ہیں۔ہمارے سیاسی حکمرانوں نے قومی اورصوبائی اسمبلی کے ممبروں اورسینیٹروں کوکروڑوں روپے تعلیمی فنڈ کی مد میں دیے اورقوم کے ان لیڈروں اورقانون سازوں نے اپنے مال مویشیوں کے باڑے،ڈیرے، اپنے تحفظ کیلئے پالے گئے رسہ گیروں،مفروروں اورڈاکوؤں کیلئے بڑی بڑی قلعہ نما حویلیاں اورباغات کے گرد پختہ چاردیواریاں تعمیر کیں اوراُن پرسکولوں کے بورڈ لگادیے۔قوم کے ان نمائندوں اورجمہوریت کے علمبرداروں نے اپنے ٹاؤٹوں اورمنشیوں کوٹیچر بھرتی کرلیا جنہیں سرکاری خزانے سے تنخوائیں اوردیگر مراعات مل رہی ہیں۔سرکاری سکولوں اوردینی مدارس میں طلباء پرتشدد کرنا اورمشقت لینا تعلیمی روایات کا حصہ ہے۔

1970ء تک سارے پاکستان میں ایک ہی تعلیمی نصاب رائج تھا۔سرحد میں پشتو، بنگال اورسندھ میں مقامی زبانیں بھی سلیبس کا حصہ تھیں تاکہ نئی پود اپنے مقامی کلچر وروایات سے واقف رہے۔1971؁ ء کے بعد مشرقی پاکستان علیخدہ ہوا تو سندھ ،بلوچستان اورسرحد میں قوم پرست سیاسی جماعتوں نے سب سے پہلے تعلیمی نصاب کو نشانہ بنایا اورمقامی زبانوں میں تعلیمی سلیبس بنانے پرہنگامے اورہڑتالیں کیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ مقامی زبانوں میں قوم کو تعلیم دینے والے سارے قوم پرست جاگیردار،بڑے زمیندار،قبائلی سردار اورکارخانہ دار تھے جن کے اپنے بچے بیرون ملک پڑھتے ہیں۔ان لوگوں کو پتہ ہے کہ عوام کوجدید تعلیمی نظام کے تحت معیاری تعلیم دنیا اُنھیں اپنے شکنجے سے آزاد کرنے کے مترادف ہے۔ایک سندھی زبان میں ایف ایس سی کرنے والے طالب علم اورانگریزی زبان میں سائنس کے مضامین پڑھنے والے طالب علم میں زمین اورآسمان کافرق،سندھی زبان میں ایف ایس سی کرنیوالے طالب علم کو کسی میڈیکل کالج یا انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ملتا چونکہ میڈیکل اورانجینئرنگ کے شعبے میں جن الفاظ اوراصطلاحات کاذکر ہوتا ہے اُسکا سندھی ،پنجابی،بلوچی یا پشتوزبان میں متبادل ہی نہیں۔دوسری جانب بنگلادیش میں بنگلہ بطورزبان اورپڑھائی جاتی ہے مگر انگریزی تعلیم ہرسطح پرلازمی ہے۔وہ لوگ جوروسی،جرمن،چینی،جاپانی اورفرانسیسی زبانوں کا حوالہ دیتے ہیں اُنھیں شائد پتہ نہیں کہ ان ممالک نے سائنس،ادب اورعمرانیات کی کتابیں لکھیں،دوسرے ممالک سے کتب منگواکراُنکے تراجم شائع کروائے اوراپنی ریسرچ لیبارٹریوں میں جدید آلات پرسائنسی علوم کے تجربات کیے اوراپنے نظام تعلیم کوہرسطح پرمربوط اورمضبوط بنایا۔

ہمارے ہاں ہر حکومت آتے ہی تعلیمی نصاب بدل کر اپنے پسندیدہ لکھاریوں کو نوازنے کے لئے اُن کی لکھی ہوئی چر بہ کتابیں نصاب کا حصہ بنالیتی ہے اورحکومت کے رخصت ہونے پرنئی حکمت نئی کتابیں متعارف کروادیتی ہے۔پڑھا لکھا پنجاب،دانش سکول اورلیپ ٹاپ سکیموں پراربوں روپے خرچ ہوئے مگر گورنمنٹ مڈل سکول چکوال کی بچیاں آج بھی استعمال شدہ بوریوں پربیٹھ کرتعلیم حاصل کرتی ہیں۔پڑھا لکھا پنجاب ہو یا دانش سکول مقصد مال کمانا، دوستوں یاروں کو فائد ہ پہنچانا اورسستی شہرت حاصل کرنا ہے۔اگرخادم اعلیٰ پنجاب دانش سکولوں کے بجائے سرکاری سکولوں کوماڈل سکولوں میں بدل دیتے توپانچ سالوں میں پنجاب کے ہرگاؤں اورمحلے میں ایک جدید سہولیات سے مزین سکول ہوتا جہاں عوام کے بچے معیاری تعلیم حاصل کرتے اگر ایساہوتا تو سرکار کے چہیتے ٹھیکیداروں کا کیا بنتا،دانش سکولوں کی تعمیر وتزئین پراربوں روپے خرچ ہوئے اوریاروں اوردوستوں نے کروڑوں کمائے۔ایساہی حال پڑھے لکھے پنجاب کاہو جسکا مقصد کتابوں اور کاپیوں پر پرویز الہیٰ کی تصاویر چھاپنا اور علم کو سیاسی اشتہار میں بدلنا تھا۔پاکستانی سیاستدانوں اورحکمرانوں نے تہیہ کررکھا ہے کہ عوام کو ہر حال میں ناخواندہ اورنیم خواندہ رکھنا ہے۔معیاری تعلیمی اداروں کی فیسیں ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہیں جبکہ ڈاکٹر اورانجنئیر بننے کیلئے پچاس لاکھ درکار ہیں۔ مہنگائی کا یہ حال ہے کہ ملک کی ستر فیصد آبادی دووقت کی روٹی پیدا کرنے سے عاجز ہے۔اجناس پیداکرنیوالی زمینوں کے مالک بڑے زمیندار،جاگیردار اورقبائلی سردار ہیں۔ چینی، آٹا، گھی، چاول اوردیگر انسانی ضروریات بشمول پولٹری اورڈیری کی صنعت پربھی اپنے لوگوں کی اجارہ داری۔ایک طرف یہ طبقہ اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی روزی روٹی کے ذرائع پرقابض ہے تودوسری طرف یہی ٹولہ صوبائی وقومی اسمبلیوں اورسینیٹ میں بیٹھ کراپنے غلاموں کی نمائندگی کا حق ادا کرتا ہے۔

نسٹ،لمز،بیکن ہاؤس،سٹی سکولز،روٹس اورایجوکیٹرز جیسے معیاری تعلیمی اداروں کے مالکان بھی کسی نہ کسی صورت بااثر اداروں اورشخصیات سے منسلک ہیں جہاں عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں۔دیہاتوں میں پھیلے سرکاری سکول بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جبکہ شہروں میں قائم تعلیمی اداروں پرسیاست کی گرفت ہے۔استادوں کے تبادلے اورطلباء کے داخلے میرٹ کے بجائے سفارش پرہوتے ہیں امتحانات میں نقل اورجعلی اسناد اورڈگریوں کابازار سجا ہے جہاں ہرمضمون پرپی ایچ ڈی کی ڈگری بھی دستیاب ہے۔آزاد کشمیر کے ایک وزیر کوشائد اپنے تعلیمی بورڈ پراعتماد نہ تھا کہ موصوف نے کراچی بوڑد سے میٹرک کا امتحان پاس کیا جس میں سندھی زبان میں بھی فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔موصوف کی قابلیت کا یہ حال ہے کہ سندھی زبان میں اردو بھی نہیں بول سکتے مگرسندھی ادب کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں ۔آزادکشمیر کے موجودہ وزیر تعلیم نے وزارت کا حلف اٹھاتے ہی اپنی مخالف برادریوں کے اُستادوں کودوردراز علاقوں میں تبدیل کردیا تاکہ یہ لوگ دور دراز پہاڑی علاقوں میں جانے سے قاصر رہیں اوراُنھیں نوکری سے برخاست کیا جا سکے۔

جس ملک میں اُستاد کی توہین اورعلم کی تحقیر ہووہاں ترقی اورخوشحالی کاتصور ہی محال ہے۔جس طرح علم کی روشنی پھیلانے کیلئے تعلیمی اداروں اورمعیاری تعلیمی نظام کی ضرورت ہے اِسی طرح طالب علم کی اخلاقی تربیت بھی ضروری ہے۔ علامہ مشرقی نے ملکہ برطانیہ سے ملاقات پرسوال کیا کہ ہرروز کئی اعلیٰ شخصیات آپ سے ملنے آتی ہیں کیا آپ بھی کسی کو ملنے جاتی ہیں ملکہ نے کہا کہ ہاں میں اپنے اُستادوں سے ملنے اُن کے گھروں پر جاتی ہوں جو مجھ پر فرض ہے۔ہمارے ہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی فقدان ہے۔ یہاں بوڑھے اُستادوں کی ٹانگیں توڑدی جاتی ہیں وہ پینشین کیلئے دفتروں کے دھکے کھاتے ہیں اورجوسروس میں ہیں وہ سیاستدانوں اورسکول مالکان کے ذاتی ملازم تصور کئے جاتے ہیں۔برنارڈشا کہتا ہے کہ تعلیم کیلئے سکول،کالج اوریونیورسٹیاں قائم کرنا جس قدر ضروری ہے اسی قدر والدین اوراستادوں کاتربیت یافتہ ہونا بھی ضروری ہے۔ تربیت کے بغیر تعلیم ایسے ہی ہے جیسے ذائقے کے بغیر خوشنما پھل۔ اس لیے آنے والے انتخابات میں اپنے نمائندے چنتے وقت اپنی آنے والی نسل کی تعلیمی ضروریات کو بھی مد نظر رکھیں نہ کہ ذاتی اور وقتی مفادات کی خاطر اپنے ظمیر کو بیچ دیں۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100669 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.