برما حالات کے تناظر میں ایک
جواب طلب تحریر
کہہ دو یہ مومنوں سے کہی اور جا بسیں
الٰہی یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں؟؟
براعظم ایشیا کا سب سے غریب ملک ”برما“ جسے” میانمار“ بھی کہا جاتاہے۔اس کی
سرحدیں بھارت،بنگلہ دیش،چین،لاﺅس اور تھائی لینڈ سے ملتی ہیں۔سواچھ کروڑ
نفوس پرمشتمل یہ دنیا کا واحد بدھ مت اکثریت کا ملک ہے۔جس کی کل آبادی کا
85فی صد بدھ مت کے پیروکار اور 5 فی صد سے کچھ زائد مسلمان بنگلہ دیشی سرحد
کے ساتھ آباد ہے1911ءکی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد178647تھی۔یہ
مسلمان اسلام کے آغاز میںخلافت راشدہ کے دورمیںہی یہاںآباد ہوگئے تھے۔برمی
مسلمانوں کے متعلق یہاں تک کہاں جاتا ہے کہ یہاں اسلام کی روشنی لانے والوں
میں دیگر مسلم اکابرین کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرزند حضرت محمد
رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
٭ الٰہی یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں؟؟
برما کے وزیر اعظم تھائی مین نے جب یہ کہا کہ” یہ روہنگیا مسلمان ہمارے
باشندے نہیں ہے بلکہ غیر ملکی ہیں ان پر ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور
اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ کوئی دوسرا ملک انہیں قبول کرلے یا اقوام
متحدہ ان کی دیکھ بھال کرے“۔اس بات پر تاریخ شناش افراد کو بے حد تعجب
ہواکیوں کہ برمی مسلمانوں کے مطابق ہجری 80میں ان کے جد امجد ”محمد ابن
الحنفیہ“نے اس علاقہ میں قدم رنجہ فرمایاتھا جن کا تعلق خانواد علی سے
تھا۔محمد ابن الحنفیہ کی مزار اب بھی ”مونگڈاوپہاڑی“کی چوٹی پر موجود ہے۔اس
کے بعد مسلمان ”ائیر وادی ندی“کی ترائی میں نویں صدی میں آن بسے جبکہ
برماکی مشہور سلطنت ”بگان“کا قیام 1055ءیعنی گیارہویں صدی میں ہوا۔گویا نام
نہاد قوم پرست برمیوں سے قبل مسلمانوں نے اس سر زمین کو آباد کیاتھا ۔(واللہ
اعلم)اس کے باوجود ان سے کہا جا رہا ہے
کہہ دو یہ مومنوں سے کہی اور جا بسیں
برما انہیں اپنا شہری نہیں بلکہ بنگلہ دیش کی بنگالی نسل کہتا ہے اور انہیں
بنگلہ دیش کی طرف مار بھگاتا ہے اور دوسری طرف بنگلہ دیش بھی انہیں تسلیم
نہیں کرتا۔اس طرح یہ مسلمان چکّی کے دوپاٹوں میں پِس رہے ہیں۔
٭ دنیا کی سب سے مظلوم اقلیت:
اقلیت کو ہر ملک میںدبایا جاتا ہے چاہے پھر وہاں جمہوری حکومت ہو یا
فوجی۔جمہوریت میں اقلیت پر اکثریت کے فیصلے تھوپے جاتے ہیں اور فوجی حکومت
میں اقلیت کو جینے کا حق شاید ہی دیاجاتا ہو۔برما میںمسلمان اقلیت میںہے
اور اس اقلیت پر کیاکچھ ظلم ہورہا ہے اس کی تفصیل سے ہر ہوش مند باخبر
ہے۔برمی مسلمانوں پر کیاکچھ پابندیاں ہیں اس کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہے ۔
برمی مسلمانوں کو فون استعمال کرنے پر پابندی ہے۔برما میں مسلمانوں کے لیے
لفظ”شہری“استعمال کرنا کسی مزاح سے کم نہیں ہے۔صرف اتنا ہی نہیں برمی
مسلمانوںکے لیے برما حکومت نے ”وائٹ کارڈ “جاری کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے
جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں مسلمانوں کی حیثیت مہمان شہری کی ہوگی ۔ یہاں تک
کہ شادی جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے جس کی اجازت دنیا کا ہر مذہب دیتا ہے
اس کے لیے بھی برمی مسلمانوں کو شادی کرنے سے پہلے حکومت سے اجازت لیناہوتی
ہے۔بغیر اجازت کے کوئی بھی مسلمان شادی نہیں کرسکتا۔برما میں کسی مسلمان کو
پختہ عمارت بنانے کی اجازت نہیں ہے۔سارے مسلمان گھاس پھونس کے جھونپڑوں میں
رہتے ہیں۔یہاں کے مسلمان اس قدر مجبور ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے
باوجودانہیں زمین، جائیداد ، گاڑی یا کسی بھی چیز کی ملکیت کی اجازت نہیں
ہے۔صورت حال ایسی ہے کہ یہاں کے مسلمان کوئی ایسی چیز بھی نہیں خرید سکتے
جسے کھا کروہ فربہ یا طاقتور بن سکے۔یہاں کے مسلمانوں کے لیے نہ کوئی اسکول
ہے نہ کوئی اسپتال،نہ کوئی سہولت ہے اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی امداد۔
٭ برمی مسلمانوں کی شناخت:
یہ دنیا کی وہ واحد قوم ہے جس کے پاس اپنی شناخت کے کوئی کاغذات نہیں ہے
اور نہ ہی کوئی دستاویزات۔ان برمی 10سے 15لاکھ مسلمانوں کے پاس برماسمیت
دنیا کے کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے۔یہ نہ کوئی حکومتی ملازمت کر سکتے
ہیں اور نہ ہی پرائیویٹ۔ان کے بچے نہ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی کسی
دوسرے ملک کا سفر کر سکتے ہیں۔ان کو کوئی قتل کردے،ان کے گھر جلا دے یا ان
کی عزت پامال کردے ،ان کی کوئی رپورٹ درج نہیں ہوسکتی۔اسی لیے تو برما کے
طاقتور اور ظالم بودھ جب چاہیں انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کررکھ دیتے
ہیں۔برمی مسلمانوں کے خون کی ہولی کا یہ ننگا ناچ آج کل کانہیں ہے بلکہ اس
رقص ابلیس کو ایک صدی سے بھی زیادہ کا عرصہ ہورہا ہے۔
٭ بدھ مت کاروحانی پیشوا جہنم میں بھی بے چین:
بدھ مت کا روحانی پیشوا گوتم بدھ اپنے پیروکاروں کی طرف سے انسانیت کو شرما
دینے والے جرائم کے ارتکاب کے بعدشایدجہنم میں اپنا چہرہ چھپائے رورہا ہوگا
کہ اس نے امن ومحبت کا جو پیغام دیاتھا اس کے پیروکاروں نے اس کی دھجیاں
اڑادی اورامن وشانتی کے پیغام کو بلڈوزر تلے روند کر رکھ دیا۔مگر ذہن نشین
رہے مظلوموں کے خون سے ہاتھ رنگنے والی قومیں کبھی پنپ نہیں پاتی،مولیٰ
تعالیٰ کفر کی حکومت کو مہلت دے دیتا ہے مگر ظلم کی حکومت کو نہیں۔برما کی
تباہی بھی یقینی ہے مگر کب اور کس طرح؟اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا
سکتامگر تباہی ہونا توصد فی صد ہے اور یہ فیصلہ ہمارا نہیں ہے بلکہ یہ
تاریخ کا ہے کہ مظلوموں اور بے گناہوں کا خون بہانے والی قومیں ایک دن صفحہ
ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔
٭ امت مسلمہ کی ذمہ داری:
امت مسلمہ کو برما حکومت کی اس ناپاک جسارت پر کھل کر سامنے آنا ہوگا۔تاریخ
گواہ ہے کہ راجہ داہر کے ظلم وستم کے خلاف اسلام کی ایک بیٹی کی پکار پر
حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کی سربراہی میں ایک فوجی دستے کو سندھ روانہ
کیا تھاتاکہ اسلام کی اس بیٹی کو بت پرستوں اور ظالموں سے رہا کروایا
جائے۔ایک بیٹی کی پکار سننے والی امت مسلمہ آج ہزاروں لوگوں کی موت کی
چیخیں سننے سے بہری کیوں ہوگئی ہے؟یورپی اتحاد نے توقوم مسلم کو خاک وخون
میں نہلا دیالیکن ان کے مقابل مسلمانوں کے تحفظ کے لیے عرب اتحاد سامنے
کیوںنہیں آیا؟اس لیے کہ عربوں میںغیرت دین،ناموس رسالت پر مر مٹنے کا جذبہ
،اسلام کا پاس اور انسانیت کا لحاظ ختم ہوگیا ہے۔انھیں اپنے حرم اور عیش
کدے عزیز ہے۔مکہ کی جدید تعمیر نہ ہی فرض ہے اور نہ ہی واجب ۔برج شاہی قائم
کرنا نہ قرآن کا فرمان اور نہ ہی فرمان رسول ۔گویا تم دعا ﺅں کے لیے
عمارتیں تو بنارہے ہو مگرکیاتمھارے پاس قوم مسلم کی عزت و احترام کی حفاظت
کاکوئی منصوبہ بھی ہے؟کیاتمھارے پاس قوم مسلم کی شناخت کو برقرار رکھنے اور
دنیا بھر میںوقار کے ساتھ سر اٹھا کر چلنے کے لیے بھی کوئی لائحہ عمل ہے؟با
الفاظ دیگر یہ کہہ لیجئے
تم نے تلواریں بیچ دیں دعاﺅں کے عوض
عصمتیں لٹتی رہیں اورتم دعا کرتے رہیں
خیر اس ملک سے ہمیں کوئی گلا شکوہ بھی نہیں ہے۔بھلا وہ عرب بادشاہ
اورشہزادے جو رسول اکرمﷺ کی بے حرمتی پر دامن نسواں میں منہ چھپائے خاموش
بیٹھے تھے وہ امت رسول کے درد پر کیاآواز بلند کریں گے؟ایسا لگتا ہے اب
مسلمانوںکو اپنی عالمی طاقت بنا کر انسانی حقوق کی بحالی کے لیے خود ہی
سامنے آنا ہوگالیکن اس کے لیے مسلم ممالک کو اپنے آپسی اختلافات کو
بھلاناہوگا اورمحبت رسول ﷺپرمتحد ہوکر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے
ناقابل تسخیر قوت بن کرابھرنا ہوگاتاکہ پھر دنیا کے کسی حصے میںبرما جیسا
سانحہ پیش نہ آئےکیا ایسا ہوسکے گا؟؟یہ سوال اب بھی جواب کا منتظر ہے۔ |