اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ عورت
اور مرد کے ملاپ سے انسانی نسل پڑھتی ہے اور ان دونوں کے تعلق سے خاندان کی
بنیاد پڑتی ہے ۔پھر مختلف قسم کے رشتے ناطے ،کنبے ،قبیلے اور برادریاں وجود
میں آتی ہیں ۔پھر ان کنبوں ،قبیلوں اور برادریوں کے آپس کے تعلق ،مل جل کر
رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مدد کرنے اور تعاون کی زندگی گذارنے سے انسانی
معاشرہ بنتا ہے ۔
قرآن مجید میں بنظر غائر مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے
کہ زندگی کے نشیب و فراز میں ہمیشہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے مددگار اور
معاون رہے ہیں۔زندگی کے بار گراں کو دونوں نے سنبھالا ہے ۔معاشرے کا
ارتقاءدونوں کے اتحاد سے عمل میں آیا ہے ۔دنیا کی کوئی قوم اور کوئی تحریک
ان میں سے کسی بھی طبقہ کو نظر انداز نہیں کر سکتی ۔ حق اور باطل دونوں کے
فروغ ، غلبہ اور اقتدار میں مرد اور عورت دونوں شانہ بشانہ مصروف عمل نظر
آتے ہیں ۔قرآن مجید اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے ۔:”منافق مرد اور منافق
عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں ۔برائی کا حکم دیتے ہیں او ر بھلائی سے روکتے
ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ روکے رکھتے ہیں۔“
واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں
فراموش کر دیا ،بلا شبہ منافق بڑے ہی نافرمان ہیں۔ترجمہ”ایمان والے مرد اور
ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے معاون ہیں ۔وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور
برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں اور
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں ۔ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ
ضرور رحم کرے گا۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے ۔“
اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد کہ معاشرے میں تہذیب و تمدن کے انقلابات
عورت اور مرد کی کوششوں کا نتیجہ ہیں ،عقل و انصاف کی کوئی دلیل ایسی نہیں
ہے جو ایک کو وقار و احترام کے قابل اور دوسرے کو ذلت و حقارت کا مستحق
ثابت کرے ۔کیونکہ زمانہ کی اصلاح و بگاڑ میں دونوں کا ہاتھ کار فرما ہے۔ اس
لئے ایک کوکارگاہ تمدن و معاشرت سے خارج اور دوسرے کو اس کا علمبردار نہیں
کہا جاسکتا ۔ دنیا کا کوئی شخص اپنے جسم کے ایک حصہ کو بے کار اور مفلوج
کرنے کے بعد زندگی کے میدان میں سبقت نہیں لے جا سکتا۔
اسلام کا پیغام چونکہ”الناس“ کے لئے ہے او رخدا کی اطاعت و فرمانبرداری کا
عہد صرف مردوں یا عورتوں نے نہیں بلکہ ”الادیان“ نے اٹھایا تھا۔ اس لئے
اسلام ہی صرف اور صرف وہ دین ہے جس نے عورت کو معاشرے میں مرد کی طرح کے
حقوق و مراعات سے مساویانہ طور پر نوازا ہے ۔یہ مساویانہ حقوق ہی معاشرے کو
فلاح یا فتہ بنا سکتے ہیں ،کیونکہ تعاون کی فضا تو وہاں پیدا ہوتی ہے ۔جہاں
ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کیا جائے ،جہاں ایک دوسرے کی خواہشات اور آرزوﺅں
کو احترام کی نظر سے دیکھا جائے اور جہاں بحیثیت انسان ایک دوسرے کے جذبات
و احساسات کو محسوس کیا جائے ۔
بحیثیت مسلمان جب ہم مذکورہ عنوان پر بات کرتے ہیں تو یہ بات ہمیں ماننی
پڑتی ہے کہ دین اسلام نے ان تمام تعلیمات سے اپنے ماننے والوں کو نہ صرف
آگاہ کیا ہے بلکہ داعی اسلام ،تاجدار مدینہ ﷺ نے فلاح معاشرہ کی عملاً داغ
بیل ڈالی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور صحابیات
رضی اللہ عنھن نے آپ ﷺ کی رہنمائی میں بھر پور طریقہ سے ایک دوسرے کے ساتھ
تعاون کیا اور فلاح یافتہ معاشرہ معرض وجود میں آیا۔ اس ضمن میں محسن
انسانیت ﷺ نے دنیا کی نصف آبادی (صنف نازک) کی حمایت میں جوہدایات دی ہیں ،آج
تک کوئی بھی ”مدعی حقوق نسواں“ ان سے زیادہ صحیح اور حقیقی تعلیمات نہیں
پیش کر سکا۔
عورت کی قانونی حقوق میں مساوات:اسلامی فلاحی معاشرہ میں عورت و مرد دونوں
کے حقوق کا قانونی طور پر تعین کر دیا گیا ہے اور اس کمال اعتدال اور شان
توازن کے ساتھ کہ نہ عورت کو اپنی کمزوری ،مظلومی اور بے بسی کی شکایت ہو
سکتی ہے اور نہ مرد اپنی زور آوری اور چیرہ دستی کا زرہ برابر بھی اظہار کر
سکتا ہے ۔
چنانچہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے ۔”اے عقل والو تمہارے قانون قصاص میں زندگی
ہے ۔“
شریعت اسلامیہ کا یہ ایک کلی اصول ہے کہ قاتل سے قصاص میں اس کی جان لے لی
جائے گی ،خواہ وہ کسی مرد کا قتل کرے یا کسی عورت کا ،کیونکہ ایک عورت کی
جان بھی ویسے ہی محترم و معزز ہے ۔جیسے ایک مرد کی جان اور جو ہاتھ مرد کا
ہو یا عورت کا ان دونوں میں سے کسی کے بھی خون سے رنگین ہو گویا خود اس نے
اپنے خون کی قیمت کھو دی ۔
قصاص کے معاملہ میں عورت و مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں:اہل یمن کے لئے نبی
کریم ﷺ نے جو مجموعہ قوانین تحریر کروایا تھا اس میں اس بات کی تصریح
تھی۔”بلا شبہ عورت کے عوض مرد قتل کیا جائے گا۔“
بخاری ،مسلم ،ترمذی ، ابو داﺅد اور نسائی یعنی کتب احادیث کی روایت ہے کہ
ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کا سر کچل کر ہلاک کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے
یہودی سے اسی شکل میں قصاص لیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہاں تک ثابت ہے کہ آپ نے ایک عورت کے قصاص میں
کئی اشخاص کو قتل کیا جو اس کے خون میں شریک تھے ۔ بعض علماءنے لکھا ہے کہ
”ہمارے وہ فقہاءجن سے ہماری ملاقات ہے اور جن کے اقوال فقہ میں مرجع کی
حیثیت رکھتے ہیں ان میں سعید بن مسیب ،عروہ بن زبیر ،قاسم بن محمد، ابو بکر
بن عبد الرحمن ، خارجہ بن زید، عبید اللہ بن عبد اللہ ،سلیمان بن یسار اور
ان کے علاوہ ان ہی کے ہم پایہ دیگر اصحاب فقہ و فضل شامل ہیں ۔کہتے ہیں کہ
(قصاص کے معاملہ میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں) عورت کی آنکھیں
،کان، اور دوسرے کسی بھی زخم کے عوض مرد سے (اگر مرد مجرم ہے ) اسی نوعیت
کا بدلہ لیا جائے گا اور اگر مرد ،عورت کو قتل کر دے تو اس کو بھی قتل کیا
جائے گا۔“
عورت قاتل کو معاف کر سکتی ہے :عورت اگر اپنے کسی عزیز کے قاتل کو معاف
کردے تو کسی رشتہ دار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کے عطا کردہ پروانہ معافی
کو منسوخ کر دے ۔اس لئے کہ محسنِ انسانیتﷺ کا فرمان ہے کہ :”اگر اولیا
مقتول ،قاتل سے دیت لینے اور جان لینے کے بارے میں اختلاف کرنے لگیں اور
کوئی قریبی رشتہ دار قاتل کی جان کو معافی عطا کر دے تو دوسرے تمام رشتہ
داروں کو جان لینے سے رک جانا چاہئے ۔معافی دہندہ خواہ عورت ہی کیوں نہ ہو۔“
(الف) عورت دشمن کو پناہ دے سکتی ہے :اگر کوئی مسلمان عورت جنگ میں کسی
دشمن کو پناہ دے تو اس کو روکا نہیں جا سکتا ۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ۔ان
المراة لتا خذ للقوم ۔”بلا شبہ مسلمانوں کے فائدہ کے لئے عورت دشمن قوم کو
پناہ دے سکتی ہے۔“
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورت محاربین اہل ایمان کو
پناہ دے سکتی ہے ۔ مشہور واقعہ ہے کہ فتح مکہ کے وقت حضرت ام ہانی نے نبی
اکرم ﷺ سے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں نے ابن پیرہ کو پناہ دی ہے ۔لیکن (حضرت )
علی کہتے ہیں کہ وہ اس کو قتل کر کے رہیں گے ۔آپ نے فرمایا۔”ام ہانی تم نے
جسے پناہ دی ،اسے ہماری بھی پناہ ہے ۔“
(ب) حضرت زینب بنت محمد ﷺ کا غیر مسلم یعنی اپنے شوہر ابو العاص کو پناہ
دینا ۔
ابو العا ص کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا (اپنی بیوی ) سے بہت محبت تھی ۔جب
وہ مدینہ تشریف لائے اورایک قافلہ تجارت کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے جب
وہاں سے واپس ہونے لگے تو حضور اکرم ﷺ کو خبر پہنچی ۔ حضور اکرم ﷺ نے زید
بن حارثہ کو ایک سو ستر سواروں کے ساتھ ان کے تعاقب کےلئے روانہ کیا
،چنانچہ دونوں قافلے مقام”عیض“ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئے مسلمانوں
نے مشرکیں کو گرفتار کر لیا اور جو مال ان کے پاس تھا ،اس پر قبضہ کر لیا ۔
لیکن ابو العاص نے کسی قسم کی مزاحمت نہ کی ۔ابو العاص نے جب قافلہ کا یہ
حشر دیکھا تو فوراً مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے اور وہاں پہنچ کر حضرت زینب
سے پناہ طلب کی تو حضرت زینب نے ان کو اپنی پناہ میں لے لیا ۔رحمة
اللعالمین ﷺ نماز میں مشغول تھے تو حضرت زینب نے با آواز بلند کہا ۔ترجمہ
:”میں نے ابو العاص کو اپنی پناہ میں لیا۔‘
جب حضور اکرم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ”اے لوگو! تم نے کچھ سنا“ سب
نے عرض کیا ”جی ہاں سنا“
اسلامی معاشرے میں عورت کی آزادی رائے :انسانی تمدن کی عمارت کو عورت اور
مرد نے مل کر بنایا ہے اور دونوں کے تعاون عمل کا نتیجہ ہے جو ہم آج تہذیب
و تمدن کے ارتقاءکی شکل دیکھ رہے ہیں ۔ا س کے بگاڑنے اور سنوارنے میں دنوں
کا ہاتھ اور عمل دخل ہے اور دونوں آزادانہ طور پر اس عمارت کو بناتے ہیں
اور یہ اس لئے کہ اسلام کا ایک بنیادی نظریہ یہ ہے کہ خدا نے انسان کو آزاد
پیدا کیا لیکن اس نے یا تو خود ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہن لیں یا ظالمانہ
روایات اور جابر انسانوں نے اپنے ہم چشموں کو پابہ زنجیر کر دیا ۔تاکہ کسی
انقلاب سے انسان کا قدم غلامی سے آزادی کی طرف نہ بڑھے ۔
حضور اکرم ﷺ کے اعلان نبوت کے وقت تمام دنیا کے انسان گوناگوں غلامیوں میں
جکڑے ہوئے تھے ۔کہیں تو ظالم و جابر حکمرانوں نے رعایا کو غلام بنا رکھا
تھا تو کہیں مذہبی پیشواﺅں احبار و رہبان نے لوگوں کے دل و دماغ کو توہمات
ووسوسوں میں جکڑرکھا تھا اور اس طرح سے مردوں نے عورتوں کو بھی محکوم بنا
رکھا تھا ۔چنانچہ سب سے پہلے انسانوں کے آزاد کرنے والے نبی کریم ﷺ نے
فرمایا مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں
۔آپ ﷺ نے نکاح کو ایک آزادانہ معاہدہ قرار دیا ،جو ہر قسم کی جائز شرط پر
مشتمل ہے ۔
(الف ) نکاح سے قبل عورتوں کی رضا مندی:اسلام نے نکاح کو ہر عمرکے مردو
عورت کے لئے باعث خیر و برکت قرار دیا ہے ۔نکاح اصل زندگی کا نقطہ آغاز ہے
۔یہ وہ عنوان ہے جس کے بغیر اولاد آدم علیہ السلام کی روحانی تسکین کی
داستان پریشان ہو کر رہ جاتی ہے ،لیکن ازدواجی زندگی کی خوشگواری کا دار و
مدار اس امر پر بھی ہے کہ فریقین کی مرضی اور پسند کا پورا پورا خیال رکھا
جائے اور کوئی دوسرا ان کے اس حق میں مداخلت نہ کرے۔
اسلام نے جہاں عورتوں پر اور احسانات کئے ہیں وہاں پر مردوں کے ساتھ ساتھ
انہیں بھی ہر قسم کے حقوق سے نوازا ہے جبکہ نکاح کے معاملہ میں بھی انہیں
پوری آزادی دی ہے ۔اسلامی احکام کی روسے انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے
جیون ساتھی کے لئے نکاح سے قبل اپنی پسند اور نا پسند کا بر ملا اظہار کر
سکیں ۔ والدین اور دوسرے اقرباءاس شعبہ زندگی میں اپنے تجربات کی روشنی میں
متعدد مشورے دے سکتے ہیں اور ان کو مشورہ دینا بھی چاہئےے مگر دباﺅ اور جبر
نہیں ڈال سکتے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کی روشن تعلیمات سمجھنے کی توفیق دے۔آمین |